حیا ہے مرضی مرے خدا کی

0

لکل دین خلق و خلق الاسلام الحیاء (ابن ماجہ) ترجمہ: ’’ہردین کاایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔‘‘

اسلام دین فطرت ہے نظام زندگی ہے۔ صحیح اور غلط، خیر اور شر، حق اور باطل کے درمیان ایک واضح لکیر کا نام دین اسلام ہے۔ اس دین کی بنیاد جتنی مضبوط ہوگی بندے کا ایمان بھی اتنا ہی مضبوط ہوگا، اور ایمان کو استحکام بخشنے والی دیگر کئی صفات کے ساتھ ایک اہم صفت ’’شرم و حیا ‘‘ ہے۔حیا انسان کو پاکباز و پرہیزگار بناتی ہے،صالحیت کو فروغ دیتی ہے، برائیوں سے اجتناب کرنا سکھاتی ہے اور اگر بندے سے کوئی کوتاہی یا گناہ سرزد ہوجائے تو یہ اس کی غیرت ہی ہوتی ہے جو اس کو احساس دلاتی ہے شرمندگی سے دو چار کرتی ہے اور باحیا انسان کسی غلط کام کے ارتکاب پر لوگوں کا سامنا کرنے میں جھجک محسوس کرتا ہے جب کہ بے حیا انسان ڈھٹائی سے اپنے کارنامے دنیا کو سناتا پھرتا ہے۔

حیا مومن کی صفت ہوتی ہے اسی لیے حیا کو اسلام کا اخلاق اور ایمان کا جز قرار دیا گیا۔ رسولؐ کا ارشاد ہے۔

’’ایمان کی ستر یا ساٹھ سے اوپر شاخیں ہیں، لفظی شاخ لا الٰہ الا اللہ اور کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (بخاری و صحیح مسلم)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:’’حیا اور ایمان یہ دونوں ہمیشہ ساتھ اور اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔  (بیہقی)

حیا کی ضد بے حیائی ہے جو قول و فعل میں برائی کا نام ہے۔ جو انسان کی سوچ سے شروع ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ فرد، اس کے خاندان، دوست احباب سوسائٹی ایک سے دیگر پھیلتی چلی جاتی ہے اور اسی سے ہر شر کا آغاز ہوتا ہے اسی لیے قرآن و حدیث میں جہاں باحیا ہونے کی بار بار تاکید کی گئی وہیں بے حیائی اوربے حیائی کے کاموں سے دور رہنے کی سخت تاکید کی گئی۔

رسولؐ کا فرمان ہے:’’حیا ایمان کا جز ہے اور ایمان بہشت میں لے جائے گا اور بے حیائی جفا جہنم کا موجب ہے‘‘؛ ایک اور جگہ رسولؐ نے فرمایا بے حیائی جس چیز میں بھی پیدا ہوجائے وہ اسے لازماً عیب دار اور بدنما کردیتی ہے اور حیا جس چیز میں شامل ہو اسے خوشنما بنا دیتی ہے۔ (ترمذی)؛ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ گھر کے گوشہ میں پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے۔ جب آپؐ کسی ناپسندیدہ چیز کو دیکھتے تو ہم آپؐ کی چہرے کے آثار سے پہچان لیتے۔ (بخاری و مسلم)

نبیؐ کے ساتھ آپؐ کے صحابہ و صحابیات کے کردار بھی اسی صفت سے مکمل آراستہ تھے اس کی مثال عاشقہ رسول صحابیہ حضرت ام خلا ّ دؓ کی ہے جو اپنے اکلوتے بیٹے کی شہادت کی تصدیق کے لیے دربار رسولؐ میں باپردہ مع چہرے کے نقاب حاضر ہوئیں۔ اپنی زندگی کے انتہائی الم ناک لمحات، جس میں اکثر ہوش و حواس بے قابو ہوجاتے ہیں میں باپردہ رہنے پر لوگوں کی حیرانی کو اپنے اس تاریخی رویہ و جملہ سے دور کردیتی ہیں کہ ’’میں نے بیٹا تو ضرور کھویا ہے لیکن اپنی حیاتو نہیں کھو دی۔‘‘ اور رہتی دنیا تک امت مسلمہ کی تمام عورتوں کو یہ سبق دیا خوشی ہویا غم، گھر ہو یا بازار، تعلیم گاہیں ہو یا میدان جنگ، حالات سازگار ہو یا ناسازگار، بے حیائی، بے حجابی و بے پردگی احکامات الٰہی کی خلاف ورزی ہے اور نسوانی تقدس کی بے حرمتی بھی۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وَلاَ تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ  (سورہ انعام: ۱۵۵)؛ ’’بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہو یا چھپی‘‘۔کیوں کہ بے حیائی شیطان کا ہتھیار ہے جس کے ذریعہ وہ خداکے بندوں کو برائی کا لالچ دیتا ہے اور وہ بندے جن کا ایمان کمزور ہوتا ہے بآسانی شیطان کے مکر و فریب کا شکار ہوکر جہنم کے راستے پر قدم رکھ دیتے ہیں اور نوجوان طبقہ شیطان کا مخصوص ہدف ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’یقین رکھ ان میں سے جو تیری پیروی کریں گے تجھ سمیت ان سب کو بھی جہنم سے بھر دوں گا۔‘‘

فیشن کے نام پر عریانیت، فحش فلمیں، گانے، انٹرنیٹ کی سائیٹس، برتھ ڈے پارٹی اور نیو ایئر کے جشن کے نام پر بغیر کسی جنسی تفریق کے ساری رات کلبس میں گزارنا،فحش لٹریچر وغیرہ یہ تمام شیطان کے جدید ہتھیار ہیں اور ان برائیوں کو پھیلانے میں ہمارا نوجوان طبقہ شیطان کا آلۂ کار بنا ہوا ہے نتیجتاً شہوانیت و بے حیائی، عریانیت ہم جنس پرستی، مایوسی و خود کشی، امراض خبیثہ کی کثرت، طلاق و تفریق کا بڑھتا ہوا رجحان، جنسی ہراسانی، بچوں میں بڑھتا ہوا صنفی رجحان اور فرار کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔

آج مغربی تہزیب کا سب سے بڑا ہتھکنڈا Valentine-Dayکا اہتمام ہے جسے محبت کرنے والوں کے دن سے مو سوم کیا جاتا ہے۔نوجوان طبقہ جو اس خرافات میں مبتلا ہیں وہ V-Day کی حقیقت سے بالکل بھی نا آشنا ہیں لیکن اس کے اہتمام پر ان میں ایسا جوش و جذبہ دیکھنے میں آتا ہے جیسے یہ ازل سے ان کا تہوار ہو۔ایک بے حقیقت افسانے پر اپنا وقت مال و دولت اور اپنی عفت و شرم و حیا کو نثار کرنا سراسر احمقانہ فعل ہے۔

 ہندوستان میںV-Day کا آغاز 1992 کے بعد ہوا اور اس آغاز کا موجب ٹی وی چینلس(MTV) کے ریالٹی پروگرامس، ریڈیو پرو گرامس اور وہ نوجوان ہیں جو تعلیم یا روزگارکی خاطر مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں اور واپسی میں برائی و بے حیائی کی لا محدودعا دتیں اپنے ساتھ لاکر یہاں ان کی تشہیر کرتے ہیں۔

V-Day کی سب سے زیادہ تشہیر ان کمپنیوں نے کی جو Economical Liberalisa- tion کے نام پر اس دن کی یاد گارمیں مخصوص Greeting Cards اور تحائف تیار کرتے ہیں لیکن نہ صرف مسلم معاشرہ بلکہ غیر مسلم افراد جیسے شیو سینا بجرنگ دلBJP کے سر کردہ افراد ) بھی اس دن کے اہتمام کو ناصرف نا پسند کرتے ہیں بلکہ اس کے اہتمام پر سخت احتجاج بھی کیا گیا۔ اور اس احتجاج میں شیو سینا کے حامی سب سے آگے تھے ان کا اختلاف دو وجوہ کی بناپر ہے، ایک یہ کہ اس دن کا اہتمام مغرب کی جانب سے ہندوستان کی سنسکرتی کو تباہ کرنے کی ایک چال ہے اور دوسرا یہ کہ یہ عیسا ئیوں کا تہوار ہے13  فروری کو شیو سینا کے ارکان نے بھا رتیہ ’’ سنسکرتی پر چا ریہ یاترا‘‘ کے نام سے سر ناتھ تا گو دولیہ ایک احتجاجی ریا لی نکالی ،اس احتجاج میں شامل شیو سینا کے حواریوں نے مالس ، ریسٹو رنٹس، ہوٹلس، کلبس اور 14 فروری کے دن بے حیائی کے اڈے میں تبدیل ہونے والی تمام جگہوں کے انتظا میہ کو ہر اساں کیا اور کسی بھی طرح کے جشن کے اہتمام سے باز رہنے کی دھمکی دی۔ گو دولیہ پہچنے سے پہلے ان احتجاجیوں نے تقریباً تمام بڑی مار کیٹوں اور محلوں کا دورا کیا اور ساتھ ہی تحائف اور پھولوں کے دو کا نداروں کو 14 Feb کو دو کا ن کھولنے کے خلاف سخت انتباہ دیا( Times Of India)

 اس دور کی یہ ناچتی گاتی ہوئی تہذیب

کیا جانے کس کرب کا اظہار کرے ہے؟

V-Day کی حقیقت: عصر حاضر میں عیسا ئیوں کا سب سے مشہور تہوار عید جب(V-Day) ہے جسے عیسائی ہر سال 14فروری کو منا تے ہیں اور اس سے انکا مقصد اس محبت کی تعبیر ہے جسے اپنے بت پرست دین میں جب الہٰی کا نام دیتے ہیں۔

 یہ عید آج سے تقریبا1700 سال قبل ایجاد کی گئی تھی یہ اس وقت کی بات ہے جب اہل روم میں بت پرستی کا دور دورہ تھا چنانچہ جب ان میں سے والنٹائن نامی راہب نے(جو پہلے بت پرست تھا)، نصرا نیت قبول کرلی تو اس وقت کی حکومت نے اسے قتل کردیا پھر جب بعد میں اہل روم نے نصرانیت قبول کرلی تو اس قتل کے دن کو شہید محبت کا تہوار بنا لیا آج تک یورپ و امریکا میں یہ عید منائی جارہی ہے تاکہ اس موقعہ سے دوستی و محبت کے جذبات کا اظہار ہو اور شادی شدہ جوڑے اور عشق ومعاشقہ کرنے والے افراد اپنی محبت کی تجدید کرلیں اس طرح ان کے یہاں معاشرتی اور تجارتی طور پر اس عید کو خاص اہتمام حاصل ہوگیا ہے۔

 دیگر اسلامی ممالک جیسے ایران وملیشیاء اور سعودی عرب میںV-Dayکا اہتمام خلاف قانون ہے۔ اس دن حکومت بہت چوکس ہوتی ہے اور V-Day کے نا م پر بے حیائی میں ملوث افراد کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔ فروری 2011میں ملیشیا میں(Mind the Valentines Day Trap) کے عنوان سے ایک ملک گیر مہم چلائی گئی تاکہ مسلم عوام کو اس دن کی تباہ کا ریوں سے روکا جاسکے جبکہ پاکستان میں یہ دن سال بہ سال مزید مقبولیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان اور تحفظ ناموس رسالت ان دو تنظیموں نے اس دن کے اہتمام کے خلاف احتجاج کیا بلکہ اس کے اہتمام پر پابندی لگانے کی حکومت سے اپیل کی۔V-Day کی طرح آج ہندوستان میں کئی مخصوص دنوں کا اہتمام کیا جارہا ہے جن کا کچھ سالوں پہلے کوئی نام و نشان نہ تھا جیسے8 مارچ کو بین الا قوامی و منس ڈے کے طور پر تقریباً ہر ملک میں اہتمام کیا جاتا ہے۔

 ماہ مئی کے دوسرے اتوار کوMothers Day اور ماہ جون کے تیسرے اتوار کوFather Day کے نام سے مو سوم کیا گیا۔ یہ دن مغرب میںSaind Josephs Day  کے نام سے بھی منا یا جاتا ہے اور یہ دو دن بھی عیسا ئیوں کی ایجاد ہے۔  سال2004 سے 4؍ ستمبر کو ہندوستان میں عالمی یوم حجاب کے طور پر منا یا جارہا ہے اور سال 2013سے UNO نے اے۔ پی جے عبدالکلام کی یوم پیدائش (15Oct) کو عالمی یوم طلباء( World Student Day) کے نام سے موسوم کیا ہے۔

 الغرض سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی دن کو یاد گار ہم انسان بناتے ہیں کسی نا شائشہ یاد کو ختم کرنے کااختیار بھی انسانوں کے پاس ہی ہے اور کسی ناشا ئستہ اور شر کے طرفدار افرادکے لئے خیر کے متبادل حل کی تلاش بھی اشرف المخلوق کی ہی ذمہ داری ہے اور بحیثیت مسلمان یہ ہمارا فرض منصبی ہے۔

از: فرح ارم

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights