یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد

ایڈمن

 سید سعادت اللہ حسینیلوک سبھا انتخابات کے پیش نظر جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب (نائب امیر،جماعت اسلامی ہند) سے خصوصی گفتگو۔ (ادارہ)س: ملت اسلامیہ ہند کی موجود سیاسی قوت کو آپ کس حیثیت میں دیکھتے ہیں؟ج:اس وقت ملک کے…

 سید سعادت اللہ حسینی

لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب (نائب امیر،جماعت اسلامی ہند) سے خصوصی گفتگو۔ (ادارہ)

س: ملت اسلامیہ ہند کی موجود سیاسی قوت کو آپ کس حیثیت میں دیکھتے ہیں؟

ج:اس وقت ملک کے بیشتر حصوں میں مسلمانوں کی سیاسی پوزیشن نہایت کمزور ہے۔غالباً آزادی کے بعد اتنی کمزورپوزیشن کبھی نہیں رہی، خصوصا ًیوپی میں جہاں مسلم آبادی کا سب سے بڑا حصہ آباد ہے اور آسام میں جہاں آبادی میں مسلم تناسب جموں و کشمیر کے بعد ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ اس صورت حال کی متعدد وجوہات ہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ فرقہ پرست سیاسی قوتوں نے نہایت منظم اور منصوبہ بندطریقہ سے مسلم ووٹ کو بے اثر کرنے اور الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی اور گذشتہ چار سالوں میں متعدد انتخابات میں یہ کوشش کامیاب رہی ہے۔ فرقہ پرست قوتوں کی یہ کوشش ہے کہ یہ صورت حال مستقل (permanent)ہوجائے۔ بعض انتخابات میں ان کی یہ کوشش ناکام بھی ہوئی۔ مثلاً بہار میں، یوپی کے بعض ضمنی انتخابات میں اورحالیہ کرناٹک کے انتخابات میں۔ہمیں ان دونوں تجربات سے سبق لینا چاہیے اور اس کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل طئے کرنا چاہیے۔

س: 2019کے لوک سبھا الیکشن میں مسلمانوں کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟ الیکشن کے نتائج کا مسلمانوں پر کیا اثر ہوگا؟

ج: یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ فرقہ پرست قوتوں کی کوشش ہوگی کہ فرقہ وارانہ خطوط پر سماج منقسم ہو اور اقلیتیں، بالخصوص مسلمان الگ تھلگ اور بے اثر ہوکر رہ جائیں،یہاں تک کہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی اُن کا نام لینے سے گھبرانے لگیں۔اگلے انتخابات کی ایک اہمیت تو یہ ہے کہ فرقہ پرست قوتوں کی جیت، ملک کے دستوری نظا م میں اہم اور اساسی تبدیلیوں کا ذریعہ بن سکتی ہے اور اس کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ 2014کے عام انتخابات میں، ملک کی جمہوری سیاست کی جو نئی صورت گری کی شروعات ہوئی ہے، اُس کو اگلے انتخابات مستحکم کرسکتے ہیں۔ اس تبدیل شدہ جمہوری سیاست میں اقلیتی ووٹ بے اثرہوں گے۔ اقلیتوں کے مفادات کی بات کرناسیاسی خودکشی سمجھاجائے گا۔اکثریتی استبداد (Tyranny of Majority)پرمبنی یہ جمہوری سیاست لمبے عرصہ تک مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقات کے لئے شدید ضرر کا باعث ہوگی۔اس لئے 2019میں، ہمارے سامنے ایک ایسا گیم ہے جس میں فائنل نتیجہ ہی اہم نہیں ہے بلکہ گیم کا پورا پروسیس اور ہر شاٹ، اہم ہے۔ اس کے لانگ ٹرم اثرات ہیں۔

            بعض خیر خواہوں نے ابھی سے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مسلمان زیادہ سرگرمی نہ دکھائیں، مسلم مسائل کو زیر بحث نہ لائیں، اس سے غیر مسلم ووٹ متحد ہوجائیں گے وغیرہ۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ لیکن اگر مسلمانوں نے اس مشورہ کو قبول کرتے ہوئے، خود کو الگ کرلیا تو پھر یہ علیحدگی خدانخواستہ مستقل ہوگی۔ملک کی جمہوری سیاست کو ’مسلم فیکٹر‘ سے پاک کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوجائے گا۔ یہ پورے ملک کا لانگ ٹرم نقصان ہوگا۔ اس لئے بہت احتیاط کے ساتھ اور دونوں تقاضوں میں توازن کو نہایت باریکی کے ساتھ نبھاتے ہوئے، یہ گیم کھیلنا ہوگا۔ فرقہ پرستانہ تفریق (Communal Polarisation)یقینا نہ مسلمانوں کے حق میں ہے نہ غیر مسلموں کے۔ ہمیں ہرگز ایسی تفریق نہیں ہونے دینا چاہیے۔ لیکن ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے مسائل سرے سے زیر بحث ہی نہ آئیں یا ان کا سیاسی وجود بے معنی ہوکر رہ جائے،یاان کی نمائندگی کم ہوتی رہے یا ان کے ووٹ بے اثر ہوجائیں تو یہ بھی ملک کا بڑا نقصان ہے۔ اسے بھی نہیں ہونے دینا چاہیے۔

س:کیا مسلمانوں میں اتحاد کی کوئی صورت ہوسکتی ہے؟ کیا کوئی اجتماعی قیادت بننے کاامکان ہے؟ دینی جماعتوں کی سوچ موجودہ حالات میں کیا ہے؟

ج:آپ کا سوال غالباً انتخابات کے حوالہ سے ہے۔ دیگر محاذوں پر مسلمانوں کے ملک گیر متحدہ پلیٹ فارم موجود ہیں۔ انتخابی سیاست میں ملک گیر سطح پر شاید ایسی کوشش مشکل ہو، جو کچھ ممکن ہے وہ مسلم مجلس مشاورت وغیرہ کے ذریعہ ہورہا ہے۔ البتہ ریاستوں کی سطح پر ایسی کوششیں ہوسکتی ہیں۔کرناٹک میں گذشتہ کئی انتخابات سے، مسلم متحدہ محاذ بہت اچھی اور کامیاب کوششیں کرتا آرہا ہے۔متحدہ آندھرا پردیش میں بھی،ماضی میں ایسی بڑی کامیاب کوشش ہوچکی ہے۔ ان نمونوں کو ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی دہرایا جاسکتا ہے۔

س: جماعت اسلامی ہند نے 2019 کے الیکشن کو سامنے رکھتے ہوئے کیا حکمت عملی بنائی ہے؟

ج:جماعت دیگر مسلم و غیر مسلم سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ کوشش کرے گی کہ ملک کے تمام شہریوں کارائے دہندگان کی فہرست میں رجسٹریشن ہواور انہیں رائے دہی کا دستوری حق حاصل ہو۔وہ ووٹ دیں یعنی ووٹر ٹر ن آوٹ اچھا ہو۔ حقیقی ایشوز ابھریں۔ جمہوری قدروں اور مساوات، آزادی، اور انصاف کی قدروں میں یقین رکھنے والی سیاسی قوتیں متحد ہوں۔ ان کے درمیان تال میل اور اتحاد ہو۔ سیاسی بحث حقیقی مسائل پر مرکوزہو۔ حقیقی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے جو حساس جذباتی مسائل ابھارے جائیں، اس میں نہ ہم الجھیں اور نہ سیاسی بحث کو الجھنے دیں۔ ان مقاصد کے لئے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر ہم عوام میں بھی بیداری لانے کی کوشش کریں گے اور سیاسی جماعتوں، قائدین وغیرہ پر بھی اثرا نداز ہونے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ۔

س:جماعت اسلامی ہند نے مجلس اتحاد المسلمین کا ساتھ کبھی نہیں دیا کیونکہ اس طرح کی پارٹیاں ووٹوں کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کو اور بڑھاتی ہیں۔ کیا ویلفیئر پارٹی آف انڈیاوہی کام نہیں کررہی ہے؟ویلفیئر پارٹی ان پارٹیوں سے کس قدر مختلف ہے؟

ج: یہ صحیح نہیں ہے کہ جماعت نے ایم آئی ایم کے امیدواروں کی کبھی تائید نہیں کی ہے۔ متعدد دفعہ اور متعدد حلقوں میں کی ہے اور کبھی نہیں بھی کی ہے۔جماعت اسلامی کی تائیدو عدم تائید کچھ اصولوں پر منحصر ہے۔ تائید کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ تائید یافتہ امیدوار یا پارٹی کی تمام پالیسیوں یا خیالات سے ہم متفق ہیں۔جن امیدواروں کی ہم انتخابات میں تائید کرتے ہیں، ان کی اور اور ان کی پارٹیوں کی بہت سی باتوں سے ہم اختلاف بھی کرتے ہیں۔ بعض اختلاف تو بہت بنیادی بھی ہوتے ہیں۔ جمہوریت میں ووٹ ترجیح کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ کسی امیدوار کی تائید کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اُسے اُس کے مدمقابل دیگر امیدواروں کے مقابلہ میں ترجیح دیتے ہیں۔

            ویلفیر پارٹی کا معاملہ مختلف ہے۔ یہ پارٹی قدروں پر مبنی سیاست (Value-based Politics) کے نعرے کے ساتھ ہی  سیاست میں آئی ہے۔ یہ کسی خاص فرقہ کے لئے کام کرنے والی پارٹی نہیں ہے بلکہ اخلاقی اصولوں اور سب کے لئے انصاف اور امن کی خاطر کام کررہی ہے۔ اس نے بڑی حدتک ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ لیا ہے جن کی امیج نہایت صاف ستھری ہے۔ملک کی سیاست میں، اعلی اخلاقی قدروں کے فروغ کی طویل اور صبر آزما کوشش میں وہ لگے ہوئے ہیں۔ یہ ہمارا بھی مقصد ہے۔اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور ا ن کی کوششوں کو فروغ ملے۔ ان کے ساتھ ہمارا تعلق صرف امیدواروں کی تائید تک محدود نہیں ہے۔ ہم ان کے مقاصد اور ان کی بہت ساری پالیسیوں کی بھی تائید کرتے ہیں۔عدل، امن، مساوات و بھائی چارہ اور اعلی اخلاقی قدروں کے فروغ کے لئے کام کرنے والی طاقتوں کا ہم بھرپور تعاون کرتے ہیں۔ ویلفیر پارٹی بھی جب تک ان اصولوں کی پابند رہے گی، ہمارا بھرپور تعاون اسے حاصل رہے گا۔ 

س:اتحاد (Alliance) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا کوئی قابل ذکر اتحاد قائم ہوسکتا ہے؟ جماعت اسلامی اس سلسلہ میں کوئی کوشش کررہی ہے؟

ج:ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ جمہوری قدروں اور دستور ہند کی قدروں میں یقین رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں الائنس بنائیں اور متحد ہوکر فرقہ پرست قوتوں کا مقابلہ کریں۔

س:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میڈیا،بطور خاص سوشل میڈیا کا رول اس الیکشن میں اہم ہوگا؟

ج:یقینا ہوگا۔ گذشتہ انتخابات میں بھی سوشل میڈیا نے اہم رول ادا کیا تھا۔ اس دفعہ تو اس کا چلن اور بڑھ چکا ہے۔ اب یہ پہلے کی طرح صرف شہری، پڑھے لکھے نوجوان طبقہ تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ دیہاتوں میں،معمولی تعلیم یافتہ کسانوں اور مزدوروں میں، گھریلو خواتین میں اور معمر لوگوں میں بھی اس کا استعمال عام ہوگیا ہے۔فورجی ٹکنالوجی اور اسمارٹ فونس کے عام چلن نے ویڈیو پیغامات کی ترسیل نہایت آسان کردی ہے۔ اس لئے اس دفعہ سوشل میڈیا کی پہنچ بہت وسیع ہوگی۔مین اسٹریم میڈیا کا رویہ بدقسمتی سے مکمل طور پر یک طرفہ ہے اور اتنے بڑے جمہوری ملک کا میڈیا سخت دباؤ میں کام کررہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی غلط خبروں کی تشہیر اور پروپگنڈہ کے لئے منظم گروہ کام کررہے ہیں۔ ان حالات میں اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر نگاہ رکھی جائے۔ ہر ممکن کوشش کی جائے کہ اس کے غلط استعمال کی کوششوں کا سد باب ہوسکے اوردرست سمت میں اور عوام میں حقیقی بیداری لانے کے لئے اس کا استعمال ہوسکے۔

س:طلباء اور نوجوان اس الیکشن میں کیا کردار اداکر سکتے ہیں؟

ج:ہمارا ملک نوجوانوں کا ملک ہے۔ملک میں تقریبا ً چالیس فیصد ووٹرز نوجوان یعنی تیس سال سے کم عمر ہیں۔ پہلی بار ووٹ دینے والوں) (First Time Votersکی تعداد دس کروڑ ہے۔ جو پچاس ساٹھ فیصد ووٹرز، ووٹنگ میں عملاًحصہ لیتے ہیں، اُن میں نوجوانوں کا تناسب تو یقینا اور زیادہ ہوگا۔ ہوسکتا ہے پچاس فیصد سے بھی متجاوز ہو۔ اس لحاظ سے نوجوانوں کی بڑی اہمیت ہے۔ ٹکنالوجی کے اس دور میں نوجوان زیادہ باخبر ہیں۔ تازہ ترین احوال وہ جانتے ہیں۔ صرف اپنے علاقہ کے نہیں، ملک بھر کے احوال سے وہ واقف رہتے ہیں۔ان احوال کی بھی ان کو خبر رہتی ہے جن کو مین اسٹریم میڈیا کور نہیں کرتا۔ سیاسی جماعتیں بھی انہیں خصوصی طور پر ٹارگیٹ کرتی ہیں۔ ان کی باخبری اور معلومات کی وجہ سے، ان کے خاندان کے بڑے لوگ بھی ان پر منحصر رہتے ہیں۔ اس وجہ سے اپنے قریبی بزرگوں کی رائے پر بھی وہ اثرانداز ہوتے ہیں۔

            دیگر نوجوان، جس طرح بامقصد طریقہ سے اپنی صلاحیتوں اور سوشل میڈیا وغیرہ کا استعمال کررہے ہیں، ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ پہلا مرحلہ اس وقت اس بات کا ہے کہ مسلمان اور دیگر کمزور طبقات ووٹر لسٹ میں اپنے ناموں کے اندراج اور تصحیح پر توجہ دیں تاکہ وہ حق رائے دہی کا استعمال کرسکیں۔ نوجوانوں کو اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیناچاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ایک شہری بھی ایسا نہ رہنے پائے جس کا نام لسٹ میں درج نہ ہو۔ مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقات میں ووٹر لسٹ میں ناموں کی عدم شمولیت کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ان لوگوں کے نام لسٹ میں درج کرانے کے لئے بہت بڑی تعداد میں اور ہر گاوں اور ہر بوتھ میں نوجوان رضاکار درکار ہیں۔مسلم نوجوانوں کو خاص طور پر اس سلسلہ میں اپنی ذمہ د اری محسوس کرنی چاہیے۔

            اسی طرح ملک کے حساس مسائل پر بیداری لانے، صحیح معلومات لوگوں تک پہنچانے، افواہوں اورغلط معلومات کا سدباب کرنے اور ووٹرز کی صحیح رہنمائی کرنے میں بھی مسلم نوجوان اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ میڈیا کی کھلی جانب داری کی وجہ سے اس کام کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے کہ متبادل طریقوں سے صحیح جانکاری لوگوں کو ملے۔ باشعور مسلم نوجوان،سوشل میڈیا کے ذریعہ خاص طور پر اور عوامی رابطہ کے دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں جاری سیاسی بحث کو صحیح رخ دینے کی بھی کوشش کرسکتے ہیں۔فرقہ پرست قوتوں کی یہ کوشش رہے گی کہ عوام کو غیر حقیقی جذباتی مسائل میں الجھائے رکھیں۔خاص طور پر مسلمانوں کو ایسی بحثوں کے لئے مجبور کریں جن سے فرقہ وارنہ تفریق فروغ پائے اور ان کو سیاسی فائدہ ملے۔ ہمارے بہت سے نادان دوست ایسی بحثوں میں الجھ کر، ان طاقتوں کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ان حالات میں اگر باشعور مسلم نوجوان مثبت اور تعمیری طریقوں سے بحث میں حصہ لیں اور بحث کو بروقت صحیح موڑ دیتے رہیں توفرقہ پرست سازشوں کا مقابلہ ہوسکتا ہے۔

س:کیا الیکشن سے قبل عوام الناس کے سامنے ہندو مذہب سے محبت اور ہندوتوا کے درمیان فرق کو واضح کرنا ایک بہترحکمت عملی ہوسکتی ہے؟

ج: جی ہاں۔ سیاست اور سماج کا گہرا رشتہ ہوتاہے۔ جہاں سیاسی صورت حال سماجی تانے بانے پر اثر انداز ہوتی ہے وہیں،سماجی حقائق بھی سیاست کو متاثر کرتے ہیں۔ فرقہ پرست سیاست کی لائف لائن سماجی تفریق ہے۔ سماج اگر فرقہ وارنہ خطوط پر منقسم نہ ہو تو ان کی دال نہیں گل سکتی۔ اس لئے ان کی ہر ممکن کوشش ہوگی کہ وہ سماج کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کریں۔ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ایسا نہ ہونے دیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم بڑے پیمانہ پر غیر مسلم معاشرہ کے ساتھ انگیج ہوں۔ ان کی غلط فہمیوں کو رفع کریں۔اسلام اور مسلمانوں کا مثبت تعارف ان کے سامنے آئے۔ حساس مسائل پر ہمارے موقف کی معقولیت ان کے سامنے آئے۔ ہم ان کے دل جیتیں۔ ان کو بتائیں کہ فرقہ پرستی ہندو مذہب کے لئے بھی اور پورے ملک کے لئے بھی خطرہ ہے۔ وہ عوامل،جو فرقہ پرستی کو تقویت پہنچاتے ہیں، ان کو کمزور کریں۔ایک فرقہ کی فرقہ پرستی، دوسرے فرقہ کی فرقہ پرستی کو تقویت پہنچاتی ہے۔ اس لئے ہر طرح کی اور ہر فرقہ کی فرقہ پرستی کو چیلنج کریں۔

            انتخابات، انتخابات میں ہونے والی بحثیں اور اٹھنے والے ایشوز وغیرہ وقتی ہوتے ہیں لیکن فرقہ وارانہ تفریق وقتی نہیں ہوتی۔ یہ لانگ ٹرم ہوتی ہے۔اور ایسی تفریق پیدا ہو تویہ لانگ ٹرم بنیادوں پر فرقہ پرست قوتوں کوسیاسی قوت فراہم کرتی ہے۔ اس لئے ہمارا بہت زیادہ زور اس بات پر ہونا چاہیے کہ فرقہ وارانہ منافرتیں عام نہ ہوں اور سماج منقسم نہ ہونے پائے۔

س: کیا ایلیکٹرانک ووٹنگ مشین) (EVM بھی اس انتخاب میں کوئی اہم فیکٹرہے؟

ج:ای وی ایم کی حقیقت تو آزادانہ انکوائری سے ہی سامنے آئے گی لیکن یہ تو بہر حال ایک حقیقت ہے کہ اس نظام پر ملک کے رائے دہندوں کی بہت بڑی تعداد اور حزب اختلاف کی اہم جماعتوں تک کو شدید شبہات ہیں اور اعتماد نہیں ہے۔ عوام کا انتخابات کے طریقہ پر اعتماد، کسی بھی جمہوری نظام کی بہت بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ رائے دہندوں کی اتنی بڑی تعداد کے عدم اعتماد کے باوجود، ارباب اختیار کا اس نظام پر اصرار ناقابل فہم ہے۔

س:الیکشن کے تناظر میں آپ مسلم طلباء و نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ج:الیکشن کے حوالہ سے مسلم نوجوانوں کو کیا کرنا چاہیے، اس پر میں اوپر تفصیل سے اپنی بات رکھ چکا ہوں۔ مسلم نوجوانوں کو مسئلہ کی حساسیت سمجھنا چاہیے۔ لایعنی کاموں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ان اہم امور پر اپنی توجہات اور کوششوں کو مرکوز کرنا چاہیے۔ مسلم نوجوانوں کی بہت بڑی اکثریت آج بھی، ان سخت حالات میں بھی،اسلام، انسانیت اور امّت کے وسیع تر مسائل سے غیر متعلق ہے اور اپنے پیشہ، کیریر، خاندان، اور پھردوست احباب کے ساتھ لایعنی مصروفیات میں لگی ہوئی ہے۔ حالانکہ وہ اچھی طرح باخبر ہیں کہ باطل طاقتیں اور ان کے نوجوان،خود اُن کے ساتھ ان کی کمپنیوں میں کام کرنے والے نوجوان، کس انہماک سے اور کس جذبہ کے ساتھ اپنے مشن میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی یہ بے حسی اوربے عملی بہت بڑا جرم ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ اگر ہمارے نوجوانوں کی ایک معقول تعداد اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور اجتماعی مفاد کے لئے جدوجہد کی خاطر تیار ہوجائے تو حالات آسانی سے مثبت رخ پر بدلے جاسکتے ہیں۔ میرا پیغام یہی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔ وقت کی نزاکت کو محسوس کریں۔ یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد (میرے ایک لمحہ کی غفلت نے سو سال کی مسافت پیچھے کردی) یہ مرحلہ، ایسا ہی نازک مرحلہ ہے۔ اس مرحلہ میں بھی ہم غافل اور’مستِ مئے ذوقِ تن آسانی‘ رہیں تو پھر ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس دنیا میں اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ محنت اور جدوجہد کرنے والوں کو پھل دیتا ہے۔ دوسری قوتیں رات دن محنت کرتی رہیں اور آپ چین کی بانسری بجاتے رہیں اور توقع رکھیں کہ نتیجہ آپ کی مرضی کے مطابق ہو تو اللہ کی سنت یہ نہیں ہے۔”اگلے انتخابات کی ایک اہمیت تو یہ ہے کہ فرقہ پرست قوتوں کی جیت، ملک کے دستوری نظا م میں اہم اور اساسی تبدیلیوں کا ذریعہ بن سکتی ہے“ ”جماعت اسلامی کی تائیدو عدم تائید کچھ اصولوں پر منحصر ہے۔ تائید کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ تائید یافتہ امیدوار یا پارٹی کی تمام پالیسیوں یا خیالات سے ہم متفق ہیں۔جن امیدواروں کی ہم انتخابات میں تائید کرتے ہیں، ان کی اور اور ان کی پارٹیوں کی بہت سی باتوں سے ہم اختلاف بھی کرتے ہیں۔ بعض اختلاف تو بہت بنیادی بھی ہوتے ہیں۔ جمہوریت میں ووٹ ترجیح کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ کسی امیدوار کی تائید کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اُسے اُس کے مدمقابل دیگر امیدواروں کے مقابلہ میں ترجیح دیتے ہیں۔“

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں