سعد بن اسلم
مترجم: ابوذر صدیقی
نجکاری(Privatisation)، جوتیرہ حرفی سیاسی طور پر آتش گیر لفظ ہے، جرمن کے لفظ ” پرائیوٹائسرنگ”(Privatiserung) سے ماخوذ ہے۔ یہ عوامی شعبوں کے کاروباری اداروں (Public Sector Enterprises) کی ملکیت، انتظام، اور کنٹرول کی نجی شعبے میں منتقلی کے عمل کے لیئے استعمال ہوتا ہے۔ جب بڑے پیمانے پر باقاعدہ نجی کمپنی یا صنعت کم منظم ہوجائے تو اس لفظ کو بے ضابطگی کے لئے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یا پھر محصولات کی وصولی اور جیل کے نظم و انصرام جیسی سرکاری خدمات اور کاموں کی نجکاری وغیرہ ۔اس میں ایک اہم اصطلاح ’ڈس انویسٹمنٹ‘ (عدم سرمایہ کاری) ہے جس کا مطلب عوامی شعبوں کے حقوق کے کچھ حصہ کو نجی شعبوں کو بیچنا ہے۔ نجکاری کے چھ طریقے ہیں:
ٌٌ ۱) حصص(Shares) کی عوامی فروخت
۲) عوامی نیلامی
۳) عوامی ٹینڈر
۴) براہ راست مذاکرات
۵) سرکاری کاروباری اداروں کے کنٹرول کی منتقلی
۶) خریدنے کے حق کے ساتھ Lease (ایک معاہدہ جس میں ان شرائط کا خاکہ پیش کیا جاتا ہے جس کے تحت ایک فریق دوسرے فریق کی ملکیت کرایہ سے لینے پر اتفاق کرتا ہے) پر دینا
اب سوال یہ ہے کہ پی ایس یو (عوامی شعبے) کیا ہے اور ہمیں ان کی ضرورت کیوں ہے؟ پی ایس یو کا مخفف پبلک سیکٹر انڈرٹیکینگس ہے (عوامی شعبوں کے کاروباری ادارے) ۔ ایک پی ایس یو میں ۱۵ فیصد یا اس سے زیادہ ادائیگی شدہ حصہ حکومت کی ملکیت ہے۔ اگر یہ مرکزی حکومت کے زیر انتظام ہے تو اس کو سینٹرل پبلک سیکٹر انٹرپرائزز(سی پی ایس ای) کہا جاتا ہے اور اگر ریاستی حکومت کا ہے تو اسٹیٹ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز) کہا جاتا ہے۔ جب ہندوستان آزاد ہوا، تو اسے شدید معاشی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوستان کے اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا ماننا تھا کہ بنیادی اور اعلیٰ صنعت کا قیام ہندوستانی معیشت کی ترقی اور جدید کاری کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔۱۹۵۶ء میں انڈیا کے دوسرے پانچ سالہ منصوبے (۶۰۔۱۹۵۶) کی صنعتی پالیسی کی قرارداد میں عوامی شعبے کے کاروباری اداروں کی ترقی پر زور دیا گیا۔ اس ویژن کو ڈاکٹر وی کرشن مورتی نے آگے بڑھایا، جن کو ”ہندوستان میں فادر آف پی ایس یو ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حکومت نے شروعات اسٹریٹجک شعبوں میں اولین صنعتیں تشکیل دے کر کی۔ جس کے پہلے مرحلے میں تیل اور گیس، اسٹیل اور بجلی کی پیداوار شامل ہیں جو آگے چل کر او این جی سی، ای آئی ایل، انڈین آئل اور بی ایچ ای ایل کی تشکیل کا سبب بنیں۔بعد میں دوسرے مرحلے میں موجودہ حکومت نے صنعتکاری میں بنیادی سے لے کر دوسرے مختلف شعبوں میں پھیلاؤ شروع کیا جیسے اشیائے صارفین، مشاورت، معاہدات اور نقل و حمل ۔ کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی) سرکاری کمپنیوں کا آڈٹ کرتا ہے۔ سی اے جی کو اختیار حاصل ہے کہ آڈیٹر مقرر کریں اور سرکاری کمپنیوں کے سلسلے میں کس طرح سے آڈیٹر کمپنی کے اکاونٹ کا آڈٹ کریں گے اس کی ہدایات دیں۔
پبلک سیکٹر کی ناکامی اور نجی شعبے کی صنعتوں کی کامیابی کی روشنی میں ۱۹۹۱ میں عوامی شعبے کی نجکاری کا مطالبہ منظرعام پر آگیا۔ نجکاری کی یہ لہر پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ یہ ورلڈ بینک کی ۱۹۹۱ کی رپورٹ سے متاثر ہوئی تھی جس نے ”بازار دوستی(market friendly) ” کے نقطہ نظر کو متعارف کرانے کا دعوی کیا اور ہندوستان کو اپنے عوامی شعبوں کو منسوخ کرنے اور اس پر سے اختیار کو ہٹا لینے کا مشورہ دیا۔ نجکاری کا عمل ۹۲۔ ۱۹۹۱میں پی ایس یو کے کچھ اقلیتی کاروباری حصہ داری (Stakes) فروخت ہونے کے ساتھ شروع ہوا۔ تاہم، جمع شدہ رقم ۹۲-۱۹۹۱ سے لے کر۲۰۰۰۔۱۹۹۹تک کم رہی۔ پی ایس یو کی عدم سرمایہ کاری سے ۵۴۳۰۰۰کروڑ روپے کے مجموعی ہدف میں، حکومت صرف۶۲ء۲۰۰۷۸کروڑ روپے اکٹھا کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کے کم ہونے کی بہت سی وجوہات تھیں جیسے نامناسب شرائط بازار، عدم سرمایہ کاری کے بارے میں کوئی واضح پالیسی کا نہ ہونا، عمل میں شفافیت کی کمی اور ملازم اور ٹریڈ یونینوں کی سخت مخالفت۔تاہم اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انتظامی کنٹرول ابھی بھی حکومت کے ماتحت تھا۔ اس مدت کے دوران اقلیتی کاروباری حصہ داری پر لگنے والی زیادہ تر پیش کش داخلی مالیاتی اداروں نے اٹھائیں۔ یونٹ ٹرسٹ آف انڈیا ایک ایسا ہی بڑا ادارہ تھا۔
۲۰۰۰ا۔۱۹۹۹کے بعد سے، توجہ اسٹریٹجک فروخت یا عوام کو فروخت کی پیش کش کی طرف موڑ دی گئی۔ اسٹریٹجک فروخت کے ایک حصے کے طور پر، حکومت نے اس بات کو یقینی کرنے کا منصوبہ بنایا کہ نجکاری کے بعد کم از کم ایک سال کی مدت میں ملازمین کی کوئی تخفیف نہیں ہوگی۔ عوامی فروخت میں، حکومت نے انتظامیہ پر دوبارہ کنٹرول کیا۔ کچھ کمپنیاں جو اسٹریٹجک فروخت میں شامل تھیں مندرجہ ذیل ہیں:
• بھارت الومنیم کو لمٹیڈ
• سی ایم سی لمٹیڈ
• ہندوستان زینک لمیٹیڈ
• ہوٹل کارپوریشن آف انڈیا
• ایچ ٹی ایل لمٹیڈ
•آئی بی پی کو لمٹیڈ
• انڈیا ٹوریزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹیڈ
• انڈین پیٹروکیمیکلز کارپوریشن لمیٹیڈ
• جیسوپ اینڈ کو لمیٹیڈ
• لگان جیوٹ مشینری کولمیٹیڈ
• ماروتی سزوکی انڈیا لمیٹیڈ
• ماڈرن فوڈ انڈسٹریز انڈیا لمٹیڈ
• پردیپ فوسفیٹس لمیٹیڈ
• ٹاٹا کمیونیکیشن لمٹیڈ
اسٹریٹجک فروخت کے ذریعے جمع کی جانے والی رقم اقلیتی حصہ داری پر لگنے والی فروخت سے کہیں زیادہ تھی جس نے حکومت کو مستقبل میں اسٹریٹجک فروخت کا انتخاب کرنے کی ترغیب دی۔ اس مدت کے دوران، حکومت نے۵۰۰۰،۳۸ کروڑ روپے کے ہدف کے مقابلہ میں۶۸ء۱۶۳،۲۱ کروڑ روپے اکٹھا کیے۔ ۰۵۔۲۰۰۴ سے لے کر ۰۹۔۲۰۰۸کے دوران نجکاری تقریبا ًٹھپ ر ہی تھی۔۲۰۰۹ کے بعد سے، ایک مستحکم حکومت اور اسٹاک مارکیٹ کے بہتر حالات کی وجہ سے ابتدائی طور پر اس کی وجہ سے نئے سرے سے نجکاری پر زور دیا گیا۔ اس میں کھنچاؤ ہوتا رہا او۲۰۱۴سے نجکاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ تاہم، دولت اکٹھا کرنے میں حکومت کی ہر کوشش اپنے ہدف سے کافی نیچے رہی ہے۔
ہر سال پارلیمنٹ میں نیا بجٹ بنایا اور منظور کیا جاتا ہے۔ پالیسی تبدیلیاںاور ٹیکسوں کے slabs میں کچھ تبدیلیاں عام ہیں۔ لیکن ۲۲۔۲۰۲۱کے بجٹ میںحکومت نے بجٹ میں پہلی بار نجکاری کے ساتھ ساتھ عدم سرمایہ کاری اور اسٹریٹجک فروخت کا ذکر کیا۔ حکومت نے اسٹاک فروخت سے ۷۵ء۱ لاکھ کروڑ روپے کا بجٹ سرکاری شعبے کی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں میں مختص کیا۔۲۲۔۲۰۲۱کے مالی سال کے لئے سرکاری شعبے کے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے ۱ لاکھ کروڑ روپے اکٹھا کرنے کا منصوبہ ہے۔ اور ۷۵۰۰۰ کروڑ روپے کی رقم سی پی ایس ای کی عدم سرمایہ کاری رسید جیسے ایس اے آئی ایل یا بی آئی ایل سے اکٹھی کی جائے گی۔اسٹریٹجک عدم سرمایہ کاری پالیسی کے مطابق پانچ شعبوں کو اسٹریٹجک سیکٹر کے طور پر برقرار رکھا جائے گا، جو یہ ہیں:
(۱)جوہری توانائی
(۲) خلائی اور دفاع
(۳) ٹرانسپورٹ اور ٹیلی مواصلات
(۴)بجلی، پٹرولیم، کوئلہ اور دیگر معدنیات
(۵) بینکنگ، انشورنس اور مالی خدمات
اسٹریٹجک شعبوں میں، عوامی شعبے کے کاموں کی کم از کم موجودگی ہوگی۔
اسٹریٹجک شعبوں میں باقی سی پی ایس ای کی نجکاری یا انضمام یا دوسرے سی پی ایس ای سے Subsidiarize (کمپنی کو قانونی طور پر الگ، لیکن معاشی طور پر متعلقہ ذیلی اداروں میں تقسیم کرنا) یا بند کیا جائے گا۔ غیر اسٹریٹجک شعبوں میں، تمام سی پی ایس ای کو نجی بنایا جائے گا یا بصورت دیگر بند کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر، یہاں ۱۲پبلک سیکٹر بینک (پی ایس بی) موجود ہیں لیکن مستقبل میں یہ تعداد ۵ یا اس سے کم کی جا سکتی ہے۔ اسٹریٹجک سرمایہ کاری ۲۲۔۲۰۲۱میں مکمل کی جائے گی جس میں بی پی سی ایل، ایئر انڈیا، شپنگ کارپوریشن آف انڈیا، کنٹینر کارپوریشن آف انڈیا، بی ای ایم ایل،پون ہنس اور نیلانچل اسپت نگم لمیٹڈ، دیگر کے ساتھ شامل ہیں۔ ہندوستان میں ۳۰۰کے قریب پی ایس یو ہیں۔ ۱۳ مارچ، ۲۰۱۹تک اور عدم سرمایہ کاری کی پالیسی میں تیزی لانے کے لئے، نیتی آیوگ سی پی ایس یو کی اگلی فہرست جو اسٹریٹجک عدم سرمایہ کاری کے لئے لی جائے گی، پر کام کرے گا۔
بجٹ میں نمایاں طور سے یہ بات مذکور ہے کہ دو پی ایس بی،ایک انشورنس کمپنی اور ایل آئی سی کی انیشیل پبلک آفرنگ ( آئی پی او) کی فروخت کی جائے گی۔ انشورنس کمپنیوں میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو۴۹ فیصد سے بڑھا کر ۷۴ فیصد کردیا گیا ہے۔ بینکوں کے سلسلے میں یہ مقرر کیا گیا ہے کہ چھوٹے اورمتوسط سطح کے بینکوں کا حکومت کی طرف سے نجکاری کا امکان ہے۔ پی ایس یو کی چار جنرل انشورنس کمپنیاں ہیں:
۱) نیو انڈیا انشورینس
۲) یونائیٹڈ انڈیا انشیورینس(یو آئی آئی)
۳) نیشنل انشیورینس کمپنی(این آئی سی)
۴) اورینٹل انشیورینس کمپنی(او آئی سی)
ان انشورینس کمپنیوں کے علاوہ حکومت ری انشیورر جنرل انشورنس کارپوریشن(جی آئی سی ری) کی بھی مالک ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی بھی نجکاری کی جائے۔ حکومت بھی کوئی دو یا تینوں باقی انشورنس کمپنیوں کو ضم کر سکتی ہے۔دنیا کی مارکیٹیں جب ایل آئی سی سے آئی پی او کے لئے جائیں گی کیونکہ یہ کسی بھی بیمہ کے لیئے دنیا میں سب سے بڑی ہوگی۔ تب دنیا کی شیئر مارکٹوں میں تاریخ لکھی جائیگی۔ یہ ایک بہت بڑا اور متاثر کن آئی پی او بننے جا رہا ہے جس کے تحت ۳۲ لاکھ کروڑ روپے کے اثاثے ایل آئی سی کے انتظام میں چل رہے ہیں۔ جس کا سہرا ہندوستان کی بڑی آبادی پر جاتا ہے۔حکومت توقع کر رہی ہے کہ ایل آئی سی کے آئی پی او سے قابل ذکر رقم اکٹھا کرے۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت سرکاری شعبے کے بینکوں کی نجکاری کیوں کررہی ہے؟ سب سے زیادہ اہم وجہ پی ایس بی کی نا اہلی ہے، دسمبر۲۰۲۰ تک، سرکاری شعبوں کے بارہ بینکوں نے مجموعی غیر کاربند اثاثوں (این پی اے) کی قیمت ۷۷ء۵ لاکھ کروڑ ریکارڈ کی، جو ۱۹ نجی بینکوں کے ناقص قرضوں کے انبار کے سائز سے دوگنے سے زیادہ ہے۔، جس کی قیمت ۶۵ء۱لاکھ کروڑ روپے ہے۔ حکومت بینکوں کو کاربند رکھنے کے لیئے بینکوں میں فنڈ دینے سے قاصر ہے۔ جس کے لئے حکومت کو ان کی نجکاری کرنی ہوگی۔ تاہم، بینکوں کی نجکاری حل نہیں ہے کیونکہ نجی بینکوں کو مقابلہ اور نفع کی زیادہ پرواہ ہے۔ منافع پر مبنی مقاصد اکثر سماجی مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بنتے ہیں جیسے دیہی علاقوں میں خدمات فراہم کرنے جیسے محرکات جہاں منافع بہت کم کمایا جاتا ہے، کسانوں کو ایم ایس ایم ای کو کم سود کی شرح پر قرض دینا یا ہر معاشی طبقے کو محرکات فراہم نہ کرنا۔ جیسا کہ ملازمت کے لیئے بینکوں کے ملازمین پریشان ہیں کیونکہ وہ اپنی حیثیت سے محروم ہوجائیں گے۔ سرکاری ملازمت کو کسی نجی ملازمت میں تبدیل کردیا جائے گا جس میں ملازمت کی حفاظت فراہم نہیں ہو پائے گی۔اور ملازمت کسی بھی وقت رخصت ہوسکتی ہے۔ بڑے پیمانے پر پی ایس بی کی نجکاری کے ساتھ مسائل ہیں۔ اور ان سے صرف اس صورت میں بچا جاسکتا ہے جب حکومت اس سطح پر پیچھے ہٹتی ہے جس سے ڈائریکٹر بورڈ کو فیصلہ لینے کا اختیار حاصل ہو جور کرونی کیپٹلزم (ایک معاشی نظام جس میں کنبہ کے افراد اور دوستوں اور کاروباری رہنماؤں کے دوستوں کو ملازمتوں، قرضوں وغیرہ کی شکل میں غیر منصفانہ فائدہ دیا جاتا ہے) میں غلط استعمال ہونے سے قاصر ہو۔ نجی ڈائیریکٹروں کو شامل کرنا بینکوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں بھی مدد کرے گا۔
ایک اور شعبہ جو نجکاری کی بحث میں ہے وہ ریلوے ہے۔ حکومت کا مقصد ریلوے میں۵۰ لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرنا ہے لیکن اس کا زیادہ تر حصہ نجکاری کے زریعے ہی لگایا جائے گا۔ فی الحال، ۱۳۰۰۰مسافر ٹرینیں چل رہی ہیں لیکن مقصو۰۰۰،۲۰ ٹرینیں ہیں۔حکومت نے ۱۰۹راستوں کی نشاندہی کی ہے جن کو نجکاری کے لیئے ۱۲ حصوں میں تقسیم کیا ہے،جن پر ۱۵۱ ٹرینیں ۳۵سال تک چلیں گی اور یہ ٹرین کی کل کارروائیوں کا ۵ فیصد ہے۔ نجی کاروباری ادار ے بولی کی رقم لگانے کے علاوہ، جو۰۰۰،۳۰کروڑ روپے ہونے کی امید ہے طے شدہ ٹرانسپورٹیشن، توانائی، محصولات کے حصص کے اخراجات اور جرمانے بھی جوفرموں میں غفلت برتنے پر عائد کیئے جائیں گے’ انہیں بھی ادا کریں گے۔ لیکن پی ایس بی کے برعکس، ریلوے کی ملازمت صرف حکومت کی جانب سے دیکھی جائے گی۔ چونکہ ہر نجی ادارہ صرف منافع کے لیئے فکرمندہوتا ہے، اس لئے یہ ضرور مختلف معاشی طبقات میں تقسیم پیدا کرے گا اور حکومتی ذرائع کے مطابق صرف متحرک قیمتوں کو نافذ کرکے اس مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے گا۔
ہندوستان کوخاص طور پر کورونا کی وبا کے بعد مستحکم معاشی نمو کی ضرورت ہے۔ حکومت کے مطابق یہ نجی شعبے کی شراکت سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ تاہم، نجکاری کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس سے مارکیٹ میں اجارہ داری پیدا ہوتی ہے۔ ایک ہی شکل کی اجارہ داری نہیںبلکہ مجموعی طور پر نجی شعبہ اور اس کے ہی مطابق مارکیٹ پر حکمرانی کرنا۔ چونکہ وہ صرف منافع کا خیال رکھتے ہیںاور معاشرتی قدروں کا نہیںرکھتے۔ اس سے معاشرے کے معاشی طور پر کمزور طبقات جو ہندوستان میں اب بھی اکثریت میں ہیں، محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سے امیر اور غریب کے مابین پائے جانے والے فرق کو بھی تقویت ملتی ہے۔ ہندوستانی معیشت یقینا ترقی کی محتاج ہے لیکن اس کی ناقص قیمتوں پر نہیں ۔ یہ ضرور ممکن ہو سکتا ہے اگر حکومت کی جانب سے مطلوبہ وقت اور محاذوں پر موثر پالیسیاں اور اقدامات کیئے جائیں۔