سماجی تجارتی اداروں کے فروغ میں وقف کی املاک کا کردار

ایڈمن

س :سوشل انٹرپرائز سے کیا مراد ہے؟ ج: سوشل انٹرپرائز کا مطلب تجارت کے طریقہ کار اور اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے سماجی کاموں کوانجام دینا(یا تجارت کی طرز پر سماجی کاموں کو انجام دیناہے۔)ماضی میں زیادہ تر سماجی کام…

س :سوشل انٹرپرائز سے کیا مراد ہے؟
ج: سوشل انٹرپرائز کا مطلب تجارت کے طریقہ کار اور اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے سماجی کاموں کوانجام دینا(یا تجارت کی طرز پر سماجی کاموں کو انجام دیناہے۔)ماضی میں زیادہ تر سماجی کام انفرادی طور پر کسی فرد کے ذاتی پیسہ اور کوشش سے انجام پاتے تھے۔لیکن اس طرح کے سماجی کام شروع تو ہوتے تھے لیکن اس شخص کی زندگی تک ہی محدود رہ پاتے تھے اور اس میں کارکردگی کے مسائل بھی درپیش ہوا کرتے تھے۔یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایسے تمام لوگ جو سماج کے تئیںہمدردی کا جذبہ رکھتے ہوںوہ تجارت کے معاملے میں بھی قابل ہوں۔اس کے علاوہ اس طرح کے معاملات میں ذاتی پیسہ ہونے کے سبب کسی قسم کی جوابدہی بھی نہیں رہتی۔سوشل انٹرپرائز میں ان تمام مسائل کو حل کرتے ہوئے اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ کام شروع کرنے والے کی زندگی ہی تک محدود نہ ہواور خود پائیدار بھی ہوتاکہ یہ مالی ذرائع سے پرے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مستقل کوشاں رہے۔آج کل حکومتوں کی جانب سے بھی کمپنیوں (تجارتی اداروں)کو اپنی آمدنی کا ایک حصہ سماجی کاموں میں صرف کرنا لازم قرار دیا جارہا ہے۔اور ان کمپنیوں کے ذریعے یہ پیسہ سماجی کاموں میں مہارت اور پیشہ وارانہ ڈھنگ سے خرچ کیا جارہا ہے۔

س: کیا اسلامی شریعت کے مطابق وقف جائیدادوں کو معاشی ترقی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے؟کیا ماضی میں اس کی مثال ملتی ہے؟
ج:جی ہاں، بلکہ وقف تو ایک دینی فعل ہے جس کا مقصداسلامی شریعت کی رہنمائی میں سماجی اور خدمت خلق کے کاموں کے ذریعے اللہ کی رضاء کا حصول ہے ۔اور ہر وہ کام جو اللہ کی رضاء کی خاطر ہو غیر شرعی طریقہ کار پر نہیں ہو سکتا۔اسی لئے شریعت میں منع کردہ طریقہ آمدنی کے لئے وقف املاک کا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔وقف املاک کی آمدنی کے ناپائیدار ہونے کی یہ بھی ایک وجہ ہے کہ بہت سے ذرائع میں سود شامل ہوتا ہے جس کی شریعت میں اجازت نہیں۔ آج کل توتجارتی طرز پر وقف املاک کی روح کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی نشو و نماکے لئے بیداری اور مواقع موجود ہے ۔کیرالا حکومت نے بھی اسلامی تجارتی کمپنی ’چیرامن فانینشیل سروسس‘ کو فروغ دیا ہے جس نے شریعت اور معاشی امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے چند وقف املاک کو ڈیولپ کیا ہے۔اس ماڈل کو دیگر ریاستوں میں اپنانے کی ضرورت ہے۔

س:کس نوعیت کے تجارتی معاملات میںوقف املاک کا استعمال کیا جا سکتا ہے؟
ج: یہ بنیادی طور پر وقف دستاویز پر منحصر کرتا ہے۔لیکن وقف املاک دینے والے کے منشاء کی خلاف ورزی نہ کرتے ہوئے تجارتی بنیادوں پران کا استعمال کرنے کی بھرپور گنجائش موجود ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی زمین کو مسجد کے لئے وقف کیا گیا ہو اسے بھی معاشی طور پر اس طرح پروان چڑھایا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں آنے والی اس مسجد کی تمام معاشی ضروریات جیسے اس کی مرمت، امام اور موذن کی تنخواہیں اور دیگر خدمت خلق کے کاموں کو اسی کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہیکہ مسجد کا انتظام لوگوں کے چندہ پر ہی چلے۔ اسی طرح اگر کوئی زمین یتیم خانہ کے لیے وقف کی گئی ہو اسے بھی اس طرح پروان چڑھایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی تمام معاشی ضرورتوں کو خود سے پورا کرسکے۔ اس کی بہت ساری مثالیں ہو سکتی ہیں۔ ان وقف املاک پر تمام قسم کے معاشی کام کیے جا سکتے ہیں سوائے ان کے جنھیں شریعت نے منع کیا ہو۔

سوال: وقف املاک کے ذریعہ مسلمانوں کی تجارت اور صنعت کو کس طرح مدد مل سکتی ہے؟
جواب: تمام وقف املاک کے لیے قانوناًضروری ہے کہ ان کا استعمال شریعت کے مطابق ہی ہو۔ مسلم صنعت کار ان فوائد کا استعمال کرسکتے ہیں۔ جس میں وقف املاک کی نشوونما بھی کی جا سکتی ہے۔افسوس کی بات یہ ہیکہ اکثر معاملات میں وقف املاک سے متعلق استعمال کا ہمارا تجربہ منفی ہی رہا ہے۔ ہندوستان میں اکثر وقف املاک پر یا تو مسلمانوں کا غیر قانونی قبضہ ہے یا دیگر لوگوں کا۔ ہندوستان میں ریلوے اور فوج کے بعد اوقاف کے پاس سب سے زیادہ زمینیں ہیں۔ لیکن ملت کے معاشی ارتقاء میں اس کا بہت کم کردارہے۔ اکثر مواقع پر رشوت خور مسلم IASافسران کو وقف کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ملت کا کچھ فائدہ نہیں ہو پاتا۔ ہمیں عوام میں بیداری لانے اور فعال رہنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی مختلف قانونی راستے جیسے قانون حق معلومات کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ اوقاف کی املاک کے غلط استعمال سے متعلق معلومات جمع کرسکیں۔
سوال: ہم وقف املاک کو ہندوستان میں کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟
جواب: اکثر وقف املاک کے پاس خود کو پروان چڑھانے کے لئے پیسہ کی کمی ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے “پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ” سے مدد لی جا سکتی ہے جس میں ایک نجی ادارہ اس کے ساتھ مل کر اس کی ترقی کرسکتا ہے جس میں اسکے منافع کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ یہ نجی ادارہ اس وقت تک وقف ملکیت سے جڑا رہ سکتا ہے جب تک اس کا لگایا گیا پیسہ منافع کے ساتھ اسے مل نہ جائے۔ یہ (Build Operate and Transfer )BOTماڈل کہلاتا ہے۔ یہ ایک آزمودہ ماڈل ہے اور وقف املاک کے لئے اسے اپنانا چاہیے تاکہ ملت کی سماجی اور معاشی ترقی کی جاسکے۔
ماضی میں حکومت سے شعبہ وقف کے لئے علیحدہ سرویسیز شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن وہ منظور نہ ہو سکا۔ لیکن ملت اس کا استعمال کرسکتی ہے اور اپنا خود کا ایک ماڈل تیار کرسکتی ہے تاکہ وقف املاک پر نظر رکھی جاسکے۔ وقف املاک کی معلومات کو ڈیجیٹل شکل دینے سے بھی اس کے غلط استعمال کو جانچا جا سکتا ہے۔ ہمیں ملیشیاء، ترکی و دیگر ممالک میں کی جارہی وقف املاک کی نشوونما سے بھی سیکھ حاصل کرنی چاہیے۔ انگریزی میں ایک کہاوت ہے کہا a penny saved is a penny earned (ایک پیسہ کی بچت کا مطلب ایک پیسہ کی کمائی ہے)۔ مسلمانوں کو وقف کے تحت آنے والی تمام جائدادوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اور اس کابہتر استعمال کرنا چاہیے۔ صرف حکومت کو ملامت کرتے رہنے سے معاملہ کا حل نہیں ہونے والاہے۔ upu

از:ڈاکٹر شارق نثار

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں