مسلمانوں کو اپنی روایت پر لوٹنا چاہیے، مشہور فلسفی حسین نصر کا علی گڑھ جشن ادب میں خطاب

ایڈمن

تین روزہ علی گڑھ جشن ادب کے دوسرے دن کا پہلا سیشن چار ڈسکشن پر منحصر رہا جس کا آغاز جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر غزالہ جمیل، آئی آئی ٹی کی اسکالر ثانیہ مریم…

تین روزہ علی گڑھ جشن ادب کے دوسرے دن کا پہلا سیشن چار ڈسکشن پر منحصر رہا جس کا آغاز جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر غزالہ جمیل، آئی آئی ٹی کی اسکالر ثانیہ مریم ,دھلی یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ہبہ احمد اور جے این یو کی اسکالر شائما کے باہمی مکالمے سے ہوا جس کا مرکزی موضوع قلمکار مسلمان عورتوں سے متعلق تھا۔ ڈاکٹر غزالہ جمیل نے اپنی بات کا آغاز ایک مسلمان عورت کے صنف سخن کے تاریخی حوالے سے کیا اور کہا کہ عام تصوّر کے مقابلے میں حقیقت یہ ہے کہ مسلمان عورتیں ہمیشہ سے لکھتی رہی ہیں. ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ثانیہ مریم نے یاد دلایا کی فلموں اور ناولوں کے ذریعے مسلمان خواتین کی ایک خاص تصویر کشی کی گئی ہے اور انھیں کبھی بھی اپنی تصویر خود بنانے نہیں دیا گیا ہے. ہبہ احمد نے بھی اس بات کی تائید کی اور مسلمان مردوں کی بھی اس طرف توجہ دلائی. شائما، جو کہ “Aura” نامی ایک میگزین کی نائب مدیر بھی ہیں، انہوں نے کہا کی مسلمان عورتیں ایک بڑی تعداد میں لکھ رہی ہیں بس مسئلہ یہ ہے کہ ان کی تصنیفات منظر عام پر زیادہ نہیں آرہی ہیں.

اس کے علاوہ انہوں نے ذاتی تجربات سے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ایسے مسائل ان کے ساتھ بھی رونما ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ ثانیہ مریم نے عورت کے ساتھ ہونے والی دقیانوسیت کو تفصیل سے بیان کیا انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے تین طلاق کے مسئلے کو بھی روشناس کیا۔
اس تفصیلی گفتگو کے بعد یہ سیشن اپنے دوسرے مکالمے کی طرف بڑھا ۔جہاں پر آئی آئی ٹی دہلی سے پروفیسر ریتیکا کھیرا اور ایس آئی او کے نیشنل سکریٹری نہال کیدیور کے درمیان “بگ ڈیٹا میٹ بگ برادر” کے عنوان کے تحت مکالمہ ہوا-اس کا آغاز پروفیسر کھیرا کی کتاب کے ادبی حوالات سے ہوا۔بعد ازیں اس مکالمے کا رخ ٹیکنالوجی کے استعمال کی طرف بھی ہوا۔ پروفیسر کھیرا نے کہا کی آدھار کو کمرشیل ڈاٹا مائننگ اور اسٹیٹ سرویلینس کے لئے غلط طریقے سے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے. اس مکالمے کے دوران پروفیسر نے آدھار کی تاریخ اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر سے اس کا تعلق بھی ظاہر کیا۔

ان کے مکالمے کے بعد سامعین کو مصنف شعیب شاہد اور ڈاکٹر ابرار ملتانی کے درمیان گفتگو سننے کا موقع ملا جس کا عنوان “اردو ساہتیہ کی دیوناگری میں ضرورت” تھا۔جہاں شعیب شاہد نے اردو ادب اور اردو شاعری کے درمیان ان کا فرق سمجھایا اور کلاسیکی اردو ادب کی ضرورت پر بھی زور دیا- اسی دوران جب شعیب شاہد سے یہ سوال کیا گیا کہ اس سے کہیں اردو کی اصل کو خطرہ تو نہیں، تو انہوں نے کہا کی اس کے برعکس اس سے اردو کا دائرہ وسیع ہوگا-

اس کے بعد محسن خان کی ناول “اللہ میاں کا کارخانہ” پر اے ایم یو کے شعبہ لسانیات کے پروفیسر علی فاتح نے مصنف سے ان کی ناول کے بارے میں سوالات کیے۔ جہاں ایک طرف پروفیسر نے ناول کے سیاسی پہلوؤں کو سامنے رکھا تو وہیں دوسری طرف محسن خان نے اپنی ناول کے وسیع خیالی کی طرف اشارہ کیا۔اس مکالمے میں انسانی نقطہ نظر اور سماج کی فطرت پر بھی بات ہوئی۔ دوران مباحثہ محسن خان نے اپنی وجہ ناول نگاری کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ناول تحریر کرنے کا مقصد پڑھنے والوں کو یہ دکھانا تھا کہ انسان اپنے سماج کی وجہ سے کیسے اپنے خوابوں سے دور ہوتا ہے۔انہوں نے ناول کے مختلف کرداروں کے ساتھ ساتھ مختلف سوچ اور نظریات رکھنے والے سماج کی طرف بھی نشاندہی کی۔محسن خان نے اپنی بات کا اختتام اس حقيقت کی وضاحت کرتے ہوئے کیا کہ انسانی زندگی کا وجود صرف خوشی اور غم کے توازن سے ممکن ہے۔

“اسلامی نظریہ میں ماورائی حاصل کرنا” دوسرے سیشن کے پہلے مکالمے کا عنوان بھلے ہی کچھ الجھا دینے والا تھا، لیکن پروفیسر یوسف امین اور پروفیسر ممتاز علی کے باہمی مکالمے نے سامعین کے لئے اس کو واضح کر دیا۔ پروفیسر یوسف امین نے بتایا کہ بھلے ہی مغربی تہذیب مادیت پسند ہے پر ماورائی کے جذبے سے بےخبر نہیں۔ شیکسپیئر نے بھی اپنے ایک کردار کے ساتھ ماورائی کے متعلق دنیا کو پیغام دیا تھا۔ دنیاوی چیزوں سے بے نیاز ہو کر دوسرے جہاں کی خواہش کرنے کا نام ماورائی ہے۔ بالاتر ہونے کا جذبہ انسان کی فطرت میں شامل ہے، پھر چاہے بلندی دنیا کے لئے ہو یا پھر اسلامی لحاظ سے بلند ہونے کی خواہش ہو۔پروفیسر ممتاز نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ علم وہ سرمایہ ہے جس کے بغیر بلندی کا تصور ممکن نہیں۔ ممتاز علی نے عقل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا‌ کہ حضرت علی فرماتے تھے عقل کا‌ تحفہ خدا کی عنایت اور عقل کا استعمال بھی خدا کی رضا سے ہی ہوتاہے تو خدا کی رضا رکھتے ہوئے علم کے ساتھ بلندیاں حاصل کرنا ہی اصل معنی میں بالاتر ہونا ہے۔

اس کے بعد سید حسین نصر( پروفیسر جارج واشنگٹن یونیورسٹی) نے دوسری تقریب کا آغاز ایک ایسے موضوع کے ساتھ کیا جو کہ سیاسی ، اقتصادی اور معاشی ہر لحاظ سے موجودہ عہد میں امن و سکون کا ذریعہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ” اسلامی تہذیب وتمدن کی خلقت” اس موضوع کی باریکیاں بیان کرتے ہوئے سید حسین نے بتایا کہ کسی بھی تہذیب کی تخلیق دو طرح سے ممکن ہے، مذہبی نقطہ نظر سے یا جدید نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے۔ پروفیسر نصر نے اس کا بنیادی جز بتاتے ہوئے کہا کہ کسی بھی صورت حال میں لا الہ الا اللہ کو ادا کرنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔پروفیسر امین نے سید نصر کی بات کی تائید کرتے ہوئے سامعین تک یہ بات پہنچائی کہ اسلامی تہذیب کی خلقت کے لئے اپنی روحانی ثقافت اور روایات کا دامن پکڑے رہنا ہوگا۔

تیسرے سیشن کا آغاز مشہور انگریزی مصنف ایلزابیتھ لایرڈ اور سمیہ راشد کے مابین “بہار کی ویرانی: گمشدہ بچپن کی داستان” کے موضوع پر مکالمے سے ہوا۔ کو انہوں نے اپنی علمی گفتگو کا موضوع رکھا۔ تعارفی بات چیت کے بعد ایلزابیتھ نے سامعین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بچے بے حد مشکلات کے درمیان ہیں، انکا بچپن چھن چکا ہے ، حالات نے بچوں سے انکا بچپن چھین لیا۔ان کے مطابق ” خواندہ معاشرہ ہی روادار معاشرہ ہے” ۔ سمیہ راشد نے سامعین کو بتایا کی ایلیزابیتھ کی کتابیں بے حد اثردار ہیں جو انسان کو معصوم ذہنوں کی پریشانیوں سے واقف کراتی ہیں۔ایلیزابیتھ اور سمیہ راشد فلسطین میں بچوں کے سامنے پیش آرہی دشواریوں کے لیے فکرمند تھیں اور ان پر ہو رہی زیادتیوں کے لیے معاشرے کی آگاہی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہوئے انہوں نے اس تقریب کو اختتام تک پہنچایا۔

جشن ادب کے دوسرے روز کی آخری تقریب میں پروفیسر جوناتھن براؤن( جارج ٹاؤن یونیورسٹی) سامعین سے روبرو ہوئے اور “علم، روایات اور علم الکلام کا اسلامی پہلو” سامنے رکھا۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ عموماً اسلامی ادبیات معجزات اور جنّات کے ارد گرد گھومتی ہے- جہاں کچھ فرد معجزات دکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں وہیں فاضل شخصیات ان کی رہنمائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا کچھ بھی کرسکتا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ اسلامی روایات کو منطق اور ذہانت کے پیمانے پر دیکھنا چاہیے۔ آخر میں سوال و جواب کی نشست کے دوران پروفیسر جوناتھن نے اسلام میں علم اور معجزات کے نقطہ کی وضاحت کے لئے سر سید احمد خان کے معجزات کے متعلق خیالات کو سامعین کے سامنے پیش کیا۔
اس کے بعد فہیم ارشاد کی فلم “آنی مانی” کو سامعین کے سامنے پیش کیا گیا- اس طرح علی گڑھ جشن ادب کا دوسرا دن بہت سنجیدہ مسائل سے روشناس کراتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچا.

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں