ماہنامہ رفیق منزل ماہ نومبر 2017 کا شمارہ پڑھنے کو ملا پڑھنے کے بعد جو احساسات دل میں پیدا ہوئے قبل اس کے کہ انہیں آپ تک منتقل کروں، ذمہ دارانِ رفیق منزل کو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ایسے حالات میں جبکہ ملت کے بہت سے رسالے اور میگزین دھیرے دھیرے بند ہورہے ہیں، رفیق منزل مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہے اور طلبہ برادری کے ذہنی اور اخلاقی معیار کو بلند کرنے میں کوشاں ہے۔ رفیق منزل مختلف نوعیت سے سابقہ رسالوں کے مقابلے میں اب بہت ممتاز اور معیاری معلوم ہوتا ہے۔ اولاًرسالہ کے اوراق بہت جاذب نظر اور خوبصورت ہوئے ہیں جو کہ دیگر پروفیشنل میگزین سے کم نہیں ہے۔
ثانیاً اس شمارہ میں “تعصب اور عصبیت” کے متعلق مضامین کا غلبہ رہا ہے جو ایک اچھی سوچ ہے اور قارئین کے ذہن کو اس جانب سوچنے اور غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
ان مضامین میں سے راقم کو جو مضمون پسند وہ سعود فیروز صاحب کا لکھا ہوا “لبرل ازم اور کمیونٹیرینزم”ہے جس میں انہوں نے ان دونوں نظریات کا مختصر اور جامع تعارف پیش کیا ہے اور اس تعلق سے مزید پڑھنے کی جستجو پیدا ہوگئی۔ مجموعی لحاظ سے رفیق منزل طلبہ کی اچھی رہنمائی کر رہا ہے۔
ناچیز مدیر محترم سے گزارش کرتا ہے کہ ہر شمارہ میں جدید افکار کے حوالے سے ایک مضمون مختص کریں مثلاً ‘جدیدیت اور ما بعد جدیدیت، ‘ساختیات اور پس ساختیات وغیرہ اور اگر ساتھ ہی ان کے پیدا کردہ چیلنجز کا اسلامی نقطہ نظر آجائے تو سونے پے سہاگہ۔ امتیاز احمد ۔
اے ایم یو علی گڑھ
یہ کہا جاتا ہے کہ نوجوان ہی کسی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں ، جہد مسلسل اور جفا کشی ان کا امتیاز ہو تا ہے ،بے پناہ صلاحیتیں ان میں پوشیدہ ہوتی ہیں، بلند پرواز ان کا ہدف ہو تا ہے ، چیلنجز کا مقابلہ کرنا ان کا مشغلہ ہوتا ہے، شاہینی صفات سے وہ متصف ہوتے ہیں ، ایک بڑے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے وہ بہآسانی ساحل پہ کشتیاں جلانے کو تیار اور ہواؤں کا رُخ موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لیکن یہ طبقہ اسی وقت قوم وملت کے لئے کار گر ثابت ہوسکتا ہے جب اس پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے ۔ نوجوانوں کی اسلا می خطوط پر رہنمائی کرنا نہ صرف دور حاضر کا بلکہ ہر دورمیں تجدیدی نوعیت کا کام ہوتا ہے۔موجودہ حالات میں نوجوانوں کے درمیان مقصد زند گی سے ناآشنائی ہے ان کا طرز زندگی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے، ان کے اندرفکری، تعمیر ی اور تخلیقی سوچ کا پروان نہ چڑھنا بہت بڑا المیہ ہے۔ ایسے حالات میں رفیق منزل کے ماہ دسمبر کا شمارہ دیکھ کر خوشی ہوئی اور اس کے مرکزی موضوع “مسلم نوجوان کی طرز زندگی” کو تفصیل سے پڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی، فہرست پر نظر ڈالی تو بےحد خوشی ہوئی کہ مرکزی موضوع کے تحت مختلف مضامین کو طلبہ و نوجوانوں کے لئے بہت ہی سلیقے سے یکجا کیا گیا ہے ـ شمارے میں مرکزی موضوع کے تحت بہترین تجزیاتی مضمون شامل کیے گئے جس سے یقیناً قارئین کو فائدہ ہوگا۔
رفیق منزل کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ اس کا معیار پہلے کے بالمقابل کافی بلند ہوا ہے شمارے میں جہاں عمدہ مرکزی موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے وہیں مختلف النوع مضامین کے لیے کالم بھی مختص کئے گئے ہیں۔ چونکہ انسان کا کوئی کام نقص سے پاک نہیں ہوتا اس لئے شمارے میں پروف ریڈنگ کی کافی کمی محسوس ہوئی امید ہے آئندہ اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ امت کے نوجوانوں کو زندگی کا مقصد اور دین کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ آمین
عفان معین خان۔الجامعہ الاسلامیہ، کیرلہ
موجودہ حالات میں علم کے حصول کے لئے محنت کرنا ایک عجیب بات ہوگئی ہے۔آج سے دس بیس سال قبل کی بات لے لیجئے جہاں علم حاصل کرنے کے ذرائع اتنے نہ تھے جتنے آج موجود ہیں۔چونکہ یہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں ہم علم اپنے جیبوں میں لیے گھوم رہے ہیں، جہاں علم اور خبریں ہم ٹکڑوں میں پڑھنے کے عادی ہوچکے ہیں، ہمارے گھروں کے دروازوں پر میگزین و کتابیں دستیاب کی جارہی ہیں یقیناً یہ فائدہ مند ہیں۔ لیکن علم کا بہتر حصول کتابوں کے سوا کسی اور ذریعہ سے فائدہ مند نہیں۔
الحمدللہ ماہ دسمبر کا رفیق منزل فکری اور علمی اعتبار سے فائدہ مند رہا جہاں مختلف عناوین کے ذریعہ علم میں اضافہ ہوا، جن میں کئی تو نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گے اور کئی عناوین نوجوانوں کو اپنی ذمہ دراری کا احساس دلائیں گے، اس کی امید کرنا غلط نا ہوگا۔مختلف عنوان جو نوجوانوں کو راہ دکھائیں گے، جہاں ‘وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا، ہمارے اسلاف کی قربانیوں اور خدمات کی مثالیں پیش کرتے ہوئے ہمارے مقصد کو واضح کرتا ہے اور یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم اس قوم کے فرد ہیں جو دنیا کو دنیاوی اور اخروی دونوں میں کچھ دینے کی قابلیت رکھتے ہیں اور ان کی ہر طرح سے اصلاح کرتے ہیں ۔تو دوسری طرف نوجوانوں کی طرز زندگی خدشات اور امکانات میں یہ بات نکل کر آتی ہے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی خواہشات کے خاطر کوئی بھی غلط کام کرنے کے لئے تیار ہے۔ وہ کسی بھی حد کو پار کرنے کیلئے تیار ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں میں اخلاقی گراوٹ بڑھتی جارہی ہے۔ اگر مسلم نوجوان اپنی نفسانی خواہشات پر قابو کرنے پر خود کو تیار کر لیتا ہے تو یقیناً تاریخ اُن نوجوانوں کی خود گواہی دے گی۔
ایسے موقع پر ان عنوانات پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ مومن زمانہ شناس ہوتا ہے وہ ماضی حال اور مستقبل پر گہرا فہم رکھتا ہے اس کو دیکھ کر آنے والے حالات کو بہتر بنانے میں مثبت پہلو ادا کرتا ہے۔ایسے حالات میں ایک نوجوان کو اپنی صحت کا خیال رکھنا لازم ہے ایک نوجوان کا تصور اسکی ساخت، قوت اور جذبہ سے پہچانی جاتی ہے اکثر دیکھنے کو مل رہا ہے نوجوان جزوقتی تسکین کی خاطر اپنے جسمانی قوت کو نقصان پہچا رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ روحانی پاکیزگی کو بھی برباد کر رہا ہے جس کی وجہ سے فکری صلاحیت اور جسمانی طاقت پر اس کا گہرا اثر پڑ رہا ہے اور اخلاقی خرابیاں پروان چڑھ رہی ہیں۔ایسے حالات جہاں پر ملک ایک طرفہ ذہنیت کا موڑ لے رہا ہے، جہاں پر لو جہاد ‘گھر واپسی اور گائے کے نام پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں ملک کو ایک ذہنیت کی طرف کھینچا جا رہا ہے ایسے حالات میں ایک مسلم نوجوان کی ذمہ داریاں بڑھتی جاتی ہیں ایسے حالات میں ایک مسلم نوجوانوں کے گروہ کا ‘اسلام ایک نظام حیات، جیسے نعروں کی سدا لگائے تبدیلی کے طرف بڑھنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں ایک مسلم نوجوان کا تیار ہونا اور افراد سازی کرنا ہی سب سے اہم ضرورت ہے۔
سلیمان خان۔نظام آباد