لا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا

0

تاریخ انسانی کا مطالعہ کرنے والا طالب علم اگر اپنے پہلو میں حساس دل رکھتا ہے تو کبھی خوشی سے اس کا دل باغ باغ ہوجائے گا تو کبھی غم میں ڈوب جائے گا۔ اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب کسی قوم نے سرکشی کا رویہ اختیار کیا تو یہ رویہ اس کے حق میں زوال کی پہلی سیڑھی ثابت ہوا۔ اسی طرح جب کسی قوم کو یہ توفیق میسر ہوئی کہ وہ خدا کی زمین میں اصلاح کا کام کرے تو وہ قوم ارتقاء کے منازل طے کرنے لگی۔ اس حقیقت کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مفسد کو بھی مصلح کے بھیس میں ہی آنا پڑا اور لوگوں کو یہ فریب دینا پڑا کہ ’’ہم اصلاح کرنے والے ہیں‘‘۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے :

’’جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں، خبردار حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے‘‘۔

قرآن کی یہ آیت تمام علمبرداران فساد کی تصویر کشی کرتی ہے۔ البتہ کچھ نادان لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ فاسد گروہ کے ساتھ محض اس لیے شامل ہوجاتے ہیں کہ ان کے کچھ کام اچھے بھی ہیں۔ تصویر کا یہ رُخ انتہائی اہم ہے۔

فساد کیا ہے؟:مفکراسلام مولانا مودودی ؒ لکھتے ہیں: ’’فساد سے مراد انسانی زندگی کے نظام کا وہ بگاڑ ہے جو حق سے تجاوز کرنے کے نتیجے میں لازماً رونما ہوتا ہے۔ خدا کی بندگی اور اس کے قوانین کی اطاعت سے نکل کر آدمی جو کچھ بھی کرتا ہے وہ سراسر فساد ہی فساد ہے۔ ‘‘(تفہیم القرآن، جلد سوم)

حافظ صلاح الدین یوسف لفظ ’’فساد‘‘ کی تشریح کچھ اس طرح کرتے ہیں: ’’فساد صلاح کی ضد ہے۔ کفرومعصیت سے زمین میں فساد پھیلتا ہے اور اطاعت الٰہی سے امن وسکون ملتا ہے۔ ‘‘ (بحوالہ تفسیر احسن البیان)

ان تشریحات سے معلوم ہوا کہ فساد کی ابتدا عقیدے کی خرابی سے ہوتی ہے اور اس کا دائرہ زندگی کے تمام شعبوں تک وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔

سیاسی فساد: دنیا میں نہ جانے کتنے سرکش ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی بڑائی کا اعلان کیا اور انسانوں کو مختلف طبقات (classes) میں تقسیم کرکے ان پر مظالم ڈھائے۔ تکبر اور سرکشی چاہے محدود پیمانے پر ہویا وسیع دائرے میں۔ انسان کی اخروی زندگی کے لیے سخت تباہ کن ہے۔ قرآن کہتا ہے:

’’وہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں۔ اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے‘‘۔

قصہ موسی وفرعون کا تذکرہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر ہوا ہے۔ فرعون نے اپنی رعایا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اگر تم نے موسیؑ کی اطاعت کی تو ملک میں فساد برپا ہوجائے گا۔ آج بھی ہر فرعون کو یہی اعلان کرنا پڑتا ہے کہ میری مانو ورنہ زمین میں فساد پھیل سکتا ہے۔ چنانچہ قرآن فرعون کا یہ جملہ نقل کرتا ہے:

’’اور فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا، چھوڑ دو مجھے، میں ا س موسی کو قتل کیے دیتا ہوں، اور پکار دیکھے اپنے رب کو ، مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا، یا ملک میں فساد برپا کردے گا‘‘۔

چونکہ اسلام زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے اور اس کا نفاذ فرعون کی بادشاہت کے لیے تازیانہ تھا۔ اس لیے اس نے عوام کو خبردارکیا کہ اگر سوشل آرڈر قائم رکھنا چاہتے ہو تو موسی اور اس کے حواریوں کو راستے سے ہٹانے کی فکر کرو۔

معاشی فساد: زندگی کی بقا کے لیے معاشی تگ ودود ضروری ہے۔ حصول معاش میں حلال وحرام کی قید سے آزادی معاشی فساد کا نقطہ آغاز ہے۔ حضرت شعیب ؑ کی قوم جو کہ مدعی ایمان تھی، بدقسمتی سے حب مال کے روگ میں بری طرح مبتلا تھی۔ زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنا اور دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اس قوم کے لیے فن تجارت کا درجہ رکھتی تھی۔ اور اس پر مزید یہ کہ ان برائیوں کا احساس تقریباً ناپید تھا۔ ان حالات میں حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آگئی ہے، لہذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اصلاح ہوچکی ہے، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم مومن ہو۔‘‘

آں جناب ؑنے اپنی قوم کو یاد دلایا کہ اگر تم ایمان لانے کا دعوی کرتے ہو تو اس کے تقاضے سمجھو۔ صحیح معنوں میں اللہ کے بندے بنو، بندۂ شکم نہ بنو۔ جس طرح خراب غذا پورے معدے کو تباہ کردیتی ہے اسی طرح حرام مال کا ایک ذرہ بھی پورے مال کو فاسد کردینے کے لیے کافی ہے۔ اگر دوسروں کا مال ہڑپ کرنا کسی سماج میں رواج پاجائے تو اس سماج میں رقابت کے جذبات پروان چڑھنے لگتے ہیں اور یوں پوری سوسائٹی تباہی کے دہانے تک پہنچ جاتی ہے۔ آج ہمارے نام نہاد مسلمان معاشرے میں بھی تجارت کے اسلامی اصولوں کا پاس ولحاظ نہیں رکھا جاتا حالانکہ ہم بھی مومن ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

مسرفین کی اطاعت: قوم ثمود کو خطاب کرتے ہوئے حضرت صالحؑکا یہ قول قرآن نقل کرتا ہے:

’’یاد کرووہ وقت، جب اللہ نے قوم عاد کے بعد اس کا جانشین بنایا، اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ آج تم اس کے ہموار میدانوں میں عالیشان محل بناتے ہو اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو، پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہوجاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو‘‘۔

قوم ثمود کے لوگ وادیوں میں پہاڑ کیوں تراشتے تھے؟ کیا اس کی کوئی حقیقی غرض وغایت بھی تھی؟ نہیں بلکہ صرف اس لیے تاکہ ان کے فن کی نمائش ہوسکے اور ان کی بڑائی کا اظہار ہوجائے۔ اس کے علاوہ ایک اور خرابی جوکہ دراصل تمام خرابیوں کی جڑ ہے ان کے اندر یہ پائی جاتی تھی کہ قوم کے نالائق لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور تھما رکھی تھی، چنانچہ حضرت صالح  ؑ نے ان سے کہا :

’’اُن بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے‘‘۔

یہ آیت بتاتی ہے کہ مسرفین کی اطاعت بھی فساد فی الارض کی ایک شکل ہے۔

جبروظلم: حضرت ہود علیہ السلام قوم عاد کی طرف مبعوث کیے گئے جو کہ اپنے دور کی ممتاز قوم تھی اور ایک عالم میں اس کی تہذیب وتمدن کا چرچا تھا۔ حضرت ہود ؑنے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا :

’’یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بناڈالتے ہو، اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو، گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو تو جبار بن کر ڈالتے ہو۔‘‘

اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے ابوالاعلی مودودی ؒ رقم طراز ہیں: ’’یعنی اپنا معیار زندگی بلند کرنے میں تو تم اس قدر غلو کرگئے ہو کہ رہنے کے لیے تم کو مکان نہیں محل اور قصر درکار ہیں اور ان سے بھی جب تمہاری تسکین نہیں ہوتی تو بلاضرورت عالیشان عمارتیں بنا ڈالتے ہو، جن کا کوئی مصرف اظہار قوت وثروت کے سوا نہیں ہے۔ لیکن تمہارا معیار انسانیت اتنا گر ہوا ہے کہ کمزوروں کے لیے تمہارے دلوں میں کوئی رحم نہیں، غریبوں کے لیے تمہاری سرزمین میں کوئی انصاف نہیں۔ گردوپیش کی ضعیف قومیں ہوں یا خود اپنے ملک کے پست طبقات، سب تمہارے جبروظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور کوئی تمہاری چیرہ دستیوں سے بچا نہیں رہ گیا ہے۔ ‘‘ (تفہیم القرآن ، حصہ سوم۔ صفحہ ۵۱۹؍)

وسائل ارضی کا بے جا استعمال : فساد کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان زمین کے وسائل کا بے جا استعمال بلکہ اسے ضائع کرنا شروع کردے۔ گویا زمین اس کے ہاتھوں میں کھیلنے کا ایک کھلونا بن کر رہ جائے۔ اکیسویں صدی میں یہ فساد اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے۔ زمینی حرارت ، سمندروں کی سطح کا بڑھ جانا، آلودگی، موسمی تغیرات اسی فساد کا نتیجہ ہیں۔ اس فساد کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسان خود کو زمین کے وسائل کا مالک ومختارکل سمجھنے لگتا ہے حالانکہ اس کی اصل حیثیت امین Custodianکی ہے۔ چنانچہ حق تعالی شانہ کا ارشاد ہے:

’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کی اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آجائیں۔‘‘

بحیثیت خیرامت یہ ہمارا فرض منصبی ہے کہ ہم فساد کی ہر ممکن شکل کے خلاف ایک آہنی دیوار بن جائیں اور اس کو انسانی سماج سے مٹانے کی کوشش میں اپنا کردار ادا کریں۔

از: محمد معاذ

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights