بچوں کا ماہنامہ ھلال : ایک تعارف

معتصم سعد خان

شمارہ کے آنے کا انتظار، لفافہ پر خود کا نام دیکھنے کی خوشی، ڈاکیے کا ہمیں دیکھ کر مسکرانا پھر اسے تاخیر کی شکایت کرنا، اس پر ستم یہ کہ ایک ہی دن میں سارے شمارہ کو چٹ کر جانا،…

“ہاں۔۔۔ معلوم ہوا مجھے بھی، اگر یہ کہا جائے کہ میرا پڑھنے کا مزاج ھلال نے ہی پروان چڑھایا ہے تو غلط بیانی نہ ہوگی۔”

“واقعی! ھلال ہمارا بہترین دوست رہا ہے۔”

“میرا تو بچپن ہی اس کے ساتھ گزر گیا۔”

بچوں کے پسندیدہ شماروں میں سے ایک،  ‘ماہنامہ ھلال’ کے دوبارہ شروع ہونے پر حلقہ احباب میں، تاثرات یوں رہے۔ جی ہاں، ھلال دوبارہ شروع ہو چکا ہے!۔ ابو سلیم محمد عبدالحئی کے ذریعے کئی سال پہلے کی جانے والی کاوش کا ثمرہ بہت سے بچوں نے ھلال کی شکل میں پایا اور یہ شمارہ پہلی دفعہ مئی 1973 میں منظر عام پر آیا تھا۔ بچپن میں پڑھنے  کے لئے دئے جانے والے رسالے بچوں کی شخصیت اور ذہنیت پر کتنے اثر انداز ہوتے ہیں،  اس بات سے اس کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ وہ نوجوان اب بھی ان رسالوں کو یاد رکھے ہوئے ہیں اور گویا ان رسالوں سے نوجوانوں کی قلبی وابستگی ہے۔ بہت سے نوجوانوں میں پڑھنے کا مزاج اور علمی و فکری رجحان بچپن کے رسالوں ہی کی وجہ سے ہے۔ بچوں کے رسالے وہ خاموش دوا ہوتے ہیں جو ان میں آہستہ آہستہ تعمیری ذہن پروان چڑھاتے ہیں۔ ماہنامہ ھلال کی جوائنٹ ایڈیٹر سنبلہ کوکب لکھتی ہیں “ہمارے ھلال کے ساتھ معاملہ یہ ہوا کہ اسے پڑھنے والے،  چاہنے والے، بچوں سے زیادہ بڑے لوگ ہیں۔ سادہ مزاج سلجھے ہوئے۔ ہندوستان و بیرون ملک اعلی عہدوں پر فائز قابل ترین لوگ۔۔۔ یہ وہی بڑے ہیں جنھوں نے اسے بچپن میں پڑھا ہے، اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے بچوں کے رسالہ کے قارئین میں ڈاکٹرس، مصنفین، پروفیسرز، جرنلسٹس، ماہرین تعلیم شامل ہیں اور بہت پیارے پیارے بچے بھی جو مستقبل کے ماہرین فن ہونگے۔ ان شااللہ”۔

شمارہ کے آنے کا انتظار، لفافہ پر خود کا نام دیکھنے کی خوشی، ڈاکیے کا ہمیں دیکھ کر مسکرانا پھر اس سے تاخیر کی شکایت کرنا، اس پر ستم یہ کہ ایک ہی دن میں سارے شمارہ کو چٹ کر جانا، یہ یادیں بہت قیمتی ہوتی ہیں اور یہی دلکشا احساسات ہمارے بچپن کی تعمیر کرتے ہیں۔ بہت افسوس کے ساتھ کہ میں نے بھی کئی دفعہ بہت سے رسالوں کو خطوط بھیجیے ہیں تاکہ وہ اسے شائع کریں۔ ہائے۔۔۔ کتنی محنت سے لکھے گئے تھے وہ، لیکن کیا مجال کہ رسالے والوں نے اسے پڑھا بھی ہو! خیر۔۔۔ ہمارے بڑوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ بچوں کو ان لمحات کو محسوس کرنے کا بھر پور طریقے سے موقع دیں۔

اس کے علاوہ اپنے بچوں کو ہمیں اپنی مادری زبان سے محبت سکھانا اور اس کی شیرینی سے روشناس کرانا بھی اس وقت بہت اہم ہے۔ بقول جوائنٹ ایڈیٹر صاحبہ “ھلال صرف ایک رسالہ نہیں ہے، ایک تہذیب ہے جو ہمیں اپنے بچوں میں منتقل کرنا ہے، ایک تربیت ہے جو ننھے اذہان کو براہِ راست اخلاقیات سے جوڑتی ہے” ۔جہاں دیگر رسالے بچوں کو سیکولر اور آزاد رنگ دینا چاہتے ہیں وہیں ھلال کا یہ خاصہ رہا ہے کہ  اس نے اسلامی اقدار، اخلاقی مواد اور ہمارے تاریخی واقعات کے ذریعے نونہالوں کی تربیت کی ہے۔

کسی بھی شمارہ کی ترقی میں یہ پہلو بھی کارفرما ہوتا ہے کہ اس کا تعاون کیا جائے اور خریداروں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اس کے خریدار بنیں یا کسی  پیارے کو  یہ پیارا سا تحفہ دیں۔ ہاں یہ بھی ہے کہ شمارہ میں مزید بہتری لائی جا سکتی ہے، مواد، آرٹ اور دیگر حوالوں سے۔ لیکن مجموعی طور پر شمارہ بہتر ہے۔ امید ہے اگلی دفعہ سرورق سادہ لیکن دلچسپ ہوگا۔ کہانیوں کو بہت زیادہ طویل نہ رکھتے ہوئے شمارہ میں مختصر کہانیوں کو جگہ دی گئی ہے۔ کہانیوں کے ساتھ ساتھ دلچسپ معلومات کو بھی جمع کیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوا ہے کہ شمارہ میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو انگیج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ امید ہے اسے پڑھنے والی نسل، علمی و فکری لحاظ سے امامت  کے لئے تیار ہوگی۔ ان کی روح عقابی اور نگاہ  شاہین  ہوگی جو آسمانِ علم و تمدن پر ہلال امید بنیں گے۔

(ماہنامہ ھلال کے خریدار بننے کے لئے اس نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے: 9997344420)

از: معتصم سعد خان

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں