امام ابو حنیفہ

1

زکریہ

امام ابو حنیفہ کا اصل نام نعمان بن ثابت تھا۔ ابو حنیفہؒ آپ کی کنیت تھی۔ آپ تابعین میں سے تھے اور نسلاً فارسی تھے۔ آپ کی پیدائش عراق کے مشہور شہر کوفہ میں ۸۰ ہجری میں ہوئی اور وفات ۱۵۰ ہجری میں ہوئی۔شہر کوفہ ، بصرہ، مکہ اور مدینہ سمیت اُن چار بڑے شہروں میں سے ایک تھا جو اپنے وقت میں علم کی دنیا تصور کئے جاتے تھے ۔ آپ نہایت ذہین اور بااخلاق تھے۔ آپ کا تعلق ایک تاجر خاندان سے تھا جو ’’خزباقی‘‘ نامی ایک خاص کپڑے کی تجارت کیا کرتا تھا۔ عام طور پر بڑی بڑی شخصیات کے بچپن اور نوجوانی کے بارے میں ہم مطالعہ کریں تو اس میں ایک انفرادیت نظر آتی ہے جو اس فرد کے روشن مستقبل کی نشاندہی کرتی ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہؒ کے یہاں ہمیں یہ چیز نہیں ملتی۔

آپ نے ایک تاجر کی حیثیت سے نشونما پائی اور غالباً عمر کے بیسویں سال تک کسی بھی عالم کی درسگاہ میں شمولیت اختیار نہیں کی،اِس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ اِس وقت کے ریاستی گورنر اکثر جابر و ظالم تھے اور ہر طرف ان کی بے اعتدالیوں کے اثرات تھے اور اُس زمانے میں حصولِ علم کا وہ عوامی رجحان نہ تھا جو بعد کے اَدوار میں پایا جاتا ہے۔ دوسری بڑی اور اصل وجہ یہ تھی کہ امام کا تعلق ایک تاجر خاندان سے تھا اور وہاں انھیں ایسے محرکات میسر نہ تھے جو حصول علم کی طرف رغبت دلاتے۔ اس کے باوجود ایسا بالکل نہ تھا کہ امام حصولِ علم سے بالکل بے نیاز تھے بلکہ وہ اپنے اندر اس کی شدید خواہش پاتے اور اندر ہی اندر اِس بات پر نادم ہوا کرتے کہ وہ علم سے دو‘ر ہیں۔ اِسی اثناء میں ایک واقعہ پیش آگیا جو امام کے نزدیک حصولِ علم کا اصل محرک تھا۔

کوفہ میں اس وقت بڑے بڑے محدثین ، فقیہ اور مفسرین پائے جاتے تھے جن میں ایک بڑا نام امام شعبیؒ کا تھا۔ ایک دِن امام بازار جارہے تھے ۔ امام شعبی کا مکان راہ میں تھا۔ سامنے سے نکلے تو انھوں نے یہ سمجھ کر کہ کوئی نوجوان طالب علم ہے، پاس بلایا اور پوچھا کہ کہاں جارہے ہو؟ انھوں نے ایک سوداگر کا نام لیا۔ امام شعبی نے کہا میرا مطلب یہ نہ تھا۔ تم پڑھتے کس سے ہو؟ اُنھوں نے افسوس کے ساتھ جواب دیا کہ ’’کسی سے بھی نہیں‘‘ شعبی نے کہا کہ ’’مجھ کو تم میں قابلیت کے جوہر نظر آتے ہیں، تم علماء کی صحبت میں بیٹھا کرو۔‘‘ اِس نصیحت نے ان کے دِل میں گھر کرلیا اور نہایت اہتمام سے تحصیلِ علم پر متوجہ ہوئے۔ کوفہ کے ایک محدث حماد بڑے مشہور تھے اور انھیں کا حلقہ درس کوفہ میں سب سے وسیع تھا۔ ابتدائً امام نے انہی کے حلقۂ درس میں شمولیت اختیار کی۔امام کی تربیت میں امام شعبی کا بھی بڑا کردار رہا اور تقریباً کوفہ میں کوئی عالم دین ایسا باقی نہ تھا جس سے امام ابو حنیفہؒ نے زانوا ئے شاگردی تہ نہ کیا ہو۔ کوفہ کی طرح بصرہ بھی اِس زمانے میں علوم و فنون کا مرکز تصور کیا جاتا تھا۔ حسن بصریؒ ، قتادہؒ اور امام شعبہؒ جیسے لوگ وہاں پر تعلیم و تبلیغ کے خدمات انجام دیا کرتے تھے ۔

کوفہ کے بعد امام نے بصرہ کا رُخ کیا۔ حسن بصریؒ کے درس سے امام ابو حنیفہؒ کو مستفید ہونے کا موقع نہیں ملا البتہ قتادہؒ اور شعبہؒ جیسے بزرگوں سے امام نے بہت کچھ حاصل کیا۔ شعبہ بہت بڑے رتبہ کے محدث تھے۔ امام شافعیؒ ان کے بارے میں فرمایا کرتے کہ اگر شعبہ نہ ہوتے تو عراق میں فن حدیث کا رواج نہ ہوتا۔ شعبہؒ کو امام ابو حنیفہؒ سے ایک خاص رغبت تھی۔ غیب میں اکثر ان کی ذہانت اور خوبیٔ فہم کی تعریف کرتے۔ ایک بار ان کا ذکر آیا تو کہا کہ ’’ جس طرح میں جانتا ہوں کہ آفتاب روشن ہے اسی یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ علم اور ابو حنیفہؒ ہم نشین ہیں۔‘‘ (جاری)

1 تبصرہ
  1. Shakeel نے کہا

    Mashaallah ,jazakaallah …..Would u plz share some more articles about nimaz ,roza hajj etc

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights