منڈل کمیشن کے بعد تعلیمی اداروں کا جائزہ

0

منڈل کمیشن کے بعد تعلیمی اداروں کا جائزہ
تخلیق علم کے متبادل طریقوں کا ادراک


طاہر جمال کے ایم

عام طور پر یونیورسٹیز اور اعلی تعلیم کے اداروں کو انسانی سماج، بلکہ ملک کا آئینہ تصور کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں اور طلبہ کے عزائم کو اسی بنیاد پر جانچا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہی مستقبل کی نسل کے معمار ہیں۔ لیکن تعلیمی ادارے کی وہ قسم جسے ملک کے سماج کی نمائندگی کرنے کا حق حاصل ہے،صرف مخصوص قسم کے نوجوانوں کے عزائم ہی کا علمبردار ہوتی ہے اور عام طور پر ملک میں تعصب و امتیاز پر مبنی چودھراہٹ پر تنقید کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ منڈل کمیشن کے بعد دلت اور مسلم طبقوں میں آئی بیداری نے ہماری یونیورسٹیز کو ان طبقوں کے طلبہ کو بھی تعلیم کے پروسیس میں شامل کرنے پر مجبور کردیا جنہیں کبھی حاشیہ پر رکھا جاتا تھا۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یونیورسٹیز میں ان طبقات کے سیاسی و سماجی عزائم بالکل عیاں ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ہونے والے خودکشی کے حادثات اور ڈراپ آؤٹس کے مسائل کو، جن کی مثالیں نام نہاد ‘اعلی یونیورسٹیزکے ورثے میں نہیں پائی جاتیں، اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ہماری اشرافیہ کی ‘شاندار یونیورسٹیز برسوں کی شاندار روایت رکھتی ہوں گی، لیکن ان اداروں میں دلت- مسلم طلبہ کی قابل ذکر موجودگی محض چند سال ہی پرانی ہے۔


ریاست کے دوسرے اداروں کی طرح اب تک یہ ‘مقدس تعلیمی ادارے بھی ‘ منافرت پھیلانے والے افراد کی موجودگی سے ‘پاک تھے۔ منڈل اور بابری کے دو دہائیوں کے بعد بھی ہندوستان کا دانشور طبقہ جامعیت اور تنوع کا محض مصنوعی دعویٰ ہی کرتا ہے۔ نوجمہوری تحریکات سے متعلق سوالات اور شناخت کی بنیاد پر امتیاز بھی پیچھے نہیں چھوڑا گیا۔ کیا مسلم-دلت-پسماندہ طبقات کو ‘مقدس سیکولر اداروںمیں اپنے احساسات پیش کر نے کی اجازت دی جانی چاہئے؟ معروف خیال یہ تھاکہ ’’ان طبقات کو مخصوص ذات برادری کے لئے مختص اداروں کے تقدس اور حسن و جوہرکو پامال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دینی چاہئے۔‘‘ (گویا اعلی ذات کا ٹیگ عوامی شعبہ جات میں ایک عام بات ہے)۔ ان مباحث کا ماحصل تعلیمی اداروں میں طلبہ کو انتہا پسندی سے محفوظ رکھنے کی تجاویز کی شکل میں سامنے آیا۔

وزیر اعظم نے ستمبر 2011 میں منعقدہ نیشنل انٹیگریشن کاؤنسل (NIC) کی میٹنگ میں کہا کہ ’’ہمارے بعض نوجوانوں کی انتہاپسندی کے اسباب کو پہچاننے اور ان سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ واضح طور پر ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لئے ملازمت اور روزگار کے سیرحاصل مواقع کی کمی اس قسم کی انتہاپسندی کے پیچھے ایک اہم سبب ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے میں تعلیم اور صلاحیتوں کے ارتقاء کو کلیدی رول ادا کرنا ہے۔‘‘ تب این آئی سی نے تعلیمی اداروں میں لانچ کرنے کے لئے مؤثر پروگرام پیش کئے تھے۔ جس کا مقصد ‘اکیڈمک خطرات کا قلع قمع کرنا تھا۔ ان کے نزدیک اس مسئلے کی بنیاد نوجوان مرد و خواتین کے لئے بقدر ضرورت روزگار کی عدم موجودگی تھی۔ ان کے مطابق اس ‘مسئلےکے حل کے لئے تعلیم اور صلاحیتوں کے ارتقاء کو کلیدی رول ادا کرنا تھا۔ مسئلے کے اس حل کا تعلق اقلیتی طبقات کو ‘مہذب بنانے اور انہیں مین اسٹریم میں لانے کی برہمن طبقے کی ‘ٹھیکیداری سے ہے۔


اعلی تعلیمی اداروں میں دلت طلبہ کی معتد بہ تعداد کے خودکشی کرنے کی حالیہ اطلاعات کے ذریعے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔ ’’ نصاب کی تیاری سے لے کر کلاس روم کے اسٹرکچر تک ذات پات کا نظام مختلف رول ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کالی کٹ یونیورسٹی میں بی اے انگریزی کی کتاب، انڈین بلوسمس (Indian Blossoms) میں دس مختلف تخلیق کاروں کی نظمیں اور کہانیاں شامل ہیں۔ ان دس میں سے چھ کا تعلق برہمن خاندانوں سے ہے۔ (بلا شبہ انڈین بلوسمس دراصل ‘برہمن بلاسمس ہے!) ۔ پسماندہ طبقات کے طلبہ کی اکیڈمک توہین ہم-طبقہ طلبہ کی کمی اور نصاب اور کتاب میں ان کے دانشوروں کی نمائندگی کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ ما بعد منڈل کمیشن تعلیمی صورتحال کی بحث میں اس ‘کمی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، جو کہ پسماندہ طلبہ کی تکلیف میں اضافہ کا باعث ہے۔بلا شبہ ایک استاد اور طالب علم کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ذات، مذہب اور علاقہ کا اب بھی غلبہ ہے۔ اجتماعی شعبوں میں ان شناختوں کے ظاہر ہوتے ہی تعصب و امتیاز کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

یونیورسٹیز میں ‘اسکالرشپ طلبہ کے لئے ایک ایسا ٹیگ بن جاتی ہے۔ جس کی بنیاد پر لوگ انہیں ناقص یا نااہل تصور کرنے لگتے ہیں۔ کسی طبقے کی ظاہری علامات مثلا مسلم نام یا حجاب و برقعہ وغیرہ کو اکثر تعلیمی تفوق کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے۔ تعلیمی تفوق کی دوڑ میں ان طبقات کو نظر انداز کردیا جائے گا اور اس کا ذمہ دار اس طبقے کے مسائل کو قرار دیا جائے گا۔ ان طبقات کے مسائل کا محض تجزیہ کرتے رہنے کی بجائے تعلیمی میدان میں ان طبقات کو قبول کرنے کے سلسلے میں امتیازی رویے پر گفتگو کرنی ہوگی۔ ایک ‘کشمیری طالب علم ہمارے ملک کی سالمیت کے لئے بڑا ‘خطرہ ہے۔ اسے ہمیشہ ایک غصہ دلانے والے مفت خور کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اعلی طبقوں کے طلبہ کے نام میں نمایاں طور پر موجود مختلف ذاتوں کو جمہوری سیکولر فضا کے لئے کبھی خطرہ نہیں باور کیا جاتا ہے۔ لیکن کسی دلت کی جانب سے محض غالب ذاتوں کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پراس کی ذات پر اصرار کو عوامی تحفظ کے لئے ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ان کی جماعت کو مستقل وبائی اندیشہ مانا جاتا ہے۔ ان کا وجود جدیدیت کی راہ کا روڑا تصور کیا جاتا ہے۔ ملک کا دانشور طبقہ بھی پسماندہ طلبہ کی نااہلی کا حل یہی بتائے گا کہ دقیانوسی طور طریقے رکھنے والی کمیونٹی پر اصرار کی بجائے وہ خود کو ملک کی سالمیت کے معروف بیانئے کےساتھ ہم آہنگ کرلیں۔ رہے وہ لوگ جو کلچر اور ثقافت کی اس اجارہ داری کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو انہیں بنیاد پرست، دہشت گرد یا پھر ماؤنواز قراردیا جائے گا۔ پسماندہ طبقوں کے طلبہ اگر اپنا ذاتی کمرہ تلاش کرکے اسی میں رہیں اور مین اسٹریم طلبہ تنظیموں مثلا ایس ایف آئی یا اے بی وی پی کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنا تعلیمی سفر جاری رکھیں تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ لیکن جیسے ہی وہ اپنی شناخت بطور مسلم، پسماندہ یا دلت ظاہر کرتے ہیں اور اپنی خود کی اجتماعیت تشکیل دیتے ہیں، منظرنامہ یکایک تبدیل ہوجاتا ہے۔ ان کی اجتماعیت لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بن جاتی ہے۔ طلبہ سے گفت و شنید کی زحمت گوارا کیے بغیر ایڈمنسٹریشن پولس کو بلا لائے گا۔ ان طلبہ کے سوالوں کا جواب دینے سے ایڈمنسٹریشن ڈرتا ہے اس لئے پولس کو بلا لاتا ہے تاکہ پولس جواب دے۔


بھارت میں سیکولر جمہوری فریم ورک میں نیشن اسٹیٹ کا تصور ہمیشہ پہلے سے طاقتور طبقہ کو مزید طاقتور بناتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہندتوا کے جابرانہ اور متشدد دعوؤں کو بالکل نارمل بات سمجھی جاتی ہے جب کہ پسماندہ طبقات کی جانب سے حصول انصاف کے لئے لگائے جانے والے کسی نعرے پر، کسی بھی تحریک اور جدوجہد پر غیر سیکولر، بنیادپرستی، دہشت گردی، علاحدگی پسندی اور وطن سے غداری کا سستا بھونڈا الزام عائد کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ پسماندہ طبقات کے مطالبات کو قومی سالمیت کے لئے خطرناک ثابت کردیا جاتا ہے۔ پھر اعلی ذات پر مشتمل غالب طبقہ ‘قومی مفادکا ٹھیکہ لے کر سامنے آجاتا ہے۔ اس صورتحال سے تعلیمی ادارے بھی بچے ہوئے نہیں ہیں۔ ‘طلبہ برادری کے مسائل ‘اعلی ذات کی طلبہ برادری کے مسائل کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ۔ سودھا ک ف لکھتی ہیں:’’ کس بات کو ’طلبہ کا مسئلہ‘ کہا جاسکتا ہے اور کس بات کو نہیں، اس کا تعین بھی ذات پات کے اسی تعصب کے معیار پر ہوتا ہے جس کی بنیاد پر EFLU جیسے مؤقر ادارے میں کسی طالب علم کو داخلہ دیا جاتا ہے یا داخلہ رد کردیا جاتا ہے۔‘‘اب تک حاشیے پر رکھے گئے دلت-مسلم سماج کے ان طلبہ کے ذریعے تعلیمی اداروں میں اٹھائے گئے بنیادی سوالات نے سوالات کے اس روایتی شاکلے کو توڑ دیا ہے جن میں دایاں محاذ یا بایاں محاذ مرکوز گفتگو ہوتی تھی۔ اگر دائیں محاذ نے جس کے سر پر ہندتوا سیاست کا ہاتھ ہے، ان سوالات کا جواب تشدد سے دیا ہے تو بائیں محاذ نے انہیں غیر سیاسی، فرقہ پرستانہ اور انتہا پسندانہ قرار دیا ہے۔

جب ان سوالات نے ایک منظم عملی تحریک کا روپ دھار لیا تب خود بائیں محاذ نے بھی اس کا جواب تشدد ہی سے دیا۔ ایس ایف آئی کے اوباشوں کے ذریعے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں امبیڈکر اسٹوڈنٹس اسوسی ایشن اور بہوجن اسٹوڈنٹس فرنٹ کے وابستگان کو مسلسل زدوکوب کیا جانا، اور کیرالا کے تعلیمی اداروں میں ایس ایف آئی ہی کے ذریعے ایس آئی او کے طلبہ کو جسمانی اذیت پہنچانا اس کی محض چند مثالیں ہیں۔ پسماندہ طبقات کی یہ تحریک اعلی ذات کے طلبہ کی تحریکات کی طرح محض نام نہاد تحریک بطور فیشن نہیں تھی بلکہ ان کی تحریک ان کے عین وجود کی لڑائی لڑنے کے لئے تھی جس میں ان کی زندگی کے سچے تلخ تجربات بھی شامل تھے۔

دانشورانہ اکیڈمک سرگرمیوں سے دانشورانہ سیاسی تجربے تک کے اس سفر نے دانشور طبقے میں سیکھنے اور تخلیق علم کے روایتی طور طریقوں کی بھی تشکیلِ نو کردی۔ ان کی ان اعلی اکیڈمک جدوجہد میں مداخلت نے قوت کے ان مراکز تک رسائی حاصل کرنے کے عزم سے تحریک حاصل کی ہے جن سے اب تک انہیں محروم رکھا گیا تھا۔ اگر ہم مختلف نسلوں میں خواندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ دلت اور مسلم کی اپنے خاندان، طبقہ یا علاقہ سے پہلی نسل ہے جو اعلی تعلیم حاصل کررہی ہے۔ جب کہ اعلی ذات والوں کی یہ تیسری اور چوتھی نسل ہے جو اعلی تعلیم حاصل کررہی ہے۔ یہ حقیقت اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ تعلیم کے محاذ پر اقلیتی طبقات پر کتنی زیادہ خصوصی توجہ صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس میں جنس اور صنف کا مسئلہ بہت زیادہ اہم نہیں ہے۔ اس لئے کہ اَپرکاسٹ سے تعلق رکھنے والی طالبات اعلی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ اگرچہ کہ وہ اپرکاسٹ مردوں سے ایک نسل پیچھے ہیں لیکن پسماندہ طبقات کے طلبہ سے دو نسل آگے ہیں۔


ایک طرح سے مسلم طلبہ کا وجود ایک غلط سانحے، انہدام بابری مسجد کا مثبت اثر ہے۔ اس طرح اس نوحاصل شدہ شعور کے ذریعے وہ برہمن اجارہ داری اور طاقتوں کے لئے ایک ‘مخصوص چیلنج ثابت ہورہے ہیں۔ اور وہ ایسا کرنے میں محض اپنے اس نام اور اس شناخت کے ذریعے کامیاب ہورہے ہیں جس نام وشناخت کی بنیاد پر نام نہاد اشرافیہ کے حلقے میں ان کی آواز کو خاموش کردیا جاتا تھا۔


کسی تعلیمی ادارے میں ایک مسلم ہونا، ایک دلت یا ایک خاتون ہونے سے زیادہ مشکل ہے۔ مسلم طلبہ کی ایسی اجتماعیت جو اپنے آپ کو کسی سیکولر دائیں یا بائیں محاذ سے نہیں جوڑتی، قومی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ باور کی جاتی ہے۔ حیدرآباد مرکزی یونیورسٹی میں ایک کشمیری طالب علم نے اس پر روشنی ڈالی ہے کہ امبیڈکر اسوسی ایشن میں مسلم وقار اور مسلم ثقافت پر گفتگو کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ مزید یہ کہ ایڈمنسٹریشن اور ریاست کے ضابطے اور پیمانے مسلم طلبہ کے لئے زیادہ سخت ہیں جنہیں اپنی حب الوطنی کا مستقل ثبوت دیتے رہنا پڑتا ہے۔


پروپگنڈہ پر مبنی ‘لو جہاد کی مہم نے کیمپس میں غیر مسلم طالبات کی مسلم طلبہ سے دوستی پر منفی اثرات ڈالے۔ مسلمانوں کے سلسلے میں پہلے سے موجود تنگ خیالی کہ مسلمان جنسی معاملے میں بدنام ہوتے ہیں، میں اضافہ کرتے ہوئے ‘لوجہادکی مہم جس کا آغاز ملیالم منورما جیسے مین اسٹریم اخبار نے کیا تھا، دوستانہ تعلقات اور بین المذاہب رومانس کو ایک نئی مشتبہ شکل دےدی۔ مسلم طلبہ نے بایاں محاذ طلبائی پارٹی کی سکیولر پناہ گاہوں کو خود کو منظم کرنے کی بجائے اپنی ‘سیکولر ساکھ کو بحال کرتے اور غیر مسلم لڑکیوں سے دوستی کرتے ہوئے پایا۔ دوسری طرف اس نے مسلم طلبہ کو سیکیولر فریم ورک کے عام ماڈل کو ختم کرنے پر ابھارا۔ مجھے خود ذاتی طور پر ہفتہ عاشورہ اور بیف فیسٹ میں شرکت کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ بقول منتظمین، میری موجودگی معاملے کو’’مذہبی‘‘ رخ دے دے گی۔ میرے محض جسمانی وجود سے ہونے والی اس ’’مذہبی منافرت‘‘ نے اپنی شناخت کے سلسلے میں ایک نیا شعور عطا کیا جو کہ نیشنل فریم ورک سے مختلف ہے۔ انور عبداللہ کےافسانچے ‘علی گڑھی لے پشو (علی گڑھ میں گائے) کو مذہبی منافرت پھیلانے کی اس مشینری سے جوڑا جاسکتا ہے جس کا انتظام ‘سیکولر زعفرانیوںنے کررکھا ہے۔ ہندتوا کے تند و تیز پروپگنڈوں پر بند باندھنے کے لئے مسلم طلبہ کے لئے مناسب ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو دلتوں اور دوسرے غیر مسلم پسماندہ طبقات کے ساتھ جوڑیں۔ یہ نام نہاد ‘سیکولر خطرہ بہت سے مسلم طلبہ اور مسلم تنظیموں کو سیاسی مداخلت سے محروم رکھتا ہے اور انہیں اپنی ساری توانائیاں خالص مذہبی دائرہ کار کی نذر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights