اپنی باتیں

0

رفیق منزل کا تازہ خصوصی شمارہ ’مدارس اسلامیہ: مسائل اور امکانات‘ پیش خدمت ہے۔ اِس شمارے میں مدارس اسلامیہ کے قیام کے بنیادی محرک اور ان کے نظام ونصاب سے متعلق چند بہت ہی بنیادی پہلوؤں پر اہل فکرونظر کی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ کوشش ہے کہ اس کے ذریعہ طلبہ مدارس کے ساتھ ساتھ ذمہ داران مدارس کی خدمت میں ایک گائیڈ لائن پیش کی جائے، یا کم از کم ان کے غوروفکر کے لیے کچھ اہم نکات سامنے لائے جائیں۔ اس میں کس حد تک کامیابی حاصل ہوسکی ہے، اس کا فیصلہ قارئین کریں گے۔
مدارس ملت اسلامیہ ہند کا قیمتی اثاثہ، اور اس کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ یقیناًملک میں مدارس اسلامیہ کی ایک روشن تاریخ رہی ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ اِن مدارس نے وطن عزیز میں بالخصوص ملت کی بقااور اس کے تشخص کے تحفظ کے سلسلے میں سخت جدوجہد کی ہے، خواہ وہ انگریزی اقتدار کا زمانہ ہو، یا پھر آزادئ ہند کے پرآشوب حالات، اِن مدارس نے ہمیشہ ہی ملت کے تحفظ وبقا کے لیے اپنی حد تک کوششیں کی ہیں۔ انگریزی اقتدار کے دوران یا اس کے بعد اٹھنے والی تحریکات یا تنظیموں اور جماعتوں میں بھی اِ ن مدارس کے افراد اور فارغین کا اہم رول رہا ہے۔ملت اسلامیہ سے متعلق جب بھی کوئی مسئلہ سامنے آیا ہے، ان مدارس نے اس کے لیے پرزورآواز اٹھائی ہے۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی دیگر مسلم تحریکوں اور جماعتوں کی طرح یہاں کے مدارس کا کردار بھی ہمیشہ سے یک رُخا رہا ہے، بالفاظ دیگر ان کے فکر وخیال کی دنیابھی ایک خاص دائرے تک محدود رہی ہے، اور یہ محدود دائرہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تنگ سے تنگ تر ہوتا جارہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مدارس اور ان سے نکلنے والے افراد کی جملہ سرگرمیاں ملک کے عام عوام کو سامنے رکھنے کے بجائے محض ملت اسلامیہ کو سامنے رکھ کر انجام پاتی تھیں، یہ چیز بذات خود کافی تشویشناک تھی، لیکن اب صورت حال یہاں تک جا پہنچی کہ ملت کے بجائے ان کی سرگرمیوں اور سوچ وفکر کا دائرہ مسلک، فرقے اورجماعت تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
بعض اوقات کچھ مسائل سامنے نظر آتے ہیں، اور ان مسائل کے حل کے لیے کوششیں بھی کی جاتی ہیں، لیکن ان مسائل کے پس پردہ اصل مسئلہ کیا ہے، اس کی تلاش بہت کم ہوپاتی ہے۔ یہی حال مدارس اسلامیہ کا بھی ہے۔ یقیناًمدارس اسلامیہ مسائل سے بری طرح دوچار ہیں، لیکن کیا مدارس کے واقعی مسائل وہی ہیں، جو بظاہر نظر آرہے ہیں، یا اِ ن مسائل کے پس پردہ کوئی اور مسئلہ بھی ہے۔ اس پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔
مدارس اسلامیہ کے مسائل کا جب بھی ذکر آتا ہے، تو لازمی طور پر نظام اور نصاب تعلیم پر بات آکررک جاتی ہے، حالانکہ اس سے پہلے طے کرنے کا مسئلہ اِن مدارس کے قیام کا ’بنیادی محرک‘ ہے۔ یقیناًمدارس اسلامیہ کے نظام اور نصاب سے متعلق متعدد مسائل ہیں، لیکن سب سے بڑا مسئلہ اس شعور کا فقدان ہے کہ اس پورے اسٹرکچر یا سسٹم کو چلانے کا بنیادی محرک یا بنیادی مقصد کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بنیادی محرک طے ہوجانے کے بعد بہت سے مسائل از خود حل ہوتے نظرآئیں گے۔ اکثر طلبۂ مدارس (مدارس اور مکاتب میں فرق کے ساتھ) کے سلسلے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ جدید وسائل اور ٹیکنالوجیز سے بے خبر ہوتے ہیں، لیکن حقیقت واقعہ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان تمام چیزوں سے نہ صرف بخوبی واقف ہوتے ہیں، بلکہ ان کا استعمال بھی کثرت سے کرتے ہیں، تاہم یہاں پر بھی جو اصل مسئلہ نظر آتا ہے، وہ شعور کا فقدان ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ مدارس اور اساتذہ وذمہ دارانِ مدارس کے درمیان اس شعور کو عام کیا جائے کہ یہ مدارس کیا ہیں، ان کے قیام کا بنیادی محرک کیا ہے، اور بدلتے ہوئے حالات اور زمانے کے حقیقی تقاضے اور واقعی مطالبات کیا ہیں۔
۱۱؍اپریل ۲۰۱۴ ؁ء کو ایس آئی او آف انڈیا کی جانب سے بلریاگنج اعظم گڑھ میں منعقد ہونے والی کل ہند طلبۂ مدارس کانفرنس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ طلبۂ مدارس اسلامیہ کے درمیان فکری ہم آہنگی پیدا کی جائے، اور ان کے درمیان اس شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے۔ یقیناًکانفرنس ایک نقطہ آغاز ہے، اب یہ آواز کہاں تک اور کس قوت کے ساتھ پہنچائی جائے گی، اس کے لیے ابھی بہت کچھ تیاری اور عملی جدوجہد درکار ہے۔
(ابوالاعلی سید سبحانی)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights