مصطفی طحان – طلبہ تنظیموں کی دنیا کا درویش

0

محی الدین غازی

جب اسلامی طلبہ تنظیموں کی عالمی تنظیموں کا ذکر ہوگا تو مصطفی طحان کو ضرور یاد کیا جائے گا، 1940 میں لبنان میں پیدا ہوئے، بچپن سے نوجوانی تک شام میں رہے، کیمیکل انجینئرنگ میں ماسٹرس ترکی سے کیا، معاشی مصروفیت کے لئے کویت میں رہے، اور عمر کے آخری حصے میں ترکی میں رہے، اور وہیں پچیس ستمبر 2019 کو اناسی 79 سال کی عمر میں وفات پائی۔ قریب اسی سال کی طویل عمر میں وہ تنظیمی طور سے کبھی طالب علم کے مقام سے دست بردار نہیں ہوئے، اور ہمیشہ طلبہ تنظیموں کی عالمی تنظیموں کی قیادت کرتے رہے۔

انٹرنیشنل اسلامی فیڈریشن فار اسٹوڈنٹس آرگنائزیشنز IIFSO کی تاسیس میں شریک رہے، اور اس کے جنرل سیکریٹری بھی رہے، ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ WAMY کی تاسیس میں شریک رہے، اور آخر میں اسٹوڈنٹس آرگنائزیشنس یونین SOU کو قائم کیا اور اس کے جنرل سیکریٹری رہے۔ اسلامی لٹریچر کو دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ کرانے اور پھر انہیں شائع کرانے کے حوالے سے مصطفی طحان کی کوششیں یاد رکھی جائیں گی۔ جس طرح کسی طلبہ تنظیم کا متحرک ممبر بستی بستی محلہ محلہ اور کالج کالج جاتا ہے طلبہ تنظیم کی شاخیں قائم کرنے، مصطفی طحان اسلامی طلبہ تنظیموں کے قیام کی فکر لے کر دنیا کے ایک ایک ملک جاتے، اور اسلامی طلبہ تنظیموں کے قیام اور استحکام کے لئے کوشش کرتے۔

دنیا ان کے لئے ایک کالجوں اور محلوں پر مشتمل شہر کی طرح تھی۔ مصطفی طحان نے دنیا بھر کی اسلامی طلبہ تنظیموں پر قیمتی تعارفی دستاویزات بھی تیار کی ہیں۔ تحریک اور تربیت دونوں ان کے خاص موضوع رہے، اسلامی تحریک کے حوالے سے وہ بے باک تجزیوں اور جرات مندانہ تجویزوں کے لئے جانے جاتے تھے۔ ان کی متعدد کتابیں تحریک وتربیت کے میدان میں رہنمائی کا مقام رکھتی ہیں۔ ذیل میں ان کی خود نوشت ایک مسافر کے ورق در ورق (اوراق مسافر) کا ایک ٹکڑا ترجمہ کرکے پیش کیا جارہا ہے، تحریکی طلبہ کے لئے اس میں بڑا پیغام ہے: “میں گاؤں سے سلمیہ شہر آگیا، اور گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا، وہاں زیادہ وقت نہیں گزرا کہ طلبہ کے ایک گروپ سے تعارف اور پھر دوستی ہوگئی، ان میں سے کچھ میری طرح قریبی بستیوں سے تعلیم کے لئے آئے تھے، اور کچھ مقامی تھے۔ شہر میں مجھے پہلے سے کہیں زیادہ آزادی اور ذمہ داری کا احساس ہوا۔ اب مجھے اپنے روز مرہ کے اخراجات، کمرے کا کرایہ اور پرانی کتابوں کو سال گذشتہ کے کامیاب ہوجانے والے طلبہ سے حاصل کرنے کا انتظام کرنا تھا۔ اگر میں اپنی پوری عمر بھول جاؤں تو بھی اپنی زندگی کے اس مرحلے کے واقعات کو نہیں بھول سکتا ہوں۔ شہر کے نوجوان دو پارٹیوں میں منقسم تھے، عربی بعث پارٹی، جس کے نعرے عرب قومیت، اتحاد اور آزادی سے عبارت تھے۔ اور ان کا ایک خوش نما مگر پراسرار نعرہ تھا، “متحدہ عرب قوم کا زندہ جاوید مشن”، دوسری شام کی نیشنل پارٹی تھی جس کا علاقائی نعرہ تھا، “شام شامیوں کا ہے، اور شامی ایک مکمل قوم ہیں”۔

میری ہمدردی بعث پارٹی کے ساتھ تھی، سبب سادہ سا تھا، کہ نیشنلسٹ قیادتیں شہر میں فرقہ پرستی کی نمائندگی کرتی تھیں، جب کہ بعثی لیڈر عام لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ اس ہمدردی کے باوجود میں پارٹی کے آفس ایک بار بھی نہیں جاسکا تھا، میرے کچھ محبوب اساتذہ اور دوستوں کا شدید دباؤ بھی رہا کہ پارٹی کے آفس میں جاکر کچھ لکچر سنوں، لیکن میرے اندر کوئی چھپی ہوئی طاقت مجھے روکے رہی، اور اس ماحول سے دور رکھا۔ انسان کے ساتھ کچھ واقعات پیش آتے ہیں، وہ ان کی توجیہ نہیں کرپاتا ہے، بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو اللہ کا دست رحمت اور اس کی عنایت ومہربانی تھی جو اسے کسی خاص رخ پر لے جارہی تھی، یا کسی خاص کام یا اقدام سے روک رہی تھی۔ وہ 1954 کی کوئی ایک شام تھی، میرے سادہ سے کمرے میں کچھ دوست جمع تھے، اور سیاست پر بات کررہے تھے، گفتگو اس موڑ پر پہنچی کہ مصر میں اخوان المسلمون کے چھ قائدین کو سزائے موت دے دی گئی، ان ساتھیوں میں سے ایک نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی کتاب نکالی،

اس پر نام لکھا تھا، “اخوان کے شہداء پھانسی کی رسی کے سامنے”۔ ایک بعثی نوجوان نے کتاب لی، اسے حقارت سے دیکھا اور ایک طرف کو پھینک دیا، مجھے محسوس ہوا کہ اس کی نفرت بھری نگاہیں ماحول کو زہرآلود کررہی ہیں، اور اچانک مجھے لگا کہ ایک کپکپی مجھے اندر سے جھنجھوڑ رہی ہے، میں نے اس کے رویے پر شدید ناگواری محسوس کی، اور گفتگو کو آگے بڑھنے سے روک دیا، یہ کسی طور صحیح نہیں تھا کہ وہ جو ایک نظریے کی حمایت کے لئے مارے گئے ہیں، ان کی ہنسی اڑائی جائے یا ان سے نفرت کی جائے۔ نشست برخاست ہوئی تو مجھے اس کتاب کو پڑھنے کی شدید خواہش محسوس ہوئی۔ میں نے اس کتاب میں 23 جولائی 1952 کے انقلاب کا خلاصہ پڑھا، اور یہ کہ ان فوجی افسروں نے کس طرح اخوان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ مصر میں اسلامی بنیادوں پر حالات کو درست کریں گے، اور کیسے جمال عبدالناصر اور اخوان المسلون کے بیچ میں اختلاف پیدا ہوا، اور کیسے اس نے ان کی تنظیم پر پابندی لگائی، اور ان کے قائدین کو موت کے گھاٹ اتارا، تاکہ وہ تنہا مصر پر حکومت کرے، اس کی ایک بات پر مصر اٹھ کھڑا ہو، اور ایک دوسری بات پر بیٹھ جائے، پھر کتاب میں ان چھ لوگوں کا تذکرہ ہوا جنہیں سزائے موت دی گئی تھی، وہ علم اور جہاد کی نمایاں شخصیات تھیں، خاص طور سے عبد القادر عودہ، محمد فرغلی اور یوسف طلعت۔

یہ میری زندگی کا فیصلہ ساز موقع تھا، رات گزری، اس رات میں نے فجر کی نماز ادا کی، اور رات گزرتے گزرتے اس داستان کے آغاز کو اچھی طرح سمجھ لیا، اور اس کے اختتام کو ٹھیک سے سوچ لیا۔ اور پھر فیصلہ کرلیا کہ اللہ رب العالمین کی طرف رواں دواں ایمان والوں کے اس قافلے میں شامل ہوجاؤں گا۔ اس رات میں نے اپنے آپ کو پالیا، اور اگلے دن سے پھر دوسری طرح کے دوستوں کی تلاش شروع کردی، میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنی زندگی کا ایک نیا ورق کھولوں گا۔ اس نکتے پر کچھ دیر ٹھہرنا چاہئے، جب آدمی اپنے فکری رخ کو تبدیل کرتا ہے، تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ ایک نئی زندگی شروع کررہا ہے، پہلے سے بدلا ہوا ماحول، پہلے سے بدلے ہوئے پڑوسی، پہلے سے بدلے ہوئے دوست، یہاں تک کہ مطالعہ کی کتابیں بھی بدل جاتی ہیں، رویہ بھی پرانا والا نہیں رہتا ہے۔ رہی یہ بات کہ آدمی اس طریقے کی کچھ چیزوں کو لے لے اور انہیں دوسرے طریقے میں ملا کر معجون مرکب بنالے، تو اس سے کام خراب ہوجاتا ہے، اور عقل وجدان اور روح کسی کو بھی بلندی نصیب نہیں ہوتی ہے۔ اسکول میں ہم لوگ تمام طلبہ سے زیادہ سرگرم اور متحرک رہتے تھے۔ طلبہ اور اساتذہ کی اکثریت بعث پارٹی سے تعلق رکھتی تھی، لیکن ہمیں سب کی طرف سے احترام حاصل تھا. اس مرحلے میں پہلا سبق میں نے یہ سیکھا کہ داعی کو اپنے طلبہ ساتھیوں کی پسندیدگی اور اپنے اساتذہ کی قدرافزائی ضرور کوشش کرکے حاصل کرنی چاہئے، جو اپنا احترام کرتا ہے، اس کا دوسرے احترام کرتے ہیں، خواہ خیالات میں کتنا ہی اختلاف ہو، اور نظریات کتنے ہی الگ الگ ہوں، یہ ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ سنجیدہ افکار کے حاملین کو تعلیم کے میدان میں غیر سنجیدہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔”

(ترجمہ محی الدین غازی)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights