جماعت اسلامی جمو کشمیر سے پابندی کیوں ہٹائی جائے؟

0

بھٹ فرمان

جماعت اسلامی جموں و کشمیر جماعت اسلامی ہند سے مختلف ایک سماجی اور سیاسی تنظیم ہے. یہی وجہ ہے کہ سیاسی اختلافات کی بنا پر جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے اپنے آئین کو 1953ء میں تشکیل دیا. جماعت کا بنیادی مقصد مذہب کے راستے سماج میں مثبت تبدیلی لانا اور کشمیر کے متوسط طبقے کے اندر سائنسی علوم کا شعور بیدار کرنا ہے. 


کچھ دنوں پہلے جموں و کشمیر پولیس نے جماعت اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر حامد فیاض سمیت 200 ارکان کو گرفتار کرلیا، اس کے بعد حکومت ہند کے اس فیصلے نے سب کو حیرت زدہ کردیا جب وزارت داخلہ نے جماعت کی سرگرمیوں کو ہندوستان کی سالمیت کے لیے خطرہ بتاتے ہوئے جماعت اسلامی پر پابندی کا فرمان جاری کیا.یہ پہلی بار نہیں تھا کہ جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی تھی، بلکہ 1975 میں جب اندرا گاندھی نے ہنگامی طور پر ہندوستان میں ایمرجنسی لگانے کا اعلان کیا تھا، اس وقت بھی جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی تھی. پھر 1990 میں جماعت پر پابندی عائد کردی گئی اور اسے ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیا گیا، پابندی کے بعد جماعت کے ہزاروں افراد کو ہلاک کر دیا گیا، اور ایک بڑی تعداد کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں گرفتار کرلیا گیا. 


پابندی کے گزشتہ عرصے کی طرح، یہ دوبارہ کشمیر کی عوام کے لئے ناقابل قبول بن گیا. اس وقت جماعت پر پابندی پر نا صرف حریت کے رہنماؤں کی طرف سے تنقید کی گئی بلکہ بڑے سیاستدانوں نے بھی اپنی آواز کو جماعت کے حق میں اٹھایا. سابق وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر محبوبہ مفتی نے کہا کہ ”جمہوریت افکار و نظریات کی جنگ ہے. جماعت اسلامی پر پابندی کے ساتھ انتقامی کاروائی قابل مذمت ہے، اور یہ جموں و کشمیر کے سیاسی معاملات سے نمٹنے کے لئے حکومت ہند کی طرف سے اٹھائے گئے سخت اقدامات میں سے ایک ہے.”


حکومت ہند کے ذریعہ جماعت اسلامی پر پابندی لگانے سے ہر کشمیری ناراض ہے جس کی بنیادی وجہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کا وہ کردار ہے جو اس نے سماجی و سیاسی تنظیم کے طور پر ادا کیا ہے.کشمیری عوام اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ جماعت اسلامی سے منسلک افراد نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ ایماندار اور مددگار بھی ہیں. ذیل میں میں جماعت اسلامی کی کچھ مخفی خدمات کو اجاگر کروں گا.

Courtesy scroll.in


سماجی خدمات:

جماعت اسلامی جموں و کشمیر، کشمیر کی ایک واحد تنظیم ہے جس کے ارکان ہمیشہ سماجی کام میں فعال کردار ادا کرتے ہیں. 2014 کے سیلاب کے دوران جب ریاستی حکومت کشمیر کے سیلاب سے متاثر افراد کے لئے کچھ بھی کرنے میں ناکام رہی، اس وقت صرف جماعت اسلامی کے ہی افراد تھے جنہوں نے دن رات محنت کرکے جنوبی کشمیر کے ساتھ ساتھ دارالحکومت سری نگر میں بھی رفاہی کام کیا اور متاثر افراد کو بچانے، انہیں امداد فراہم کرنے، فری میڈیکل جانچ اور دوائیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے افراد کو گھر بھی فراہم کیا. 


خبرنامہ “کشمیر لائف” کی رپورٹ کے مطابق حکومتی سطح پر جب تک راحت رسانی کا کام شروع ہوتا، جماعت اسلامی نے ہزاروں متاثر افراد کو بچالیا تھا جس میں ایک کشمیری پریس اہلکار عبیدالرحمان بھی شامل تھا.


جس وقت عبیدالرحمان کو اپیکس ہوٹل راج باغ سری نگر سے بچا رہے تھے اسی دوران انہوں نے ایک لڑکی کو دیکھا جوکہ بدحواسی کے عالم میں اپنے گمشدہ بھائی کو تلاش کررہی تھی. وہ ان کی آنکھوں کے سامنے ڈوب کر مر گئی، انہوں نے اس کو بچانے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں ناکام رہے. بعد میں انہوں نے اس کی لاش کو باہر نکال کر اس کے گھر والوں کے حوالے کردیا.


حال ہی میں جماعت اسلامی نے غرباء کے لیے فری ایمبولینس سروس شروع کی، جماعت یتیم خانے بھی چلاتی ہے اور صوبہ کے رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے.


میں یہاں نیوز کلک کے حوالے سے sagrika kissu کی ایک رپورٹ نقل کرنا چاہتا ہوں جس میں وہ لکھتی ہیں کہ “جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگنے سے صوبہ میں چل رہی مختلف رفاہی سرگرمیاں رک گئیں، جس کی وجہ سے لوگوں کے اندر کافی ناراضگی اور غصہ ہے.


بجبہرا ساؤتھ کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بات کہی کہ “میں ایک بیوہ ہوں میری تین لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے، جماعت مقامی بیت المال سے(کسی کو بتائے بغیر) گزشتہ سات سال سے میرے اخراجات اٹھا رہی تھی، جماعت پر پابندی میری زندگی کو اجیرن کردے گی، میں حکومت سے سوال کرتی ہوں کہ میرے اور مجھ جیسے ہزاروں افراد کا خیال اب کون رکھے گا؟ حکومت ہمارے لیے فکر مند نہیں تھی اسی وجہ سے جماعت تھی.


تعلیم:

جماعت اسلامی میں قابل و تعلیم یافتہ اور گہرے مطالعے کے حامل افراد کا جم غفیر موجود ہے۔ جس وقت ریاست میں ناخواندگی عروج پر تھی جماعت نے جدید تعلیم کے فروغ کے لئے فلاح عامہ ٹرسٹ کے تحت ریاست کے کونے کونے‌میں کئی ماڈرن اسکولس کا جال بچھایا۔ بعد ازاں اس ٹرسٹ کو خود مختار حیثیت دے دی گئی۔ فلاح عام ٹرسٹ کی جانب سے جموں و کشمیر میں تقریباً 350 اسکولس چلائے جارہے ہیں۔ فلاح عامہ ٹرسٹ کے سابق طلبہ نے اپنے کھلے خط میں ٹرسٹ کے بارے میں لکھا ہے کہ:”ہم نے ٹرسٹ کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے اور ہم کمزور طبقات میں تعلیم کے فروغ اور سماجی نشونما کی خاطر پرامن اور تعمیری انداز میں ٹرسٹ کی جانب سے انجام دی جانے والی انتھک کوشش اور مسلسل جدوجہد کے گواہ ہیں۔ ٹرسٹ کے کسی اسکول نے کبھی بھی ہمیں سماج مخالف کام کرنے پر نہیں ابھارا اور نہ ہی قانون کو توڑنے کی بات کہی۔ ٹرسٹ نے ریاست میں کئی لاکھ ایسے شہریوں کی کھیپ کی کھیپ تیار کی ہے جو آج جموں و کشمیر کے تقریباً ہر محکمہ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ چاہے وہ لیجسلیٹر کی شکل میں ہوں یا ججس کے لباس میں، چاہے وہ ڈاکٹرس، انجنئیرس،اساتذہ و انتظامیہ کی خدمات انجام دے رہے ہوں یا دیگر محکمہ جات میں موثر رول ادا کرنے والے ٹرسٹ سے تعلیم یافتہ افراد گویا ریاست کو چلارہے ہیں۔ ٹرسٹ کے فارغین ریاست میں اچھی حکومت چلانے میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ ان اسکولوں میں غریب اور ضرورتمند لوگوں کی مدد کی جاتی ہے جہاں مذہب، ذات پات اور رنگ و نسل کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔


مذہبی یگانگت:

اپنی ابتداء سے ہی جماعت اسلامی نے مذہبی اتحاد پر توجہ مرکوز کی ہے۔ جماعت کے مؤسس مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے خود اپنی زندگی مسلمانوں کے فرقوں کو اسلام کے بینر تلے متحد کرنے کی کوشش میں لگادی۔ جماعت نے اپنے بانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اتحاد پر کافی دھیان دیا جیسا کہ انڈین ایکسپریس کی خبر میں تہاب نامی گاؤں کے ایک مکین نے کہا:”جماعت کوئی فرقہ نہیں ہے جو اپنی الگ مسجد چلاتا ہو،” جماعت کے انتظامیہ میں چلنے والی مساجد میں ہر مسلک کے لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ کیا صوفی کیا تبلیغی، کیا دیوبندی کیا سلفی غرض ہر کوئی ان مساجد میں نماز پڑھ سکتا ہے۔ آپ کسی مسجد کو لیبل نہیں لگاسکتے کہ یہ جماعت کی مسجد ہے۔


ویمن ایمپورمنٹ:

جماعت نے خواتین کی آزادی کو لے کر اہم کردار ادا کیا ہے. جماعت نے خواتین کے حقوق کے لیے مہم کیا آغاز کیا. خواتین کو آگے بڑھایا اور انہیں اپنے حقوق جیسے کہ ملکیت کا حق، کمانے کا حق، تعلیم کا حق جو کہ اسلام نے انہیں عطا کیا، اس کے متعلق باشعور بنایا.


جماعت نے خواتین کے حقوق کے لیے نہ صرف مہم چلائی بلکہ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعۃ البنات نامی ادارہ بھی قائم کیا. اس ادارے میں عصری تعلیم کے علاوہ سلائی جیسے مہارتی کام بھی سکھائے جاتے ہیں تاکہ لڑکیاں اپنے لیے اور اپنی فیملی کے لئے بآسانی معاش کا انتظام کرسکیں.


جماعت اسلامی جموں کشمیر کے اس کردار کو نظر میں رکھتے ہوئے کوئی بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ کشمیریوں کے لئے جماعت اسلامی کیا معنی رکھتی ہے. ایک عام کشمیری کی حیثیت سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جماعت اسلامی غیر قانونی نہیں بلکہ سماجی خدمات والی سرگرمیاں انجام دیتی ہے. 90 کی دہائی میں کشمیر میں تشدد بھڑک اٹھنے کے بعد 1998 میں امیر جماعت اسلامی جموں کشمیر غلام محمد بھٹ نے یہ واضح کردیا تھا کہ جماعت کا عسکریت پسند تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں. اس کے بعد سے آج تک جماعت اپنی سماجی و ملی خدمات کو پرامن انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں. تاہم حکومت نے اتوار کی شب کو کہا کہ جماعت اسلامی جموں کشمیر کی نگرانی میں چلنے والے اسکولز، مساجد اور یتیم خانے اس پابندی سے بری کئے گئے ہیں. اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس فیصلے سے ہزاروں بچوں کا مستقبل محفوظ ہوا ہے لیکن حکومت ہند کو چاہیے کہ وہ جماعت اسلامی جموں کشمیر پر سے پابندی کو کالعدم قرار دے اور اس کے ارکان کو رہا کیا جائے تاکہ جو سماجی کام جماعت کی جانب سے کیا جاتا ہے وہ اثر انداز نہ ہو.

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights