قوم پرستی کے تباہ کن اثرات

0

بات مشہو ر ہے کہ کہ سا ئنس و ٹکنا لو جی کے ا س تر قی یا فتہ د ور نے سا ری د نیا کو ا یک چھوٹے سے گا ؤں میں تبد یل کرد یا ہے جہا ںا نسا نوں کے فاصلوں کو تیز ر فتا ر سوا ر یو ں حیرت ا نگیز مو ا صلا تی ذ ر ائع نے مہینوں کی مسا فت چند گھنٹوں ، گھنٹوں کی مسا فت کو چند منٹوںا ور سکنڈ و ں میں محد ود کر دیا ہے۔گو یا کہ ا تنی و سیع و عر یض د نیا ایک چھو ٹے سے کمر ے میں سما چکی ہے ۔یہ تو وا قعہ کا ایک پہلو ہے لیکن ا سکا د و سر ا پہلو با لکل ا سکے بر عکس ا ور بڑ ا عجیب ہے ۔کیو نکہ ا س نے ا نسا نوں کے فا صلو ں کو جتنا قر یب کیا ہے ا ن کے د لو ں کو مختلف قو میتوں کے ذ ر یعہ ا تنا ہی د ور ا ور تقسیم کر دیا ہے۔ا ور یہ قو میتیں نسل ،و طن ،ر نگ، ز با ن و غیر ہ کی بنیا د پر ہیں ۔خصو صا ًآ ج کے اس دور میں نسل پر ستی ا ور و طن پر ستی کے ا ن نظر یا ت نے ا نسا نی تمد ن پر تبا ہ کن ا ثر ات چھو ڑ ے ہیں۔ دور جدید میں ا ن نظر یا ت کو سب سے پہلے 19و یں ا ور 20و یں صد ی میں یو ر و پی مما لک میں عر و ج حا صل ہو ا ۔یو ں تو تما م یو ر و پی مما لک جیسے فرا نس ،بر طا نیہ ،جر منی ،ا ٹلی ،آ سٹر یا ا ور سا تھ ہی روس ، جا پا ن ا وریوا یس ا ے قو م پر ستی کے ز ہر یلے نشہ کا شکا ر ہو ئے لیکن ا ن سب میں جر منی کی قو م پر ستی بڑ ی ہو لنا ک ہے کیو نکہ جر منی نہ صر ف و طن پر ستی کا قا ئل تھا بلکہ وہ و ہ نسل پر ستی جیسی شیطانیت کاہمنوا تھا ۔یعنی بات صر ف ا تنی نہیں تھی کہ جر منی د یگر تما م ملکوں پر فو قیت ر کھتا ہے بلکہ انکا ماننا تھا کہ جرمن وہ ہے جو صرف آ ر یہ نسل سے ہو ا ا نہی کو جر منی میں ر ہنے ا ور حکو مت کر نے کا حق حا صل ہے ۔یہی و جہہ ہے کہ ہٹلر کی سخت گیر قو م پر ستی بین الا قوا می سلا متی کے لئے سب سے بڑ ا خطر ہ ثا بت ہو ئی۔

ر ا بند نا تھ ٹیگور نے کہا تھا کہ نیشنلز م (قو م پر ستی ) ا یک بڑی لعنت ہے ۔نا و م چومسکی نے بتایا کہ قو م پر ستی محض د وسر وں پر ظلم کر نے کا ایک راستہ ہے ۔علا مہ ا قبا ل نے بھی و طن پر ستی کی جتنی شد ت سے مخا لفت کی ہے و ہ قا بل غور ہے ۔چنا نچہ ا پنی نظم  ” و طنیت” میں ا قبا ل کہتے ہیںکہ  ؎

ان تا زہ خدا ؤں میں سب سے بڑا و طن ہے

جو پیرا ہن ا سکا ہے و ہ مذ ہب کا کفن ہے

پھر آ  گے کہتے ہیں کہ   ؎

ا قوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے

تسخیر سے مقصود تجا رت تو اسی سے

خا لی ہے صد اقت سے سیاست تو اسی سے

کمزور کا گھر ہو تا ہے غا رت تو اسی سے

ا قو ام میں مخلو ق خدا بٹتی ہے ا س سے

قوت ا سلام کی جڑکٹتی ہے اس سے

یہ با تیں با لکل حقیقت ہیں، ا سلئے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کو ئی قو م، قوم پر ستی پر ا یمان ر کھتی ہو ا ور ظلم و زیا دتی نہ کر تی ہو یا نہ کر نا چا ہتی ہو ا ور ا پنے سوا ء د وسر وں کی تحقیر ا ور بے عز تی سے پا ک ہو ۔ قوم پرستی کی درج ذیل اہم تباہ کاریاں سامنے آتی ہیں۔

ا خلا قی ا صولو ںکی پا ما لی :  ا ولا ًیہ اخلا قی ا صو لوںکو پا ما ل کر تی ہے انسان کو انسا نیت کے د ر جہ سے گر ا کرحیو ا نیت کے سا ئے میں پنا ہ د یتی ہے ۔خو د غر ضی ،تنگ نظر ی ،بے ر حمی ،بے ا نتہا نفرت ،ظلم و بر بر یت ،معا ہد ہ میں خیا نت ا ور نا ا نصا فی جیسے جذ با ت کو جنم د یتی ہے اور خو د غر ضی صر ف ا تنی ہی نہیں کہ جس میں صر ف ا پنا فا ئد ہ ہو بلکہ ا سمیں د و سر وں کا نقصا ن ہو ا ور ا سکو آ گے بڑھنے سے ر و کنا بھی شا مل ہے چنا چہ تجا ر ت میں ر کا و ٹ ،بحر ی ر ا ستوں پر قبضے ا ور ہتھیا ر وں کی د و ڑ، قو می خو د غر ضی کا نتیجہ ہے جو د نیا کی د و بڑ ی جنگو ں کا سبب بنی۔ پھر جر منی میںیہو د یو ں پر ظلم و ز یا د تی ،بر ما میں مسلما نو ں کا بے د ردی سے قتل ِ عا م اور ا نھیں بر ما کی قو میت سے د ستبر دا ری ا ور خو د ہند و ستا ن میں مسلما نو ں ،عیسا ئیوںا ور د لتو ں پر ظلم کی دا ستا نیں بے ر حمی ا ور بے ا نتہا نفر ت کی مثا لیں ہے ۔

ہم مذ ہب میںد شمنی :ا قبا ل کا یہ مصر عہ ’’جو پیر ا ہن اسکا ہے وہ مذہب کا کفن ہے ‘‘ با لکل صحیح تر جما نی کر تا ہے مذ ہب ا یک مقدس ر شتہ ہے جس سے ا نسا نو ں میں ر و حا نی ر شتہ قا ئم ر ہتا ہے ۔ لیکن قو م پر ستی مذ ہب اور عقل و ضمیر د و نو ں کی جگہ چھین لیتی ہے اپنے ہی مذہب کے لوگوں میں نفرت اور دشمنی کے بیج بوتی ہے۔چنا نچہ مو لانا مو د و د ی ا پنی کتا ب مسئلہ قو میت میں لکھتے ہیںکہ لوگوں نے ’’نیشنلزم کا یہ کر شمہ د یکھا کہ بر ما کے ہو لنا ک فسا دا ت میں ( جن کا محر ک بر می نیشنلز م کا جذ بہ تھا )  بر می بو د ھوںنے عا م ہند و ستا نیو ں کی طر ح ہندو ستا نی بو د ھو ں کو نہا یت ہی بے د ردی کے سا تھ قتل و غا ر ت کیا‘‘۔ پھر حد تو یہ ہے کہ جر من نا زی حضرت مسیح علیہ ا لسلا م کو ا سی لئے ما نتے تھے کہ و ہ آ ر یہ نسل سے تھے ۔یہ خبا ثت صرف دیگر مذ ا ہب تک ہی محد ود نہیں ر ہی بلکہ قو م پر ستی کا جنو ن نے مسلما نوں کے ا ند ر بھی ر شتہ ا خو ت کو کا ٹ د یا  1971ء میں پا کستا ن کی تقسیم ا ور بنگلہ د یش کے قیا م کے د و ران فو ج کی کھلی ظلم و بر بر یت ا سکی بد تر ین مثا ل ہے ۔

جمو ر ی ا صو لو ں کا خا تمہ: سخت گیر نیشنلزم ا یک بہت ہی کمز ور ا ور بےبنیا د نظر یہ ہے جسکی نہ کو ئی ا خلا قی حیثیت ہے نہ ہی عقلی د لیل لہٰذا جب مسو لینی کے فاشزم ا ور ہٹلر کے نازی ا زم پر سوا ل ا ٹھا یا جا نے لگا ۔تو ا نھو ں نے جمہو ر ی اصولو ں کا خا تمہ کر دیا۔میڈ یا پر پا بند ی ا ور کنٹر ول ،ا ظہار آ ز ا دی اور ا ختلا ف رائے کا حق طاقت کے ز ور سے چھین لیا ۔ا ب با لکل یہی صو ر تحا ل ہند و ستا ن میں جے ا ین یو تنا ز عہ کے بعد پیدا ہو ئی ۔بظا ہر تو یہ ایک یو نیو ر سٹی کا مسئلہ تھا ا ور ا س کوآسانی سے حل کیا جا سکتاتھا لیکن ا سکو جس طر یقے سے طا قت کے بل پر د با یا گیا ا س نے معاملے کو اور گمبھیر بنا د یا ۔پو لیس کی ایک طر فہ کا ر وا ئی کھلے عا م غنڈ ہ گر دی ،ا ختلا ف را ئے پر ملک سے غدا ر ی کا ا لز ا م ،،ہا ئی کو رٹ کے ا حا طہ میں پٹا ئی، جر نلسٹوں پر حملے ،مو ت کی د ھمکیا ں ، میڈیا چینلوں پرکنٹر و ل یہ سب با تیں بتا ر ہی ہیں کہ سا ر ے ملک کو ایک خا ص طر ح کی قو م پر ستی پر مجبو ر کیا جا رہا ہے یہ با لکل و ہی قو م پرستی ہے جس کا پر چا ر20و یں صد ی میں ہٹلر نے کیا تھا ۔گو یا کہ یہ د و نوں نیشنلز م (نا ز ی ا زم اور ہند و توا )نظریاتی اور طریقہ کار میں کا فی حد تک مشتر ک ہے ۔بس فر ق یہ کہ ایک ختم ہو چکا ہے اور د وسراا ُبھر رہا ہے ۔

مقصد میں نا کا می : کسی نظر یہ کی سب سے بڑ ی خو بی یہ ہو تی ہیکہ وہ ا پنے مقصد میں کامیا ب ہو لیکن برا ہو قوم پر ستی کا جو نہ صرف اپنے مقصد میں نا کام ہے بلکہ ظلم و تا ر یکی کے اندھیرے گڑھے میں ہے۔تقر یبا 1 صد ی گذ ر چکی ہے لیکن آج بھی یو ر و پی مما لک ا پنی ا س نا پا ک غلطی کی سزا بھگت ر ہے ہیں۔ا پنی قو م اور وطن کو سا ر ی د نیا کے ملکوںپر بر تر ی قا ئم کر نے کا جو خو ا ب جو ا نھوں نے د یکھا تھاوہ چکنا چو ر ہو چکا ہے۔ا تنا ہی نہیںبلکہ پچھلی صد ی میںو طن اور قو م کے نعرو ںکو لیکر جن قا ئد ین کے پیچھے بھا گتے تھے ا ن کا نا م لینا بھی گو ارا نہیں یہاں تک کہ جر منی میں آج ہٹلر کی تعر یف میں قصید ے پڑھناایک بہت بڑا جر م ہے

بہر حا ل ا یک ا یسے و قت جبکہ ہند و ستا ن میں سخت گیر نیشنلزم جوا پنے معنی میں ہلاکت خیزو طن پر ستی ا ور نسل پر ستی پر مبنی ہے عر و ج کے ا بتد ا ئی مر حلے میں ہے ا سے ایک صحیح ر خ د ینے کی ضر ورت ہے لو گو ں میں حقیقی نیشنلزم ا ور حب ا لو طنی کے با ر ے میں شعور بیدا ر کر نا و قت کا ا ہم تقا ضہ ہے پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات، جمہو ر ی اصو لو ں ا ور د ستو ر کی حفا ظت ہر ہندوستانی کی ذ مہ دا ر ی ہے۔ ا س سلسلے میں ا مت مسلمہ انصاف کی علمبردار، قو میت کے صحیح تصو ر کی ما لک ا ور دا عی ا مت ہو نے کے ناطے ا سکو ا و لین کر دا ر ا دا کر نے کی ضر ور ت ہے و ر نہ عجب نہیں کہ د نیا پھر سے وہ کہا نی د ہر ا ئے گی جویو ر و پی عو ا م قو م پر ستی کے نا م پر د یکھ چکی ہے ۔

 

از: عبدالاکرم سہیل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights