سیکس کا بازاری کَرن اور خواتین

0

ڈاکٹر جاوید جمیل

گزشتہ چندسالوں میں ہندوستان میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے جو فیصلے آئے ہیں اور جو تحریکیں منظر عام پر آئی ہیں انہیں دیکھ کر یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اب ہندوستان بھی اسی گلوبل جنسی انقلاب کی زد میں آ چکا ہے جسے انقلاب کہنا بھی اس لفظ کی توہین ہے۔یہ نام نہاد انقلاب دراصل ایک طوفان تباہی ہے ،جس کے نتائج جسمانی اورسماجی سطح پر انتہائی خطرناک ثابت ہوچکے ہیں۔ انقلاب ایسی تبدیلی کا نام ہے جو مفید ہو مگر ہر تبدیلی مفید نہیں ہوتی۔ جنسی انقلاب کوئی دوا نہیں ہے جو امراض کا علاج کرے بلکہ یہ ایسا نشہ ہے جس میں تباہی کے علاوہ کچھ نہیںہے۔

اس ’’انقلاب‘‘نے افراد کے وجود ہی کوداؤ پر لگا دیا ہے، خاندان کی جڑیں اکھاڑ دی ہیں اور سماج کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس نے افراد کو صحیح راستے سے گمراہ کر دیا ہے، ہر سماجی تنظیم کا قلعہ قمع کر دیا ہے اور ترقی کی شبیہ خراب کر دی ہے ۔ اس نے اگر کسی کو مالا مال کیا ہے تو وہ انسانی کمزوریوں اور ہوس کے سوداگرہیں ۔ اس نے لفظ انسانیت کو بے معنی کر دیا ہے اور انسان اور حیوان کے بیچ کی دیوار کو انتہائی مہین کر دیا ہے۔ اس نے دیرپا سکون کو وقتی لطف کی سولی پر چڑھا دیا ہے۔ اس نے صحت کو دولت کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس نے ضمیر کے پیٹ میں چھرا گھونپ کر کردار نام کی چیز کو نیست و نابود کر دیا ہے۔اس نے بچپن کو زخمی کر دیا ہے، نسوانیت کا گلا گھونٹ دیا ہے اور آدمیت کو حیوانیت کا چولا پہنا دیا ہے ۔

اس نے عورت کے دامن سے حیا کو اتار کر پھینک دیا ہے اور اس کوعریانیت اور بے شرمی کے چولوں میں ملبوس کر دیا ہے۔ اس نے مرد کو عورت کے محافظ کے بجائے حسن زن کا لٹیرا بنا چھوڑا ہے ۔ اس نے محبت کے بغیر جنسی عمل(Sex) کو فطری اور سیکس کے بغیر محبت کو غیر فطری قرار دے دیا ہے اور سیکس کے لئے ہر پابندی اور رکاوٹ کو ہٹا دیا ہے۔ اب نہ یہ شرط ضروری ہے کہ شادی کی جائے، نہ یہ کہ مرد اور عورت ہوں، مرد مرد سے اور عورت عورت سے رشتہ قائم کرنے کے لئے ’آزاد ‘ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ دونوں راضی ہوں ۔اور اگر آپ طاقتور ہیں اور قانونی داؤ پیچ کی سمجھ رکھتے یں تو رضا مندی بھی لازمی نہیں۔اب اس کے لئے خلوت بھی درکار نہیں، محفلوں میں لوگوں کے سامنے بھی جنسی عمل کو انجام دیا جا سکتا ہے محض چند نام نہاد شرائط کے ساتھ۔ اس نے والدین اور بچوں کے درمیان مقدس رشتے کو بھی پوری طرح درہم برہم کر دیا ہے۔ غرض یہ کہ محبّت پوری طرح ہوس میں تبدیل ہو گئی ہے۔


سیکس کی تجارت اور اس کے نتیجے کے طور پر جس قسم کا کلچر پروان چڑھتا جا رہا ہے نتیجہ یہ ہے کہ ہر قسم کے جرائم میں تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ قتل، زنا بالجبر، جنسی بد سلوکی اور مختلف طریقوں سے استحصال اور جسم فروشی اتنی عام ہوتی جا رہی ہے کہ اب ان خبروں سے کوئی حیران بھی نہی ہوتا ۔ ظاہر ہے یہ تمام مسائل ان ممالک میں کہیں زیادہ ہیں جہاں پر مغربی قوانین اورخدا بیزار تہذیب اپنا جال پھیلا رہی ہے۔ مختلف ذرائع سے سیکس کی تجارت یا یہ کہیے کہ سیکس کے کمرشیلائزیشن نے سب بڑا جرم یہ کیا ہے کہ اس نے ایک مرتبہ پھر عورت کو محض ایک جنسی شئے (Sex Commodity)بنا کر رکھ دیا ہے جس کا وجود صرف اس لیے ہے کہ وہ مرد کی جنسی بھوک کی تسکین کا سامان فراہم کرسکے۔

اس کمرشیلائزیشن کا نتیجہ یہ ہیے کہ اب تعلیم یافتہ اور ناخواندہ مردوں کی اکثریت حتی کہ نوعمر لڑکے بھی عورت کے حوالے سے یہی تصور رکھتے ہیں اور عورت کو اسی بیمارزدہ ذہنیت سے دیکھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق کم و بیش 12کروڑ خواتین اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ زنا با لجبر کا شکار ہوتی ہیں۔25لاکھ سے زیادہ خواتین ہر سال زنا با لجبر کا شکار ہوتی ہیں۔ امریکہ میں ہر تیسری عورت کے ساتھ زبرستی زناکی کوشش ہو چکی ہے۔حد یہ ہے کہ اب ہم جنس پرستوں کے مابین بھی زنا بالجبر بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔زنا بالجبر کے اکثر واقعات میں مرد نشے کی حالت میں ہوتا ہے یا خاتون کو دھوکے سے نشے میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ زنا کے عام ہونے اور بالخصوص ہم جنسیت کے پروان چڑھنے کی وجہ سے کئی لاکھ لوگ ایڈز کا شکار ہوچکے ہیں ۔پچھلے 25 سال میں02کروڑ سے زیادہ افراد ایڈز کے سبب موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ زنا کے عام ہونے کی وجہ سے ہی ہر سال 05کروڑ سے زیاہ بچوں کا ان کی ماں کے پیٹ میں ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ اعدادو شمار انتہائی بھیانک ہیں مگر اقتصادی قوتوں کا غلبہ اس قدر ہے کہ ان پر گفتگوبمشکل ہی کی جاتی ہے۔


اگر خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس کی کئی اہم وجوہات ہیں۔انہیں آزادی کا جھانسہ دے کر غیر محفو ظ بنا دیا گیاہے۔ان کا بیشتر وقت گھر کی محفوظ دیواروں سے باہر گزرتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان پر حملوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ دوسری سب سے بڑی وجہ بے قید اختلاط مرد وزن اور نیم عریاں فیشن پر مبنی وہ ماحول ہے جو انسان کے جنسی جذبات کو اکساتا ہے۔خواہ میڈیا ہو یا فلمیں اس قسم کے اکثر ادارے جنسی ہیجان پیدا کرنے کا کام کررہے ہیں۔ایسے حالات میں کچھ سر پھرے مردوں کے لیے امکان پیدا ہو جاتے ہیں۔پھر جب قوانین بھی لچر ہوں اور سزا پانے کے امکانات بھی حد درجہ کم ہوں تو شاد ی کے بعد یا شادی سے پہلے ناجائزجنسی تعلقات کا قائم ہونا بھی ممکن ہے اور جنسی تشدد کا بڑھنا بھی لازم ہے۔

انسانی کمزوریوں کے سوداگروں نے آزادی پسند ی کے نام پر جس طرح کا ماحول پیدا کیا ہے اس حقیقت کو بیان کرنا بھی طبع ہائے نازک پر گراں گزرتا ہے۔لیکن اگرکوئی انہیں بیان کرے اور ان پر تنقید کرے تو اسے مورل پولیسنگ (Moral Policing) کہہ کر اس مذاق اڑانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
ایک طرف یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں جو سائنس اور تکنالوجی کا دور ہے اور دوسری طرف ہم ایسا آئینی نظام تیار کر رہے ہیں جو انسانی زندگی اور صحت کے لیے سائنسی طور پر بھی مضر و مہلک ہے۔اگر سائنسی حقائق کی روشنی میں جدید تہذیب کا تجزیہ کیا جائے تو یہ ایک ایسے نظام کے طور پر سامنے آتی ہے جسے تہذیب کہنا بھی تہذیب لفظ کی حرمت کے منافی ہے۔یہ درحقیقت ایک وحشیانہ نظام ہے جس میں ایسے تمام افعال کی ترغیب اور اجازت دی جاتی ہے جو انسانی زندگی کی بقا اور اس کی تندرستی کے لئے انتہائی مضر ہیں۔ طب اور سماجیات سے متعلق اعداد و شمار چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ شراب نوشی، ہم جنسیت اور آزادانہ جنسی اختلاط ہر برس لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کو لقمہ اجل بناتے ہیں ۔لیکن چوں کی اس تہذیب سے سیکڑوں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور انڈسٹریز کے معاشی مفاد وابستہ ہیں اس لیے کروڑوں انسانی جان کی کوئی قیمت تسلیم نہیں کی جاتی۔کاروبار جاری رہنا چاہیے خواہ اس قیمت کی قیمت کسی بھی صورت میں چکانی پڑے۔


آزادی، مساوات، ترقی اور جدیدیت وغیرہ یہ چند بظاہر دلکش نعرے در اصل سوداگران عیش و ہوس کے ہاتھ میں مرد و خواتین کا استحصال کرنے اور انسانی کمزوریوں کی تجارت کے لئے سب سے موثر ہتھیار بن گئے ہیں ۔ انسانی کمزوریاں اب choices بن گئی ہیں اور سپریم کورٹ اور آئین پر بھی ان کااحترام لازمی ہو گیا ہے ۔ باہمی تضاد کی انتہا دیکھیے کہ جو لوگ جان کے حقوق کے نام پر سنگین قاتلوں کو بھی پھانسی دئے جانے کی مخالفت کرتے ہیں وہ ایسے کاروبار کی اجازت کی مانگتے ہیں جن کے نتیجے کے طور پر لاکھوں اموات ہوتی ہیں ۔وہ ان کروڑوں بچوں کے لئے کبھی آواز نہیں اٹھاتے جنہیں ہر سال ماں کے پیٹ میں قتل کر دیا جاتا ہے۔


نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی نظام مکمل طور پر درہم برہم ہو گیا ہے۔شادی شدہ مرد اور عورتوں کے ناجائز جنسی تعلقات اور ہم جنسیت کو جرم نہ قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بعد ہندوستان بھی جنسی اباحیت کے اسی مقام بربادی کی جانب تیزی سے گامزن ہو گیا ہے جہاں مغربی ممالک پہلے سے کھڑے ہیں۔ امریکہ میں 18 سال کی عمر ہونے سے پہلے پہلے کثیر تعداد میں لڑکیاں اسقاط حمل کرا چکی ہوتی ہیں۔نصف سے زیادہ بچے شادی کے بعد ناجائز جنسی رشتوں کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔50 فی صد سے زیادہ بچے یا تو صرف ماں کے ساتھ رہتے ہیں یا صرف باپ کے ساتھ۔پوری دنیا میں ہر سال کم و بیش 05 کروڑ بچے اسقاط حمل کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ کروڑوں خواتین جسم فروشی کے کاروبارمیں ملوث ہیں ۔ صرف ہندوستان میں ہی یہ تعداد 01کروڑ سے زیادہ ہے- پچھلے25سالوں میں 04 کروڑ سے زیادہ انسان ایڈز کے ہاتھوں موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ شراب ہر سال 30 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جان لے لیتی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ لوگ نشے کی حالت میں گاڑی چلانے کی وجہ سے یا نشے کی حالت میں قتل کرنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ ہم جنسیت بھی جنسی امراض اور ان کے ذریعے ہونے والی اموات کا ایک بہت بڑا سبب بن چکی ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم جنسیت کے شکار لوگوں کی اوسط عمر دوسروں کے مقابلے میں 20 سال سے 30سال تک کم ہوتی ہے۔


یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ اگر انسانی زندگی کی بقاء اہم ہے تو اس کی ضمانت ایک مضبوط خاندانی نظام ہے ۔اور اگر خاندانی نظام کو مضبوط کرنا ہے تو ان تمام طور طریقوںکے خلاف مہم چلانی پڑے گی جو صحت اور خاندانی نظام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ایک مہذب سماج میں شراب، ہم جنسیت اور آزادانہ جنسی اختلاط کے لئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے ۔ اگر کوئی ان کی وکالت کرتا ہے تو وہ انسانیت اور مہذب سماج کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے۔ اگر ان کے خلاف سماجی اور قانونی اقدامات کیے جائیں تو یہ انسانیت کی بڑی خدمت ہوگی۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights