وطن عزیز ہندوستان 2047ء تک جرمنی اور جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کا خواب دیکھ رہا ہے اور موجودہ مرکزی حکومت ملک کی عوام کو اس بات کا یقین دلاتے نہیں تھکتی، گویا کہ یہ ان کے لیے یہ اتنا ہی آسان ہے جتنا جھوٹ کی بنیاد پر کسی ریاست کی عوام کو بہکانا اور الیکشن جیت جانا۔ موجودہ بی جے پی حکومت اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ جھوٹے وعدوں اور بے بنیاد خواب دکھا کر الیکشن لڑنا تو آسان ہے لیکن ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے جیسا مشکل اور ہمہ جہت کام اس قدر آسان نہیں کہ اس میں ”سب کا ساتھ سب کا وکاس ”صرف جملہ کی حد تک نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں درکار ہے۔ 2047ء تک دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کے بارے ماہرین معاشیات، پالیسی سازاور دیگر اہل علم نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ یقیناً ہندوستان بہت ساری وجوہات کی بناء پر اس ہدف کو حاصل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن حکومت کی موجودہ پالیسیوں، ہندوستانی سماج کا گرتا تانا بانا، بڑھتی ہوئی نا برابری اور دیگر کئی اہم وجوہات کی بناء پر ممکن ہے کہ یہ خواب محض خواب ہی نہ رہ جائے۔ ماہرین نے کئی اہم وجوہات میں سے ایک اہم ترین وجہ تعلیم کے شعبہ میں موجودہ حکومت کی بے توجہی اور غیر ذمہ داری کو بھی بتایاہے۔ آج ہم اسی ایک وجہ کو کسی قدر تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
تعلیم کا میدان اور خصوصاً بہتر تعلیم کا حصول ایک خطیر سرمایہ کا متقاضی ہے۔ اس کے باوجود موجودہ مرکزی حکومت درکار سرمایہ کو لگانے میں مستقل ناکام ہے۔ مثال کے طور پر وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے یکم فروری کو لوک سبھا میں سالانہ عام بجٹ پیش کیا۔ بجٹ تقریر کے دوران، وزیر خزانہ نے شعبہ تعلیم میں اس سال 1.28 لاکھ کروڑ روپیے خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے جو پچھلے سال کے بجٹ کے مقابلے میں 6.5 فی صد زیادہ ہے جب سرکار نے شعبہ تعلیم کے لیے 01.2 لاکھ کروڑ ر وپیے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یہ پچھلے چار سالوں میں سب سے کم اضافہ ہے۔ اور نہ صرف اس سال بلکہ پچھلے دس سالوں میں تعلیمی بجٹ میں مستقل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ بظاہر یہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن حقیقاً یہ عالمی اور خود حکومت کے طے کردہ معیارات اور اہداف سے بہت کم ہے۔
مثال کے طور پر، خود بی جے پی حکومت کی تیار کردہ قومی تعلیمی پالیسی 2020ء اس بات پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے کہ شعبہ تعلیم پر ملک کی مجموعی جی ڈی پی کا کم سے کم 6 فی صد حصہ خرچ کرنا ہر حال میں لازمی ہے۔ اس کے علاوہ بہت گہرے تجزیہ کے ساتھ تیار کردہ کوٹھاری کمیشن کی رپورٹ بھی اسی بات پر زور دیتے ہوئے جی ڈی پی کا 6 سے 6.5 فی صد حصہ تعلیم پر خرچ کرنے کی بات کرتی ہے۔ لیکن چاہے وہ ماضی کی کانگریس کی قیادت والی سرکار ہو یا موجودہ حکومت، دونوں لازمی ہدف تک پہنچنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم پر معقول سرمایہ خرچ کرنے کی اہمیت واضح ہوتے ہوئے بھی ہماری حکومتیں اس میں کیوں بری طرح ناکام ہیں؟ اور اس کے پیچھے آخر کیا وجوہات ہیں ؟ لیکن اس اہم سوال کے جواب سے پہلے آئیے دیکھتے ہیں کہ فی الحال ہمارے ملک کے تعلیمی اور خصوصاً اسکول سیکٹر کی کیا صورتحال ہے کیونکہ اس کے بعد ہمیں اس بات کا صحیح اندازہ ہوگا کہ حکومت کی نا اہلی کس قدر سنگین ہے۔
ملک میں اسکولی تعلیم کی صورتحال
آج جب کہ دنیا کے دیگر مالک چاند کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مریخ پر دنیا بسانے کی کوشش کررہے ہیں، مصنوعی ذہانت (اے آئی )میں غیر معمولی ترقی حاصل کررہے ہیں، بڑی بڑی بیماریوں اور قدرتی آفات سے حفاظت کی بہترین تدابیر اختیار کررہے ہیں، ہمارے ملک میں لاکھوں کم عمر طلباء کی تعداد ایسی ہے جو اپنی مادری زبان میں ایک جملہ بھی ٹھیک سے پڑھ پاتے ہیں نا لکھ پاتے ہیں۔ دھیان میں رہے کہ یہی وہ نسل ہے جو آگے جا کر اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے گی۔ زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے میں محض ایک رپورٹ کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو پچھلے سال شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کی تفصیلات مایوس کن بھی ہیں اور سنسنی خیز بھی۔
رواں سال جنوری میں تعلیمی صورتحال کی سالانہ رپورٹ (اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ 2024-ASER) شائع ہوئی۔ یہ رپورٹ ہر سال شائع ہوتی ہے اور ملک کی تعلیمی صورتحال کو سمجھنے میں ایک قابل قدر اور مستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ASER کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس نے اپنے سروے میں 605 گاؤں کے تقریباً 6.5 لاکھ طلباء کا جائزہ لیا ۔ سروے کے دوران ان بچوں کو بنیادی پڑھائی اور حساب کی مہارتوں میں آزمایا گیا، ان نتائج میں کووڈ سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں معمولی بہتری دیکھنے کو ملی۔ تاہم، اب بھی جماعت سوم اور پنجم کے بیشتر طالب علم ایسے ہیں جو اپنی مادری زبان میں جماعت دوم کا متن نہیں پڑھ پاتے ہیں اور نہ ہی وہ آسان ریاضی کے سوالات حل کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ اے ایس ای آرنے 2011 کی مردم شماری کے اعداد وشمار کو بنیاد بنا کر ہر ضلع سے 30 گاؤں اور ہر گاؤں سے بیس گھروں کا انتخاب کیا تھا جس میں پانچ سے سولہ سال تک کے بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔
اے ایس ای آرکی 2018 کی رپورٹ کے مطابق، حکومت کے اسکولوں میں جماعت سوم کے 20.9 فیصد طلبہ جماعت دوم کا مواد پڑھنے کے قابل تھے، لیکن یہ تعداد 2022 میں کم ہو کر 16.3 فیصد رہ گئی تھی۔ 2024 میں یہ 23.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے، مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بھی 76.6 فیصد جماعت سوم کے طلبہ وہ مواد نہیں پڑھ سکے جو 19 مختلف زبانوں میں دیا گیا تھا۔
جب جماعت پنجم کے طلبہ کو وہی مواد دیا گیا، تو ہر دوسرے بچے کے لیے اسے پڑھنا ممکن نہیں تھا۔ 2018 میں 44.2 فیصد جماعت پنجم کے طلبہ اس مواد کو پڑھنے کے قابل تھے، جو 2022 میں کم ہو کر 38.5 فیصد ہوگئے تھے، اور پھر 2024 میں یہ شرح دوبارہ 44.8 فیصد تک پہنچ گئی۔
سروے میں یہ بھی ظاہر ہوا کہ جماعت ہشتم کے 67.5 فیصد طلبہ جماعت دوم کا مواد پڑھنے کے قابل تھے۔
ساتھ ہی ساتھ بچوں کو بنیادی حساب(ریاضی) کے مسائل میں بھی جانچا گیا جیسے نمبروں کو پہچاننا، دو ہندسوں والے نمبروں کو منفی کرنا اور تین ہندسوں والے نمبروں کو ایک ہندسے سے تقسیم کرنا۔ اس میں حکومت اور نجی دونوں قسم کے اسکولوں میں بہتری دیکھنے کو ملی۔
تاہم سروے یہ کہتا ہے کہ جماعت سوم کے دو تہائی بچے ابھی بھی منفی کے مسائل حل نہیں کر پا رہے تھے۔ جبکہ جماعت پنجم کے بچوں میں جنہوں نے تقسیم کے مسائل حل کیے، ان کی تعداد 2018 میں 27.9 فیصد سے بڑھ کر 2024 میں 30.7 فیصد ہوگئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً 70 فیصد بچے اب بھی پیچھے ہیں۔ جماعت ہشتم میں، بنیادی حساب میں بہتری 2018 میں 44.1 فیصد سے بڑھ کر 2024 میں 45.8 فیصد ہوگئی ہے۔
اس کے علاوہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کا بھی اکثر یہی حال ہے۔ جہاں ہر آئے دن طلبہ کسی نا کسی پریشانی کو لے کر اپنے اداروں کے خلاف احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ داخلوں میں کمی کے باعث کالجز کے بند ہونے کی کوئی نہ کوئی خبر ہر دن آتی ہے۔ اور پڑھے لکھے نو جوانوں میں جو تاریخی بے روزگاری اس وقت بڑھ چکی ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔
مندرجہ بالا اعداد شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پہلے میدان تعلیم میں ناگزیر سرمایہ لگانے اور پھر لگائے گئے سرمایہ کا صحیح استعمال کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں آخر ایسا ہے کیوں۔۔؟
بد قسمتی سے ہندوستان کی جمہوری حکومتوں کی تاریخ میں تعلیم اور تعلیمی مسائل کبھی بھی اولین درجہ کی اہمیت حاصل نہیں کر پائے۔ تعلیمی اداروں کی ناقص کار کردگی اور ان میں جڑ پکڑا ہوا کرپشن بھی اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ ہے۔ حکومتی تعلیمی اداروں کی ناقص کار کردگی میں حکومت کی جانب سے بقدر ضرورت فنڈ نا ملنا بھی ایک وجہ ہے اور پھر یہی چیز آگے جا کر تعلیم کی نجی کاری کو فروغ دیتی ہے۔
کیونکہ جب تبدیل ہوتی دنیا کی ضرورتوں کو یہ حکومتی ادارے پورا نہیں کرپاتے ہیں تو نجی ادارے اپنی قسمت آزماتے ہیں۔ جو یقیناً ایک بہتر تعلیم کا متبادل تو پیش کرتے ہیں لیکن حد سے زیادہ مہنگی قیمتوں اور فیس پر۔ امیر والدین تو اپنے بچوں کو ایسے اداروں میں تعلیم دلوا لیتے ہیں لیکن غریب طلبہ کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور خصوصاً ان طلبہ کا تو مستقبل برباد ہوجاتا ہے جن کا مکمل انحصار محض حکومتی تعلیمی اداروں پر ہوتا ہے۔
تعلیم پر بقدر ضرورت سرمایہ نہ لگا پانے کی کئی وجوہات حکومت پیش کرتی ہے۔ ایک یہ کہ ملک کے دیگر ضروری شعبہ جات جیسے شعبہ صحت، انفر اسٹرکچر اوردفاع ( ڈیفنس) وغیرہ میں زیادہ اخراجات کے باعث تعلیمی بجٹ میں کمی کرنی پڑتی ہے لیکن اصلاً ان شعبوں کی صورتحال بھی کچھ اطمینان بخش نہیں۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ تعلیم پر جو کچھ سرمایا لگایا جاتا ہے وہ صحیح معنوں میں استعمال نہیں ہوتا تو ضرورت بجٹ بڑھانے کی نہیں بلکہ صحیح استعمال کی ہے۔ بجٹ کے صحیح استعمال تک تو بات صحیح ہے لیکن اس میں اضافہ کی کوئی ضرورت نہیں یہ محض ایک بہانہ ہے اپنی نا اہلی پر پردہ پوشی کا۔
ان سب وجوہات کے برعکس جو اصل وجہ سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ اس ملک کی تقریبا ًتمام اور بالخصوص بی جے پی حکومت نے سالانہ بجٹ کو کبھی بھی ملک اور ملکی عوام کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر نہیں بنایا۔ بلکہ ہر بار بجٹ اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ کیسے اس ذریعے سے برسر اقتدار سیاسی جماعت کو مزید سیاسی مفادات حاصل ہوں۔اس کی تازہ مثال حالیہ بجٹ میں ریاست بہار کے لیے بہت سارے اعلانات ہیں کیونکہ اس سال بہار کے اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ گویا حکومت کے لیے بجٹ ملک کی فلاح و بہبود سے زیادہ اپنے ووٹ بینک کی دلجوئی کا ایک ذریعہ ہے۔ ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہندوستان میں تعلیم اور اور تعلیمی مسائل کبھی بھی سیاست اور سیاست دانوں کا مرکزی موضوع نہیں رہے۔ بلکہ مذہب ہی یہاں کا غالب سیاسی نعرہ ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر ساری سیاست بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا جو عوام تعلیم کے نام پر ووٹ نہیں دیتی وہ بدلے میں تعلیم کے نام پر کچھ پاتی بھی نہیں ہے۔ ایسا ہونا اگر معقول نہیں تو غیر فطری بھی نہیں ہے۔
عالمی معیشتوں میں تعلیمی اخراجات کا موازنہ
اگر ہندوستان 2047 تک دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کا خواب دیکھتا ہے تو اس کا موازنہ بھی دنیا کی دوسری بڑی معیشتوں سے ہی ہوگا۔ اگر ہندوستان کے شعبہ تعلیم کے تئیں موجوددہ رویہ کا موازنہ دوسری بڑی معیشتوں سے کیا جائے تو یہاں بھی مایوسی ہی ہاتھ آتی ہے۔ مثال کے طور پر، امریکہ، جو کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور جس کا جی ڈی پی 28.783 ٹریلین ڈالر ہے، 2023 میں اپنے جی ڈی پی کا 6 فی صد حصہ تعلیم پر خرچ کرتا رہا۔ چین، جو کہ ہندوستان کا سب سے بڑا ہمسایہ ہے، 2023 میں اپنے جی ڈی پی کا 6.13 فی صد تعلیم پر خرچ کر رہا تھا۔ جرمنی نے 2023 میں ابتدائی سے لے کر اعلیٰ تعلیم (تحقیق و ترقی کے علاوہ) پر 4.6 فی صدمختص کیا، جب کہ کووڈ-19 سے پہلے یہ خرچ 9.8 فی صد تک تھا۔ جاپان نے 7.43فی صد اپنے تعلیمی بجٹ کے لیے مختص کیا۔ اس کے مقابلے میں، ہندوستان پچھلے دس سالوں میں اپنے سالانہ بجٹ میں صرف 4.6 فیصد جی ڈی پی تعلیم کے لیے مختص کر پایا ہے۔ لہذاہمارے ملک کے پالیسی سازوں اور حکومتوں کو ضرورت ہے کہ وہ ان ممالک سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایک قابل قدر سرمایہ تعلیم کے لیے مختص کریں جس سے ہماری تمام تعلیمی ضروریات پوری ہو سکے۔ کیونکہ ان ملکوں کی ترقی کا راز ان کے تعلیمی اداروں کی دیواروں میں ہی پنہاں ہے کہ جہاں تخلیقی ذہنوں کی پرورش حکومت کے زیر سایہ ہوتی ہے ۔ چاہے ہتھیار ہوں یا دوائیاں ،حیران کرنے والی بڑی بڑی عمارتیں ہوں یا صاف ستھری سڑکیں، حیران کردینے والی نئی نئی ٹیکنا لوجی کی دریافت ہویا موسمی تبدیلی کے مسائل کے حل ، یہ سب انھیں دماغوں کی دین ہے جو اپنے ملک کے تعلیمی اداروں میں پنپتے، پرورش پاتے اور ارتقاء کرتے ہیں۔ جبکہ اس معاملے میں ہماری حکومت مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔
ماحصل
ہندوستان میں تعلیم کے شعبے کو حقیقی ترقی دینے کے لیے حکومت کو بجٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ عالمی معیار کی تعلیم فراہم کرنے، اساتذہ کی تربیت، بنیادی ڈھانچے کی بہتری اور ٹیکنالوجی کے موثر استعمال کے بغیر ہندوستان کا تعلیمی شعبہ عالمی معیارات پر پورا نہیں اتر سکے گا۔ اگر حکومت سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کرے اور تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنائے، تو 2047 تک ہندوستان واقعی ایک عالمی تعلیمی اور اقتصادی طاقت بن سکتا ہے۔
(مضمون نگار، معروف صحافتی ادارے بزنس اسٹینڈرڈ میں بطور صحافی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں)