یو جی سی کے مجوزہ ضوابط 2025ء (یوجی سی ڈرافٹ ریگولیشنس): تعلیمی سالمیت  اور خودمختاری کے تنزل کی منظم کوشش

روشن محی الدین
مارچ 2025

یہ مضمون 2025ء کے مسودہ ضوابط کا تنقیدی جائزہ لینے اور ان کا 2018ء کے ضوابط کے ساتھ موازنہ کرنے کے ساتھ تعلیمی عملے، طلباء اور وسیع تر تعلیمی برادری پر ممکنہ اثرات کو اجاگر کرتا ہے۔

انگریزی سے ترجمہ: عاطف عبد المنان

ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے سب سے اعلیٰ ضابطہ کار ادارہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے حال ہی میں 2025ء کے لیےمجوزہ ( مسودہ) ضوابط کا ایک ایسا مجموعہ پیش کیا ہے جس نے ماہرینِ تعلیم، طلباء اور پالیسی سازوں کے درمیان وسیع پیمانے پر تشویش پیدا کردی ہے۔ یہ ضوابط، جو بظاہر اعلیٰ تعلیم میں اصلاحات لانے کے ارادے سے مرتب کیے گئے ہیں، تعلیمی خودمختاری، عدل اور امتیاز کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرتے نظر آتے ہیں۔مسودہ ضوابط ہندو ستان کے عوامی مالی اعانت یافتہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو سیاستدانوں کی مداخلت کو آسان بنانے والے کارپوریٹ طرز کی تنظیموں میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ عمل مختلف طریقوں سے انجام دیا جا رہا ہے جیسے کہ مضمون کی مہارت کو کم کرنا، نج کاری کو بڑھاوا دینا ، تعلیمی عملے کے مناصب کو معاہداتی بنانا اور ادارہ جاتی خودمختاری کو کمزور کر نا۔

اس مضمون میں پیش کردہ مسودہ ضوابط2025ء  کا تنقیدی جائزہ لیا گیاہے، جس میں مضمون کی مہارت، تعلیمی عملے کی بھرتی، نج کاری اور گورننس پر پڑنے والے ان ضوابط کے اثرات کو واضح کیا گیا ہے۔

تعارف

یو جی سی کے مسودہ ضوابط 2025 کو اس وقت متعارف کیا جا رہا ہے جب بھارت کا اعلیٰ تعلیمی منظرنامہ قومی تعلیمی پالیسی 2020ء (NEP 2020)کے بعد ایک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے ۔ این ای پی نے کثیر شعبہ جاتی تعلیم، ادارہ جاتی خودمختاری اور عالمی مسابقت کو فروغ دینے کے لیے انقلابی اصلاحات کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم، تاخیر، غیر شفافیت اور قانونی حمایت کے فقدان کے سبب اس کے نفاذ میں مشکلات پیدا ہوتی رہی ہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی میں تجویز کردہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف انڈیا (HECI) کو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) کے متبادل کے طور پر قبول کرنے کے بجائے حکومت نے یو جی سی کو اکثر و بیشتر متعلقہ شراکت داروں سے مناسب مشاورت کے بغیر ہی وسیع ہدایات اور اصلاحات جاری کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

یو جی سی ضوابط 2018ء نے بھی یونیورسٹی کے تعلیمی عملے کے لیے کم از کم اہلیت اور ترقی کے معیار وضع کیے تھے لیکن ساتھ ہی تعلیمی امتیاز، جائزہ شدہ تحقیقpeer-reviewed research اور تدریسی تجربہ پر بھی زور دیا تھا۔ اگرچہ ان ضوابط میں خامیاں موجود تھیں، لیکن انہوں نے کم از کم اہلیت اور علمی معیار کو ایک حد تک برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ تاہم، یو جی سی کے مسودہ ضوابط 2025ء اس نقطہ نظر سے بالکل مختلف ہیں۔ اس میں ایسی دفعات شامل ہیں جو مضمون کی مہارت کو کمزور کرنے، بازار پر مبنی ترجیحات کو فروغ دینے،سیاسی اور بیوروکریٹک کنٹرول کو وسیع کرنے نیز تعلیمی عملے کی معاہدہ بندی کو شدید کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں ۔

اگر موجودہ شکل و صورت کے ساتھ ان ضوابط کا نفاذ عمل میں آیا تو یہ تعلیمی خودمختاری کو کمزور کرنے ، یونیورسٹی کی حکمرانی کو سیاسی بنانے اور بھارت کے اعلیٰ تعلیمی نظام کی نج کاری کو تیز کرنے میں نمایاں کردار ادا کریں گے۔ یہ مضمون 2025ء کے مسودہ ضوابط کا تنقیدی جائزہ لینے اور ان کا 2018ء کے ضوابط کے ساتھ موازنہ کرنے کے ساتھ تعلیمی عملے، طلباء اور وسیع تر تعلیمی برادری پر ممکنہ اثرات کو اجاگر کرتا ہے۔ بھارت جیسے متنوع ملک میں، جہاں اعلیٰ تعلیم روایتی طور پر تنقیدی سوچ اور خودمختار تحقیق کا مرکز رہی ہے، یہ تبدیلیاں سنگین خدشات پیدا کرتی ہیں۔ کیا عوامی جامعات کارپوریٹ فنڈنگ کی تلاش میں اپنی خودمختاری کھو دیں گی؟ کیا تعلیمی عملے کی ترقی کا معیار علمی صلاحیت کے بجائے مالی کامیابی ہوگی؟ اور سب سے اہم، کیا ہندوستانی طرز تعلیم IKS پر محدود توجہ کثیر المذاہب اور کثیر النسلی ملک کے علمی تنوع کو محدود کر دے گی؟ آئیے ان سوالات کو بہتر سمجھنے کے لیے اہم مسائل کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

   مضمون کی مہارت اور علمی ذوق و معیار سے مصالحت

یو جی سی کے مسودہ ضوابط 2025ء کے سب سے تشویشناک پہلوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ تدریسی اور تحقیقی عہدوں کے لیے درکار مضمون کی مہارت کو کم کر دیا گیا ہے۔ شق 3.2 اور 3.3 کے تحت ایسے امیدواروں کو تعلیمی عملے کی تقرری کے لیے اہل قرار دیا جا رہا ہے جنہوں نے کسی مخصوص مضمون کی گریجویشن یا ماسٹرس سطح پر تعلیم حاصل نہیں کی ہو، بلکہ اس مضمون میں قومی اہلیت امتحان (NET) یا ریاستی اہلیت امتحان (SET) پاس کیا ہو۔ یہ اقدام یو جی سی ضوابط 2018ء سے ایک نمایاں انحراف ہے، جن میں مضمون کی مہارت اور منظم تعلیمی ترقی کو تعلیمی عملے کے انتخاب کے بنیادی معیار کے طور پر برقرار رکھا گیا تھا۔

یو جی سی ضوابط 2018ء کے تحت تعلیمی عملے کے مناصب کی اہلیت تعلیمی اسناد پر منحصر تھی جو UG سے لے کر PG اور PhD تک کے منظم تعلیمی نصاب کے ذریعے حاصل کی جاتی تھیں۔ اس نظام نے یہ یقینی بنایا تھا کہ امیدوار پی ایچ ڈی کی سطح پر اپنے مضمون میں تخصص کرنے سے پہلے مضبوط بنیادی علم حاصل کر لیں۔ فیکلٹی ممبرز سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنے مضمون سے گہرائی سے منسلک ہوں—چاہے نصاب، تحقیق یا اشاعتوں کے ذریعے—تب ہی انہیں تدریسی عہدے کے لیے زیر غور لایا جاتا تھا۔

اس کے برعکس، 2025ء کے مسودہ ضوابط ان علمی تقاضوں اور بدیہی شرطوں کو نمایاں طور پر کم کر دیتے ہیں۔ یہ ضوابط ایسے افراد کو اجازت دے کر جن کا مضمون میں کوئی باضابطہ UG یا PG پس منظر نہیں ہوتا، لیکن انہوں نے اس مضمون میں NET/SET پاس کیا ہوتا ہے، تعلیم اور تحقیق کے معیار کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

  • ایک امیدوار جس کے پاس علم سیاسیات میں PhD ہے مگر معاشیات میں کوئی باضابطہ اور رسمی تربیت نہیں، صرف اس بنیاد پر کہ اس نے معاشیات کے لیے NET پاس کیا ہے، معاشیات کی تدریس کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔
  • اسی طرح، ایک فرد جس کے پاس علم تاریخ میں PhD ہے مگر سماجیات میں UG/PG کی تعلیم نہیں، اسے سماجیات کی تدریس کا موقع دیا جا سکتا ہے، چاہے اس میں ضروری تحقیقی طریقہ کار اور نظریاتی تربیت کی کمی ہو۔

یہ تبدیلی منظم تعلیمی ترقی کی قدر کو کم کرتی ہے نیز ان برسوں کی مستقل درکار مضمون کی مخصوص تربیت کو کمتر کر دیتی ہے جو طلبہ و اسکالر ایک مضمون میں مہارت حاصل کرنے کے لیے گزارتے ہیں۔ کسی مضمون میں NET/SET پاس کرنے کی صلاحیت گہری تعلیمی مہارت کے مساوی نہیں ہو سکتی، جو برسوں کے منظم مطالعہ اور تحقیق کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔

قومی تعلیمی پالیسی سے متاثر انڈر گریجویٹ نصابی خاکہ ”یو جی سی ایف” نے پہلے ہی کثیر شعبہ جاتی نقطہ نظر کو پیش کر دیا ہے جس کے نتیجے میں روایتی تین سالہ انڈر گریجویٹ پروگرام کی جگہ چار سالہ انڈر گریجویٹ پروگرام(تحقیقی جز کے ساتھ یا بغیر) نے لے لی ہے ۔

جبکہ 2018ء کے یو جی سی (UGC) ضوابط شعبہ جاتی مہارت (discipline-specific expertise) کو مستحکم کرنے پر مرکو زتھے۔ 2025 کے مجوزہ ضوابط مسلط کردہ کثیر الجہتی نقطہ نظر کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے لیے اساتذہ کی اہلیت کے معیار کو کم کیا جا رہا ہے۔ تاہم، یہ طریقہ اعلیٰ تعلیم میں معیار کے بجائے مقدار کو ترجیح دینے کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے ۔

کثیر شعبہ جاتی تعلیم کا محتاط نفاذ کارآمد ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے مضمون میں تخصص اور مہارت کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔ اہلیت کے نئے معیارات تعلیمی عملے کی ایک ایسی نسل پیدا کرنے کا خدشہ پیدا کرتے ہیں جن میں وہ علمی گہرائی موجود نہ ہو جو تحقیقی رہنمائی فراہم کرنے کے لیے درکار ہے۔

فیکلٹی ممبرز یونیورسٹیوں کے علمی اور تعلیمی منظرنامے کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ کسی مضمون کےمخصوص تقاضوں کو ختم کرنے سے تدریسی معیار، تحقیقی نتائج اور تعلیمی ساکھ کے حوالے سے سنگین خدشات جنم لیتے ہیں۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں، نمایاں جامعات تعلیمی عملے کی بھرتی کے لیے ایک سخت، مضمون-مخصوص تعلیمی راستہ اپناتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹین فورڈ یونیورسٹی PhD کے حامل افراد سے توقع کرتی ہیں کہ وہ متعلقہ مضمون کے نصاب، تحقیق اور اشاعتوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہوں، اس سے پہلے کہ انہیں مستقل تقرری کے منصب “ٹینور ٹریک پوزیشنز “کے لیے زیر غور لایا جائے۔

یو جی سی کے مخصوص مضامین کے تقاضوں میں تخفیف کر دینے کے منصوبے کے برعکس، امریکی جامعات تعلیمی گہرائی کو برقرار رکھتی ہیں اور بین الشعبہ تعاون کو ایک اضافی مہارت کے طور پر قبول کرتی ہیں، نہ کہ متبادل کے طور پر۔

جہاں امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور چین جیسے ممالک کثیر شعبہ جاتی طریقہ کار کو اپناتے ہیں، وہ مضمون میں مہارت سے جو کہ تعلیمی عملے کی بنیادی ضرورت ہے ،سمجھوتہ نہیں کرتے۔ہندوستان کی تجویز کردہ تبدیلیوں سے فیکلٹی ممبرز میں علمی گہرائی کم ہونے کا خدشہ ہے، جس سے بالآخر ہندوستانی یونیورسٹیوں کی تعلیمی ساکھ اور عالمی مسابقت پر منفی اثر پڑے گا ۔

اہلیت کے معیارات کو کمزور کرنے کے بجائے، یو جی سی کو چاہیے کہ وہ نمایاں بین الاقوامی طریقہ کار اپنانے پر غور کرے تاکہ فیکلٹی ممبرز کو مضمون کی مہارت برقرار رکھنے اور ساتھ ہی منظم ڈھانچے کے تحت کثیر شعبہ جاتی تحقیق میں بھی مشغول ہونے کو یقینی بنایا جا سکے ۔

لچک کے نام پر معیارات میں نرمی اور تخفیف کرنے کے بجائے شعبہ جاتی مہارت اور بین الشعبہ تعاون کے درمیان توازن کو برقرار رکھنا ہندوستان کی اعلیٰ تعلیمی اصلاحات کی بنیاد ہونی چاہیے، جیسا کہ دنیا بھر کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں  کیا جاتاہے ۔

نج کاری اور کارپوریٹ مفادات کی ترویج   

مسودہ ضوابط میں نج کاری اور کارپوریٹ مفادات کی جانب جھکاؤ نظر آتا ہے ، جس کا ثبوت تعلیمی عملے کی بھرتی اور ترقی کے لیے بازار کی مانگ پر مبنی معیارات پر زور دیناہے۔ شق 3.8 میں نو “قابل ذکر شراکتیں اور خدمات” درج کی گئی ہیں جنہیں امیدواروں کو تقرری یا ترقی کے لیے پورا کرنا ضروری ہے۔ ان میں شامل ہیں:

  • جدید تدریسی شراکت
  • تحقیق یا تدریسی لیب کی ترقی
  • بطور پرنسپل انویسٹیگیٹر یا کو-پرنسپل انویسٹیگیٹر مشاورتی خدمات یا تحقیق کے لئے مالی اعانت
  • ہندوستانی زبانوں میں تدریسی شراکت
  • درس و تدریس اور تحقیق میں ہندوستانی علمی نظاموں کا پاس و لحاظ
  • طلباء کی انٹرن شپ یا پروجیکٹ کی نگرانی
  • MOOCs کے لیے ڈیجیٹل مواد کی تخلیق
  • سماجی شمولیت اور خدمات
  • ایسے اسٹارٹ اپس جو اعلیٰ تعلیمی ادارے کی دانشورانہ املاک کی پالیسیوں کے مطابق ہوں ،کمپنی کے رجسٹرار (ROC) کے ساتھ بطور ایک بنیادی پروموٹرFounding promoter رجسٹرڈ ہوں اور حکومت، اینجل سرمایہ کار Angel invester یا وینچر فنڈز کے ذریعے مالی اعانت حاصل کر کے اسٹارٹ اپ کی حمایت کرے۔

اگرچہ ان معیارات میں سے کچھ، جیسے کہ سماجی شمولیت اور جدید تدریس، قابل ستائش ہیں، مگر دیگر ایک کارپوریٹ محرک ایجنڈے کی عکاسی کرتے ہیں جو تعلیمی امتیاز کے بجائے مالی مفاد کو فوقیت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، اسٹارٹ اپس (نکتہ 9) اور تحقیق کے لیے مالی اعانت (نکتہ 3) پر زور دینا اعلیٰ تعلیم کو کارپوریٹ مفادات کے تابع کر دیتا ہے، جس سے سماجی طور پر متعلقہ تحقیق کی جگہ منافع پر مبنی منصوبوں کی طرف توجہ منتقل ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں بنیادی ڈھانچے میں عدم مساوات اور تعلیمی درجہ بندی کی شدت پائی جاتی ہے، یہ معیارات وسائل سے محروم علاقوں کے امیدواروں کے لیے خاص طور پر دشوار ہیں۔ مناسب حکومتی حمایت کے بغیر، اسپانسر شدہ تحقیقی فنڈنگ حاصل کرنے یا تدریسی لیب کی تعمیر کا دباؤ تعلیمی عملے کو نجی فنڈنگ پر منحصر کر دے گا، جس سے حکومتی مالی اعانت یافتہ یونیورسٹیوں کی خودمختاری اور ساکھ کو شدید نقصان پہنچے گا۔

یہ معیار ات نظریاتی طور پر تو دلچسپ معلوم ہوتے ہیں، مگر عملی سطح پر یہ پروفیسر کے کردار کو بنیادی طور پر بدل دیتے ہیں۔ تحقیق، تدریس اور طلباء کی رہنمائی پر توجہ دینے کی بجائے، اب فیکلٹی ممبرز کو نجی فنڈنگ کے لیے مقابلہ کرنا پڑے گا، جو خاص طور پر چھوٹی عوامی جامعات یا دیہی اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہر تعلیمی شعبہ کارپوریٹ فنڈنگ کے لیے موزوں نہیں ہوتا؛ ایک مورخ، فلسفی، یا نظریاتی ماہر طبیعیات کے لیے یہ مارکیٹ پر مبنی تقاضے پورے کرنا انتہائی مشکل ثابت ہوگا۔ اس سے اعلیٰ درجے کے، بھرپور مالی اعانت یافتہ اداروں اور چھوٹے کالجوں کے درمیان فاصلے میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس کے برعکس، عالمی تعلیمی ادارے تعلیمی عملے کی ترقی کو فکری خدمات، تحقیقی عمدگی اور تدریسی اثرات کی بنیاد پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہارورڈ، آکسفورڈ اور کیمبرج میں فیکلٹی ممبرز کا جائزہ ان کی ہم رتبہ جائزہ شدہ تحقیق، کلاس روم میں شمولیت اور طلباء کی رہنمائی کی بنیاد پر لیا جاتا ہے۔ کارپوریٹ شراکتیں پائی جاتی ہیں لیکن وہ تعلیمی کیریئر کی بنیاد نہیں ہوتیں۔

ایک اور اہم تبدیلی جو یو جی سی کے مسودہ ضوابط 2025ء میں نمایاں ہے، وہ ہندوستانی علمی نظام پر شدید توجہ ہے۔ ظاہری طور پر یہ ایک مثبت قدم معلوم ہوتا ہے کیونکہ ہندوستان کی قدیم ریاضی، فلسفہ، طب اور لسانیات جیسے شعبوں میں ایک بھرپور فکری روایت موجود ہے، جسے جدید تعلیم میں شامل کرنے سے تحقیق اور تدریس کے میدان میں نئے نقاط ہائے نظر سامنے آسکتے ہیں۔تاہم، مسئلہ اس بات میں ہے کہ ہندوستانی نظام تعلیم کو ایک آزادانہ تحقیقی میدان کے بجائے ایک نظریاتی فریم ورک کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس کی پابندی تعلیمی عملے کے لیے لازمی قرار دی گئی ہے۔

مسودہ میں ہدایت دی گئی ہے کہ اساتذہ اپنی تحقیق اور تدریس میں ہندوستانی نظام تعلیم کا تعاون کریں۔ لیکن اس کا طبیعیات، معاشیات یا بین الاقوامی تعلقات جیسے مضامین سے کیا تعلق ؟ کیا تعلیمی عملے پر اس بات کا دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ ویدک سائنس، سنسکرت متون یا ہندو فلسفیانہ ڈھانچے کو شامل کریں، چاہے ان میں تعلیمی مطابقت کا فقدان ہو ؟ اور بھارت کی دیگر روایات—اسلامی، بدھ مت، سکھ، جین اور دراوڑی علمی شراکتوں کا کیا؟ کیا انہیں بھی وہی شناخت ملے گی یا یہ ایک منتخب تاریخی احیاء کی کوشش ہے؟

اگر ہندوستانی نظام تعلیم (IKS)کی ترویج و اشاعت علمی تجسس کے بجائے نظریاتی مقاصد پر مبنی ہے، تو اس کے جبری نفاذ سے تعلیمی آزادی محدود ہو سکتی ہے، جس سے تعلیمی عملے کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے کام کو ایک ریاست کے ذریعے منظور شدہ تاریخی بیانیہ کے مطابق ڈھالیں بجائے اس کے کہ وہ آزادانہ اور کھلے ذہن کے ساتھ تحقیق میں مشغول ہوں۔ سائنس، سماجی علوم اور علوم انسانیات کی ترقی مفروضات پر سوال اٹھانے سے وابستہ ہے، مگر یہ ضوابط اس آزادی کو دبا سکتے ہیں۔

تعلیمی عملے کے مناصب کی معاہدہ بندی

مسودہ یو جی سی ضوابط 2025ء کا ایک سب سے تشویشناک پہلو تعلیمی عملے کے مناصب کی معاہدہ بندی اور عارضی تقرریوں کی جانب زور دینا ہے۔ یو جی سی ضوابط 2018ء کے برعکس، جنہوں نے معاہداتی تقرریوں پر 10٪ کی حد مقرر کی تھی (شق 13.0)، نیا مسودہ اس پابندی کو مکمل طور پر ختم کر دیتا ہے۔ یہ تبدیلی تدریسی عملے کی بڑے پیمانے پر عارضی تقرری کا راستہ ہموار کر دیتی ہے، جس سے ملازمت کا تحفظ خطرے میں پڑ جائے گا اور عوامی مالی اعانت یافتہ یونیورسٹیوں میں تعلیمی عملے کے لیے ملازمت کے شرائط کمزور ہو جائیں گی۔

تعلیمی عملے کی ملازمتوں کی عارضی تقرری ہندوستان میں بڑھتے ہوئے بے روزگاری بحران کے نتیجے میں ہو رہی ہے۔ جبکہ ہزاروں باصلاحیت PhD ہولڈرز، مستحکم تعلیمی عہدوں کی تلاش میں جدوجہد کر رہے ہیں، مستقل عہدوں کے بجائے معاہداتی کرداروں کی جان بوجھ کر توسیع ملازمت کی کمی کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ یونیورسٹیاں اب نہ تو ملازمتیں پیدا کر رہی ہیں اور نہ ہی علم کی تخلیق؛ بلکہ وہ ایسی جگہیں بنتی جا رہی ہیں جہاں ملازمتیں حاصل کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ بلند حوصلہ تعلیم یافتگان کو ایسے نظام میں اپنا راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے جہاں اہلیت اور قابلیت کے مقابلے میں پیسہ کمانا اور خاص جماعت کے نظریات کے مطابق ہونا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

سالوں سے ہندوستانی یونیورسٹیاں بھرتی کے عمل میں حد سے زیادہ بیوروکریٹک تاخیر کی وجہ سے مسلسل تعلیمی عملے کی کمی کا سامنا کر رہی ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں منظور شدہ ہزاروں تدریسی عہدے خالی پڑے ہیں، لیکن بھرتی کا عمل تاخیر کی وجہ سے لامتناہی طور پر جاری رہتا ہے، جس میں انتخابی کمیٹیاں اکثر انتظامی رکاوٹوں، پالیسی میں تبدیلیوں یا بجٹ کی محدودیت کو سست روی کا بہانہ بناتی ہیں۔ مستقل تقرریوں کو تیز کرنے کے بجائے، مسودہ ضوابط عارضی حل کے طور پر مختصر مدتی معاہدوں پر تعلیمی عملے کی بھرتی کو معمول بنا دیتے ہیں، جس سے اعلیٰ تعلیم میں ملازمت کے بحران میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

عارضی،وقتی اور معاہداتی تعلیمی عملے کے بڑھنے کا سبب قومی تعلیمی پالیسی (NEP) کے متعدد داخلہ-خروج UGCF فریم ورک، تدریسی اوقات میں کمی، اور استاد-طلبہ کے تناسب میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والا بنیادی عدم استحکام ہے۔ یہ غیر مستحکم کام کے بوجھ کا ماڈل یونیورسٹیوں کو مستقل تعلیمی عملے کی جگہ کم قیمت اور لچکدار مزدور سے تبدیل کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے، جسے مرضی کے مطابق کنٹرول اور تبدیل کرنا آسان ہوتا ہے۔

تاہم اس طریقہ کار کے درج ذیل نتائج سنگین ہیں:

1۔ ملازمت کا عدم تحفظ اور غیر مستحکم عملی شرائط

معاہداتی تعلیمی عملے کی تقرری اکثر مستقل عملے کی بہ نسبت تنخواہ کے ایک جزوی حصے پر کی جاتی ہے۔ اور انہیں پنشن، طبی سہولیات یا تحقیقی گرانٹس جیسے بنیادی فوائد تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ بہت سے افراد اپنے معاہدات ( کنٹریکٹس )کی تجدید نہ ہونے کے خوف میں مسلسل رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے تعلیمی یا ذاتی مستقبل کی منصوبہ بندی سے قاصر رہتے ہیں۔ ملازمت کی غیر مستحکم شرائط تعلیمی عملے کو طویل مدتی تعلیمی اہداف کے لیے کام کرنے سے روکتی ہیں، جیسے گہرائی سے تحقیق کرنا، طلباء کی رہنمائی کرنا یا جدید نصاب تیار کرنا۔

2۔ تعلیمی آزادی پر قدغن

معاہداتی ملازمت کی طرف منتقلی ایک خوف پر مبنی تعلیمی رواج پیدا کر دیتی ہے جس میں فیکلٹی ممبرز انتظامی پالیسیوں کو چیلنج کرنے، تنقیدی مباحثوں میں حصہ لینے یا مخالف رائے دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ جب ملازمت کا تحفظ ختم ہو جائے تو اعلیٰ تعلیم کا بنیادی مقصد—فکری مباحثہ، جدت اور سماجی تنقید کے لیے ایک آزاد فضا فراہم کرنا—خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ایسی یونیورسٹیاں جو مسلسل ملازمتوں کی برطرفی کے خطرے کے تحت کام کر رہی ہوں گی، وہ اب آزادانہ سوچ کا ملجا نہیں رہیں گی بلکہ مطیع اور تابعداری کے مراکز میں تبدیل ہو جائیں گی۔

پروفیسر آف پریکٹس (PoP): مارکیٹ کو فوقیت دینے والا تعلیمی نظام؟

پروفیسر آف پریکٹس (PoP) کی درجہ بندی کا تعارف، جس کے تحت تعلیمی عملے کے مناصب میں سے 10٪ تک کو صنعتی پیشہ ور افراد سے پُر کرنے کی اجازت دی گئی ہے، تعلیمی شعبے میں ایک اور کارپوریٹ طرز کی تبدیلی کی علامت ہے۔ اگرچہ تعلیم اور صنعت کے درمیان تعلق استوار کرنا اہمیت کا حامل ہے، لیکن “حقیقی دنیا کے تجربے”Real World experience کو روایتی تعلیمی اسناد پر فوقیت دینے میں سخت علمی تربیت اور تدریسی گہرائی کو پس پشت ڈالنے کا خطرہ ہے۔ اس صورت میں یہ خطرہ ہے کہ صنعت کے وہ پیشہ ور، جن کے پاس محدود تدریسی تجربہ یا تحقیقی پس منظر ہو، ان فیکلٹی ممبرز کی جگہ لے لیں گے جنہوں نے سالوں اپنی تعلیمی مہارت کو نکھارا ہے۔

مزید برآں، اس تبدیلی سے نصاب کی ترتیب، تحقیقی ترجیحات اور نظم و ضبط پر کارپوریٹ اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے تعلیمی اداروں کی خودمختاری مزید کمزور ہوتی ہے۔ آزادانہ تعلیمی تحقیق کو فروغ دینے کے بجائے، جامعات ممکنہ طور پر مارکیٹ پر مبنی مفادات کے تابع ہو جائیں گی، جس میں ایسے نصاب اور تحقیق کو ترجیح دی جائے گی جو سماجی ضروریات کو مد نظر رکھنے کے بجائے کارپوریٹ منافع کو ترجیح دینے والی ہو۔

تعلیمی خودمختاری اور وفاقیت کا زوال

کسی بھی عظیم یونیورسٹی کی اصل روح اس کی خودمختاری ہوتی ہے، جو اسے غیر ضروری سیاسی یا بیوروکریٹک مداخلت کے بغیر کام کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ تاہم، 2025 کے مسودہ یو جی سی ضوابط اس اصول سے ایک تشویش ناک انحراف کی نشاندہی کرتے ہیں، کیونکہ یونیورسٹی کی قیادت پر کنٹرول کا رخ مرکزیت کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔

سب سے متنازعہ شقوں میں سے ایک شق 10.1 ہے، جو وائس چانسلرز (VCs) کی تقرری کا اختیار ریاستی حکومتوں سے ہٹا کر تقریباً مکمل طور پر چانسلر کے حوالے کر دیتی ہے (عموماً ریاستی جامعات میں گورنر کی حیثیت چانسلر کی ہوتی ہے)۔

 تجویز کردہ قواعد کے تحت، چانسلر کو وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے تلاش اور انتخاب کمیٹی تشکیل دینے کا خصوصی اختیار حاصل ہوگا۔ یہ کمیٹی چانسلر کے نامزد کردہ فرد، یو جی سی چیئرمین، اور یونیورسٹی کے مجلس syndicate یا انتظامیہ کمیٹی senate کے ایک نمائندے پر مشتمل ہوگی۔ اہم بات یہ ہے کہ حتمی فیصلہ چانسلر ہی کرے گا کہ مختصر فہرست میں سے (تین سے پانچ امیدواروں میں) کس کو وائس چانسلر مقرر کیا جائے۔

 ڈھانچے میں یہ تبدیلی صرف ایک انتظامی تبدیلی نہیں ہے؛ بلکہ یہ ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی نظام کے وفاقی کردار پر حملہ ہے، جس سے ریاستی حکومتوں کو ان کے آئینی طور پر تسلیم شدہ کردار- اپنے دائرہ کار میں جامعات کی تشکیل- سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ مسودہ ضوابط کے ذریعے مرکزی سطح پر طاقت کو یکجا کر کے ریاستی جامعات کو مرکزی اقتدار کے توسیعی حصے میں تبدیل ہو جانے کا خطرہ لازم آتا ہے جس سے ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی نظام کی وہ تنوع اور غیر مرکزیت ختم ہو جائے گی جو طویل عرصے سے اس کا امتیازی وصف رہا ہے۔

سیاسی مداخلت کے خدشات محض نظریاتی نہیں ہیں بلکہ گزشتہ دہائی میں مرکزی جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری کا طریقہ واضح رجحان ظاہر کرتا ہے کہ نظریاتی لحاظ سے ہم آہنگ افراد کو علمی اسناد اور انتظامی مہارت سے صرف نظر کرتے ہوئے قیادت کے عہدوں پر فائز کیا گیا ہے ۔

جواہرلال نہرو یونیورسٹی ، بنارس ہندو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی جیسے اعلی درجے کے اداروں میں حالیہ تقررات اس بات کی شاہد ہیں کہ جن افراد کے حکمران نظام یا اس کے نظریاتی ماحول سے گہرے تعلقات ہیں، انہیں وائس چانسلر کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ کئی مواقع پر ان  افراد نے طلباء کی سرگرمیوں کو محدود کرنے، تعلیمی عملے کے اختلافِ رائے کو دبانےاور یونیورسٹیوں کو ایک دائیں بازو کے قوم پرست بیانیہ کے مطابق ڈھالنے کے لیے رجعت پسند انتظامی اقدامات نافذ کیے ہیں۔ذیل کی مثالیں اس پر شاہد ہیں۔

  1. طلباء کے احتجاج اور کیمپس میں اختلافِ رائے پر سخت کارروائی

جے این یو، ڈی یو اور دیگر بڑے اداروں میں، فیس میں اضافے، امتیازی پالیسیوں اور نظریاتی نصاب میں تبدیلیوں کے خلاف طلباء کے احتجاج کو سخت انتظامی کارروائی، پولیس کی سخت کارروائی اور تادیبی/انضباطی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

موجودہ نظام کے تحت مقرر کردہ وائس چانسلرز نے اکثر طلباء کے احتجاج کرنے، مباحثہ کرنے یا اہم سماجی و سیاسی مسائل پر عوامی لیکچرز دینے کے حق کو مسترد کیا ہے۔

  1. تعلیمی آزادی پر شکنجہ

متعدد یونیورسٹیوں نے نئے تادیبی ضوابط متعارف کرائے ہیں جو حکومت کے خلاف تنقیدی رائے رکھنے والے طلبہ اور تعلیمی عملے کے ارکان کو سزا دینے جیسی پالیسیوں پر مشتمل ہئں۔

نصاب میں کی جانے والی تبدیلیوں کا مقصد اختلافی تاریخی نظریات کو پس پشت ڈالنا، حاکم جماعت کی فکر سے مطابقت نہ رکھنے والے مواد کو حذف کرنااور ہندوستانی تاریخ و ثقافت کا ایک متعصب بیانیہ فروغ دینا ہے۔

  1. انتظامی سخت گیر رویہ اور اختلافِ رائے رکھنے والے تعلیمی عملے کی سرکوبی

جن فیکلٹی ممبرز نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے، انہیں جبری منتقلیوں، ترقی کے مواقع سے محرومی اور بعض صورتوں میں جبری استعفیٰ دینے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ایسے ادارے جو کبھی فکری مزاحمت کے مراکز کے طور پر جانے جاتے تھے، جیسے جے این یو اور حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی، نے دباؤ آمیز انتظامی اقدامات کے ذریعے اپنی تنقیدی تعلیمی کلچر میں منظم کمزوری کا مشاہدہ کیا ہے۔

  1. وفاقیت کو کمزور کرنا: ریاستی جامعات کے لیے خطرہ

ہندوستان میں تعلیم آئین کی Concurrent List کے تحت آتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں (HEIs) کا انتظام سنبھالنے کی ذمہ داری مرکز اور ریاست دونوں کے پاس ہے۔ روایتی طور پرریاستی حکومتوں نے اپنے دائرہ کار میں جامعات کے لیے وائس چانسلرز کی تقرری میں کلیدی کردار ادا کیا ہے تاکہ مقامی تعلیمی ترجیحات اور علاقائی ضروریات کو مدِنظر رکھا جائے۔ لیکن نئے ضوابط اس آئینی ڈھانچے کو نظر انداز کرتے ہوئے منتخب ریاستی حکومتوں سے کنٹرول ہٹا کر مرکزی طور پر مقرر کردہ چانسلرز کے حوالے کر دیتے ہیں، جن کی تقرری کے پیچھے سیاسی مقاصد کار فرما ہوتے ہیں ۔

ان تبدیلیوں کے اثرات درج ذیل ہیں:

  1. ادارہ جاتی خودمختاری کو دھچکہ

یونیورسٹیوں کو آزادانہ سوچ، تحقیق اور فکری خودمختاری کے مراکز کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ تاہم، وائس چانسلرز کی تقرری کا اختیار چانسلر (جو عموماً گورنر کی حیثیت میں ہوتا ہے، یعنی ایک غیر منتخب عہدیدار) کے ہاتھ میں دے کر، یہ ضوابط یونیورسٹیوں کو سیاسی اثر و رسوخ کا شکار بنا دیتے ہیں۔

  1. تعلیمی اہلیت پر سیاسی حمایت کو فوقیت

ایک وائس چانسلر کی تقرری کی بنیاد تعلیمی برتری، انتظامی صلاحیت اور اعلیٰ تعلیم کی پالیسی کی گہری سمجھ بوجھ ہونی چاہیے۔ لیکن جب چانسلر کے پاس غیر محدود اختیار ہوتا ہے، تو اہلیت اور قابلیت پر سیاسی جانبداری کے غالب ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے بصیرت افروز تعلیمی رہنماؤں کے بجائے ایسے منتظمین کے منتخب ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو تعلیمی برادری کی ضروریات کے بجائے حکمران جماعت کے نظریے سے زیادہ ہم آہنگ ہوں۔

  1. علاقائی تعلیمی شناخت کا خاتمہ

ہندوستان کی ہر ریاست کو منفرد تعلیمی چیلنجز اور مواقع حاصل ہیں۔ چاہے تمل ناڑو کی امیر ادبی روایات ہوں، مغربی بنگال کی تحقیق پر مبنی یونیورسٹیاں ہوں، یا پنجاب کے زرعی تعلیم پر زور دینے والے ادارے ہوں، ایک یکساں مرکزی نقطہ نظر علاقائی تعلیمی ترجیحات کا تعین نہیں کر سکتا۔ مجوزہ نئے ضوابط ریاستی حکومتوں کو نظرانداز کر کے ہندوستان کے تعلیمی منظرنامے کی علاقائی تنوع کو ختم کرتے ہوئے ایک یکساں، بیوروکریٹک کنٹرول کے زیر اثر رہنے والا ماڈل پیش کرتے ہیں۔

  1. یونیورسٹیوں کے عوامی کردار کو کمزور کرنا

شق 10.1 کا ایک اور فکرانگیز پہلو وائس چانسلر کے منصب کے لیے تعلیمی تقاضوں میں کمی ہے۔ مجوزہ ضوابط میں وائس چانسلر کے لیے ایک قوی تعلیمی پس منظر کو لازمی قرار نہیں دیا گیا، جس کے نتیجے میں بیوروکریٹ، صنعتی پیشہ ور افراد، یا ایسے افراد کو جن کا تحقیق اور تعلیم میں کم سے کم کردار ہو، یونیورسٹیوں کی قیادت سنبھالنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اس کا نتیجہ ترجیحات میں تبدیلی ہے جہاں تعلیمی برتری کو فروغ دینے کی بجائے انتظامی اور سیاسی مفادات کو مقدم رکھا گیا ہے۔

بنیادی طور پر یہ بحث صرف اس بات پر نہیں ہے کہ وائس چانسلر کی تقرری کا اختیار کس کو حاصل ہو؛ بلکہ یہ ان بنیادی اقدار کے بارے میں ہے جن کا عمل دخل ایک جمہوری معاشرے کے اعلیٰ تعلیم کی رہنمائی میں ہونا چاہیے۔ یونیورسٹیوں کو آزادانہ سوچ، آزاد تحقیق اور علمی حوصلے کی پناہ گاہ ہونا چاہیے۔ انہیں سیاسی میدان جنگ کے طور پر کام نہیں کرنا چاہیے، جہاں قیادت علمی اہلیت و قابلیت کے بجائے بیوروکریٹک حکمت عملی کی بنیاد پر متعین کی جائے۔

ماحصل

تعلیم صرف ڈگریوں، مراتب یا بازاری ضرورتوں تک محدود نہیں ہے؛ بلکہ یہ ذہنوں کی تشکیل، تجسس کا فروغ اور ایسے معاشرے کی تخلیق کا عمل ہے جو علم، تنقیدی سوچ اور عدل و انصاف کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ یونیورسٹیوں کی حیثیت ان مقامات کی ہونی چاہیے جہاں خیالات پنپتے ہوں، جہاں طلباء اور اساتذہ بے خوف و خطر تحقیق میں مشغول ہوں اور جہاں سیکھنے کا عمل جذبے سے منسلک ہو نہ کہ سیاست سے۔

 یو جی سی مسودہ ضوابط 2025 انہی اقدار کے لیے خطرہ ہے اور بھارت کے اعلیٰ تعلیمی نظام کو حد سے زیادہ کنٹرول، نج کاری اور عدم استحکام کی طرف لے جارہے ہیں۔ اگر ہم یونیورسٹیوں کو صرف سیاسی اور کارپوریٹ مفادات کے تسلسل اور توسیع کے طور پر قبول کر لیں، تو ہم وہ چیز کھو دیں گے جو انہیں حقیقی معنوں میں قیمتی بناتی ہے: یعنی چیلنج کرنے، متاثر کرنے اور جدت پیداکرنے کی صلاحیت۔

اگر ہندوستان واقعی عالمی معیار کے ادارے قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے تعلیمی آزادی کی حفاظت کرنی ہوگی، مستقل تعلیمی عملے کے مناصب میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور یقینی بنانا ہوگا کہ جامعات جامع مکالمے اور آزادانہ سوچ کے مراکز بنےرہیں۔ کسی بھی جمہوریت کی مضبوطی اس کے تعلیمی اداروں میں پوشیدہ ہوتی ہےاور آج لئے گئے فیصلے کل کے علمی اور سماجی منظرنامے کو متعین کریں گے۔ صرف ہمارے تعلیمی نظام کا مستقبل خطرہ میں نہیں ہے؛ بلکہ ایک باخبر، بااختیار اور مستقبل بینی رکھنے والے ہندوستان کا مستقبل خطرے میں ہے۔

 

(مضمون نگار ، نیشنل ڈائری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ،کر نال  سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں)

[email protected]

حالیہ شمارے

جدید تہذیب اور اسلامی اخلاق

شمارہ پڑھیں

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں