2024 کا پارلیمانی انتخاب اور مخلوط حکومت کا چیلنج

ڈاکٹر حسن رضا

لیکن ہمارے لئے بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الااللہ۔۔۔۔۔ اور اس کا تقاضہ ہے کہ فطرت کے اشارے کو ہم سنت الہی کی روشنی میں ٹھیک ٹھیک سمجھیں۔

2024ء کے پارلیمانی انتخاب کی تپش، آگ، دھواں سب اب ماضی کاحصہ ہو چکے ہیں۔ کاروبار سیاست کا اتار چڑھاؤ اور جہاں بانی وجہاں گیری کے ہنگامے قانون قدرت کے مطابق چلتے رہیں گے۔ لیکن ہمارے لئے بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الااللہ۔۔۔۔۔ اور اس کا تقاضہ ہے کہ فطرت کے اشارے کو ہم سنت الہی کی روشنی میں ٹھیک ٹھیک سمجھیں۔ تلک الایام نداولہا بین الناس، یہ گردش ایام ہے جو قانون الہی کے مطابق حرکت پذیر رہتی ہے۔نشیب وفراز شکست وفتح دونوں کا ایک چکر ہے جو چلتا رہتا ہے۔ یہ بھی قانون قدرت کاحصہ ہے کہ “ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون” (الانبیاء) واضح رہے صلح کے معنی سنورنے اور سنوارنے کے ہیں۔ لہذا صالحون یعنی صالح انسانی گروہ وہ ہے جو اپنے کو سنوار لے اور آبادی کو سنوارنے کی استعداد بھی پیدا کرلے۔ سیاسی قوت کے حصول کا راز اسی میں پنہاں ہے۔

بہرحال اٹھارہویں لوک سبھا کے انتخاب نے عوام کو کامیابی کا ایک بڑا تحفہ دیا ہے جس نے ایک بڑی واضح تبدیلی پیدا کردی ہے اور وہ تبدیلی ہے پارلیمانی جمہوریت کی روح کو بحال کرنا۔ ان دس برسوں میں ملک کی پارلیمنٹ جمہو ری روح سے خالی ہوتی جارہی تھی، مشاورتی نظام گویا معطل تھا۔ قانون سازی میں جمہوری قدروں کا کوئی لحاظ نہیں تھا۔ بس بندوں کی تعداد کو گن کر قانون بنائے جارہے تھے۔ کسی بل، تجویز یا پالیسی کے تمام پہلؤوں پر گفتگو اور مباحثے نہیں ہوتے تھے بس ایک آواز تھی اور اپوزیشن میں سناٹا تھا۔ اس سے پہلے پارلیمنٹ کے کردار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ حزب مخالف کا وجود تھا بھی اور نہیں بھی، ون پارٹی رول کا سما تھا۔ جمہوریت کا ڈراما بھی ٹھیک سے کھیلا نہیں جاتا تھا جس ممبر آف پارلیمنٹ سے تیکھے اختلاف کا اظہار ہوا اس کی رکنیت معطل۔ جس قانون کی بارے میں جی چاہا اس کو رسمی بحث کے بعد قانون کا درجہ مل گیا۔ یہ بڑی آزمائش تھی ہندوستانی جمہوریت کے لیے۔ گزشتہ دس برسوں میں جمہوریت کسمپرسی کے عالم میں تھی۔ اس نے حکمراں گروہ کا مزاج غیر جمہوری کردیا تھا۔ اقتدار کی اونچی کرسیوں پر براجمان لوگوں کے اندر اہنکار پیدا ہوگیا تھا، جس کی طرف اشارہ ان کے حقیقی سرپرست حضرات اور فکری رہنما بھی اب کر رہے ہیں، اگرچہ اس کا مقصد ڈیمیج کنٹرول ہے۔

افسوس ہے کہ حکومت کے جمہوری مزاج اور پارلیمنٹ کے جمہوری کردار کی واپسی کا جشن ٹھیک سے منایا نہیں جاسکا اس کو منانا چاہیے، ابھی وقت گیا نہیں ہے۔ اس سے جمہوریت مضبوط اور مستحکم ہوگی، عوام کی تربیت ہوگی۔ ہندو مسلم سکھ عیسائی سب مل کر منائیں گے تو اس کے ثمرات بھی سامنے آئیں گے۔ یاد رہے اس الیکشن سے اپوزیشن انڈیا اتحاد کی مضبوطی اور بی جے پی کا جادوئی نمبر سے کم پر اکتفا کرنا معمولی بات نہیں ہے۔ اگر عوام بیدار رہی تو آگے اور راہیں کشادہ ہوتی جائیں گی۔ افسوس کہ میڈیا نے کم اہم موضوعات کو مشق سخن بنالیا اور مودی کی ہار جیت یا اپوزیشن کی فتح اور شکست اور نمبر گیم کی بحث زیادہ زور سے شروع ہوگئی۔ پھر نتیش کمار اور چندر بابو نائیڈو کی شرکت اور عدم شرکت حکومت سازی اور ایک دوسرے سے مول تول پر گرمی گفتار کا مظاہرہ اور بحث شروع ہوگئی تھی۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس پارلیمانی الیکشن کا جو سب سے اہم حاصل ا ور مثبت نتیجہ ہے وہ یہ کہ ہندوستانی پارلیمنٹ کا جمہوری کردار واپس ہوگیا اور یہ ملک کے عوام کی واضح جیت ہے۔ اس جیت میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، امیر، غریب، پسماندہ آبادی، دلت اور آدی باسی سب شریک ہیں۔ یہ پیغام بہت واضح ہے اور اسے سب کو مل کر اچھی طرح منانا چاہیے اور نئے ڈبیٹ مباحثے اور مذاکرے کا سلسلہ سب کو مل کر شروع کرنا چاہیے تاکہ آئندہ اس آزمائش سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ پارٹیوں کی عددی کامیابی اور منسٹری کی مساویانہ اور عدم مساویانہ تقسیم ‌سب پارٹیوں کے آپسی معاملات و مسائل ہوتے ہی ہیں۔

الحمد للہ اب جب کوئی مسئلہ پارلیمنٹ میں ز یر بحث آئے گا تو بحث کا معیار بدل جائے گا (جیسا کہ چند ایک مثال پہلے سیشن میں ہی دیکھنے کو ملی)۔ بحث میں اپوزیشن کی شرکت برائے نام نہیں ہوگی بلکہ ضابطے کے مطابق مضبوط شرکت ہوگی۔ سب کو مناسب وقت دیا جائے گا، اس کا ایک وزن ہوگا، اپوزیشن لیڈر موجود ہوں گے، کمیٹیاں بنیں گی تو اس میں حزب اختلاف کی نمائندگی ہوگی۔اس لیے نیا چیلنج جو درپیش ہے وہ یہ کہ جو مباحثے ہوں ان میں سول سوسائٹی کس طرح اپنے علاقوں اور ہم خیال نمائندوں کی مدد کرے، ان کا تعاون کرے، ان پر نظر رکھے، ان کو زیر بحث موضوع پر علمی مواد فراہم کرے، پارلیمنٹ کے باہر جو مباحث ملکی مسائل اور ترقی پر ہو رہے ہیں وہ ہمہ جہتی انکلو زیو اور معیار ی ہوں۔منافرت کی جو فضا اور بلاوجہ ایشوز کو مسخ کرکے پیش کرنے کی جو غلط عادت اقتدار وقت کے اشارے اور ایماء پر پختہ ہورہی تھی اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

ایک اہم بات یہ بھی ہوئی کہ یوپی اس منافرت اور ہندتوا کی سیاست کی تجربہ گاہ تھی۔ خود وہیں کی عوام نے مذہبی منافرت اور رام مندر کے مسلہ کو سیاسی آلہ کار بنانے سے انکار کردیا اور اس طرح فرقہ پرستی کے پورے تانے بانے کو بکھیر دیا۔اسی لیے اگرچہ اڑیسہ فتح ہوا اور کیرالا و تامل ناڈو میں نفوذ بڑھا ہے لیکن یو پی اور مہاراشٹر کے نتیجے نے ان خوشیوں پر پانی پھیر دیا۔ ان دونوں ریاستوں کا جو سیاسی پس منظر ہے اور کیسریا پالیٹکس کو شاداب رکھنے کی جو روایت ہے اس نے الیکشن کے نتایج کو تعمیری اور معنی خیز بنادیا ہے۔ ان دونوں تجربوں اور نتائج کو مستحکم کرنا چاہیے اور اس پر گہرائی سے ملت کو بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔
نہیں بھولنا چاہیے کہ بی جے پی محض ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے وہ ایک نظریاتی گروہ اور کلچرل نیشنلزم کے سیاسی نفوذ اور نفاذ کا سیاسی حربہ ہے۔ ان نتائج نے بتادیا کہ ملک کی وسعت اور اس کی رنگا رنگی وطنیت کے اس تنگ نقطہ نظر اور حکومت میں ایک ٹولہ کے مفاد کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتی ہے۔ یہی وجہ کہ ایک بڑے حلقے کی طرف سے اہنکار کی نصیحت کرکے ڈیمیج کنٹرول کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس الیکشن کے نتیجے کے بعد اہنکار کی بحث نے ایک نیا چیلنج کھڑا کردیا ہے اس پر گفتگو ہونی چاہیے کہ مسئلہ صرف فرد اور چند افراد کے اہنکار کا نہیں ہے بلکہ خود نظریات میں پوشیدہ اہنکار کا ہے۔ یہیں سے سوال تصورِ انسان کا آجاتا ہے جس سے شرف انسانیت اور مساوات بنی آدم ‌میں تفریق پیدا ہوتی ہے۔ اس طرف لوگوں کی نگاہ نہیں جارہی ہے یا شاید غض بصر اور دانستہ چشم پوشی سے کام لیا جارہا ہے کہ قومیت کے جارح تصور کی بناوٹ میں اہنکار ہے جس کے سبب تشدد اور اس کی قیادت کا ذہن اور دہن دونوں اہنکاری طریقے سے کام کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ اس کے ہیروز کو اہنکاری خود آر ایس ایس کے امام کہ رہے ہیں۔

اس الیکشن کے نتائج نے یہ فطری موقع پیدا کردیا ہے کہ ہندتوا سیاست کی پوری اخلاقیات پر گفتگو کی جائے۔ ‌راہل گاندھی نے اس پر بڑے زور شور سے تنقید اپنی بھارت جوڑو یاترا سے شروع کردی تھی، وہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے۔ رہا مخلوط حکومت میں نتیش کمار کب کیسے پلٹیں گے اور چندر بابو نائیڈو کب کیا کروٹ لیں گے؟ یہ سوال بہت اہم نہیں ہے ملکی عوام کو مخلوط حکومت کا پورا تجربہ ہے۔ 1967ء میں ریاستی سطح پر اور اس کے بعد 1977ء اور پھر 1998ء سے مخلوط حکومت کا تجربہ ہم لوگ دیکھتے آرہے ہیں۔ یہ کرسی اور اقتدار کی جنگ ہے۔ کوئی پیشن گوئی، اندھیرے میں تیر چلانا ہے۔ عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ موجودہ صورت حال میں جلدی کوئی الٹ پھیر نہیں ہونے جارہی ہے۔ ذرا کانگریس اور بی جے پی کے گراف کو یاد کرلیجئے۔

سالممبر آف پارلیمنٹ کی تعداد
کانگریسبی جے پی
1977 (ایمرجنسی)154
1996140161
1998141182
1999114182
2004145138

اس سے اندازہ ہوتا ہے جب تک کانگریس کی پوزیشن ملک میں ایسی نہیں ہوجاتی ہے کہ اس کے ممبر آف پارلیمنٹ کی تعداد 150 ہوجائے اس وقت تک مخلوط حکومت کا موجودہ کردار یہی رہے گا یعنی بی جے پی بڑی پارٹی ہوگی اور اس کے ساتھ علاقائی پارٹیاں ہوں گی۔ جیسے ہی کانگریس 150 سے اوپر پہنچے گی مخلوط حکومت کا موجودہ گیم پلان الٹنے لگے گا۔ یاد ہوگا کہ ابتداء میں بی جے پی کو اقتدار سے 13 دنوں میں بے دخل کرنے میں اصل رول علاقائی پارٹیوں کا تھا۔

مخلوط حکومت کا کردار بالکل مذہبی رواداری کے اصول پر چلے اس کے لئے ایک آل انڈیا سیکولر پارٹی کو اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ علاقائی پارٹیوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر لے چلے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت جلد ڈگمگانے والی نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر کام کرنے والی ہم خیال تنظیمیں زیادہ تن دہی اور چوکسی سے پھونک پھونک کر قدم رکھیں گی۔ جو معاون پارٹیاں ہیں وہ اپنی اپنی ریاستوں میں اپنی حریف پارٹیوں کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن برقرار رکھنے کے لئے این ڈی اے کاحصہ بنی رہیں گی۔ البتہ چند اہم ریاستوں اور پارلیمنٹ کی خالی نشستوں میں جو ذیلی انتخابات ہوں گے ان کے نتائج این ڈی اے کے مخالف آتے گئے تو پھر صورت حال میں تبدیلی آسکتی ہے۔

اس پورے سیاسی منظر نامے میں مسلم کمیونٹی میں کام کرنے والی سول سو سائٹیز، مسلم سماج کے حوالے سے مختلف سیاسی پلیٹ فارم پر ابھرنے والی سیاسی لیڈر شپ اور مسلم معاشرے کی سماجی اور مذہبی قیادت کا رول بھی بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ واضح رہے کہ مسلم معاشرے کی ان تمام حلقوں اور اداروں کا رول مختلف ہے۔ ان سب کو بیٹھ کر اس موقعے پر اتحاد فکر و عمل کے چند نکات پر اتفاق کرنا چاہیے:

  • ہر سطح پر مسلم ادارے اور ان کی سماجی، سیاسی، مذہبی لیڈرشپ اور سیاست پر اثر انداز ہونے والی انجمنیں اور ادارے ہندوستانی سیاست سے قومی مطالبات کی کشمکش کو خارج کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔
  • وہ اسلام کی سیاسی قدروں کے علمبردار بنیں اور نئی اصطلاحات میں اس کو پیش کرنے کی تربیت حاصل کریں جو دستوری قدروں سے بہت حد تک ہم آہنگ بھی ہیں۔

مخلوط حکومت میں سب پارٹیاں ہندتوا نظریات کی علمبردار نہیں ہیں۔ مسلم سماج، بی جے پی کے مسلم دشمن رویے کی بنیاد پر ان کی لیڈرشپ میں بننے والی مخلوط حکومت کے سلسلے میں پوری طرح منفی ہوجاتا ہے، ایسا عمومی رویہ صحیح نہیں ہے۔ دانشمندی اور سوجھ بوجھ سے مخلوط حکومت میں جو افراد یا گروہ مذہبی رواداری کے علمبردار ہیں لیکن اپنی سیاسی کمزوری یا مصلحت سے شریک حکومت ہیں ان سے کام لینے کی حکمت عملی ہمارے ایڈوکیسی گروپ کو بھی وضع کرنی چاہیے بالخصوص مسلم اور اسلام دشمنی میں لیے جانے والے فیصلے یا مباحث میں ان کا رول تعمیری ہو، گٹھ بندھن سیاست کی مجبوری کا نہ ہو۔ یہ رول تھوڑا نازک ہے لیکن یہ ملک جب گٹھ بندھن اور مخلوط سیاست میں داخل ہوچکا ہے تو ملت کی بھی حسب حال موزوں سیاسی تربیت ہونی چاہیے کمیونٹی کو اور کمیونٹی لیڈران کا رول سیاسی قائد یا حزب مخالف کے لیڈرشپ سے مختلف ہونا چاہیے اور ان سب لوگوں کو اپنے لہجے اور اسلوب میں لازماً فرق کرنا چاہیے۔ سیاست بھی ایک کثیر الجہتی عمل ہے اور موقع محل، حالات، چیلنجز، امکانات، اجتماعی پوزیشن، نزاکت سب کو دیکھ کر بیانات یا اقدامات کا تقاضہ کرتی ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مخلوط حکومت بی جے پی کی واضح اکثریت سے تنہا چلنے والی حکومت سے بہتر ہے اور یہ موقع موجودہ نتائج میں ہمیں حاصل ہے۔ ہمارا اجتماعی سیاسی رویہ اگر ہر حال میں پرجوش طریقے سے صرف ووٹ دینے اور الیکشن میں کسی ایک پارٹی کے امیدوار کو ہرانے جتانے تک محدود رہنے کا عادی ہوجائے گا تو ہم بدلتے ہوئے حالات سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ ہندوستان میں ابھی ایک طویل عرصے تک ہندتوا اور جمہوری و دستوری اقدار کی علمبردار پارٹیوں میں کشمکش رہے گی اور ہر سطح پر کسی نہ کسی شکل میں مخلوط سرکار سے واسطہ رہے گا اور الٹ پھیر بھی ہوتی رہے گی۔اس لئے ہمیں موجودہ صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے امت مسلمہ کے اندر بھی مختلف سول سوسائٹیوں کا مشترکہ اور برادران وطن کے ساتھ مل کر مخلوط پلیٹ فارم بنا کر آگے کی راہ نکالنی ہوگی۔ پرانے راستے اور طریقے کی نقل ہمارے نئے مسئلے کو حل نہیں کرسکتی ہے۔

نئے حالات ہیں، نئے مسائل ہیں، نیا تجربہ کرنا ہوگا۔ مخلوط بی جے پی حکومت اور مضبوط سیکولر اپوزیشن نے ہمارے سامنے پھر نئے چیلنجز اور نئے امکانات پیدا کردئے ہیں۔ ہمیں نئی سوجھ بوجھ اور مل جل کر اپنے لیے راہیں نکالنا ہے۔ حکومت کے فیصلے اور پالیسی پر اثر انداز ہونا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کی سیاست کا رخ پھیرنے میں ہم تنہا کچھ نہیں کرسکتے برادران وطن کے ساتھ مل کر ہی ہندتوا سیاست کی جگہ برادرانہ، روادارانہ اور عادلانہ سیاست کو ہم فروغ دے سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں مقامی سطح سے لےکر قومی سطح پر مضبوط اور مستحکم رشتے بناکر ملک و سماج کے لئے لڑنا ہوگا اور اس کے لئے بڑے پیمانہ پر مسلم سماج، اسلام اور اسلامی تاریخ کے بارے میں جوغلط فہمی پھیلادی گئی ہیں ان کا حکمت سے ازالہ کرنا ہوگا اور اس کے لئے ایک دوسرے کی خوشی و غم میں شرکت ضروری ہے۔ یہ کام گراس روٹ سطح پر ہونا چاہیے۔ 

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں