2024 انتخابات: مین اسٹریم میڈیا کے زہر کا علاج کس نے کیا؟ 

زکریا خان

یہ حقیقت ہر خاص و عام پر عیاں ہے کہ کس طرح انتخابات سے پہلے اور دوران میں بی جے پی نے ساری اخلاقی حدود کو پار کرتے ہوئے حذب مخالف کے خلاف ہر ممکنہ کاروائی کرکے انھیں کمزور کرنا…

زکریا خان


مشہور زمانہ ابراہم لنکن نے ایک بار کہا تھا کہ “آپ کچھ لوگوں کو تو ہر وقت کے لیے دھوکہ دے سکتے ہیں اور تمام لوگوں کو کچھ وقت کے لیے دھوکہ دے سکتے ہیں، لیکن آپ تمام لوگوں کو ہر وقت دھوکے میں نہیں رکھ سکتے۔” 2024ء کے لوک سبھا انتخابات پر تبصرہ کے لیے یہ الفاظ بالکل صادق آتے ہیں۔ اس دفعہ کے انتخابات میں بھی یہی ہوا کہ بی جے پی دس سال بعد اب تیسری بار اس ملک کی اکثریت کو دھوکہ دینے میں ناکام رہ گئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بی جے پی جیسی طاقتور اور انتہائی منظم سیاسی جماعت اپنے سیاسی سفر کے عروج پر آکر یوں اکثریت پانے میں کیوں ناکام ہوگئی؟ ان سوالات کے جوابات سے پہلے آئیے سمجھتے ہیں کہ حذب مخالف نے بی جے پی کے خلاف جس قدر بھی کامیابی حاصل کی اس وقت بی جے پی طاقت و دبدبہ کے کس مقام پر کھڑی تھی، اپنے مفادات کے حصول کے لیے اس نے کیسے کیسے ہتھکنڈے اپنائے اور کس طرح بے دریغ اپنی طاقت کا استعمال کیا۔ یہ سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے آئی ہوئی تبدیلی کی ماہیت کا ہمیں صحیح اندازہ ہوگا۔

یہ حقیقت ہر خاص و عام پر عیاں ہے کہ کس طرح انتخابات سے پہلے اور دوران میں بی جے پی نے ساری اخلاقی حدود کو پار کرتے ہوئے حذب مخالف کے خلاف ہر ممکنہ کاروائی کرکے انھیں کمزور کرنا چاہا۔ جیسے سی بی آئی، ای ڈی، اور دیگر حکومتی ایجنسیوں کو حذب مخاف کے قائدین کے خلاف بے دھڑک استعمال کرنا، انھیں کبھی سچے تو کبھی فرضی مقدمات میں گرفتار کرلینا جس کی سب سے بہترین مثال عین الیکشن کے قریب دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری ہے۔ اس کے علاوہ مخالف سیاسی جماعتوں کے بینک اکاؤنٹ سیز کرنا، الیکٹورل بانڈ اسکیم کے ذریعے دوسری پارٹیوں کی فنڈنگ کو متاثر کرتے ہوئے اپنے لیے تقریباً آدھے سے زیادہ فنڈنگ حاصل کرلینا۔ اس کے علاہ رام مندر جیسے خالص مذہبی مسئلے کو پوری طرح اپنے سیاسی مفادات کے لیے بے شرمی سے استعمال کرنا۔ ساتھ ہی الیکشن کمیشن آف انڈیا کا بی جے پی کے لیے جانب دار رویہ اور وزیر اعظم کا ساری انسانی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینا اور سماج کو تقسیم کرنے کی کوشش کرنا۔ غرض بی جے پی نے اس بار قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر وہ ممکن کوشش کی جس سے انھیں انتخابات میں دوبارہ بھاری اکثریت حاصل ہو سکے۔

اس کے علاوہ ملک کا مین اسٹریم میڈیا جس کا بنیادی کردار برسر اقتدار سے سوال کرتے ہوئے، اس سے اس کے فرائض و ذمہ داریوں کا حساب مانگتے ہوئے اسے جوابدہ بنانا تھا، اس نے شرمناک حد تک اس دفعہ بھی محض بی جے پی کے ترجمان کی حیثیت سے کام کیا اور بی جے پی کے فروغ میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ ان صحافتی اداروں اور ان کے مالکان سے بی جے پی کے نہایت گہرے تعلقات ہیں۔ اس تعلق کے سبب بی جے پی ان اداروں کو ہر قسم کی مالی اعانت پہنچاتی ہے اور بدلے میں یہ سارے صحافتی ادارے اندھا دھند بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں۔ وہی چیزیں دکھاتے ہیں جس سے بی جے پی اور اس کے مفادات کو فائدہ پہنچے اور ہر وہ چیز دکھانے سے گریز کرتے ہیں جس سے بی جے پی کی ناکامیاں اور کمزوریاں عام لوگوں پر ظاہر ہوں اور اگر ان چیزوں کو دکھاتے بھی ہیں تو اس طرح کہ اس کی ذمہ دار سرکار نہیں بلکہ خود حذب مخالف ہے۔ اس دفعہ بھی ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا نے سرکار سے اس کی ناکامیوں اور غلط پالیسیوں پر سوال کرنے کے بجائے حذب مخالف پر ہی ہر طرح سے دباؤ بنانے کی کوشش کی اور نریندد مودی کو اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے واحد متبادل کے طور پر پیش کیا۔ 

پورے الیکشن کی مہم کے دوران، مین اسٹریم میڈیا بھی بی جے پی کے طرز پر “اب کی بار چار سو پار” کا نعرہ لگاتا رہا۔ ساری میڈیا بحثوں کو اسی رخ پر چلایا گیا کہ اس بار بی جے پی کس طرح چار سو سے زائد نشستیں حاصل کرکے تیسری مرتبہ حکومت بنانے جا رہی ہے۔ یوں حذب مخالف پر ایک قسم کا نفسیاتی دباؤ بنانے کی شاطرانہ کوشش کی جاتی رہی۔ لیکن جب نتائج آئے تو بی جے پی غیر یقینی طور پر اکثریت سے محروم رہ گئی اور تقریباً سارے ایگزٹ پول کے اندازے غلط ثابت ہوگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حزب مخالف نے بہت مضبوطی سے انتخاب میں حصہ لیا؟ کیا بی جے پی نے کمزوری کا مظاہرہ کیا؟ یا یہ کہ الیکشن کمیشن نے بہت منصفانہ انداز میں انتخابات کو انجام تک پہنچایا؟ ان سارے سوالات کے جوابات نہیں میں ہیں۔ تو آئیے دیکھتے ہیں کہ کس چیز نے اس بار کے لوک سبھا الیکشن کے نتائج کو غیر معمولی طور پر موڑ دیا جو ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔

اس دفعہ کے انتخابات کی ایک خصوصیت یہ تھی کی یہ محض برسر اقتدار جماعت اور حذب مخالف کے درمیان نہیں لڑا گیا بلکہ صحیح معنوں میں یہ الیکشن ایک فاشسٹ طاقت کے مقابلے میں ان تمام حساس شہریوں نے لڑا جو اس ملک کو نفرت کی آگ سے بچانا چاہتے تھے اور ہر حال میں ملک کے مجموعی نظام میں قانون کی بالادستی کو برقرار دیکھنا چاہتے تھے۔ جو نفرت کی سیاست، معاشی نا برابری، بڑھتی بے روزگاری و مہنگائی جیسے اہم مسائل کو سنجیدگی سے لیا۔ دلچسپ بات یہ کہ ان تمام اہم مسائل کے بارے میں حساسیت و بیداری پیدا کرنے میں سب سے زیادہ فعال کردار آزاد صحافیوں، نڈر اور باصلاحیت یوٹیوبرس و سوشل میڈیا انفلوئنسرز، مصنفین، رضاکاروں اور با حوصلہ نوجوانوں نے ادا کیا۔ انفرادی سطح پر ان لوگوں نے پورے انتخابات کے دوران ان اہم نکات کو موضوع بحث بنایا جس کو ملکی میڈیا کا اکثریتی حصہ دبانے کی ہر ممکن کوشش کررہا تھا جیسے بڑھتی ہوئی بے روزگاری، جمہوری اداروں جیسے عدالت اور تفتیشی ایجنسیوں پر دباؤ اور ان کا غلط استعمال، ڈکٹیٹرشپ کی جانب بڑھتے ہوئے قدم، مہنگائی اور ملک کے قانون کو بدلنے و کمزور کرنے کی دانستہ کوششیں وغیرہ۔

اگر ہم ان لوگوں کی ایک فہرست تیار کریں جنھوں نے اس الیکشن میں ایک بڑی تعداد کو مخاطب کیا اور ایک اہم ذمہ داری ادا کی تو یہ فہرست بہت لمبی ہوجائے گی۔ ہم یہاں ان چند افراد اور اداروں کی مثال پیش کریں گے جو عوام میں اپنی مقبولیت اور اثر کے اعتبار سے دوسروں سے بہت آگے تھے۔

مثال کے طور پر، طویل عرصےتک مین اسٹریم میڈیا میں کام کر چکے دو نامور صحافی روش کمار اور اجت انجم کو کون نہیں جانتا۔ ان دونوں اشخاص نےحکومت کے تئیں میڈیا اداروں کی بڑھتی ہوئی جانب داری اور گھٹتی ہوئی صحافتی اخلاقیات سے مجبور ہو کر اپنے ضمیر کی آواز پر اپنے آپ کو اس سے الگ کرلیا تھا۔ الگ ہونے کے بعد ان دونوں صحافیوں نے انفرادی سطح پر اپنے اپنے یوٹیوب چینل قائم کیے جو دیکھتے ہی دیکھتے غیر معمولی مقبولیت حاصل کر گئے اور کروڑوں لوگوں نے اسے سبسکرائب کیا اور ان کے ویڈیوز لاکھوں لوگوں کے درمیان مقبولیت حاصل کر گئے۔ ان دونوں باحوصلہ صحافیوں نے حکومت سے ہر وہ اہم سوال پوچھا جس سے مین اسٹریم میڈیا بھاگتا رہا، انھوں نے ہر وہ اہم مسئلے پر عوام کے درمیان تفہیم کی جس سے حکومت بھاگنا چاہتی تھی۔ بڑے بے باک طریقے سے آپ نے لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کس طرح حکومت اور اس کا میڈیا آپ کو غیر اہم مسائل میں الجھائے رکھتا ہے اور آخر میں آپ کا ووٹ بھی چرا لے جاتا ہے۔ روش اور اجت نے عوام کو موثر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ مذہب اور ذات پات سے آگے بڑھ کر روزگار اور مہنگائی جیسے اہم مسائل کی بنیاد پر ہمیں اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ان دونوں نے تمام آزاد صحافیوں کی قیادت کی۔

ان لوگوں میں ایک اور بہت بڑی مثال مشہور یوٹیوبر دھرو راٹھی کی ہے جن کے چینل کو تقریباً 2.2 کروڑ سے زائد افراد نے یوٹیوب پر سبسکرائب کیا ہے۔ دھرو نے الیکشن کے دوران بے باک طریقے سے کئی ایسے ویڈوز منظر عام پر لائے جو بی جے پی اور نریندر مودی کو بے نقاب کرنے والے ہیں۔ مثال کے طور پر دھرو راٹھی نے اپنے ایک ویڈیو “Is India Becoming Dictatorship” میں بہت ساری مثالوں سے یہ سمجھایا کے حکومت اپنی طاقت کا کس طرح غلط استعمال کرکے اپنی سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ دھرو نے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر یہی معاملہ کچھ دن اور چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں کہ ہندوستان، روس، چین اور نارتھ کوریا کے طرز پر ایک ڈکٹیٹرشپ کی راہ چل پڑے گا۔ ان کا یہ ویڈیو تقریباً ڈھائی کروڑ سے زائد لوگوں نے یوٹیوب پر دیکھا اور اپوزشن سیاسی جماعتوں نے بھی جگہ جگہ اس ویڈیو کی تشہیر کرکے اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اسی طرح دھرو راٹھی نے اور بہت سے اہم موضوعات پر کئی ویڈیوز بنائے جیسا کہ نریندر مودی کی حقیقت، عام لوگوں کو کیسے برین واش کیا جاتا ہے، الیکٹورل بانڈ اسکیم، اور اورنگزیب و شیواجی کے بارے میں پھیلائے گئے جھوٹے قصے وغیرہ۔ دھرو راٹھی کے یہ ویدیوز کروڑوں لوگوں نے دیکھے اور ان سے سوشل میڈیا پر عوامی رائے میں بڑی تبدیلی پیدا ہوئی۔ دھرو راٹھی کی ان کوششوں کو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر ستائش کی نگاہ سے دیکھا گیا اور بہت سے بڑے عالمی میڈیا اداروں نے اس پر لکھا جیسے الجزیرہ، بی بی سی، دی ایکونومسٹ وغیرہ۔
اس کے علاوہ 2024ء کے بھارتی عام انتخابات میں آزاد آوازوں، کمیونٹی گروپوں اور ذمہ دار شہریوں نے بی جے پی کی غلط معلومات پھیلانے والی مشینری کے خلاف اور حذبِ اختلاف کے اتحاد کے حق میں اہم کردار ادا کیا۔ اس عوامی تحریک نے مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال کرکے کروڑوں رائے دہندگان تک صحیح معلومات پہنچائی اور حکومت مخالف بیانیہ تشکیل دیا۔

فیکٹ چیکنگ اور غلط معلومات کی تصدیق

  • سوشل میڈیا ہوکس سلیئر

پنکج جین کے بنائے گئے اس پلیٹ فارم نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی جعلی خبروں کی تصدیق اور انکشاف میں مہارت حاصل کرتے ہوئے روز مرہ کی ان خبروں کی صحیح تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی غرض سے عوام میں دانستہ طور پر پھیلائی جاتی ہیں۔ جس کا راست مقصد مختلف سماجی گروہوں میں دوریاں و غلط فہمیاں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جین اور ان کی ٹیم نے جھوٹے دعوؤں، ترمیم شدہ تصاویر اور جعلی خبروں کو بڑے پیمانے پر بے نقاب کرنے کا کام کیا، جس سے غلط معلومات کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں مدد ملی۔

  • بوم لائیو اور آلٹ نیوز

ان دو تنظیموں نے خصوصیت کے ساتھ وائرل جعلی خبروں کی تصدیق اور انکشاف پر توجہ مرکوز کی، صحیح معلومات فراہم کرکے حکومت نواز ذرائع کے پھیلائے گئے گمراہ کن بیانیے کا بڑے پیمانے پر مقابلہ کیا۔ ان کے تحقیقی کام نے عوامی مکالمے کی شفافیت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

واٹس ایپ اور سوشل میڈیا چینلز کا استعمال

کمیونٹی واٹس ایپ گروپس: کئی میڈیا رپورٹس کے مطابق، شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے بروقت درست خبریں اور حقائق شیئر کرنے کے لیے براڈکاسٹ گروپس بنائے۔ وہ ان گروپس میں زیادہ تر ایسی معلومات کی تشہیر کرتے اور وہ بحث و مکالمات چھیڑتے جس سے افراد میں مذہبی بنیاوں سے اوپر اٹھ کر ووٹ دینے کی سمجھ پیدا ہو۔ ان گروپس کے ایڈمن انتخابات کے دوران شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو حکومت کی ناکامیوں پر آگاہ کرتے رہے اور ایک نئے متبادل پر سوچنے کے لیے مجبور کیا۔ ان تمام گروپس نے حکومت کے نجی واٹس ایپ گروپس کے ذریعے پھیلائے گئے بیانیے کا مقابلہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

انتخابات پر اثر

ان مشترکہ کوششوں نے 2024 کے انتخابات میں اہم کردار ادا کیا، جس سے ایک بڑی تعداد میں ووٹرز کو درست معلومات تک رسائی ملی۔ اس سے ایک بہتر مطلع شدہ رائے دہندگان کا طبقہ تیار ہوا، جس نے بی جے پی کی بالادستی کو چیلنج کرنے اور حزبِ اختلاف کے اتحاد کی حمایت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان آزاد آوازوں نے غلط بیانیوں کو بے نقاب کیا اور حکومت کی کارروائیوں کا تنقیدی تجزیہ فراہم کیا، جس سے شہریوں کو پروپیگنڈا کے بجائے حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرنے میں مدد ملی۔ مجموعی طور پر، ذمہ دار شہریوں اور آزاد فیکٹ چیکرز کی اس عوامی تحریک نے میڈیا کے منظرنامے میں ضروری توازن فراہم کیا، جس سے عوام تک متنوع نقطہ نظر اور اہم معلومات پہنچ سکیں اور اس طرح بھارت کے 2024ء کے انتخابات کے دوران جمہوری عمل کو مضبوط بنایا۔

اس الیکشن سے کیا اسباق ملتے ہیں؟

اس الیکشن میں کچھ اسباق ایسے ہیں جو سب کے لیے یکساں ہیں تو کچھ اسباق ایسے ہیں جو سب کے لیے الگ الگ ہیں۔ بی جے پی جیسی ایک مغرور سیاسی جماعت کے لیے صاف صاف پیغام ہے کہ وہ عوام میں اس قدر بھی مقبول نہیں جس قدر وہ اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے لیے یہ سبق ہے کہ ہر بار مذہبی منافرت اور غلط جذبات کو بھڑکا کر سیاسی مفادات حاصل کرنا ممکن نہیں۔ یہ چیز شاید اس وقت بی جے پی پر پوری طرح واضح ہوگئی جب انھیں خود رام نگری یعنی ایودھیا میں اور مجموعی طور پر اتر پردیش میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ رام مندر کی تعمیر جسے بی جے پی اپنا سب سے بڑا کارنامہ سمجھ رہی تھی اور اسی ایک بنیاد پر الیکشن میں بھاری اکثریت کے خواب دیکھ رہی تھی ان کے کچھ کام نہ آسکا۔ شاید بی جے پی پر اب یہ واضح ہوگیا ہو کہ ہر بار کے لیے ہر کسی کو بے وقوف بنانا ممکن نہیں۔ ان نتائج میں ایک اور بڑا سبق بی جے پی کے لیے یہ بھی ہے کہ اس ملک کے مسلمان جسے انھوں نے کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی آج بھی ایک طاقت ہے جو بھاری نتائج پیدا کرسکتی ہے اور ان کی یہ طاقت ان کے اتحاد میں پنہاں ہے۔ بی جے پی اور ایسی کسی بھی سوچ کو مسلمانوں کے اتحاد سے ڈرنا چاہیے۔ 

اس الیکشن کے نتائج میں عام ہندوستانیوں کے لیے یہ اسباق موجود ہیں کہ اندھا دھند کسی کی پیروی میں ڈوب جانا اور اسے سب کچھ مان لینا ملک کے مستقبل کے لیے نقصاندہ ہوتا ہے۔ اس میں لوگوں کے لیے سیکھ ہے کہ مذہبی بنیادوں سے آگے بڑھ کر سوچنے کی ضرورت ہے اور ایسے مسائل پر سب کو اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہر کسی کا مستقبل وابستہ ہے جیسے روزگار، ملکی امن اور بھائی چارہ۔ 

خصوصیت کے ساتھ اس الیکشن میں مسلمانوں کے لیے بہت سے پیغامات ہیں۔ ایک سیکھ یہ ہے کہ مسلمانوں نے بہت دیر بعد ہوش کے ناخن لیے  تو انھوں نے ایک بڑی تبدیلی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دوسرا اہم سبق مسلمانوں کے لیے ہے کہ ڈر اور خوف سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ حرکت و عمل ہی میں ہماری بقاء کا راز پوشیدہ ہے۔ تیسرا اہم سبق یہ کہ اتنی کوششوں اور محنتوں کےبعد بھی مسلمانوں کی وہ سیاسی نمائندگی نہیں ہے جو کم از کم مطلوب ہے یعنی آبادی کے تناسب سے۔ مسلمان 14 فی صد ہو کر بھی محض 23 رکن پارلیمان بنا پائے جبکہ سکھ 1 فی صد سے بھی کم ہو کر 13 رکن پارلیمان کے لیے جیت حاصل کر پائے۔ اس میں مسلمانوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ دانش مندی اور ہوش مندی سے کام لیا جائے تو محض ووٹ دینے والوں سے آگے بڑھ کر ہم ووٹ حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں اور ہمارا سیاسی مستقبل بھی اسی سے وابستہ ہے۔ 

(مضمون نگار  ایک صحافی ہیں اور انڈین اکسپریس گروپ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ تعلیمی اور دیگر ملکی مسائل پر مستقل رپورٹ کرتے ہیں۔)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں