دستور ترمیمی رزرویشن بل اور سماجی انصاف کے نام نہاد علمبرداروں کا کردار

ایڈمن

وِشوَم بھرناتھ پرجا پَتیہر دور میں کم وبیش تبدیلی رونما ہوتی ہی ہے۔ لیکن وہ تبدیلی سماج کو کبھی آگے بھی لے جاسکتی ہے اور کبھی پیچھے بھی۔ ایسی ہی ایک تبدیلی دستور میں 124 ویں ترمیمی بل کے بارے…

وِشوَم بھرناتھ پرجا پَتی

ہر دور میں کم وبیش تبدیلی رونما ہوتی ہی ہے۔ لیکن وہ تبدیلی سماج کو کبھی آگے بھی لے جاسکتی ہے اور کبھی پیچھے بھی۔ ایسی ہی ایک تبدیلی دستور میں 124 ویں ترمیمی بل کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ اس ملک میں اگر کسی چیز کی اہمیت ہیہے تو وہ اس ملک کا دستور ہے، جس کو اس ملک کے ہر ایک باشندے نے قبول کیا ہے۔ کیونکہ دستور ہی سماج میں برابری لانے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا ادراک ملک کے دستور سازوں کو بھی بخوبی تھا۔اگر ہندوستان کے سماجی ڈھانچے کو دیکھا جائے تو عدم مساوات، ذات پات، تعصب، تفریق وغیرہ کانظام اس ملک کو ایک قوم بننے سے روکتا ہے۔ اس لیے سماج میں مساوات کے قیام اور مواقع میں برابری لانے کے لئے قانون سازی کی گئی۔ لیکن ایک ذات پات کی بنیاد پر اونچ نیچ کا منظم نظام سب سے خطرناک اور غیر جمہوری ہے۔ ہندوستان میں خواہ کوئی بھی مذہب ہو،ذات پات کے مہلک اثر سے محفوظ نہیں رہا۔ ہزاروں کی تعداد میں نہ صرف ہندووں میں بلکہ بدھ، سکھ، مسلم اور عیسائیوں میں بھی ذات پات اپنی جڑیں پیوست کیے ہوئے ہے۔اس حقیقت کو دستور ساز بھی جانتے تھے۔وہ طبقے جن کو ذات کی بنیاد پر محروم رکھا گیا اور تمام طرح کے حقوق، چاہے وہ حق تعلیم ہو، کہیں پر بھی آزادانہ اٹھنے بیٹھنے کے حقوق اور اپنی مرضی سے شادی اور ملازمت کے حقوق ہوں، ان سب سے محروم رکھا گیا تھا،ان کے لیے صرف دستور ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتے ہیں۔جیسا کہ دستورکی دفعہ14 کے مطابق مساوات اور دفعہ15 (4) اور 16(4) میں پسماندہ طبقوں کے لئے تعلیم اور ملازمت میں رزرویشن اور دفعہ19 میں اظہار رائے کی آزادی،رہ نمائی کرتی ہے۔ لیکن چندروز قبل اس ملک کی موجودہ سرکار درج فہرست ذاتوں، آدی واسی قبائل، پسماندہ اور کمزور طبقوں کے حقوق پر کلہاڑی سے حملہ کرتے ہوئے ایک بل لے آئی جس کو reservation for economically weaker section  کا نام دیا گیا۔ یہ ’اعلی ذات‘ سے تعلق رکھنے والوں کے لیے دس فیصد ریزرویشن ہے۔

اس ترمیم کو بغیر کسی بنیاد کے من گھڑت اور بناوٹی تصور کی بنا پر قبول کر لیا گیا کہ اس ملک میں اعلی طبقوں سے تعلق رکھنے والے ’غریب‘ہیں اور ان کی آبادی دس فیصد ہے۔ پہلی بات: اعلی طبقوں سے تعلق رکھنے والا، غریب گروہ سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں،اس کا علم کسی کو نہیں ہے۔ اگر اعلی طبقے سے تعلق رکھنے والا فرد غریب ہوتا ہے توکیایہ کسی کمیشن کی رپورٹ ہے؟ کیا سرکار نے کبھی اس کا سروے کرایاہے؟ اس ملک کے مختلف ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام ریاستوں میں اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے کتنے فیصد افراد غریب ہیں؟ ہندوستان کی کس ریاست میں ’اعلی ذات‘ سے تعلق رکھنے والے کتنے فیصد غریب ہیں؟ کیا کوئی ضلع ایسا بھی ہے جہاں پر صرف اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے غریب ہیں؟’اعلی ذات‘ کی ضمنی ذاتوں میں کون کتنا غریب ہے، اساس کے اعداد و شمار کہاں ہیں؟دوسری بات:کیا حکومت کے انسداد غربت اسکیموں سے ’اعلی ذات‘سے تعلق رکھنے والے غریب کو کوئی فائدہ نہیں ملا؟کیا حکومت کی پالیسی غریبوں کے خلاف ہے جس سے غریبوں کی تعدادمیں اضافہ ہورہا ہے اور صرف’اعلی ذات‘سے تعلق رکھنے والے لوگ غریب ہورہے؟۔تیسری اور سب سے اہم بات:جب ریزرویشن کی بنیاد صدیوں سے جاری بھیدبھاؤ اورسماجی و تعلیمی طور پر پسماندگی ہے، تو پھر معاش کو رزرویشن کی بنیاد کیوں بنایا گیا؟

ان تمام سوالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی انصاف کے نام نہاد علمبرداروں کا احتساب کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ پہلے اور دوسرے نقطے پر اس لئے یہاں روشنی نہیں ڈالی جائے گی تاکہ یہ دونوں باتیں قارئین خودسوچیں۔ پہلی بات میتھڈولوجیکل سوال ہے اور دوسری بات پالیسی سطح کا سوال ہے جو سیدھے سیدھے موجودہ سرکار کی ناکامیوں اور پروپیگنڈوں کو بیان کرتی ہے۔ تیسری بات کا تعلق سماجی انصاف کی کے نام نہاد علمبرداروں سے ہے۔

پہلا پسماندہ طبقہ (کاکا کالیلکر کمیشن) کے وقت سے ہی اعلی طبقے کا مطالبہ معاشی بنیاد پر ریزرویشن کاتھا تاکہ برسوں سے چلے آرہے ظلم اور ذات برادری کے نظام کو جیسا کہ تیسابرقرار رکھا جائے۔حقیقی پسماندہ طبقات کے جن مسائل کا حل دستور کی مختلف دفعات میں پہلے سے موجودہے اس کو تو نام نہاد بہوجن،سماجوادی اورٰؓٓٗبائیں محاذ کی جماعتیں قابل عمل بنانے میں ناکام ہیں اور وہ بل جو دستور کے بالکل برخلاف ہے،اس کا کھلے دل سے ساتھ دے رہی ہیں۔یہ جماعتیں دلت اور پسماندہ آدی واسیوں کی حقیقی خیر خواہ نہیں ہیں۔کیوں کہ یہ ان کے مفادات کے خلاف ہی برسر پیکار ہیں۔سماجی انصاف کی نام نہاد علمبردار یہ سیاسی جماعتیں جب بی جے پی کو برہمن وادی اور منووادی کہتی ہیں تو ا سے خود ان ہی کو دو طرح کے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ہیں۔پہلا یہ کہ بی جے پی برہمن وادی اور منووادی ہے یہ’حقیقت‘ سب کے علم میں آجاتی ہے۔ اور دوسرا،جو سب سے اہم فائدہ ہے یہ ہے کہ خود ان کے اندر جو داخلی برہمن واد ہے وہ سب کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔موجودہ سیاست کی یہی حقیقت ہے۔اترپردیش میں او بی سی کو بانٹنے کی شدید مخالفت کرنے والے پارلیمنٹ میں ریزرویشن کے حق میں بات رکھتے ہیں اور ’اعلی ذات‘ کے لئے ریزرویشن قبول کرتے ہیں۔البتہ پسماندہ اور کمزوروں طبقات  کے لئے ریزرویشن انہیں ناگوار گزرتا ہے۔کیا یہی ہے سماجی انصاف؟ یہی ہے عوام کے لیے سیاست؟لوک سبھا اور راجیہ سبھا کا رکن پارلیمان بننے کے لیے ہندوستان کے کسی بھی باشندے کو پاگل یا مجنون نہیں ہونا چاہیے،یہ ہمارے دستور کی رہ نمائی ہے۔ لیکن اس وقت پارلیمنٹ میں کس طرح کے ارکان ہیں؟ ہمارے دستور ساز بہت دور اندیش تھے۔ آج پورا پارلیمنٹ پاگل اور دیوالیہ لوگوں سے بھرا پڑاہے۔ اعلی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے دس فیصد ریزرویشن اسی کا نتیجہ ہے۔ ’اعلی ذات‘سے تعلق رکھنے والوں کے سامنے ’سماجی انصاف‘ کی ساری جماعتوں نے گھٹنے ٹیک دیے۔ لوک سبھا میں کل 326 ووٹوں میں سے 323 نے ان کی تائید کی صرف3 اس کے خلاف تھے۔ راجیہ سبھا میں 165 ووٹ تائید میں تھے اور 7 اس کے خلاف تھے۔واضح اکثریت سے یہ بل پاس ہو گیا۔ بی جے پی کی شکست اگر آر ایس ایس کی شکست ہے،تو بی جے پی کی تائید کر نے سے بھی آر ایس ایس کی فتح ہوئی ہے۔اس لئے سیاسی جماعتیں چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ’اعلی ذات‘ کے ریزرویشن کی تائید کر رہی ہیں حالانکہ یہ خلاف دستور ہے۔کس طرح مان لیا جائے کہ باقی جماعتیں برہمن وادی نہیں ہیں؟آج دوسری جماعتوں کا برہمن واد، بی جے پی کے برہمن واد کے ساتھ مل کر ایک ہو گیا ہے۔

’اعلی ذات‘سے تعلق رکھنے والوں کو ریزرویشن مل گیاہے۔اس کے لیے محترمہ مایاوتی،رام داس آٹھاولے اوراکھلیش یادو جیسے سیاست داں بھی ذمہ دار ہیں۔’اعلی ذات‘ کے لیے رزرویشن کو ڈسکورس میں لانے کا سہرا بھی بہن جی ہی کے سر جاتا ہے۔ اس بل کو لانے کے لیے دستور کے بنیادی تصورکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے، دستور میں تبدیلی صرف 24 گھنٹوں میں کر دی گئی۔کسی کو بھی اس کی اطلاع نہیں دی گئی اور نہ اس بل کو پارلیمنٹ اسکروٹنی کمیٹی کے پاس ہی بھیجا گیا۔ سب سے انوکھی بات یہ ہے کہ سبھی جماعتوں نے نہ صرف اس کی تائید کی بلکہ اس کے لیے اپنا ووٹ بھی بی جے پی ہی کے حصہ میں ڈالا۔سماجی انصاف کی علمبردارجماعتوں مثلا بہوجن سماج پارٹی،سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ جنتا دل نے بھی اس بل کی تائید کی۔جب کہ ان جماعتوں کا وجود ہی اعلی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف رد عمل میں عمل میں آیا تھا۔بی ایس پی کا یہ نعرہ کہ ’تلک ترازو اور تلوار – ان کو مارو جوتے چار‘اس میں صاف طور پر ’اعلی ذات‘کی حکومت کو چیلنج کیا گیا ہے۔لیکن آج یہ جماعت انھیں کے قدموں میں گر پڑی ہے۔1993 کے انتخاب میں اسی’بسپا‘نے اعلی طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کو امیدواری کا ٹکٹ نہیں دیا تھا۔لیکن آج اعلی طبقے کے ریزرویشن کی سب سے پر زور تائید کرنے والی جماعت یہی ہے۔پچھلے کئی دہائیوں سے بہوجن سماج پارٹی ’اعلی ذات‘ کے لیے ریزرویشن کی تائید کرتی رہی ہے اور دس فیصد رزرویشن دینے کی بات کرتی رہی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 2007 کے انتخاب میں برہمن-دلت اتحاد نے  بسپا کوکافی سیاسی فائدہ پہنچایا تھا۔سماج وادی پارٹی نے بھی اپنے پچھلے ہی اعلان عام میں ’اعلی ذات‘کے لئے ریزرویشن کی تائید کی تھی۔جیسا کہ شری رام گوپال ورما نے بیان دیا۔سماج وادی پارٹی اس سے پہلے بھی اترپردیش میں تین طرح کے ریزرویشن کو ختم کرنے کا کام کر چکی ہے اور یہ کیوں نہیں ہوگا جبکہ اکھیلیش یادو ’پرشورام‘کو مثالی بتاتے ہیں،وشنو مندر اور وشنو نگر بنانے کی بات کرتے ہیں۔برہمن اور اعلی طبقے کو خوش رکھنے کے لیے ’بسپا‘اور ’سپا‘جی جان سے لگی ہوئی ہیں۔راشٹریہ جنتا دل نے بھی ’منھ میں رام – بگل میں چھری‘کا فارمولااپناتے ہوئے اس رزرویشن کی تائید کی۔ راشٹریہ جنتا دل تیج پرتاب یادو اور بہار کے سابق وزیر صحت بھی کھلے عام رام مندر اور اعلی طبقے کے لئے ریزرویشن کی تائید کرتے نظر آئے۔یہی حال مزدوروں کے درد کو بھنانے والی سی پی ایم کا بھی ہے جس نے اپنے برہمن وادی کردار کا ثبوت دیتے ہوئے بل کی تائید کی۔

اب سوال پیدا ہوتاہے کہ دلت، کمزور، آدیواسی، پسماندہ، مزدور اور مسلمانوں کی بات کرنے والی جماعتوں نے آخر ان طبقوں کا ساتھ نہ دے کر برہمن وادیوں  کا ساتھ کیوں دیا؟ بی جے پی جب برہمن – بنیا کے فائدے کے ساتھ ’اعلی ذات‘ سے تعلق رکھنے والوں کی جماعت ہے،آر ایس ایس کے اشاروں پر کام کرتی ہے تو سماجی انصاف کی بات کرنے والی جماعتیں بھی اسی کے اشاروں پر کام کرتی ہے۔سماجی انصاف کے ان نام نہاد علمبرداروں نے دلت اور پسماندہ طبقیکو فریب دے کر ایک تاریخی غلطی کا ارتکاب کیاہے۔ جسے تاریخ میں درج کر لیا گیا ہے۔ہندوستان میں جمہوریت، دستور پر اعتماد ہونے کی وجہ سے چلتی ہے۔لیکن اگر اس دستوری اعتماد پر ہی حملہ ہو تو وہ ہندوستانی جمہوریت پر حملہ ہے۔مسلم طبقہ کی بات کرنے والی وماج وادی پارٹی کبھی بھی پسماندہ مسلمانوں کے لئے آج تک بل نہیں لا سکی۔سَپاکا وجود ہی دولت کی برابری پر ہے۔ جس میں پہلے مسلم ہے پھر یادو۔ لیکن مسلمانوں کو اس کے عوض میں کیا ملا؟سَپا پسماندہ مسلمانوں کے لیے ریزرویشن بڑھانے کے لیے کبھی تحریک نہیں چلا پائی۔دوسری طرف وہ او بی سی بٹوارے کی بھی مخالفت کرتی ہے۔جبکہ اترپردیش جیسی ریاست میں کمزور اور پسماندہ افراد کی حالت زیادہ خراب ہے۔ صحت کے معاملے میں زیادہ تر پسماندہ طبقے بہت ہی بری حالت میں ہیں۔ ان کی صحت کسی اعلی طبقے کے مقابلے میں بہت ہی کمزور سطح کی ہے۔ عورتوں کے لئے بھی صحت کا انتظام بہت کمزور سطح پر ہوتا ہے۔بہوجن سماج پارٹی دلتوں کی چمپئن ہونے کا دعوی کرتی رہی ہے لیکن ان کے خیال میں کتنی مرتبہ دلت مسلم اور دلت عیسائی آئے، اس کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔آرٹیکل 341کی خامیوں اور 1950 کے صدر راج کے معاملہ پر کون آواز اٹھائے گا۔سماجی انصاف کیا کبھی کمزور پسماندہ دلت،مسلم اور عیسائی تک پہنچے گا؟کیا کبھی ان کی سماجی،معاشی اور تعلیمی صورت حال سماجی انصاف کے علمبرداروں کو نظر آتی ہے؟’اعلی ذات‘کے غریب کا خیال رکھتے ہوئے انہوں نے سماج کے دبے کچلے لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔سماجی انصاف کے ان علمبرداروں نے ایک طرف جہاں صدیوں سے دبے کچلے طبقوں کے حقوق کی مخالفت کی تو دوسری طرف ’اعلی ذات‘کے لیے ریزرویشن کی پرزور تائید کی۔بی جے پی کے ساتھ مل کر سماجی انصاف کے علمبرداروں بھی دبے کچلے لوگوں کے پیٹ میں چھری چلائی۔

نیتسے (148-2000) کی رپورٹ کے مطابق انصاف ان لوگوں کو ملتاہے جو عام طور پر مضبوط ہوں۔تو کیا دلت اور پسماندہ طبقے ’اعلی ذات‘کی طرح قوی نہیں ہیں؟،تو پھرانہیں انصاف کس طرح ملے گا؟ ظاہر ہے انصاف تمام طبقوں میں مساوات، برابر مواقع اورقوت کے مراکز میں متناسب نمائندگی سے حاص ہوگا۔لیکن نمائندگی کس کو ملے گی جو پہلے سے مضبوط ہیں یعنی انصاف قائم نہیں ہورہا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پسماندہ طبقات کی نمائندگی اس کی آبادی کے لحاظ سے ہوتی تاکہ انصاف اور مساوات قائم ہوسکے،لیکن ہوا اس کے برعکس۔سماج وادی،بہوجن اور پچھڑوں کی سیاست کا دم بھرنے والوں میں فکری دیوالیہ پن پیدا ہوچکا ہے۔وہ انصاف کے بنیادی نظریے کو ہی نہیں سمجھ پارہے ہیں۔نمائندگی کی ضرورت سب سے پہلے اگر کسی کو ہے تو وہ بہت کمزور اور پسماندہ، دلت، مسلم اورعیسائی کو ہے۔ان طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ڈاکٹر، انجینئر، کارپوریٹس، تھانے دار، پولیس، سول سروس، پروفیسر، وائس چانسلر،ایم ایل اے،ایم پی اور منسٹر کیوں نہیں ملتے؟ کیوں کہ جمہوریت چند ذاتوں اور حکمراں طبقہ کے ہاتھوں میں آ گئی ہے۔اسی کی ایک کڑی ’اعلی ذات‘کے لئے ریزرویشن بل ہے۔جس کے لئے بی جے پی، کانگریس، سی پی ایم، کے ساتھ سماجی انصاف کے نام نہاد علمبردار،سماج وادی پارٹی،بہوجن سماج پارٹی،جنتا دل اور راشٹریہ جنتادل بھی ذمہ دار ہے۔ڈاکٹر امبیڈکر، کرپوری ٹھاکر اور محترم کا نشی رام کے راستوں سے لوگ بھٹک گئے ہیں، جس کا نتائج ہمیں بھگتنے ہوں گے۔

Vishwambharnath Prajapati,

Research Scholar,

Centre forScientific Studies,

Jawahar Lal Nehru University,

New Delhi.

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں