سماجی علوم کا مطالعہ اور تحقیق ضرورت و اہمیت

1

سدید ازہرفلاحی

قرآن مجید اپنی آیات پر غور و فکر کے ساتھ ساتھ آیات آفاق اورآیات انفس پر بھی غور کرنے کے تعلیم دیتا ہے۔آفاق میں تمام طبعی ظواہر (Physical Phenomena) شامل ہیں اور انفس میںتمام سماجی ظواہر (Social Phenomena) شامل ہیں۔سماجی علوم سماجی ظواہر کے مطالعہ ہی کا نام ہے۔ انسانی زندگی کی تفہیم اور اس کی تعمیر و تشکیل میں سماجی و انسانی علوم کی غیر معمولی اہمیت ہے۔یہ علوم سماج اور سماج کے اندر انسانی تعلقات کا جائزہ لیتے ہیں۔ بشریات، تاریخ، معاشیات ،سیاسیات جیسے علوم زندگی کے مختلف گوشوں سے متعلق اہم رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ سماجی علوم کی فہرست میں سماجیات (Sociology) گرچہ نسبتاً نیا علم ہے لیکن اس کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ سماجی تعلقات کی کیا نوعیت ہوتی ہے۔

سماجی تبدیلیاں کیسے رونما ہوتی ہے۔ مذہب، معیشت ، خاندان، حکومت جیسے اداروں کاکیا رول ہوتا ہے۔ سوشلائزیشن کا عمل کیسے انجام پاتا ہے۔سماج میں ہونے والے جرائم کے عوامل کیا ہوتے ہیںاور ان کا سد باب کیسے کیا جاسکتا ہے۔سماجی ترقی کے مختلف ماڈلس کیا ہیںاور کونسا ماڈل زیادہ مناسب اور مفید ہے۔سماجی ناانصافی کی شکلیں اور اس کے وجوہ و اسباب کیا ہیں۔یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات کے جوابات کی تلاش ہی کا نام سماجیات ہے۔

سماجیات کا دائرہ دو افراد کے مابین ہونے والے تعامل (Interaction) سے لیکر عالمی سطح پر ہونے والی سماجی تبدیلیوں تک محیط ہے۔انسانی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیںہے جو سماجیات کے دائرہ سے باہر ہو۔ سماجیات میں ہر چیز کا سماجی پہلو سے مطالعہ کیا جاتاہے۔ مذہب ہی کی مثال لیجیے۔ مذہب یوںتو خدا اور بندے کے تعلق کا نام ہے مگر ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو یہ ایک سماجی ظاہر ہ (Social Phenomenon) ہے۔ مذہب کی تعبیر و تشریح سے لیکرمذہبی مراسم کی ادائیگی تک ہر عمل سماج ہی کے اندر انجام پاتا ہے۔

مذہبی نص (Religious Text)کے فہم اور انطباق دونوں پرسماجی پس منظر (Social Context)اثر انداز ہوتا ہے۔مذہب جہاں سماج پر اثر انداز ہوتا ہے وہیں سماج سیاسی، معاشی اور دیگر اغراض کے لیے مذہب کا استحصال بھی کرتا ہے۔سوشیالوجی آف ریلی جین میں اس طرح کے بہت سارے سوالات زیر بحث آتے ہیں۔سوشیالوجی آف ڈیولپمنٹ، ایکانومک سوشیولوجی، پالیٹکل سوشیالوجی ، اربن سوشیالوجی ، روٗرل سوشیالوجی، Environmental سوشیالوجی وغیرہ سماجیات کے کچھ اہم تخصصات ہیں۔

ایک سوال ذہن میں یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا سماج کو سمجھنے کے لیے باقاعدہ کسی علم کی ضرورت ہے؟ انسان جب سماجی مخلوق ہے اور سماج ہی میں آنکھیں کھولتا اورپلتا بڑھتا ہے تو کیا سماج کو سمجھنے کے لیے اسے تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت پیش آسکتی ہے؟کیا سوشل سائنس ریسرچ کے ذریعے جوعلم حاصل ہوتا ہے وہ عقل عام (Common Sense) کے ذ ریعے سے حاصل نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم سماج میں بہت ساری چیزوں پر تنقیدی نگاہ نہیں ڈالتے۔ ہم سماج سے متعلق اپنے آراء (Opinions)اور مفروضات (Assumptions)کو حقائق (Facts)سمجھ بیٹھتے ہیں۔ آراء یامفروضات شخصی (Subjective) ہوتے ہیں اور حقائق معروضی(Objective) ہوتے ہیں۔ایک سوشل سائنٹسٹ دونوں میں فرق کرتا ہے۔ وہ آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر سماج کے مختلف پہلوئوں پر رائے قائم نہیں کرتا بلکہ وہ تحقیق کے مختلف کیفیاتی اور کمیاتی وسائل (Qualitative and Quantitative Research Tools) کو اختیار کرکے سماج کے کسی پہلو سے متعلق حقائق دریافت کرتا ہے اور پھر ان حقائق کا تجزیہ کرتا ہے۔

امریکہ کی ـ’نیشنل ریسرچ کونسل نے “Using Science as Evidence in Public Policy” کے نام سے ایک دستاویز شائع کی ہے جو یہ کہتی ہے کہ “Every field of science produces usable knowledge but explaining whether, how and why that knowledge is used is the task of social science.” (سائنس کے تمام شعبے قابل استعمال علم پیدا کرتے ہیں لیکن ان کا استعمال کرنا چاہئے یا نہیں، اور اگر کرنا چاہئے تو کیوں اور کس طرح، اس کا جواب دینا سماجی علوم کا کام ہے۔)آج ملکی و عالمی تنظیموں اور حکومتوںکی پالیسی سازی کے عمل میں سوشل سائنس ریسرچ کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔سوشل سائنس ریسرچ پالیسی سازی کے عمل کو موثر بنانے میں اور انسانی وسائل کے موثر استعمال میں مددگار ہوتی ہے۔ سوشل سائنس ریسرچ بسااوقات قانون سازی اور قانون میں تبدیلی کا سبب بھی بنتی ہے ۔

تاریخ سماجی و انسانی علوم کا ایک اہم شعبہ ہے۔ اس وقت اکثریتی فرقہ پرستی(MajorityCommunalism) ہندوستان کا سبب سے اہم مسئلہ بن چکا ہے۔مشہور تاریخ داں بپن چندرا کے مطابق ہندوستان میں فرقہ پرستی اصل میں تاریخ کی غلط توجیہ کی بنیاد ہی پر کھڑی ہے۔مثلاًمسلم اور ہندو حکمرانوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کو اسلام اور ہندومت کی جنگوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔اسی طرح ہندتوکے علمبردارمفکرین یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلم حکمرانوں نے ساٹھ ہزار مندر مسمار کیے۔جبکہ ریچارڈ ایٹن (Richard Eaton)جو پری ماڈرن ہسٹری پر اتھارٹی مانے جاتے ہیں،کہتے ہیں ان کی تعداد صرف ۸۰ ہے اور اس کے پیچھے بھی سیاسی وجوہ و اسباب کارفرماہیں نہ کہ مذہبی عناد۔تاریخ کی غلط توجیہ کو چیلنج کرنے کے لیے کتنے اسلام پسند سائنس دان ہمارے پاس ہیں؟

سماجی علوم کا ایک اہم شعبہ سیاسیات ہے۔ ہندوستانی مسلمان سیاسی شعور سے عاری اور ووٹ بینک پالیٹکس کا شکا ر ہیں۔ ہماری ملی جماعتیں اور تنظیمیں سیاسی منصوبہ بندی بھی کرتی ہیں اور عملی سیاست میں بھی بسااوقات حصہ لیتی ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں سیاسی امور غور و فکر اور فیصلہ سازی کے لیے ماہرین سیاسیات کی کوئی ٹیم نہیں ہے۔ یہ علماء اور علماء نما ملی قائدین ہی ہیں جو یہاں بھی اپنا ’فرض کفایہـ‘ ادا کرتے ہیں۔ہمارے یہاں ملکی سطح پر سیاسی پارٹی لانچ کرنے پر پہلے علماء سے اس کے شرعی جواز اور عدم جواز کے سلسلے میں فتوی تو لیا جاتا ہے مگر ماہرین سیاسیات کی خدمات لینا یا فزیبلٹی Feasibility اسٹڈی کرنا ضروری نہیں سمجھاجاتا۔

ہندوستان کے اندر مسلمان بہت سارے پیچیدہ مسائل کا شکا ر ہیں۔ہمارے یہاں عموماً ان مسائل کے حل کے سلسلے میں دو طرح کے رویے پائے جاتے ہیں۔ علماء ان مسائل کے حل کے لیے دین کی طرف رجوع کا عمومی فارمولا تجویز کرتے ہیں۔ دوسری طرف ملی تنظیمیں آگے بڑھ کر کچھ رفاہی کام انجام دیتی ہیں۔مسائل کے صحیح ادراک اور ان کے اسباب و حل کی دریافت کے لیے ہمارے یہاں سوشل سائنس ریسرچ کا تصور بالکل مفقود ہے۔مختلف سطحوں پر مسلمانوں کی سماجی و معاشی حالت سے واقفیت، ان کے سماجی مسائل کی صحیح آگہی، ان کی تعلیمی و معاشی پس ماندگی کے صحیح تجزیے اور اس کے اسباب و حل کی نشاندہی کے لیے ضروری ہے کہ ان مسائل پر کام کرنے والے اداروں اور جماعتوں کے پاس سماجی علوم کے ماہرین کی ایک ٹیم ہو جو انہیں ان موضوعات پر مطالعہ و تحقیق کے ذریعے تازہ اور مبنی بر حقائق معلومات فراہم کرسکیں۔

مسلم عوام و خواص دونوں میںیہ رویہ پایا جاتا ہے کہ وہ مسلم سماج پر کی جانے والی تنقیدوں کا جواب میںقرآن و حدیث کی مثالی تعلیمات پیش کرتے ہیں۔حالانکہ Textual Islam جو قرآن و حدیث کی صورت میںہے اورمسلم سماج دونوں میںفرق کرنا ضروری ہے۔ہمارے یہاں اسلام کے تصورمساوات پر تو خوب لٹریچر شائع کرنے کا رجحان ہے مگر ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کو مسئلہ کوبالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پرملکی سطح پر خوب بحثیں ہوئیں۔ یہ ایک اہم سماجی مسئلہ ہے ۔ مسلم سماج میں عورتوں کی حقیقی صورتحال کیا ہے۔ کیا ان کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں۔ اگر ہاں تو وہ کس قدر ہیں اور اس کے اسباب کیا ہیں۔ایسا کیوں ہے کہ ہماری ’شریعت‘ میں عورتوں کی آواز کا بھی پردہ ہے اور وہ مسجد بھی نہیں آسکتیں مگر اسی شریعت کے نام سڑکوں میںاحتجاج اور جلسے جلوس بھی کرسکتی ہیں؟ان سب چیزوں پرکھل کر بحث اسی وقت ہوسکتی ہے جب مسلم پرسنل لا بورڈ جیسے اداروں میںسماجی علوم سے وابستہ افراد بھی موجود ہوں۔

جدید دور میں اسلام کی نمائندگی کے لیے بھی سماجی علوم سے واقفیت ضروری ہے۔عام طور پر مدارس کے نصاب میں تبدیلی پر بحث کرتے ہوئے لوگ اس میں سائنس کی شمولیت پرزور دیتے ہیں۔لیکن دینی مدارس کے فارغین کے لیے سائنس کے بجائے سوشل سائنسس سے واقفیت ضروری ہے۔علمائے دین کے لیے ضروری ہے کہ وہ دینی مآخذ کے ساتھ ساتھ سماجی علوم خصوصاً سماجیات کا مطالعہ کریں۔جدید سماجی علوم سے علماء کی دوری کی وجہ سے ان کے اوراعلی تعلیم یافتہ اشخاص کے درمیان ابلاغ کا صحیح رشتہ قائم نہیں ہوپاتا۔علماء کے لیے نص (Text) یعنی قرآن و حدیث کا سمجھنا بھی ضروری ہے اور Social Context کا سمجھنا بھی ضروری ہے۔اس لیے کہ کوئی بھی نص سماجی پس منظر ہی میں وجود میں آتا ہے اور سماج ہی میں اسے apply بھی کیا جاتا ہے۔سماجی علوم کا مطالعہ دینی جماعتوں اور تحریکوں کے پالیسی ساز افراد کے لیے بھی ضروری ہے جو سماج میں تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں۔

حقائق کو جمع کرنا ایک معروضی عمل ہے لیکن ان حقائق کی توجیہ و تشریح میں فرد کے تصورِ کائنات (Worldview)کا بڑا دخل ہوتا ہے۔مغرب میں علوم کا ارتقا انکار ِخدا کے تصور کی بنیاد پر ہوا ہے۔ مغربی مفکرین کے تصور کائنات میں خدا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ چنانچہ اس تصور کائنات کی بنیاد پر جن علوم کا ارتقا ہوا ہے ان میں ’’تا ثریا می رود دیوار کج‘‘کی مانند ٹیڑھ پیدا ہوگئی ہے۔جدید سماجی علوم بھی مغربی فلسفہ کے اساسات پر قائم ہیں۔طبعی علوم کی بہ نسبت سماجی و انسانی علوم میں تعصبات کے ظہور کے مواقع زیادہ ہیں۔قرآن مجید نے اقرأباسم ربک کا حکم دے کرپہلی وحی میں یہ واضح کردیا ہے کہ تم خواہ کچھ بھی پڑھو مگر خدا کے نام سے یعنی اسلامی نقطۂ نظر سے پڑھو۔مسلم ماہرین کا کام یہ ہے کہ مغرب سے سماجی علوم کو امپورٹ کرنے کے بجائے ان کا تنقیدی مطالعہ کریں اور ان اجزاء اور تصورات کی نشاندہی کریں جو اسلام کے تصور کائنات کے خلاف ہیںاور ان علوم کو صحیح اسلامی بنیادوں پر استوار کریں۔

1 تبصرہ
  1. […] "اس کا جواب یہ ہے کہ ہم سماج میں بہت ساری چیزوں پر تنقیدی نگاہ نہیں ڈالتے۔ ہم سماج سے متعلق اپنے آراء (Opinions)اور مفروضات (Assumptions)کو حقائق (Facts)سمجھ بیٹھتے ہیں۔ آراء یامفروضات شخصی (Subjective) ہوتے ہیں اور حقائق معروضی(Objective) ہوتے ہیں۔ایک سوشل سائنٹسٹ دونوں میں فرق کرتا ہے۔ وہ آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر سماج کے مختلف پہلوئوں پر رائے قائم نہیں کرتا بلکہ وہ تحقیق کے مختلف کیفیاتی اور کمیاتی وسائل (Qualitative and Quantitative Research Tools) کو اختیار کرکے سماج کے کسی پہلو سے متعلق حقائق دریافت کرتا ہے اور پھر ان حقائق کا تجزیہ کرتا ہے۔۔۔آج ملکی و عالمی تنظیموں اور حکومتوں کی پالیسی سازی کے عمل میں سوشل سائنس ریسرچ کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔سوشل سائنس ریسرچ پالیسی سازی کے عمل کو موثر بنانے میں اور انسانی وسائل کے موثر استعمال میں مددگار ہوتی ہے۔ سوشل سائنس ریسرچ بسااوقات قانون سازی اور قانون میں تبدیلی کا سبب بھی بنتی ہے”[3]۔ […]

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights