شہید اسماء کے نام والد کا پیغام

ایڈمن

میری پیاری بیٹی اور جلیل القدر استانی’اسماء بلتاجی‘! میں تمہیں الوداع نہیں کہتا، میں یہ کہتا ہوں کہ کل ہم دوبارہ ملیں گے۔ تم نے ہمیشہ سر اٹھا کر زندگی بسر کی اور ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کا…

میری پیاری بیٹی اور جلیل القدر استانی’اسماء بلتاجی‘!
میں تمہیں الوداع نہیں کہتا، میں یہ کہتا ہوں کہ کل ہم دوبارہ ملیں گے۔
تم نے ہمیشہ سر اٹھا کر زندگی بسر کی اور ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔
تم نے کبھی راہ کی رکاوٹوں کی پرواہ نہیں کی، اورہمیشہ آزادی سے محبت کی۔
تم نے اپنی قوم کی تعمیر نو اور دنیا میں اسے ایک منفرد مقام دلانے کے لئے فکر کے نئے نئے افق تلاش کئے۔
تم نے اپنی ہم عمر دوسری لڑکیوں کی طرح دنیا کی لافانی چیزوں کو اپنے دل میں کوئی جگہ نہیں دی۔
تم ہمیشہ اپنی جماعت میں اول نمبر حاصل کرتی رہیں، گرچہ یہ روایتی علوم تمہارے مقاصد اور تمہاری آرزوؤں کی تکمیل کے لیے ناکافی تھے۔
اس مختصر سی زندگی میں میں تمہارے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکا۔ خاص طور سے میری مشغولیات نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ تمہارے ساتھ رہ کر محظوظ ہوتا۔ آخری مرتبہ ہم دونوں میدان رابعہ پر ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، تم نے مجھ سے کہا تھا:
’’ آج آپ ہمارے ساتھ ہیں لیکن پھر بھی مصروف ہیں‘‘۔
میں نے جواباً کہا تھا :
’’ایسا لگتا ہے اس زندگی میں باپ بیٹی کی بھرپور ملاقاتوں کے لیے وقت نہیں نکل سکے گا، میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ جنت میں دوبارہ ہمیں ساتھ رہنا نصیب ہو، تاکہ ہم وہاں اپنی تشنگی دور کرسکیں‘‘۔
تمہاری شہادت سے دو دن پہلے میں نے تمہیں خواب میں دیکھا تھا کہ تم نے شادی کا سفید جوڑا پہن رکھا ہے، اس وقت تم حسن وجمال کا ایسا مجسم لگ رہی تھیں، جس کی مثال دنیا میں نہیں پیش کی جاسکتی۔ جب تم میرے پاس آکر لیٹ گئیں تو میں نے دھیرے سے تم سے پوچھا تھا:
’’کیا آج ہی شام تمہاری شادی ہونی ہے‘‘۔
تم نے جواب دیا تھا:
’’نکاح شام کے وقت نہیں بلکہ دوپہر کے وقت ہوگا‘‘۔
بدھ کے روز دوپہر کے وقت جب میں نے تمہاری شہادت کی خبر سنی، تب مجھے اندازہ ہواکہ تم مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھیں۔ مجھے خوشی ہورہی ہے کہ اللہ رب العزت نے تمہاری شہادت کو قبول کرلیا، اور تم نے اپنی شہادت سے ہمارے اس یقین میں اضافہ کردیا کہ ہم ہی لوگ حق پر ہیں اور ہمارے دشمن باطل پر ہیں۔
یہ میرے لئے بہت درد ناک لمحہ تھا جب تمہارے سفر آخرت کے وقت میں موجود نہیں تھا۔میں تمہارے آخری دیدار سے محروم رہ گیا، نہ توتمہاری پیشانی پر آخری بوسہ دینے کا موقع مل سکا، اور نہ ہی تمہاری نماز جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل کرسکا۔
میری پیاری بیٹی! میں خدا کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ مجھے موت کا کوئی خوف نہیں تھا، اور نہ ہی ظالموں کے قیدوبند سے ڈررہا تھا، بلکہ میں تو اس مقصد کوپایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا تھا جس کے لیے تم نے اپنی روح کا نذرانہ پیش کیا ہے، کیونکہ انقلاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانا بہت ہی ضروری ہے، تاکہ انقلاب کے اہداف اور مقاصد حاصل کئے جاسکیں۔
اب تمہارے سر کے ساتھ تمہاری روح بھی ایک قابل فخر مقام حاصل کر چکی ہے، تم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں، بلکہ آگے ہی بڑھتی چلی گئیں۔ تم مجرم اور ظالم لوگوں کے سامنے ثبات قدمی اور جرأتمندی کا مظاہرہ کرتی رہیں، یہاں تک غداروں کی بندوق سے نکلی ہوئی گولیاں تمہارے سینے میں پیوست ہو گئیں۔تم نے کس قدر حوصلے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا! مجھے یقین ہے کہ اللہ نے تمہاری سچائی اور دیانتداری کا صلہ دیاہے، اور ہم دونوں میں سے تمہیں شہادت کے لیے پسندفرمایا۔
میری پیاری بیٹی اور میری استانی! میں آخر میں تم سے ایک بار پھر وہی کہوں گاکہ
’’میں تمہیں الوداع نہیں کہتا، میں یہ کہتا ہوں کہ ہم بہت جلد اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقاء کے ساتھ جنت میں ملیں گے جہاں ہماری تمہاری اور دوسرے ساتھیوں کی زیادہ سے زیادہ ملاقاتوں کی خواہش پوری ہوسکے گی، اور کچھ بھی تشنگی باقی نہ رہ جائے گی۔

(عربی سے ترجمہ: ابوالاعلی سیدسبحانی)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں