کلچرل نیشنلزم : چند قابل غور نکات

0

محمد معاذ


معلوم انسانی تاریخ کے مطالعے سے یہ امر عیاں ہوتا ہے کہ ابن آدم ابتداء ہی سے سماجی زندگی گزارتا چلا آرہا ہے۔ سماجی زندگی کی شروعات گھر اور خاندان سے ہوتی ہے پھر اس کے بعد یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ باہمی تعلقات اور سماجی ڈھانچوں (Social Structures)کی بنیادوں میں اہم اساس زبان اور تہذیبی ورثہ کا اشتراک ہے۔ ہم لسان اور مشترک روایات کے حامل افراد سے انسان فطری طور پر قربت محسوس کرتا ہے۔ اور بسا اوقات اس قربت و محبت کے نتیجہ میں دیگر گروہوں کے خلاف عصبیت کا مظاہرہ کربیٹھتا ہے۔ اسی لیے اس کمزوری کے پیش نظر قرآن ہدایت دیتا ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو۔ اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے‘‘۔ (النساء: 135)اس آیت کریمہ کی رو سے انسانی تعلقات چاہے وہ والدین یا اولاد کا رشتہ کیوں نہ ہو ، دوسروں کے ساتھ حق تلفی اور ناانصافی کے لیے وجہ جواز نہیںبن سکتا۔


آج جدید معاشرے میں سماجی اتھل پتھل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان اس بزعم خود میں مبتلا ہے کہ میں اپنے گروہ اور قوم کا خیر خواہ ہوں۔ جب کہ حقیقی خیر خواہی یہ ہے کہ اگر ہمارا بھائی بے جا ظلم کر رہا ہو تو اس کو اس حرکت بد سے باز رکھا جائے اور اسے خیر کی تلقین کی جائے۔ قوم کے عناصر ترکیبی میں جب بنیادی عنصر مشترک تہذیب و تمدن قرار پائے تو اس کو کلچرل نیشنلزم یا ثقافتی قومیت کہا جاتا ہے۔ سماجی علوم کے طلبہ جانتے ہیں کہ یہ اصطلاح ما بعد آبادیت اور رد نو آبادیت کی پیداوار ہے۔ کلچرل نیشنلزم کی بنیاد پر تعمیر سماج میں دیگر محروم اقتدار گروہوں کو اس بات کی اجازت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اپنا تہذیبی تشخص برقرار رکھ سکیں۔ یہ نظریہ دیگر مذہبی اقلیتوں سے اصرار کرتا ہے کہ وہ اپنی روایات اور اقدار (Values)سے دست بردار ہو کر ان کے ہی رنگ میں رنگ جائیں۔ دیگر لسانی اور مذہبی اکائیاں جن کے سماجی مظاہر اور طور طریق غالب اکثریت سے الگ ہوتے ہیں، کلچرل نیشنلزم کے نتیجے میں اجنبیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔


کلچرل نیشنلزم کے نتیجے میں ایک طبقہ مستقل طور پر احساس برتری کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو ملکی وسائل کا تنہا مالک سمجھنے لگتا ہے۔ جب کہ دوسرے طبقات احساس محرومی سے دوچار ہونے لگتے ہیں۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سماج میں عدم مساوات کو بڑھاوا ملنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ وسائل حیات پر ایک مخصوص طبقہ کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ تہذیبی قومیت کا تصور عمرانیات ثقافتی رنگا رنگی (Cultural Diversity) کی عین ضد واقع ہوا ہے۔ مابعد جدیدیت نظریات کے مطابق سماج میں مختلف خیالات، رویوں اور تہذیبوں کی موجودگی قابل تحسین ہے اور انسانی ارتقاء کے لیے ناگزیر بھی ہے۔
قرآن اس امر واقعہ کو بیان کرتا ہے کہ قبائل، برادریاں پہچان کا اہم ذریعہ ہیں لیکن فخر کی وجہ ہر گز نہیں۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے : ’’لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے ۔ جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (سورہ الحجرات:13) اسی طرح قرآن یہ بھی اعلان کرتا ہے کہ ہر بنی آدم قابل تکریم ہے۔کثیر مذہبی معاشرے میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ دین حق کی وضاحت اہل ایمان کی جانب سے جاری رہے گی لیکن کسی بھی فرد یا گروہ کو جبراً قبول اسلام نہیں کرایا جائے گا۔ علاوہ ازیں دیگر اہل مذاہب کے علماء و دانشوران سے مکالمات (Dialogues) جاری رہیں گے۔ اور خیر و فلاح کے کاموں میں سب کا تعاون بھی کیا جائے گا۔

مولانا مودودیؒ تہذیبی قومیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’دوسری قسم کی قومیت وہ ہے جسے تہذیبی قومیت کہا جاتا ہے۔یہ قومیت صرف ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جن کا مذہب ایک ہو ، جن کے خیالات و نظریات و حسیات یکساں ہوں، جن میں ایک ہی طرح کے اخلاقی اوصاف پائے جاتے ہوں، جو زندگی کے تمام اہم معاملات مین ایک مشترک زاویۂ نگاہ رکھتے ہوں اور اسی زاویہ نگاہ کے اثر سے ان کی زندگی کے تہذیبی و تمدنی مظاہر میں بھی یک رنگی پیدا ہو گئی ہو، جو پسندیدگی و ناپسندیدگی اور حرمت و حلت اور تقدیس و استکراہ کے مشترک معیار رکھتے ہوں، جو ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھتے ہوں، جو ایک دوسرے کے اعداد و خصائل اور دلچسپیوں سے مانوس ہوں، جن میں آپس کی شادی بیاہ اور مشترک معاشرت کی وجہ سے خونی اور قلبی رشتے پیدا ہو گئے ہوں، جنہیں ایک ہی قسم کی تاریخی روایات حرکت میں لا سکتی ہوں، مختصر یہ کہ وہ ذہنی، روحانی ، اخلاقی اور تمدنی و معاشرتی حیثیت سے ایک گروہ ایک جماعت ، ایک وحدت بن گئے ہوں‘‘۔(مسئلہ قومیت ص 140تا 145)


وطن عزیزہندوستان کی ترقی و استحکام کی لیے ضروری ہے کہ یہاں پر موجود مختلف مذہبی اکائیوں کو فکر و عمل کی آزادی حاصل ہو۔ پھر بلا کسی جبر کے مختلف طبقات کے درمیان معروف اور خیر کے کاموں میں تعاون ہواور کوئی بھی گروہ کسی دوسرے لسانی و تہذیبی گروہ کے شعائر کا مذاق نہ اڑائے۔ ملک کی ترقی و بقا کے لیے ضروری ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والے افراد کھلی فضا میں اپنے رسوم و رواج کو ادا کر سکیں ، اپنے طریقے کے مطابق عبادات کو بجا لائیں اور کسی قسم کے ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہوں۔ ملت اسلامیہ ہند کے افراد کو اس امر کا اہتمام کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ہم وطن بھائیوں کے لیے باعث خیر بنیں اور اپنے عمل سے بندگی رب پر استقامت کا ثبوت دیتے رہیں۔


تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights