دہشت گردی جہاد نہیں ہے

0

جہاد کے لفظی معنی کسی پسندیدہ چیز کو حاصل کرنے یا ناپسندیدہ سے بچنے کے لئے انتہائی کوشش کرناہے۔ ایک مسلمان کے نزدیک سب سے زیادہ مطلوب شئی اللہ کی رضا و خوشنودی ہے اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز اللہ کی ناراضگی ہے ۔ چنانچہ اللہ کی رضا کے لئے اور اس کی ناراضگی سے بچنے کے لئے وہ جو کوشش کرتا ہے اسے جہاد فی سبیل اللہ کہتے ہیں ۔
جہاد کی صورتیں :جہاد کی بہت ساری صورتیں ہیں ، جہاد کے لئے اگر زبان کا استعمال کیا گیا تو اسے جہاد بالسان کہتے ہیں ۔ اگر قلم کا استعمال کیا گیا تو جہاد بالقلم کہتے ہیں ۔ اگر قرآن کا استعمال کیا گیا تو جہاد بالقرآن کہتے ہیں ۔ اگر مال لگایا تو جہاد بالمال کہتے ہیں ۔ اگر تلوار استعمال کی گئی تو جہاد بالسیف کہتے ہیں ۔ اور اگر جان کھپادی گئی تو جہاد بالنفس کہتے ہیں ۔ یاد رہے کہ جہاد بالنفس کا اصل معنی اپنے نفس کے خلاف جہاد کرناہے ’’ فرمان رسول ہے اصل مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے ‘‘ کسی نے کیا خوب کہا ہے ع : بڑے موذی کو مارا نفس امّارہ کو گر مارا ۔ ظلم و زیادتی کے خلاف اپنے دفا ع میں ہراقدام درست مانا گیا ہے ، یہ ایسی بات ہے کہ اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں یہی وہ چیز ہے جسے دفاعی جہاد کا نام دیا جاتا ہے ۔ فرد کی سطح پر زیادتی ہو تو فرد کا دفاع ۔ گروہ کی سطح پر زیادتی ہو تو گروہ کا دفاع اور ملک کی سطح پر زیادتی ہو تو ملک کا دفاع ۔ گویا یہ ایک ناگزیر کشمکش اور خون ریزی ہے جس کے بغیر اپنا تحفظ ممکن نہیں اور جسے ہر مذہب نے جائز ٹھہرایا ہے ۔
جہاد کا مقصد: جہاد کا عظیم مقصد فتنہ و فساد کا استیصال ہے اور سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ لوگوں کی آزادی چھین لی جائے انہیں اپنے معبود حقیقی کی بندگی سے زبردستی روکا اور اپنی پسند کے مطابق دین کی پیروی کا حق نہ دیا جائے ، یہ ایک ایسا ظلم ہے جس سے بڑا کوئی اور ظلم نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ اگر کسی سے اس کی آزادی چھین لی گئی اوراپنے رب کا بندہ بننے سے اسے جبراً روک دیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی اصل زندگی تباہ کردی گئی اور اسے آخرت کی ابدی نعمتوں سے محروم کردیا گیا اس لئے قرآن میں کہا گیا ہے کہ’’ فتنہ قتل سے زیادہ شدید ہے ‘‘
جہاد کے شرائط اور دہشت گردی کی حقیقت: اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ جہاد یعنی ظلم اور فساد کے خاتمے کا اس کا اپنا فلسفہ اور پاکیزہ طریقہ کار ہے اس فلسفہ کا فتنہ و فساد ، قتل و خونریزی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ۔ انسان کے تمدنی حقو ق میں اولین حق زندہ رہنے اور تمدنی فرائض میں اولین فرض زندی رہنے دینے کا حق ہے ۔ اسلام نے انسان کی جان کو محترم قرار دیا ہے ۔ سورہ مائدہ آیت (نمبر ۳۲؍میں کسی کی جان بچانے کو تمام انسانوں کی جان بچانے اور کسی کی جان لینے کو تمام انسانوں کا خون کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ جہاد کسی فرد واحد یا منفر د جماعت کا کام نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی عمل ہے جو پوری امت کے اجتماعی فیصلے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے ۔ قرآن و سنت میں جہاں بھی جہاد کا تذکرہ ہے وہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، چنانچہ( سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۹۰)میں ارشاد ربانی ہے کہ قتال کرو اللہ کے راستے میں جو تم سے قتال کرتے ہیں اور زیادتی مت کرنا اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ہے ۔ علماء نے قرآن و حدیث کی روشنی میں جہاد کے لئے بنیادی شرائط مقرر کئے ہیں (۱) ایک امیر کا ہونا (۲) پوری امت کا اجتماعی فیصلہ ہونا (۳) مخصوص قطعہ ارضی کا اپنے کنٹرول میں ہونا اور ان عظیم مقاصد کا ہونا جو جہاد میں مطلوب ہیں ۔
کسی فرد کو خاندان کو فرقے کو یا قوم کو کسی عمل سے دہشت زدہ کرنا دہشت گردی ہے۔ آج چند سرپھرے لوگ جو اسلام اور جہاد کا نام لے کر دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دے رہیں ہیں وہ ہرگز جہاد نہیں ہوسکتی ۔ ان نام نہاد مسلمانوں نے پوری دنیا میں مسلمانوں کو مشکوک بنادیا ہے ۔ جہاد ایک مقدس عمل ہے جو اللہ کی رضا کے لئے ہوتا ہے اور دہشت گردی میں انسانی اغراض و مقاصد شامل ہوتے ہیں۔
ہماری ذمہ داری: موجودہ صورت حال میں ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے علم و عمل کے ذریعہ لوگوں میں تعمیری سوچ پیدا کریں ، مشتعل ہونے کے بجائے متحد ہوکر دہشت گردی کا مقابلہ کریں ڈرنے اور گھبرانے کے بجائے تدبر و تفکر سے کام لے کر اسلام کے پیغام امن کو عام کریں لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا راستہ ہموار کریں ، اور جیسے ممکن ہو جہاں تک ممکن ہو اپنی تحریر ، تقریر اور تدریس کے ذریعے عوام الناس خاص کر نوجوان نسل کی ذہن سازی کریں ان کے سامنے جہاد اور دہشت گردی کے مفہوم کو واضح کریں ۔ ہم تمام مسلمانوں کو اس مقصد حیات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے قرآن عظیم سورہ آل عمران آیت نمبر ۱۱۰؍ میںاس مقصد زندگی کی وضاحت کی گئی ہے جس کے لئے ہم مسلمانوں کو پیدا کیا گیا ہے ارشاد خدا وندی ہے ’’تم ایک بہترین امت ہو جو لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کی گئی ہو ، بھلائی کا حکم دیتی ہو اور برائی سے روکتی ہو اور اللہ پر ایمان رکھتی ہو ‘‘لہٰذا بے گناہوں کا قتل اس مقصد حیات سے انحراف ہے جس کے لئے مسلمانوں کو پیدا کیا گیا ہے ۔
از : سلمان وسیم خان

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights