2024ء کے پارلیمانی انتخابات اور علاقائی پارٹیوں کا عروج و زوال

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

اٹھارویں لوک سبھا کے الیکشن کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ اب جو مخلوط حکومت مرکز میں تشکیل پائی ہے یہ ایک کمزور حکومت ہے۔

        2024ء کے عام انتخابات حقیقت میں قومی نوعیت کے انتخابات رہے ہیں لیکن ان انتخابات میں ملک کی علاقائی پارٹیوں کا جو رول رہا اس سے ملک کا سیاسی منظر نامہ یکایک تبدیل ہو گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اٹھارویں لوک سبھا الیکشن کا اعلامیہ جاری ہونے سے بہت پہلے بڑے طمطراق سے 400+لوک سبھا کی سیٹیں حاصل کرنے کا دعویٰ ٹھونک دیا تھا۔ پورے ملک میں یہ بیانیہ کھڑا کر دیا گیا کہ من جملہ543 لوک سبھا کی نشستوں میں سے بی جے پی370نشستوں پر کا میابی درج کرائے گی اور این ڈی اے کے حلیفوں کے ساتھ چار سو سے زائد نشستوں پر کا میابی کے جھنڈے گاڑے گی۔ لیکن جب 4جون کو انتخابی نتائج آئے تو بی جے پی کا 400پار کا نعرہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔ بی جے پی 240سیٹوں تک سمٹ کر رہ گئی اور اسے 63سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ بی جے پی کو اس کراری شکست دینے میں علاقائی پارٹیوں کا کلیدی رول رہا ہے۔ بیشتر علاقائی پارٹیاں انڈیا الائنس کے ساتھ رہیں۔ این ڈی اے میں شامل علاقائی پارٹیوں میں آندھرا پردیش کی تلگو دیشم پارٹی نے لوک سبھا کی 16/ نشستوں پر کا میابی حاصل کی اور بہار کی جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو)نے 13/ لوک سبھا حلقوں میں انتخابات جیت کر بی جے پی کو تیسری مرتبہ حکومت بنانے کا موقع فراہم کر دیا۔ یہ دونوں پارٹیاں سیکولر اتحاد میں شامل ہو تیں تو بی جے پی کا 2024میں صفایا ہو گیا ہوتا۔ اب ملک میں سیاسی پارٹیوں کا کوئی نظریہ باقی نہیں رہا بلکہ اقتدار کا حصول ہی منتہائے مقصود بن گیا ہے اس لئے چندربابو نائیڈو اور نتیش کمار جیسے سیاسی قائدین بھی ہندوتوا نظریہ رکھنے والی پارٹی کے ساتھ اقتدار میں شریک ہو گئے۔ انڈیا الائنس میں شامل علاقائی پارٹیوں میں تامل ناڈو کی ڈی ایم کے، مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس، اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی، دہلی کی عام آدمی پارٹی، مہاراشٹرا کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شردپوار گروپ)،ادھوے ٹھاکرے کی شیو سینا، جھاڑ کھنڈ کی جے ایم ایم، بہار کی راشٹریہ  جنتا دل (آر جے ڈی)، کیرلہ کی انڈین یونین مسلم لیگ کے علاوہ دیگر چھوٹی سیکولر پارٹیاں بھی شامل ہیں۔ انڈیا الائنس میں شامل ا ترپردیش کی سماج وادی پارٹی نے اپنی زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کر تے ہوئے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اتر پردیش میں لوک سبھاکی 80 سیٹیں ہیں۔ سماج وادی پارٹی نے 37نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے ملکی سیاست میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ بی جے پی کو یوپی میں شاندار کامیابی ملے گی لیکن وہاں بی جے پی محض 33/نشستوں پر کامیاب ہو سکی۔ بنگال میں ترنمول کانگریس نے 42نشستوں میں سے 29پر کامیابی حاصل کرکے بی جے پی کے چار سو پار کے نعرہ پر سیندھ لگادی۔ مہا راشٹر میں لوک سبھا کی 48نشستیں ہیں مہا وکاس اگھاڑی نے جس میں این سی پی (شرد پوار) شیو سینا (ادھوے ٹھاکرے) اورکانگریس شامل ہیں 30لوک سبھا کے حلقوں میں کامیاب ہوکر ملکی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا۔ بی جے پی کو مہاراشٹر میں صرف 17/ حلقوں میں کا میابی مل سکی۔ بنگال میں وہ بہت کچھ کوشش کے باوجود بی جے پی 13/ لوک سبھا کی نشستوں پر کامیاب ہو سکی۔ جب کہ ان تمام ریاستوں میں 2019ء لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ لیکن اس مرتبہ علاقائی پارٹیوں نے بی جے پی کو چاروں خانے چت کر دیا۔   2024ء کے لوک سبھا الیکشن کے نتائج سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ ملک کی علاقائی پارٹیوں نے اپنی سیاسی معنویت ملک سیاست میں پھر ایک مرتبہ منوالیا ہے۔ ان پارٹیوں نے بی جے پی کے انتشار پسندانہ نظریات پر قدغن لگانے میں تیر بہدف کا کام کیا ہے۔ یوپی، مغربی بنگال، مہاراشٹر، تامل ناڈو اور دیگر ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں شکست و ریخت سے دوچار ہوجاتیں تو ملک کی جمہوریت کا مستقبل میں کیا حال ہوتا اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہوجاتا۔ ان علاقائی پارٹیوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی کے ذریعہ بی جے پی کے مذموم ارادوں کو ناکام کر دیا۔ انڈیا الائنس میں شامل پارٹیوں کو حکومت بنانے کا موقع نہیں ملا ہے لیکن وہ ایک طاقتور اپوزیشن کا رول ادا کر سکتی ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ بر سر اقتدار پارٹی کے پاس 292/ ممبران ہیں جب کہ اپوزیشن کے 232ممبران ہیں۔ بی جے پی اگرچہ تیسری مرتبہ اپنے حلیفوں کو لے کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن وہ اب من مانی نہیں کر سکتی۔ اس کے پاس اتنی اکثریت نہیں ہے کہ وہ دستور کو بدل دے یا ایوان میں کوئی قانون بغیر بحث و مباحث کے منظور کرلے۔ یہ علاقائی پارٹیوں کا کا رنامہ ہے کہ انہوں نے بی جے پی کو اخلاقی شکست دے دی۔ چار سو پار کا دعوی کرنے والے اب ہر چھوٹی بڑی پارٹی کی منت سماجت کرتے ہوئے حکومت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ این ڈی اے میں شامل علاقائی پارٹیاں بھی بی جے پی کو اپنے مخصوص ایجنڈے پر عمل کرنے سے روکنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گی۔ ہندوتوا، ہندو راشٹر، یکساں سول کوڈ، سی اے اے، اقلیتوں کو ریزویشن ختم کرنے کے دعوے اب چلنے والے نہیں ہیں۔ نتیش کمار اور چندرابابو نائیڈو کو مسلمانوں کے ووٹ بھی بڑی تعداد میں حاصل ہوئے ہیں۔ یہ دونوں قائدین سنگھ پریوار سے وابستہ نہیں ہیں۔ سیاسی مجبوریوں اور مفادات نے انہیں بی جے پی سے قریب کر دیا ہے۔ جس دن وزیر اعظم نریندرمودی ان کے مطالبات کو قبول نہیں کریں گے اسی دن یہ سیر و تفریح ختم ہوجائے گی۔ مودی حکومت کا دارومدار اب علاقائی پارٹیوں کی مرضی پر ٹِکا ہوا ہے۔ یہ خود بھی جمہوریت کے تحفظ کی ایک اچھی علامت ہے۔ دیگر علاقائی پارٹیاں بھی مخلوط حکومت میں اپنی حصہ داری طلب کرتی رہیں گی۔ ابھی حکومت کو بنے کچھ ہی دن ہوئے ہیں لیکن علاقائی پارٹیوں کا دباؤ حکومت پر بڑھتا جا رہا ہے۔ بی جے پی کی حلیف شیو سینا نے کھلے عام کہہ دیا کہ مودی کے چار سو پار کے نعرے سے غلط اثر پڑا ہے۔ اس سے این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ جن علاقائی پارٹیوں کو مجلس وزراء میں عہدے نہیں ملے وہ کسی بھی وقت این ڈی اے کو خیرباد کرکے انڈیا الائنس کے اتحاد میں شامل ہو سکتے ہیں۔

اٹھارویں لوک سبھا کے الیکشن کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ اب جو مخلوط حکومت مرکز میں تشکیل پائی ہے یہ ایک کمزور حکومت ہے۔ بی جے پی جس نے 370سیٹیں حاصل کرنے کا دعوی کیا تھا وہ سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کر سکی۔ حکومت سازی کے لئے کُل 543نشستوں میں سے کم ازکم 272نشستوں پر کا میابی لازمی ہے۔ بی جے پی یہ میجک نمبر تک بھی نہیں پہنچ سکی۔ اس لئے پانچ سال تک تلگو دیشم اور جے ڈی یو کے ناز نخرے بی جے پی کو برداشت کرنا پڑیں گے۔ اس کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ بیساکھیوں پر چلنے والی یہ حکومت اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کر سکے گی۔ ہر علاقائی پارٹی کا اپنا ایک ایجنڈا ہو تا ہے۔ علاقائی پارٹیاں قومی مسائل سے زیادہ علاقائی ایشوز کے حل پر زور دیتی ہیں۔ تلگو دیشم اور بہار کی پارٹیوں کا مطالبہ رہا کہ ان کی ریاستوں کو خصوصی مرتبہ دیا جائے۔ ان کے لئے مرکز کی جانب سے زیادہ فنڈس منظور کئے جائیں۔ مرکز اس معاملے میں ٹال مٹول کرے گا تویہ علاقائی پارٹیاں بھی این ڈی اے میں شامل رہنے پر از سر نو غور کریں گی۔    

   2024ء کے عام انتخابات میں ملک کی جہاں بعض علاقائی پارٹیوں نے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھاتے ہوئے ملک کی سیاست کو ایک نیا رخ دیا ہے وہیں بعض علاقائی پارٹیوں کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خاص طور پر آندھراپردیش میں وائی ایس آر کانگریس کو نہ صرف لوک سبھا انتخابات میں 25میں سے صرف4 سیٹیوں پر کا میابی ملی وہیں اسے آندھرا پردیش میں اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ وائی ایس جگن موہن ریڈی کو عوام نے دوسری معیاد کے لئے مسترد کر دیا۔ تلگو دیشم نے لوک سبھا کی 16/ نشستوں پر نہ صرف کا میابی حاصل کی بلکہ وہ ریاست میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کا میاب ہو گئی۔  2014ء میں دو تلگو ریاستوں کے قیام کے بعد ہوئے ریاستی اسمبلی الیکشن میں تلگو دیشم بر سر اقتدار آئی تھی۔  2019ء کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں وائی ایس آرکانگریس کو حکومت بنانے کا موقع ملا تھا۔  2024ء کے لوک سبھا الیکشن میں تلگو دیشم کی آندھی نے وائی ایس آر پارٹی کے پرخچے اُ ڑادئے۔ اڑیسہ میں بیجو جنتا دل کو بھی حیران کن شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اڑیسہ میں 24 سال بعد نوین پٹنائیک کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ وہ چھٹی معیاد کے لئے عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر سکے۔ پہلی مرتبہ اڑیسہ میں بی جے پی حکومت بنانے میں کا میاب ہو گئی۔ بی جے ڈی لوک سبھا کی صرف دو سیٹیوں پر کا میاب ہوئی اور ریاستی اسمبلی میں بھی اسے بی جے پی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طویل عرصہ تک بیجو جنتا دل، این ڈی اے کا حصہ رہی لیکن حالیہ الیکشن میں بی جے پی اور بی جے ڈی کے درمیان اتحاد نہیں ہوسکا۔ نوین پٹنائیک کے والد اور اڑیسہ کے قدآور سیاست دان بیجو پٹنائیک، ایک سوشلسٹ نظریہ کے حامل قائد تھے۔ انہوں نے ہمیشہ فرقہ پرستی کے خلاف مقابلہ کیا۔ لیکن نوین پٹنائیک اپنے والد کے دیرینہ نظریات کو چھوڑ کر بی جے پی کا ساتھ دیتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے گھر میں بی جے پی داخل ہوگئی اور انہیں اپنے گھر سے بے دخل کر دیا۔ نوین پٹنائیک کو اپنی غلطیوں کی سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔ وہ انڈیا الائنس میں شامل رہتے تو ان کےسیاسی زوال کے امکانات کم تھے۔ وائی ایس آر کانگریس اور بیجو جنتا دل کی ناکامی کے علاوہ دیگر علاقائی پارٹیوں کے کمزور مظاہرے نے بھی مرکز میں سیکولر حکومت کے قیام کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ ایک اور اہم علاقائی پارٹی بھارت راشٹریہ سمیتی (تلنگانہ راشٹریہ سمیتی) بھی لوک سبھا انتخابات میں شرمناک شکست سے دو چار ہوئی۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کے قیام کے لئے کلواکنٹلہ چندرشکھیر راؤ (کے سی آر) کی قیادت میں 2001ء میں قائم ہونے والی یہ پارٹی 2024ء کے لوک سبھا الیکشن میں 17/ لوک سبھا حلقوں میں سے ایک پر بھی کا میاب نہیں ہو سکی۔ بعض حلقوں میں اس کے امیدواروں کی ضمانت بھی ضبط ہو گئی۔ ایک ایسی پارٹی جو ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد مسلسل دس سال بر سر اقتدار رہی لوک سبھا الیکشن میں کیوں روند دی گئی یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ بی آر ایس  2014ء اور  2018ء کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہوئی۔ دسمبر 2023ء میں ہوئے ریاستی اسمبلی الیکشن میں اُ سے کانگریس کے ہاتھوں ناکام ہونا پڑا۔ اسے 119/ رکنی اسمبلی میں 34نشستیں حاصل ہوئیں۔ لیکن چھ ماہ بعد ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں بی آر ایس کا کھاتہ ہی نہیں کھل سکا۔ مختصر یہ کہ 2024ء کے عام انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض علاقائی پارٹیاں ملکی سیاست میں بادشاہ گر کا رول ادا کریں گی۔1990ء کے دہے کے بعد ملک میں پھر ایک مرتبہ مخلوط سیاست کی واپسی ہوئی ہے۔ اس میں علاقائی پارٹیوں کا رول بہت اہم ہوگا۔ اب ملکی سیاست میں ایک پارٹی کی حکمرانی کا دور ختم ہو گیا ہے اور علاقائی پارٹیوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ یہ رجحان جمہوریت کے تحفظ اور شہریوں کی آزادی کے لئے بہتر علامت ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں