صادق پرویز
بابائے قوم مہاتما گاندھی کی تصانیف کی فہرست بہت طویل تو نہیں ہے لیکن مختصراور جامع ضرور ہے۔ ان کی تصنیفی خدمات کی ابتداء جنوبی افریقہ سے نکلنے والے ایک معروف رسالہ سے ہوئی۔ جس کی ابتدائی اشاعت ۶؍جون ۱۹۰۳ء سے ہوئی۔ اور یہ رسالہ ہندوستانی رائے یعنی Indian Opinionکے نام سے معروف ہوا۔ مہاتما گاندھی نے بہت سے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا اور بیش قیمت مضامین تحریر کیے جو مختلف ادوار میں، بعض اداروں کی جانب سے شائع ہونے والے رسالوں کی زینت بنتے رہے۔ مہاتما گاندھی کی تین تحریریں کتابی شکل میں منظر عام پر آئیں، جو حسبِ ذیل ہیں:
(۱) An Autobiography My Experiments with Truth – 1929
(۲) Key to Health 1947/48
(۳) Hind Swaraj – 1908, Published -1909
ہندسوراج – ایک تعارف
مہاتما گاندھی کی اہم اور قیمتی سرمائے کی حیثیت رکھنے والی تصانیف میں ’’ہند سوراج‘‘ کا مقام سرِفہرست ہے۔ ۱۹۰۸ء میں مہاتما گاندھی کی انگلستان سے جنوبی افریقہ روانگی ہوئی۔ اس سفر کی ابتداء ۱۳؍نومبر سے ہوئی۔ ۱۰؍دنوں کی اس مختصر سی مدت میں مہاتما گاندھی نے SS Kildonan Castleکیڈونن کیسٹل نام کے پانی کے جہاز پر ہند سوراج لکھی۔ یہ کتاب ۲۲؍نومبر ۱۹۰۸ء کو پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ بڑی دلچسپ بات یہ رہی کہ مہاتما گاندھی نے اس کتاب کومکمل کرنے میں اپنے دونوں ہاتھوں سے تعاون لیا۔ انھوںنے خود اس بات کا اظہار کیا کہ جب میرے دائیں ہاتھ میںتھکاوٹ محسوس ہوتی تو میں بائیں ہاتھ کا استعمال کرتا۔ یہ بات بھی دلچسپ معلوم ہوتی ہے کہ دورانِ سفر مہاتما گاندھی کے پاس لکھنے کے لیے کاغذ بھی دستیاب نہ تھا انھوںنے جہاز کے منتظمین سے کاغذ طلب کیا۔ اس کتاب کی تحریر اولاً گجراتی زبان میں ہوئی اور اس کی اشاعت Indian Opinionکے مخصوص نمبرات میں ہوئی اور بعد کے دنوں میں ان مخصوص نمبرات کی تدوین عمل میں آئی ۔ ہند سوراج کی اشاعت پر بمبئی میں پابندی عائد کردی گئی۔ مہاتما گاندھی نے اس کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا جوIndian Home Ruleکے نام سے منظرِ عام پر آیا برطانوی حکومت نے اس کے انگریزی ترجمہ پر پابندی عائد نہیں کی۔
ہندسوراج کے ذریعے ہی مہاتما گاندھی کے نظریات اور ان کی شخصیت انگلستان، جنوبی افریقہ اوروطنِ عزیز میں متعارف ہوئی۔ اس کتاب کا شمار مہاتما گاندھی کی اہم تصانیف میں اس لیے بھی ہوتا ہے کہ انھوںنے اِس کتاب میں اپنا مکتب فکر واضح کیا اور ہندوستان کے مستقبل کے لیے روڈ میپ بھی پیش کیا۔
ہند سوراج لکھنے کے پیشِ نظر مقاصد:
انگلستان میں مہاتما گاندھی کی ملاقاتV.D. Savarkarاور ان کے ہم خیال رفقاء سے ہوئی۔ جو نظریاتی لحاظ سے انارکسٹ (Anarchist)تھے۔ یہ تمام افراد برطانوی حکومت سے ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتے تھے لیکن ان کا طریقہ کار تشدد کے راستے اس آزادی کو حاصل کرنا تھا۔ مہاتما گاندھی فرماتے ہیں کہ
’’ہند سوراج کے لکھنے کے پیشِ نظر دو مقاصد تھے۔
(۱) تشدد کے ذریعہ آزادی حاصل کرنے والے افراد کو عدمِ تشدد کا درس دینا۔ میں نے محسوس کیا کہ تشدد کا راستہ ہندوستان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔اور ہمارے ملک کو عدمِ تشدد کے طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ اس کتاب میں جو بھی تحریری مواد ہے اسے اتنا پسند کیا گیا کہ اس کی اشاعت ایک چھوٹی سی کتاب کی شکل میں ہوئی۔
(۲) اور اس کتاب کے ذریعہ میں نے ہندوستان کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل بھی پیش کیا۔ ‘‘ (موہن داس کرم چند گاندھی، Young India, 1921)
ہند سوراج کی معنویت:
Tolstoy مہاتماگاندھی کو ہند سوراج کے متعلق ایک خط کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
میں نے پورے ذوق و شوق سے آپ کی اس اہم تحریر ہند سوراج کا مطالعہ کیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ آپ نے ہند سوراج میں جن سوالات کو موضوعِ بحث بنایا ہے، مثلاً عدم تشدد ، یہ سوال صرف ہندوستان کے لیے اہم نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت پوری انسانیت کے لیے ہے۔(خط برائے گاندھی جی، ۸؍مئی ۱۹۱۰ء)
ہند سوراج کی معنویت کا اندازہ مہاتما گاندھی کے اظہارِ خیال سے بھی ہوتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے مختلف مواقع پر اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ جب بھی آپ کی نگاہ سے میری دو تحریریں گزریں تو آپ سے میری گزارش ہے کہ نئی تحریر کو درست سمجھئے۔ لیکن ہند سوراج ایک ایسی تحریر ہے جس میں ایک- دو الفاظ کے علاوہ کوئی بھی ترمیم نہیں کی گئی۔
مہاتما گاندھی کہتے ہیں کہ:میں نے اس کتاب میں ایک ہی لفظ کی ترمیم کی ہے۔ مزید یہ کہ: میں نے اپنے جن نظریات کو دائمی قرار دیا ہے انہیں سامعین کے درمیان پیش کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ جن نظریات کا تذکرہ اس کتاب میں کیا گیا ہے وہ مجھ سے متعلق ہیں اور مجھ سے متعلق نہیں بھی۔ وہ مجھ سے متعلق اس لحاظ سے ہیںکہ میں ان تحریر شدہ نظریات پر عمل پیرا ہونے کی امید رکھتا ہوں۔ اور ان نظریات پر مجھے اس قدر اطمینان ہے کہ جیسے وہ میری روح کے اندر جذب ہوں۔ اور یہ خیالات مجھ سے متعلق اس لحاظ سے نہیں ہیں کہ اس طرح کے خیالات دوسرے افراد میں بھی پائے جاتے ہیں اور کتابوں کے مطالعے سے ہی تشکیل پائے ہیں۔ جس طرح کے خیالات میرے اندر موجود تھے ان کتابوں نے ان کی نشوونما میں تعاون پیش کیا ہے۔ (کیڈونن کیسل22.11.1908)
Tibetکے وزیر اعظم پروفیسر سینڈہونگ رنپوچے فرماتے ہیں کہ: ’’مجھ سے (ہند سوراج)کے متعلق یہ سوال پوچھا گیا کہ ہند سوراج عصر حاضر سے مطابقت رکھتی ہے کہ نہیں۔ میرے پاس اس کے حق میں قوی دلیل تو نہیں ہے کیونکہ مطابقت کا سوال اصل میں ہمارے رویے پر منحصر ہوتا ہے۔ لیکن انسانیت کے پیشِ نظر یہ کتاب بہت relevantہے۔ ہند سوراج اس حوالے سے بہت مطابقت رکھتی ہے کہ ہم اس زمین کو مکمل تباہی سے کیسے بچائیں اور یہ کتاب ہمیں پیغام دیتی ہے کہ ہم انسانی سماج اور قدرت سے ہم آہنگ ہوں۔‘‘
(Prof. Sandhong Rinpoche, Prime Minister Taibetan, Govt. in Exile)
ہند سوراج کی شناختی خصوصیات:
یہ کتاب ایک معتبر متن ہے جس میں ’’قاری‘‘ اور ’’مدیر‘‘ کے مابین تخیلاتی گفتگو ہوئی ہے۔ جس میں’’قاری‘‘ ایک متفکر نوجوان کی ترجمانی کررہا ہے اور ’’مدیر‘‘ مہاتما گاندھی کے افکار کا ترجمان ہے۔ اس کتاب میں ’’مدیر‘‘ کی جانب سے متفکر نوجوان یعنی قاری کے الجھے ہوئے سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔
اس نہج پر ہندومت کی معروف کتاب ’’بھگوت گیتا‘‘ ہے جس میں کرشن اور ارجن کے درمیان گفتگو ہوئی ہے۔
اس کتاب کی تحریر کے دو مقاصد مہاتما گاندھی نے بیان کیے ہیں۔
(۱) عدم تشدد کا درس دینا (۲)دوسرا ہندوستان کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل تجویز کرنا۔
ساتھ ہی ان مقاصد کی دو سمتیں بھی قابلِ غور ہیں۔ (۱) نظریاتی اور سیاسی۔
(۱) نظریاتی سمت: مہاتما گاندھی نے نظریاتی سمت کو بہت ہی بین دلائل سے پیش کیا ہے اور اس کے دو نکات بھی پیش کیے ہیں جو بہت ہی غیر معمولی حیثیت رکھتے ہیں (۱لف) عدم تشدد کے راستے سے ہندوستان کی بازیافت کو یقینی بنانا۔
(ب) مغربی استعمار اور مغربی تہذیب کے منفی اثرات کو اجاگر کرنااور ان کا تنقیدی جائزہ لینا۔
(۲) سیاسی سمت: اس کتاب میں بابائے قوم نے کانگریس کے کارکن کی بے غرضانہ محنت اور دادا بھائی نوروجی کی وکالت کی ہے اور پہلے ہی باب میں قاری کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نیشنل کانگریس کے قیام اور ’’نیشنل‘‘ لفظ کا استعمال ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ کانگریس برطانوی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
باب نمبر ۷ اور ۱۴ سیاسی سماعت کی پوری وضاحت کرتا ہے۔ باب ۷ میں مہاتما گاندھی نے اُن اسباب کو بیان کیا ہے جن کی وجہ سے ہندوستان برطانوی حکومت کا غلام بن گیا۔ باب ۱۴ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہندوستان برطانوی حکومت کے چنگل سے کس طرح آزاد ہوسکتا ہے۔ باب نمبر ۴ میں یہاں تک تحریر ہے کہ ہندوستان کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ برطانوی حکومت کس طرح انگلستان روانہ ہوتی ہے؟
ہند سوراج ایک علمی جائزہ:
ہند سوراج کی خصوصیات کے دو پہلو نمایاں ہیں۔ جہاں یہ کتاب ایک جانب عملیاتی لحاظ سے عصرِ حاضر سے مطابقت رکھتی ہے وہیں اس کتاب نے علمی سطح پر بھی غیر معمولی کردارادا کیا ہے۔ کینڈا کے ایک عظیم تاریخ داں Anthony J. Parelہندسوراج پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ’’جدید تہذیب جو مغربی تہدیب سے عبارت ہے۔ یہ مخصوص اجزاء ہند سوراج کی اہم اساس ہیں۔ مغربی تہذیب کا بے باکانہ ’’تنقیدی جائزہ‘‘ جدید سیاسی افکار Modern Political Thoughtمیں بہت بڑا تعاون ہے۔
مزید لکھتے ہیں کہ ’’مہاتما گاندھی کی جانب سے ’’جدید تہذیب‘‘ کا جائزہ صرف تنقیدی حیثیت رکھتا ہے نہ کہ ’’منفی‘‘۔ کسی چیز کے تنقیدی جائزے میں یہ خواہش لازماً شامل رہتی ہے کہ اس کی اصلاح ہوسکے۔‘‘ (بحوالہReading Gandhi by Kusumlata Chadda, P. 67)
ہند سوراج کے مقدمہ میں مہاتما گاندھی نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ جو افکار میں اس کتاب میں پیش کررہا ہوں۔ وہ افکار مجھ سے اس لحاظ سے مطابقت نہیں رکھتے کہ بہت سی کتب بینی کے بعد ہی ان افکار کی تشکیل ممکن ہوپائی ہے۔ اس بیان کے تناظر میں اینتھونی جان پاریل فرماتے ہیں کہ ’’مہاتما گاندھی نے اس کتاب کی تحریر میں ’’۲‘‘ ماخذوں سے تعاون حاصل کیا ہے۔
(۱) مغربی ماخذ اور (۲) ہندوستانی ماخذ۔ ‘‘
(۱) مغربی ماخذ میں چند نمایاںو معروف فلسفی اور دانشور یہ ہیں:
Leo Tolstoyکے غیر مرکزیت یعنی Decentralisationکے خیالات نے مہاتما کو بہت متاثر کیا۔ ہند سوراج کی پہلی اشاعت کے Appendixمیں ان کتابوں کا حوالہ شامل ہے۔
(۲) Emersonنے ’’خود احتسابی‘‘ کا درس اپنی تحریروں کے ذریعے دیا ہے۔ مہاتما گاندھی نے اُن کے افکار سے بھی فیض حاصل کیا۔
(۳)Ruskinsسے ’’محنت کش کا وقار‘‘ (Dignity of Labour)حاصل کیا۔
(۲)ہندوستانی ماخذ سے مراد مختلف مذاہب کی کتابیں ہیں:
Dr. Bidyut Chakrabharty (پروفیسر پولیٹیکل سائنس، دہلی یونیورسٹی) نے ہند سوراج میں مہاتما گاندھی کے پیش کردہ افکار کو چار اجزاء میں تقسیم کیا ہے۔ ہر جز میں دو مختلف عناصر ہیں جن میں سے ایک عنصر مہاتما گاندھی کے نزدیک خارج البحث ہے۔
(۱) مقابلہ اور تعاون : تعاون مہاتما گاندھی کے نزدیک ترجیحاتی حیثیت رکھتا ہے۔
(۲) قدرتی اورصنعت کاری: قدرتی مہاتما گاندھی کے نزدیک ترجیحاتی حیثیت رکھتا ہے۔
(۳) اُپبوکتا واد اور خود کفیل: خود کفیل مہاتما گاندھی کے نزدیک ترجیحاتی حیثیت رکھتا ہے۔
(۴) غیر مرکزیت یا ریاستی: کمیونٹی کارفرما یعنی غیر مرکزیت
غیر مرکزیت گاندھی جی کی تحریر ’’گرام سوراج‘‘ میں واضح طور پر ملتی ہے۔
عصرِ حاضر پر ہند سوراج کے اثرات کے حوالے سے Anthony J. Parel تحریر فرماتے ہیں کہ ’’مہاتما گاندھی کی کتاب ہند سوراج نے عصرِ حاضر کی سیاسی تحریک اور افکار پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔‘‘ ۳ مثالیں رقم کرتے ہیں:
(۱) Vinoba Bhaveکی قیادت میں” “Bhoodanیعنی زمین کا تحفہ والی تحریک۔
(۲) جئے پرکاش نارائن کی تحریک
(۳) اور ۱۹۶۰ء میں امریکہ میں چلنے والی مارٹن لوتھر کنگ کی تحریک۔
مزید فرماتے ہیںکہ ’’ہند سوراج نے مہاتما گاندھی کو بین الاقوامی سطح پر ایک عظیم سیاسی قائد اور مفکر کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔‘‘ (ایضاً)
ہند سوراج کی تاریخی اور فلسفیانہ خصوصیات:
ہند سوراج ایک مکالماتی تحریر ہے جو ۲۰ ابواب اور تقریباً ۳۰ ہزار الفاظ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا ہر باب اہم ہے۔ لیکن عصرِ حاضر کے لحاظ سے اس کے تین ابواب بہت ہی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ جو حسبِ ذیل ہیں:
(۱) باب نمبر ۶ : تہذیب/ تمدن کا فلسفہ
(۲) باب نمبر ۱۷: عدم تشدد
(۳) باب نمبر۱۸: تعلیم۔
(۱) تمدن / تہذیب کا فلسفہ:
مہاتما گاندھی کا تنقیدی جائزہ اس حوالے سے تھا کہ اس تہذیب کے منفی اثرات کی اصلاح ہوسکے۔ اس باب میں مہاتما گاندھی اُن مادی سہولیات کی نفی کرتے ہیں جس نے صنعت کاری کی حوصلہ افزائی کی اور انسان کو مادی سہولیات فراہم کیں۔ لیکن ان سہولیات نے انسان کو سست اور آرام پسند بناڈالا۔
قدر ت اور انسانوں سے ہم آہنگی رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئی۔ مہاتما گاندھی تحریر فرماتے ہیں کہ ’’آج توپ کے ایک گولے سے ہزاروں انسانوں کی جانیں لی جاسکتی ہیں۔ یہ تمدن کی نشانی ہے پہلے لوگ کھلی ہوا میں اپنی استطاعت کے مطابق کام کرتے تھے آج ان کی حالت جانوروں سے بھی بری ہے۔ انہیں شیشے وغیرہ کے کارخانے میں اپنی جانیں خطرات میں ڈال کر کام کرناپڑتا ہے۔ اس کے منافع کا بڑا حصہ صرف سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو پہنچتا ہے۔ ‘‘
مزید فرماتے ہیں کہ ’’اگر ہم تحمل و صبر کے ساتھ اپنی آرام گاہ میں بیٹھے رہے تو تہذیب کی چپیٹ میں آنے والے انسان خود کی جلائی ہوئی آتش میں جل کر خاک ہوجائیںگے۔‘‘ (بحوالہ ص نمبر ۲۷، باب ۶)
(۲) عدمِ تشدد:
مہاتما گاندھی کا نام زبان پر آتے ہی ہر خاص و عام کے سامنے ان کے بتائے گئے اسباق میں جس سبق کی سب سے زیادہ یاد دہانی کرائی جاتی ہے وہ عدمِ تشدد ہے۔ امن و شانتی قائم کرنے کے لیے تشدد کے راستے سے تعاون لینا ہر زمانے کی اخلاقیات میں اس کا استعمال ایک حد تک درست سمجھا گیا ہے اور تاریخ کے اوراق اس واقعہ کی شہادت دیتے ہیں کہ اس طریقہ کار سے ظلم و زیادتی ختم ہوئی اور امن و شانتی قائم بھی ہوئی، لیکن مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کو ہی آخری حل بتایا۔ اس کتاب کے تحریری مقاصد بھی انھوں نے یہی بتائے کہ عدم تشدد ہی ہندوستان کا واحد حل ہے۔ ممکن ہے کہ ’’مدیر‘‘ کے نظریہ سے ۱۹۰۹ء میں ہندوستان اور بیرونِ ملکی عوام اتفاق نہ رکھتے ہوں لیکن ۱۷-۱۹۱۶ء سے ۱۹۴۸ء تک مہاتماگاندھی کے عدمِ تشدد کے راستے نے نہ صرف برطانوی حکومت کو کوچ کرنے پر مجبور کیا بلکہ تقسیمِ ہند و پاک کے بعد بھی فرقہ وارانہ فسادات ختم ہوئے۔ اس حوالے سے مہاتما گاندھی کی جانب سے پیش کردہ عدمِ تشدد کا راستہ عصرِ حاضر سے بہت مطابقت رکھتا ہے۔
’’قاری‘‘ رقم طراز ہے کہ ’’عدمِ تشدد ایسی تلوار ہے جس کے دونوں جانب تیز دھار ہے۔ اسے چاہے جس کام میںاستعمال کیا جائے۔ وہ دونوں فریق کو فائدہ ہی پہنچاتا ہے جو انسان اُسے چلاتا ہے یا جس پر وہ چلائی جاتی ہے۔ وہ خون کے پھوارے نہیں نکال سکتی۔ لیکن اس سے بھی بڑے نتائج لاسکتی ہے۔ اسے زنگ نہیں لگ سکتا۔ کوئی اس کی چوری نہیں کرسکتا۔ اگر عدمِ تشدد اختیار کرنے والے انسان مقابلے میں اترتے ہیں تو انہیں تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ عدمِ تشدد ایسی تلوار ہے جسے کسی میان کی ضرورت نہیں۔ اگر اب بھی آپ اسے کمزوروں کا اسلحہ مانیں تب تو اُسے تاریکی میں رہنا ہی کہا جائے گا۔‘‘ (بحوالہ باب ۱۷، ص ۶۲)
تعلیم:
مہاتما گاندھی کے تعلیمی فلسفے کو ہم دو حصوں میںتقسیم کرسکتے ہیں۔
(۱)تعلیم میں اخلاقی اقدار کی شمولیت (۲) قدرت سے ہم آہنگی
ہند سوراج میں ’’قاری‘‘ اور ’’مدیر‘‘ کے مابین تخیلاتی گفتگو ان دونوں تعلیمی اساس کی بہترین وضاحت کرتی ہے۔
قاری: لازمی تعلیم دینے کی کوشش ہم ہر ملک میں دیکھتے ہیں یہ ایک انقلابی عمل ہے اس کی جانب ہر فرد کی نظریں مرکوز ہوئی ہیں۔ مہاراجہ گائگ وار نے اپنی ریاست میں لازمی تعلیم کی ابتدائی کوشش کی ہے۔ کیا یہ ساری کوشش بے کار سمجھنی چاہئیں؟
مدیر: تعلیم کے معنی کیا ہیں؟ اگر اس کے معنی صرف چند حروف کی معلومات حاصل کرنا ہی ہے تو اسے ایک ’’آلہ‘‘ کے مانند سمجھنا چاہیے۔ اس کا استعمال منافع بخش اور غیر منافع بخش دونوں ہوسکتا ہے۔ اس آلہ کے استعمال سے مریض کا علاج کیا جاسکتا ہے اور اسی آلہ کا استعمال کسی کی جان لینے کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے۔
مزید لکھتے ہیں کہ، ’’ایک برطانوی دانشورHexlyتعلیم کے بارے میں یوں بیان کرتا ہے کہ اس انسان نے سچی تعلیم پائی جس کو اپنی خواہشات پر ضبط ہو۔ جس کا دماغ پاک، پرسکون اور انصاف پسند ہو، جس کا دل قدرتی قوانین سے پُر ہو، جس کا جسم اس کے ضبط میں ہو۔ جسے بے راہ روی سے نفرت ہو اور جو دوسرے انسان کو اپنے جیسا ہی سمجھتا ہو۔ ایسا انسان ہی سچا تعلیم یافتہ مانا جائے گا کیونکہ وہ قدرت کے قوانین کے مطابق چلتا ہے۔ قدرت اس کا اچھا استعمال کرے گی اور وہ قدرت کا۔‘‘ (بحوالہ ہند سوراج، ص۶۶-۶۵)