فسادیوں کی پردھان کے گھر میٹنگ ہوئ تھی

ایڈمن

“مبارک مسجد” یہ مسجد گڑھی مینڈو کھسرہ نمبر 77 میں واقع ہے جسے بڑی محنت سے بنایا گیا تھا علاقے کے لوگ مزدور پیشہ ہیں خون پسینے کی کمائی سے دیواریں اٹھوائ تھیں علاقے کی اکلوتی مسجد تھی

فسادیوں نے چھت تک باقی نہیں چھوڑی صرف ٹوٹی پھوٹی ہوئ چوطرفہ دیوار باقی بچی ہے.
آج جب ہم کچی کھجوری میں لوگوں سے مل رہے تھے تو خبر ملی کہ یہاں کے سموداۓ بھون میں پاس کے علاقے گڑھی مینڈو سے جان بچاکر آۓ ہوۓ لوگ پناہ گزین ہیں.


گڑھی مینڈو کے لوگوں سے ملاقات کے دوران انہوں نے بہت صاف لفظوں میں کہا کہ ہم کو مارنے اور ہمارے گھر لوٹنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے پڑوسی تھے ہم ایک ایک کو پہچانتے ہیں انہوں نے ہمیں ایک فہرست بھی دی کہ 24 کو مغرب کی اذان کے ساتھ ہی جب مسجد پر دھاوا بولا گیا اور مؤذن صاحب کو بری طرح مارا گیا نمازیوں کے سر پھاڑے گئے اس وقت یہ واردات انجام دینے والے لوگ کون تھے ان کو معلوم ہے کہ اگلے دن وہاں کے سارے کیمرے توڑنے اور گھروں سے اس کی ریکارڈنگ نکلوانے والے لوگ کون تھے. 25 تاریخ کو جو لوگ گھروں میں گھسے اور علاقے کے چن چن کر بیس پچیس مسلمانوں کے گھر جلائے گئے اور لوٹ پاٹ مچای گئ اس کے پیچھے جن کا ہاتھ ہے ان کو بھی یہ پہچانتے ہیں. ان کا کہنا ہیکہ ایک دن پہلے سب فسادیوں کی پردھان کے گھر میٹنگ ہوئ تھی اس دن اگر پردھان چاہتا تو ہنگامہ رکوا سکتا تھا لیکن وہ خود اس پوری کاروائی میں شامل تھا وہ اپنے گھر کی چھت سے دیکھتا رہا اور اس کے سامنے اسی علاقے کے کئی گھر پھونک دئے گئے.


لیکن میرے یہ پوچھنے پر کہ یہ فہرست آپ مجھے دینے کے بجائے پولس کو کیوں نہیں دیتے انہوں نے جواب دیا کہ “اتنے بھی بھولے مت بنو! اس دن پولس کس کے ساتھ تھی وہ آپ کو بھی معلوم ہے ہمیں بھی معلوم ہے ہمارے اپنے پھونکے گئے گھر بار کے FIR تو پولس لینے کو تیار نہیں ہے اور آپ چلیں ہیں انکو گرفتار کروانے”.


انہوں نے بتایا کہ” آج بھی علاقے میں دہشت کا ہی راج ہے ہم ہمت کرکے دن میں اپنے گھر دیکھنے چلے بھی جائیں تو اندھیرا ہونے سے پہلے پہلے لوٹ کر سموداے بھون واپس آجاتے ہیں. جبکہ اس حادثے کو ہوے آج دس دن سے زیادہ ہو چکے ہیں. SDM صاحب ہم کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیگا لیکن سوال یہ ہیکہ جب ہمارے گھر بار جلاۓ جا رہے تھے اس وقت یہ کہاں تھے اور کیا امید رکھیں ان سے یہ تو مسجد جلنے کے تین دن بعد جاکر وہاں پہنچے تھے.”


مسجد کے صدر صاحب نے بتایا کہ وہ مسجد کئ سالوں میں جاکر بنی تھی انہوں نے زمین وقف کی لوگوں نے ایک ایک کوڑی جٹای کیونکہ اس علاقے میں کوئ اور مسجد  نہیں تھی. 2015 میں جاکر یہ کسی حد تک مکمل ہوئ تھی اور پھر پیسے جوڑجوڑ کر 64,000 روپے جمع کئے گئے تھے  تاکہ کچھ اور کام کرایا جا سکے لیکن فسادیوں نے مسجد کو بالکل ہی جلا دیا اب سواۓ اکھڑی ہوئ دیواروں کے اور کچھ باقی نہیں بچا نہ وضوخانہ نہ بیت الخلا نہ ہی جنازہ اٹھانے والی چارپائ,  قرآن مجید کے تمام نسخے بالکل ہی جلا دیے گئے ہیں اب تو وہاں چھت بھی باقی نہیں بچی ہے.


اسکے بعد ہم صدر صاحب کے آفس گۓ جسے مکمل طور سے جلا کر راکھ کر دیا گیا ہے, سواۓ جلے ہوۓ ملبے کے وہاں کچھ باقی نہیں بچا وہاں ان کی تجوری بھی تھی جس میں قرآن شریف کے نسخےاور مسجد کے 64000 روپے اور ذاتی 40000 روپے رکھے ہوے تھے وہ تمام راکھ کا ڈھیر ہو گئے.

ہم نے مسجد کو اسی وقت دوبارہ آباد کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن وہاں کے لوگوں نے کہا کہ ہولی ختم ہونے کا انتظار کرنا بہتر ہے اس کے بعد مسجد کی مرمت کا کام شروع کیا جائیگا.

گڑھی مینڈو میں 24 تاریخ کو مغرب کی اذان کے ساتھ ہی مسجد پر ہلا بول دیا گیا تھا اور اگلے دن شام میں لوگوں کے گھروں میں لوٹ پاٹ اور آگ زنی ہوئ اور مسجد کو بھی آگ لگا دی گئ لیکن اس پورے عرصہ میں پولس کی طرف سے کوی مدد نہیں کی گئی. لوگ بھاگ کر کچی کھریجی کے سموداے ہال پہنچے اور جان بچائی یہاں میں اس علاقے کے سول ڈیفنس کے ذمہ دار عبدالقادر صاحب اور ان کی ٹیم کا بھی ذکر کرنا چاہون گا جو پہلے دن سے ان کی دیکھ بھال میں لگے ہوۓ ہیں اور کھانے پینے سے لیکر علاج معالجہ ,کپڑے وغیرہ تمام ضروریات مہیا کرانے میں جٹے ہوۓ.

~فواز جاوید, لقمان

ٹیم SIO DELHI

مارچ 2020

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں