گہرا نصابی شعور یا محض خانہ پری

0

ڈاکٹر محی الدین غازی
درس نظامی کے قدیم اور ازکار رفتہ ہوجانے کا بہت سارے لوگوں کا دعوی ہے، اور اس میں بڑی حد تک صحت وصداقت بھی ہے۔ لیکن درس نظامی کا جدید متبادل دینے کے سلسلے میں جو بھی کوششیں ہوئی ہیں وہ اس قدر سطحی اور غیر سنجیدہ رہی ہیں، کہ اب تک کوئی نصاب درس نظامی سے بہتر نتائج پیش کرنے کا دعوی نہیں کرسکا۔ (بہتر ہونے کے دعوے اور بہتر نتائج پیش کرنے کے دعوے میں بڑا فرق ہے، پہلا زور خطابت سے ثابت ہوسکتا ہے، مگر دوسرا شواہد مانگتا ہے)
نصاب بنانے کی کوششوں کو دور سے دیکھ کر راقم جو اندازہ لگاسکا ہے وہ یہ کہ پہلے یہ طے کیا جاتا ہے کہ تعلیم کا دورانیہ مجموعی طور پر کتنے سالوں کا ہوگا، اور اسے کتنے مرحلوں میں اور گھنٹیوں میں تقسیم کرنا ہے، پھر یہ طے کیا جاتا ہے کہ قدیم علوم کے ساتھ جدید علوم کا امتزاج کس قدر کرنا ہے، اور یہ طے کرنے کے بعد جس قدر خانے وجود میں آتے ہیں ان کو بھرنے کا سلسلہ شروع ہوجا تا ہے۔ سارے خانے پر ہوجاتے ہیں، اور نصاب تعلیم وجود میں آجاتا ہے۔
خانہ پری کی اس ریاضت کے دوران یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی ہے کہ جن کتابوں کے نام خالی خانوں میں لکھے جارہے ہیں وہ کتابیں آیا کسی مدرسہ میں پڑھانے کی غرض سے لکھی گئی تھیں یا کسی گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر پڑھنے اور غور وفکر کرنے کے لئے لکھی گئی تھیں۔
اگر مولانا صدرالدین اصلاحی کو معلوم ہوتا کہ ان کی کتاب\” اسلام ایک نظر میں\” کسی مدرسہ میں باقاعدہ دینیات کی گھنٹی میں پڑھائی جائے گی تو وہ یقیناًاس طرح نہیں لکھتے جس طرح انہوں نے لکھا۔اور اگر شاہ ولی اللہ کو مدرسہ میں پڑھانے کے لئے اسرار شریعت پر کتاب لکھنا ہوتی تو وہ حجۃ اللہ البالغۃ کی جگہ کچھ اور تصنیف فرماتے۔
واقعہ یہ ہے کہ مدارس کے قدیم وجدید نصاب میں بہت ساری کتابیں وہ ہیں جو نصابی خصوصیات سے بالکل خالی ہیں، اور ایک صدی یا نصف صدی گزر جانے کے باوجود ان کا بدل نہ تیار کیا گیا اور نہ تلاش کیا گیا۔نصابی شعور کا تقاضا یہ تو نہیں تھا۔
خانہ پری کی اس ریاضت میں یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ جو کتابیں پڑھائی جارہی ہیں انہیں طلبہ کے حال اور مستقبل سے کوئی مناسبت بھی ہے یا نہیں ہے۔
خانہ پری کی اس ریاضت میں یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ عربی زبان سکھانے کی کوشش کرتے ہوئے جو ذخیرہ الفاظ فراہم کرائے جارہے ہیں وہ معاصر کتابوں میں استعمال ہوتے ہیں یا قدیم کتابوں کی زینت بن کر رہ گئے ہیں۔ جاہلی اموی اور عباسی دور کے اشعار اور خطبے اس کی واضح مثال ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ زندہ اور مستعمل الفاظ کے بجائے مدارس کے طلبہ کا سابقہ زیادہ تر سوئے ہوئے الفاظ سے پڑتا ہے، اور جب وہ مدرسہ سے فارغ ہوتے ہیں تو پھر وہ الفاظ انہیں کہیں نظر نہیں آتے، اور ان کی جگہ جو الفاظ سامنے آتے ہیں وہ ان کے لئے اجنبی ہوتے ہیں۔ نصابی شعور کا تقاضا یہ ہے کہ مدرسہ کی زندگی میں زندہ اور مستعمل الفاظ سے گہری شناسائی پیدا کی جائے، جس کے بعد باقی الفاظ سے تعارف حسب ضرورت لغت کی کتابوں کے ذریعہ ہوتا رہے۔
خانہ پری کی اس ریاضت کے دوران اس کا خیال بھی نہیں کیا جاتا کہ کسی مضمون کی تعلیم کے لئے کس کتاب کے بعد کون سی کتاب کا نمبر آتا ہے۔ عربی ادب کے نام پر جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ان میں یہ بے خیالی صاف دیکھی جاسکتی ہے۔
مدارس کے جدید نصابوں پر بھی طہارت اور نماز کے احکام کا اس قدر غلبہ نظر آتا ہے کہ پہلے کچھ سالوں میں اردو میں وہ احکام یاد کرائے جاتے ہیں ، پھر عربی میں فقہ حنفی کے تحت ان احکام کو یاد کرایا جاتا ہے، اس کے بعد عربی میں فقہ مقارن کے تحت ان مسائل کو سمجھاتے یا یاد کراتے ہیں، پھر بھی تسلی نہیں ہوتی تو حدیث کی مختلف کتابوں کے ذریعہ ان کا اعادہ کرایا جاتا ہے۔اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ فراغت کے بعد ساری زندگی ان کی فقہی بصیرت اور فقیہانہ دلچسپی طہارت اور نماز کے مسائل کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ عبادات کا تعلق فقہی اجتہاد سے بہت کم ہے، یہ تو توقیفی ہوتی ہیں، فقہی اجتہاد کے اصل میدان تو دوسرے ہیں۔
مدارس کے نصاب میں حقیقت پسندی کا فقدان صاف نظر آتا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ فقہ کی جو کتابیں عربی میں جس وقت پڑھائی جارہی ہوتی ہیں، اس وقت طالب علم کی عربی اس لائق ہوتی ہی نہیں ہے کہ وہ ان کتابوں کی عبارت سمجھ سکے، اور نہ اس کی عبارت فہمی کی صلاحیت اس سطح کی کتابوں کی متحمل ہوپاتی ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہی کتابوں کے اردو ترجمے حاصل کئے جاتے ہیں اور ان سے طلبہ امتحان کی تیاری کرتے ہیں۔ اس بے توازنی کا خراب نتیجہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ساری محنت عبارت حل کرنے پر صرف ہوجاتی ہے، اور نفس مضمون سے صحیح واقفیت اور انسیت نہیں ہوپاتی۔
حقیقت پسندی کے فقدان کی ایک اور مثال ایک مشہور مدرسے میں یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ طلبہ سے عالمیت کے آخری سال میں عربی میں مقالہ لکھنے کا مطالبہ ہوتا ہے، اس وقت ان میں بیشتر کے اندر عربی میں خط لکھنے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی ہے، (ہوجانا چاہئے پر بوجوہ نہیں ہوتی ہے) انجام کار وہ کسی کتاب سے کچھ نقل کرکے جمع کردیتے ہیں، اور اس پر ممتحن انہیں نمبر بھی دے دیتا ہے، یہ قطعی غیر مفید اور بالکل نامعقول مشق برس ہا برس سے جاری ہے۔
حقیقت پسندی کے فقدان کی ایک مثال یہ بھی بہت سارے مدارس میں دیکھی جاسکتی ہے کہ جس وقت طلبہ کو قدیم عربی کے خطبات اور قصائد جھوم جھوم کرپڑھائے جارہے ہوتے ہیں، اس وقت بیشتر طلبہ کے اندر سادہ زبان میں لکھی ہوئی کتابوں سے مناسبت پیدا نہیں ہوئی ہوتی ہے۔گویا غالب کے اشعار اس شخص کو پڑھائے جارہے ہوں جو نسیم حجازی اور ابن صفی کے ناول بھی نہیں پڑھ پاتا ہو۔
ایک مشہور مدرسہ میں صورت حال یہ ہے کہ سعودی عرب کے علماء کی خوشنودی کے لئے عقیدہ کے نام پر کچھ مخصوص کتابیں رکھ دی گئیں، یہ سوچے بنا کہ طالب علم کی شخصیت کی تعمیر کے لئے وہ مفید ہیں یا نقصان دہ ہیں، اور ان میں جو کلامی مباحث ہیں وہ زندہ ہیں یا تاریخ کے کسی لاش گھر کی زینت بن چکے ہیں۔
کسی مدرسہ میں کتابیں اور مضامین یہ سوچ کر رکھے جاتے ہیں کہ کسی یونیورسٹی سے الحاق میں مفید ہو جائیں، خود وہ طلبہ کے لئے کس قدر مفید ہیں ، اس سوال کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
بعض مدارس میں انتظامیہ کے بعض افراد کی اس خواہش کو کہ مدرسے کے طلبہ فارغ ہوکر فارابی اور ابن سینا جیسے سائنس داں بنیں، اس طرح پورا کیا جاتا ہے کہ نصاب تعلیم ایک فریاد مجسم بن کر رہ جاتا ہے۔
مختلف مدارس میں نصاب پر نظر ثانی کے لئے کمیٹیاں بھی بنتی رہی ہیں، ان کی کارکردگی کودور سے دیکھنے کا اور تجاویز کو غور سے پڑھنے کا موقعہ ملتا رہا، ان تجاویز میں نہ جنوں نظر آتا ہے اور نہ خرد۔
جنوں کی کارفرمائی ہو تی تو ضرور یہ بے چینی ظاہر ہوتی کہ برسہا برس مدرسہ میں پڑھنے کے باوجود عربی لکھنا پڑھنا اور بولنا کیوں نہیں آتا، کوششوں سے یہ حیرت ضرور عیاں ہوتی ہے کہ آخر نصاب تعلیم میں وہ کون سی خامی پوشیدہ ہے کہ برسہا برس سے دینی علوم سے بے بہرہ علماء وفضلاء فارغ ہورہے ہیں۔ایک دردمند نے موجودہ مدارس کو اینٹ کے بھٹوں سے تشبیہ دی مگر واقعہ یہ ہے کہ اینٹ کے بھٹے میں اگر کبھی ذرا زیادہ اینٹیں خراب نکل آتی ہیں، تو مالک پریشان ہوجاتا ہے اور فوراََ ایسے اقدامات کرتا ہے کہ اگلی بار ایسا نہ ہو۔ مدرسہ اور اینٹ کے بھٹے میں ایک فرق تو بہت واضح ہے کہ لاپرواہی اور غفلت کے نتیجہ میں بھٹہ بیٹھ سکتا ہے، مدرسہ چلتا رہتا ہے۔
خرد سے کام لیا جاتا تو نصاب تعلیم ایک ایسے نقشہ سفر کی مانندبنتا کہ جس میں منزل اور راستے کے درمیان رشتہ بہت واضح ہوتا ہے۔اندھیرے میں اس طرح تیر آزمائی کہ شاید فلاں فلاں کتابیں پڑھنے سے طلبہ عالم وفاضل بن سکیں گے، نصاب تعلیم جیسا اہم کام انجام دینے والوں کو زیب نہیں دیتی۔اور یہ بے حسی کہ برسہا برس سے ناکارہ پرزوں کی مسلسل ڈھلائی ہورہی ہے، مگر نصاب تعلیم میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کے لئے مطلوبہ غور وفکر کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی ہے،ایک بڑا گناہ ہے،اور اب یہ گناہ مسلسل اور گناہ متواتر کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights