جدید اسلامی علم نفسیات کے بانی: پروفیسر مالک بدری

ایڈمن

شجاع فہد انعامدارنفسیات کے میدان میں تخلیق علم اور موجودہ علوم کی اسلامی بنیادوں پر تدوین کی تحریک کے ایک اہم ستون، پروفیسر مالک بدری کے انتقال کی خبر نے انتہائی غمزدہ کیا۔ پروفیسر مالک بدری کا انتقا ل فروری…

شجاع فہد انعامدار


نفسیات کے میدان میں تخلیق علم اور موجودہ علوم کی اسلامی بنیادوں پر تدوین کی تحریک کے ایک اہم ستون، پروفیسر مالک بدری کے انتقال کی خبر نے انتہائی غمزدہ کیا۔ پروفیسر مالک بدری کا انتقا ل فروری 2021کو دوران معالجہ ملیشیا کے شہر کوالالمپور میں ہوا۔وہ ایک معروف ماہر نفسیات تھے۔ انھوں نے کئی ماہر نفسیات، بالخصوص مسلم ماہر نفسیات کو متاثر کیا۔ایک ایسے وقت جب کہ جدید علم نفسیات فرائیڈ اور اسکرنی کے مردہ نظریات کی اندھی تقلید کر رہی تھیں اور جہاں مسلم سائیکولوجسٹ بھی اس تقلید کا حصہ تھے، اس وقت انہوں نے ان غالب نظریات کا جائزہ لینے، ان پر تنقید کرنے اور ان نظریات سے اسلامی نقطہ نظر پر مبنی ربط و تعامل کےمتوازن طریقہ کو فراہم کرنے کی بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔ چونکہ اس طرف متوجہ کرانے والے اور اس میدان میں بنیادی کام کرنے والے وہ پہلے شخص تھے اسی لیے انہیں جدید اسلامی علم نفسیات کا بانی کہا جاتا ہے۔
1957ء میں ہونے والی ”اسلامی سماجی علوم کی سالانہ کانفرنس” میں انہوں نے مسلم ماہر نفسیات کی صورتحال کو ”چھپکلی کے بل میں” ہونے سے تعبیر کیا۔یہ استعارہ ایک حدیث سے بیان کی گئی مثل جُحرَضَبِّ سے اخذ کیا گیا تھا۔ اسی خیال کو انہوں نے 1997ء میں منظر عام پر آئی ایک متاثر کن کتاب ”ڈیلیما آف مسلم سائکو لاجسٹ ” میں پیش کیا۔ اس کتاب میں انہوں نے مسلم ماہرین نفسیات کو متنبہ کیا کہ وہ علم کے اصل ماخذ یعنی قرآن اور سنت کو نظر انداز کرتے ہوئے مغربی فکر کی اندھی پیروی نہ کریں۔ انہوں نے مجھ جیسے تمام نفسیات کے طلباء کونہ صرف متنبہ کیا بلکہ اس چھپکلی کے بل’ سے باہر نکلنے کا راستہ بھی بتایا، جس کے ذریعے میں مرحلہ وار مغربی نظریات سے مرعوبیت،مرعوبیت سے مفاہمت اور پھر مفاہمت سے گزر کر ان نظریات سے نجات کی مطلوبہ کیفیت حاصل کروں جہاں نہ صرف میں اسلامی فکر کی بنیاد پر ان نظریات کا محاسبہ کرسکوں بلکہ اسلام کے نظریہ انسان سے ماخوذ متبادل فکر پیش کر سکوں۔

مالک بدری کی حیات اور کرئیر
مالک بدری کی پیدائش سوڈان میں ہوئی اور انہوں نے بی اے اور ماسٹرس کی تعلیم امریکن یونیورسٹی آف بیروت سے حاصل کی۔ یونیورسٹی آف لیسسٹر سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور اس کے بعد لندن یونیورسٹی کے سائیکاٹری آف دی مڈل سیکس ہاسپٹل میڈیکل اسکول کے اکیڈمک ڈپارٹمنٹ سے کلینکل سائیکو لوجی میں پوسٹ گریجویٹ سرٹیفیکٹ حاصل کیا۔ وہ برٹش سائیکو لوجکل سوسائٹی کے fellow مقرر ہوئے اور چارٹرڈ سائیکولوجسٹ رہے۔
اپنے میدان میں کی گئی نمایاں کاوشوں کے اعزاز میں اہفد یونیورسٹی کی جانب سے انھیں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی اور ساتھ ہی علمی مہارت کے اعلیٰ ترین تمغہ شاہد زبیر سے نوازا گیا۔ پروفیسر بدری نے یونیورسٹی آف خرطوم اور جوبا یونیورسٹی کے فیکلٹی برائے تعلیمات میں بحیثیت پروفیسر اور ڈین اور ملیشیاء کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ اینڈ سولائزیشن کے کارگزار ڈین کی حیثیت میں خدمات انجام دیں۔
انہوں نے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے متعدد اسپتالوں اور کلینک میں سینئرکلینلک سائیکولوجسٹ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور سعودی عربیہ میں سائیکولوجکل کلینک آف دی یونیوسٹی آف ریاض کی بنیاد ڈالی۔انہیں ملیشیاکی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے فیکلٹی آف ریویلڈ نالج اینڈ ہیومن سائنس کے ابن خلدون چئیر کے عہدہ سے سرفراز کیا گیا۔
انہوں نے 2017 میں ”انٹر نیشنل اسوسی ایشن آف اسلامک سائکولوجی” (IAIP)کی بنیاد رکھی تاکہ ”صحت اور انسانوں سے متعلق فہم کو ترقی دینے اور انسانوں کو سمجھنے میں کلینکل سائیکولوجی کے نقطہ نظر کو اپروچ کرتے ہوئے نظریاتی رجحان کے طور پر اسلامی علم نفسیات کے کردار کو وسیع کیا جائے۔ 2017 میں انہوں نے استنبول کی صباح الدین زعیم یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا، ساتھ ہی انٹرنیشنل اوپن یونیورسٹی (IOU)میں وزٹنگ لیکچرر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ نفسیات اور تعلیم کے موضوع پر بڑی تعداد میں ان کی تحریریں شائع ہوئی ہیں اور ان کا ترجمہ عالم اسلام کی کئی زبانوں میں کیا گیا ہے۔ ان کی تحقیقی دلچسپیوں میں نفسیات، کلینکل سائکالوجی، کاگنیٹیو بیھیور تھیریپی(CBT)، اسلامی نفسیات، معاشرتی نفسیات اور اسلامی علوم کے موضوعات شامل ہیں۔

علم نفسیات کی اسلامی بنیادوں پر تدوین کے لئے مجاہدہ کی ابتداء
علم نفسیات کی اسلامی بنیادوں پر تدوین کا یہ سفر بہت دشوارتھا، مجھے بھی ان کی زندگی نے بہت متاثر کیا اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے تحریک فراہم کی۔
پروفیسر بدری نے علم نفسیات کی اسلامی بنیادوں پر تدوین کے ابتدائی سفر کے حوالے سے رحمت اللہ خان کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں ان کی جدوجہد کی تصویر پیش کی تھی۔ میں یہاں اس کی چند جھلکیاں بیان کرنا چاہتا ہوں۔
پچاس کی دہائی کے اوائل میں بیروت کی امریکی یونیورسٹی میں اپنے گریجویشن کی تعلیم کے دوران پروفیسر مالک بدری کا فرائیڈی نظریہ کے متعلق سحر ٹوٹا۔ بحیثیت نوجوان طالب علم وہ فرائیڈ کے اس مضحکہ خیز دعویٰ کہ تمام فطری اور غیر فطری رویوں کا تعلق لا شعوری جنسی تحریک سے ہے، کا متبادل فراہم نہ کرسکے۔یہ نفسیات کے سائیکو انالیٹکل اسکول کا سنہری دور تھا اور فرائیڈ کو اس وقت علم نفسیات کے بلند مرتبت شخصیت کا درجہ حاصل تھا۔
اس دوران وہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے افکار سے بہت متاثر ہوئے جنہوں نے تحریک اسلامی کے لئے دیگر عظیم کاموں کے ساتھ ہی سماجی علوم کی اسلامی تدوین کی تحریک بھی شروع کی تھی۔ وہ محمد قطب کی تصانیف خصوصاً ”اسلام: دی مس انڈرسٹود ریلیجن ”‘‘سے بھی بہت متاثر ہوئے۔اپنے ٹرم پیپرکے دوران انہوں نے ان جید علماء سے بہت استفادہ کیا۔ ان کے انڈرگریجویٹ پیپرز کے چند عناوین یہ تھے۔ جنرل ایجوکیشن کے کورس کے لئے ”اسلام: ایک بت شکن تحریک”، بچوں کی نفسیات کے کورس کے لیے ”اسلام میں بچوں کی تربیت”، سماجی تحریکات کے کورس کے لئے ”تحریک اخوان المسلمون کا معاشرتی نظام.
بیروت کی امریکی یونیورسٹی اپنے ابتدائی بانیوں کے مسیحی مشنری نظریہ سے متاثر تھی۔ اس نظریہ کو بعض اوقات براہ راست پڑھایا جاتا تھا لیکن زیادہ تر مغربی معاشرتی مراکز کے ذریعہ سے تائید کی جانے والی سیکولرزم کی پوشیدہ شکل کے طور پر۔ سوڈان سے ایک مسلم نوجوان کی حیثیت سے انہوں نے اس ”امریکی کرن ” جو علم نفسیات اور سماجی علوم میں پیش کیا جا رہا تھا، کے خلاف محتاط ہو کر رد عمل ظاہر کیا او ر ان سیکولر چیلنجوں کا اسلامی حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں رہے۔یہ اسلامائزیشن کے لئے ان کی ابتدائی کوششیں تھیں۔ الحمد للہ اسی جذبے کے ساتھ ایس آئی او نے بھی اس مرتبہ دو اہم موضوعات ”اسلامی فکر” اور ”علم و تعلیم کا اسلامی تصور ” کو اپنی میقاتی پالیسی میں شامل کیا ہے۔

اسلامی علم نفسیات کی جانب بڑا قدم
بعد ازاں اپنے کیریئر میں اردن یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے انہوں نے 1963 میں نفسیات کی اسلامی بنیادوں پر تدوین کے موضوع پر اپنا پہلا عوامی لیکچر دیا۔ سامعین نے تو اسے پسند کیا لیکن ان کے ساتھیوں نے ماہلف رویہ اپنایا۔ انہیں ایسے سائنس داں ہونے پر فخر تھا جو غیر جانب دار، اقدار سے عاری سائنسی طریقہ کار سے رہ نمائی حاصل کرتے ہیں، جس میں مذہبی عقائدکے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے عرب سماجی سائنس داں عام طور پر یہ رائے رکھتے تھے۔ وہ طنزیہ انداز میں پروفیسر بدری سے پوچھا کرتے تھے، ”کیا کوئی فاسق یا بری طبیعیات یا غیر اسلامی کیمسٹری بھی ہے؟ پھر ہم سے اسلامی نفسیات کے بارے میں کیوں بات کی جائے؟ اگر آپ فرائیڈی نفسیاتی تجزیہ قبول نہیں کرتے، تو جذباتی طور پر پریشان افراد کے علاج کے لیے ہمیں ایک بہتر طریقہ دکھائیں۔ اس وقت ان کے پاس اسلامی نقطہ نظرسے علاج کا کوئی جواب نہیں تھا۔
پروفیسر مالک بدری نے ان کے طنز کو مثبت انداز میں اخذ کیا اور نفسیاتی مسائل کو اسلامی بنیادوں پر سمجھنے کی کوششو ں کا آغاز کیا۔انہوں نے بیروت کی امریکی یونیورسٹی میں بحیثیت لیکچرر اور جارڈن یونیورسٹی میں بحیثیت وزٹنگ لیکچرر ملنے والی تنخواہ کے پیسوں کی بچت کی۔ وہ مڈل سیکس ہسپتال میڈیکل اسکول کے بہترینBehavior Therapistڈاکٹر وکٹر میئر سے تربیت حاصل کرنے کے لئے1960 میںلندن گئے۔

اسلامی سائیکو تھیراپی میں ابتدائی کوششیں
چونکہ وہ ابنارمل سائیکو لوجی اور سائیکو لوجی آف لرننگ میں یونیورسٹی کیلیکچررتھے، لہذا Behaviour Therapyکی تھیوری اور اس کے استعمال میں مہارت حاصل کرنے میں انہیں صرف چند ہفتے لگے۔ میئر نے خود اپنے کچھ مریضوں کو ان کے پاس بھیجا اور اسے نا امیدی نہیں ہوئی۔ کچھ ہی مہینوں میں، وہ دونوں ایک دوسرے کے قریبی دوست بن گئے اور اپنے علمی میدان سے متعلق متعدد امور پر تنقیدی انداز میں تبادلہ خیال کرنیلگے۔ان کے کچھ خیالات کو میئر نے آسانی سے قبول کیا اور انہیں شائع کرنے کو کہا۔ انہوں نے اپنی تنقیدوں پر مغربی ماہر ین نفسیات کو زیادہ خیرمقدم کرنے والا پایا بہ نسبت نام نہاد مسلم ماہر نفسیات کے، جو مغربی افکار سے مسحور تھے۔ ان سیکولر مسلم ماہر ین نفسیات نے ان کی زندگی کے بعد بھی انہیں اور ان کے کاموں کو تنقید کا نشانہ بنائے رکھا۔

اسلامی سائیکو تھیراپی کا ارتقاء
1971ء میں مالک بدری بطور پروفیسر ریاض یونیورسٹی میں مقرر ہوئے اور یونیورسٹی میں پہلا نفسیاتی کلینک قائم کیا۔ انہوں نے ریاض سنٹرل اسپتال کے نفسیاتی سیکشن میں بھی کام کیا۔ ریاض میں گزارے گئے ان کے ایام علم نفسیات کی اسلامی بنیادں پر تدوین کرنے کی کوششوں میں سب سے زیادہ کارآمد رہے۔ یہی وہ وقت تھا جب انہیں امریکہ کے انڈیاناپولس میں ”اسوسی ایشن آف اسلامک سوشل سائنٹسٹ” کی سالانہ کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ یہ وہ کانفرنس ہے جس میں انہوں نے اپنا مشہور پیپر ”مسلم ماہر نفسیات چھپکلی کے بل میں” پیش کیا تھا۔ عنوان ” چھپکل کے بل میں” اللہ کے رسول ﷺ کی مشہور حدیث سے ماخوذ ہے، جس میں یہ پیشن گوئی کی گئی ہے کہ مستقبل میں مسلمان آنکھیں بند کر کے یہود و نصاری کا طرز زندگی اپنائیں گے۔ وہ ان کی پیروی کریں گے حتی کہ وہ خود کو ”چھپکل کے بل ”میں پہنچا دیں گے۔ یہ عنوان کافی شہرت اختیار کر گیا اور اسے دوسرے مصنفین بھی استعمال کرنے لگے۔
اسلامی بنیادں پر تدوین اور مواد کی تیاری کا ایک اور میدان جو انہیں ریاض یونیورسٹی میں قیام کے دوران سمجھ آیا وہ ابتدائی زمانے کے مسلم ماہرین کی علم نفسیات کے فروغ کے لئے انجام دی گئی خدمات کا تھا۔ یہ تجربہ ان کی علم نفسیات کی اسلامی بنیادں پر تدوین کی کاوشوں میں بڑی تبدیلی کا باعث بنا۔ ان کے بقول ”میں جان کر حیران رہ گیا کہ ابتدائی دور کے علماء نے پہلے سے ہی CBTجیسی تھیراپی میں علمی مہارت حاصل کر لی تھی اور اسے بطور علاج بھی استعمال کیاجاتا رہا۔ مجھے احساس ہوا کہ اگر جدید مسلم ماہرین نفسیات نے امام غزالی، امام بالخی، ابن قیم، امام جوزی، ابن سینا، الراضی اور اسی طرح کے عظیم علماء کرام کو پڑھا ہوتا تو وہ ان ”جدید” تکنیکوں کو یورپ سے کئی عرصہ پہلے متعارف کرا چکے ہوتے۔ وہ اندھے مقلد ہونے کے بجائے آج اس میدان میں دسترس رکھتے اور ان علوم کو سکھا رہے ہوتے۔

پروفیسر مالک بدری کی اہم خدمات
ویسے تو جدید اسلامی نفسیات کے میدان میں ان کا تعاون وسیع ہے لیکن یہاں ان کی چند بڑی خدمات کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔انہوں نے مغربی افکار کے ساتھ ربط و تعامل کا طریقہ پیش کیا اوراسلامی علم نفسیات کے بنیادی اصول بیان کئے۔ انہوں نے قدیم اسلامی ورثہ کو زندہ کیا اور اسے معاصر علم نفسیات کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی۔انہوں نے مغربی اور سیکولر مسلم ماہر ین نفسیات کی طرف سے کی جانے والی کھلی تنقیدوں اور چیلنجوں کا مضبوط دلائل کے ساتھ تنہا مقابلہ کیا اور نئے ابھرتے ہوئے مسلم ماہر ین نفسیات کو امید فراہم کی۔ انہوں نے اسلامی نفسیات کے میدان میں 80 سے زائد مضامین اور کتابیں لکھی ہیں جن میں سیچند نام درج ذیل ہیں:

  1. Contemplation: An Islamic Psychospiritual Study (2002)
  2. The Islamization of Psychology: It’s‘‘Why’’, its‘‘What’’, its‘‘how’’and its‘‘Who’’(2009)
  3. Abu Zayd Al-Balkhi’s Sustenance of the Soul: The Cognitive Behaviour Therapy of a Ninth Century Physician (2013)
  4. Cultural and Islamic Adaptation of Psychology (2016)
    وہ ایک کتاب ”انبیاء کرام کی جذباتی زندگی ”کی دوسری جلد پر کام کر رہے تھے۔ اسی کے ساتھ ان کا زیادہ تر کام اسلامی طریقہ علاج پر چل رہا تھا جو اسلامی نفسیاتی علاج کے میدان میں زیادہ اہم ہوسکتا تھا، لیکن اسی دوران وہ اپنے حقیقی رب سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
    ذاتی تجربات و احساسات
    عظیم قدآور شخصیت، انگریزی بولنے میں عربی لب و لہجے کی جھلک کے ساتھ شائستہ مگر پر اعتماد گفتگو، یہ ان کے بارے میں میرا پہلا تاثر اس وقت کا ہے جب انہوں نیبارہویں سالانہ مسلم مینٹل ہیلتھ کانفرنس میں افتتاحی کلمات پیش کئے تھے۔ ان کی عاجزی، حکمت اور بصارت کو دیکھ کر میں اتنا متاثر ہوا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ آئندہ سال ان سے ضرور ملاقات کا شرف حاصل کروں گا، لیکن میں نے بہت دیر کردی۔ ان کی کتابیں، خاص طور پر ”ڈیلیما آف مسلم سائیکولوجسٹ” نے میری زندگی بدل دی، اس کتاب نے مجھے Psychodynamicاور Behaviouristicنقطہ نظر کے اس اندھیرے میں روشنی دکھائی۔ان کا دوسرا بڑا کام جس نے مجھے اسلامی علم نفسیات کے مطالعہ اور ذاتی علمی و روحانی نشوونما کے لیے سمت عطا کی، وہ ان کا پیپر بعنوان ”Contemplation: An Islamic Psychospiritual Study ”تھا جس میں انہوں نے موجودہ مغربی تھیراپیوٹک موڈل CBT کا متبادل اسلامی ”تفکر”کے ذریعہ پیش کیا، جو کہ اس زمانے کے ماہر ین نفسیات کا اوڑھنا بچھونا ہے۔یہ تحقیق قرآن مجید اور پیغمبرانہ تعلیمات کے ساتھ ساتھ ہمارے علمائے سلف کے کارناموں پر مبنی ہے۔ میں اس کتاب کو پڑھنے کی گزارش ان تمام لوگوں سے کروں گا جو اپنی روحانی نشونما اور تزکیہ فکر و قلب کے لئے فکر مند ہیں۔
    ان کے دونوں کاموں نے مجھے اسلامی نفسیات اور نفسیاتی تھریاپی کے شعبے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ہمت کے ساتھ ساتھ ذاتی نشوونما کے اسباب فراہم کئے۔ وہ اپنے پیچھے رشتہ دار، دوست اور دنیا بھر کے بہت سارے شاگردوں کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اللہ ہم سب مسلم ماہر نفسیات کو، ان کے نقش قدم پر چلنے کی طاقت و قوت عطا کرے، اسلامی علم نفسیات کو موجودہ علم نفسیات کے میدان میں غالب کر دیاور بہترین وسائل اور اسلام کی سچی روح کے ساتھ کام کرنے والے افراد عطا فرمائے ۔آمین

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں