اقبال کی نظم اور جذبہ کا

0

شہنور حسین

            اقبال کی شاعری میں سرسیّد،حالی اور شبلی کی روایات کا امتزاج ملتا ہے لیکن اقبال نہایت اعلیٰ، ارفع، منفرد اور ممتاز سطح پر غور و فکر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اقبال کو اردو کا سب سے بڑا نظم نگار کہتا جاسکتا ہے۔اقبال ایک عہد آفریں شاعر گزرے ہیں۔خیالی محبوب، مصنوعی عشق بازی اور فرضی بادہ و ساغر کے مضامین کے بجائے انھوں نے اسرارِ حیات کی پردہ کشی اور عالمی سیاست کے مسائل،نیز تہذیبِ حاضر کی خود فریبیوں کو اس خوبی سے شاعری کا حصہ بنایا کہ اردو شاعری بالخصوص اردو نظم کے موضوعات ہی بدل گئے۔ انھوں نے اردو نظم کو نہ صرف بین الاقوامی معیار عطا کیا بلکہ اس میں آفاقیت اور ابدیت پیدا کی۔اقبال کی شاعری تقریباً نصف صدی کے عرصے میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے ابتدائی حصے میں وطن دوستی اور حب الوطنی کا جذبہ خاص طور پر نمایاں ہے۔

اقبال کا تصورِ وطن

            اقبال نے جس زمانے میں شاعری کی ابتدا کی، وہ زمانہ تغیر پذیری کا تھا۔ ملک کے حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ انگریزی حکومت مستحکم ہوچکی تھی۔ انگریز پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپسی بھائی چارگی اور اتحاد کے رشتے کو توڑنے کی کوشش کررہے تھے۔جس کی وجہ سے 1857کی بغاوت ناکام ہوگئی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں انگریزوں نے اپنی اس حکمت عملی کو بھی زیادہ تقویت پہنچائی۔ 1905 میں ہندوستان کی سیاست میں ایک اہم واقعہ لارڈ کرزن کے ذریعہ تقسیم بنگال کا رونما ہوا۔ اس کے پیچھے بھی انگریزی سامراج کے اپنے سیاسی مفادات کارفرما تھے۔

            انگریز ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ کر کے اپنے سیاسی اقتدار کو نہ صرف محفوظ رکھنا چاہتے تھے بلکہ اسے مزید استحکام بخشنا چاہتے تھے۔ بیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ ملک میں مختلف سیاسی اور سماجی تحریکوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ انگریز مختلف مراعات کے ذریعے ہندوستانیوں کو خاموش کرنا چاہتے تھے۔ مارلے اور منٹو تجاویز اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ ہندوستانیوں میں بے قراری مزید بڑھتی جارہی تھی۔ تقسیم بنگال سے ٹھیک ایک سال بعد 1906 میں ایک نئی سیاسی پارٹی مسلم لیگ کے نام سے وجود میں آئی۔ ہندوستانی سیاست میں آزادی کی تحریک کو پرزور بنانے میں مسلم لیگ کا قیام ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

            سیاسی قائدین جس طرح تحریکِ آزادی کو آگے بڑھا رہے تھے، وہیں مختلف زبانوں کے شعراء و ادباء بھی اپنی ادبی تخلیقات کے ذریعہ آزادیِ ہند، قومی یکجہتی اور حب الوطنی کے رجحانات کو پرزور طریقے سے فروغ دے رہے تھے۔

            بیسویں صدی کا یہی زمانہ اقبال کی ابتدائی شاعری کا زمانہ ہے۔ اس عہد میں اقبال کے دیگر معاصرین شعراء میں سرور جہاں آبادی، چکبست، ظفر علی خاں اور سیماب اکبر آبادی وغیرہ ا ہم ہیں۔ بعد کے شعراء میں جوش، افسر میرٹھی، اختر شیرانی، حفیظ جالندھری اور اسرارالحق مجاز وغیرہ نمایاں ہیں۔

            اقبال کی ابتدائی شاعری میں فطرت نگاری اور قوم پرستی کے تصورات دو اہم رجحانات تھے۔ حب الوطنی کے جذبات و رجحانات اس دور کے لئے اہم اور ناگزیر تھے اور یہی وجہ تھی کہ اردو ادب میں یہ عام موضوع کے طور پر پیش کئے جارہے تھے۔ اقبال کا دل خود برطانوی سامراج کے ظلم و زیادتی اور طاقت کے بل بوتے پر ہندوستانیوں اور ہندوستان کو اپنا غلام بنائے رکھنے پر غم زدہ تھا۔ اس لئے اقبال بھی پوری شدت کے ساتھ وطن کی آزادی اور قومی یکجہتی کے لئے کوشاں ہوگئے۔ اقبال کی یہی سوچ اور یہی جذبہ جو اپنے وطن کے لئے وطن پرستی کا تھا، اسے ہم اقبال کا تصورِ وطن کہہ سکتے ہیں۔

 اقبال کی حب الوطنی

            اقبال کی ابتدائی نظمیں حب الوطنی کے رجحانات سے مالا مال ہیں۔ اقبال کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ آزاد، حالی اور غالب کے دور سے اردو شاعری میں بالخصوص اردو نظموں میں حب الوطنی اور وطن پرستی کا جو سلسلہ شروع ہوا، اسے اقبال نے تمام تر کیفیات و جذبات کے ساتھ نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے مزید وسعت دی اور گراں قدر بنایا۔ بانگِ درا کی پہلی نظم ”ہمالہ“ حب الوطنی کے جذبات سے سرشار نظر آتی ہے۔ نظم کا پہلا بند پیشِ خدمت ہے :

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستان

چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسمان

تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں

تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں

ایک جلوہ تھا کلیم طورِ سینا کے لئے

تو تجلی ہے سراپا چشمِ بینا کے لئے

            اقبال کی یہ پوری نظم حب الوطنی کے جذبات سے لبریز ہے۔ بانگِ درا کی دوسری نظم ”ترانہئ ہندی“ حب الوطنی اور قومی یکجہتی کا بہترین شاہکار ہے۔ اس نظم میں اقبال نے ہندوستان میں رہنے والے تمام ہندوستانیوں کو بلبلیں اور ہندوستان کو گلستاں کہا ہے اور ہندوستان کی شان، قومی حمیت، قدرتی مناظر، تاریخی و تہذیبی روایات غرض مختلف پہلوؤں سے اپنے وطن کی تعریف و توصیف کی ہے۔ ہر ہندوستانی اس نظم کو گانے میں دلی سکون اور خوشی کے ساتھ فخر محسوس کرتا ہے۔ نظم کے چند اشعار حاضرِ خدمت ہیں : سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں

سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا

            اور یہ شعر بھی ملاحظہ ہو جس میں محبت و بھائی چارگی کا پیغام عام ہوتا ہے :

مذہب نہیں سکھاتا، آپس میں بیر رکھنا

ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

            علامہ اقبال کی یہ نظم ترانہئ ہندی نے پورے ملک کو وطن پرستی کی ایسی سرشاری میں ڈبو دیا کہ آج تک یہ نظم اپنی پوری آب و تاب، معنویت اور آفاقیت کے ساتھ نسل در نسل قائم و دائم ہے۔ یہ نظم ایسی ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس نظم میں جو برجستگی، شعلگی، تازگی اور شائستگی ہے وہ لوگوں کے دلوں میں وطن کے تئیں محبت کی قندیلیں روشن کرتی جاتی ہیں۔

            اقبال کی ایک اور نظم ”ہندوستانی بچوں کا قومی گیت“ بھی اس نوعیت کی نظم جس میں ہندوستان کی تاریخی، سیاسی، مذہبی اور صوفیانہ روایات کو پیش کیا گیا ہے۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں :

یونانیوں کو جس نے حیران کردیا تھا

سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا

مٹی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا

ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا

میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

            اس دور کی ایک اہم اور مقبول نظم ”نیا شوالہ“ ہندو مسلم اتحاد اور یکجہتی کی مثال اور شاہکار تخلیق ہے۔ اس نظم میں شاعر نے مذہبی تعصبات کو ختم کرنے، محبت و اخوت اور تحاد و اتفاق کے گیت گانے اور اس اتحاد سے محبت کا ایک نیا شوالہ تعمیر کرنے کی بات کہی ہے جہاں محبت کے میٹھے میٹھے منتر گائے جاسکیں:

آ غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں

بچھڑوں کو پھر ملا دیں، نقشِ دوئی مٹا دیں

سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی

آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں

دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ

دامانِ آسماں سے اس کا کلس ملا دیں

ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے

سارے پجاریوں کو مے پیت کی پلا دیں

شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے

دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے

            اقبال نے اپنی ایک مشہور نظم ”رام“ میں جس عقیدت اور عظمت کا ثبوت فراہم کیا ہے، وہ اپنے ہم وطن ہندو بھائیوں کے مذہبی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ اقبال رام کو اپنی محبت اور عقیدت کا ہدیہ یوں پیش کرتے ہیں :

اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت

مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نامِ ہند

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہلِ نظر سمجھتے ہیں اُس کو امامِ ہند

اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی

روشن تر از سحر ہے زمانے میں شامِ ہند

تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا

پاکیزگی میں، جوشِ محبت میں فرد تھا

            بلاشبہ اقبال نے حب الوطنی اور وطنیت کے ایسے ترانے چھیڑے کہ پوری فضا محبت کی خوشبوؤں سے مشک بار ہوگئی۔اقبال کے بعد جذبہ حب الوطنی میں ڈوبی اردو نظم کے لامتناہی سلسلے میں ایسے بہت سارے نام سامنے آئے جنھوں نے اپنی بے حد خوبصورت نظموں میں وطن سے محبت کی مثالیں قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کو گراں قدر بنایا۔ ان شاعروں میں جوش اور چکبست قابلِ ذکر ہیں،جو اقبال کی وطنی شاعری سے کافی متاثر تھے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights