ہندوستانی تہوار

ایم حذیفہ

حالیہ دنوں میں، ہندوؤں کے تہواروں کا تقدس ایک پریشان کن رجحان بن کر رہ گیا ہے، جس میں مسلمان اور ان کی ملکیت کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ خوشی و مسرت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مواقع، اب فرقہ وارانہ انتشار کے بیج بونے کے لیے میدان مہیا کررہے ہیں۔ جشن کی آڑ میں، ایک گروہ سے تعلق رکھنے والا ہجوم ہتھیار کا بے دریغ استعمال کرتا ہے، اشتعال انگیز نعرے بلند کیے جاتے ہیں اور ہندو بالادستی کی خطرناک فضا کے ساتھ مسلمانوں کے محلوں میں افراتفری پھیلائی جاتی ہے۔ پولیس کی موجودگی کے باوجود، اکثر بغیر کسی نقد و جرح کے یہ ہجوم اکثر آگے بڑھتا رہتا ہے اور پیچھے تباہی کی داستان چھوڑے جاتا ہے۔ اس تباہی کا اظہار مذہبی علامتوں کی بے حرمتی، گھروں اور کھیتوں کو نقصان اور افسوسناک حد تک انسانی جان کے ضیاع کی شکل میں ہوتا ہے۔
مگر یہ جان لیجیے کہ یہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ یہاں تک کہ 1800ء کی دہائی کے اواخر میں بھی تہوار فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کا ذریعہ بن گئے تھے۔ محض جشن منانے کے علاوہ تہواروں نے سیاسی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے برادریوں کو متحرک کرکے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اس تشدد کی جڑیں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش کی پیچیدہ تاریخ میں پیوست ہیں، جو قبل از نو آبادیاتی، نو آبادیاتی، تقسیم ہند اور آزادی کے بعد کے دور پر محیط ہے۔
اس تشدد کا ایک مرکزی نظریہ مسلمانوں کو گھس پیٹھیا اور وحشی بناکر پیش کرتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو برصغیر پاک و ہند میں اجنبی ہیں۔ یہ نظریہ صدیوں سے مسلمانوں کی حکمرانی کے زیر ہندو محکومیت کے افسانے کو ہر دفعہ زندہ کرتا ہے۔ یہ بیانیہ مسلم مخالف جذبات کو جنم دیتا ہے، جو آج مسلمانوں کے خلاف مختلف قسم کے تشدد کو ہوا دے رہا ہے۔ نفرت انگیز تقاریر، پروپیگنڈہ فلمیں، اشتعال انگیز گانے، متعصب میڈیا کوریج، بنیاد پرست ہندو گروپوں کی طرف سے ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت اور آن لائن نفرت انگیز مواد مسلمانوں کے خلاف ذہنوں میں زہر گھولنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور انہیں ثابت شدہ ہندو ملک کا دشمن بناکر پیش کرتا ہے۔
ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں کے دوران ہجومی تشدد کی حالیہ لہر کم درجے کی لگتی ہے، لیکن اصل مقصد مسلمانوں کو ریاست کی طرف سے منظم طریقے سے ہراساں کرنا ہے۔ پولیس اور حکام اکثر متعصبانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہیں اور غیر متناسب طور پر مسلمانوں کو ایف آئی آر، گرفتاریوں، کھلے عام انہدام اور جبراً نقل مکانی کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ رویہ مسلمانوں کی حالتِ زار پر افسوس کرنے سے روکتا ہے اور انہیں مزید مجرم پیش کرکے پسماندگی کے چکر میں دھکیل دیتا ہے۔
“غضب و غصہ کی جڑیں – مذہبی جلوسوں میں ہتھیاروں کا استعمال – رام نومی اور ہنومان جینتی کے دوران فرقہ وارانہ تشدد” کے عنوان سے ایک رپورٹ اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح مذہبی جلوسوں میں مسلمانوں کے محلوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے، تشدد کو سراہا جارہا ہے اور مسلمانوں کو ریاست کا نوالہ اور ایذا رسانی کا ہدف بنایا جارہا ہے۔
یہاں اس کھیل میں ایک نیا خطرناک موڑ بھی ہے، وہی تمام شیطان صفت اذہان اس تشدد کو برابر چلاتے ہیں جن پر ریاستی کارروائی نہیں ہوتی اور بڑے پیمانے پر آن لائن پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے اکسائے اور بھڑکائے گئے ہیں۔ تشدد کی یہ نئی شکلیں بنیادی طور پر معاشی، سیاسی، سماجی اور نفسیاتی طور پر کمزور مسلم محلوں کو نشانہ بناتی ہیں، جو انہیں مزید غیر مستحکم کرتی ہیں۔
میڈیا ٹرائل اور اجتماعی سزا: ایک خطرناک گٹھ جوڑ
خوف زدہ اور مشکوک ماحول میں میڈیا ٹرائلز کنگارو کورٹس (سزا دینے والی غیر قانونی عدالت) کا کام کرتے ہیں۔ اکثر پروپگنڈہ اور نفرت پھیلانے والے جھوٹے بیانیے کو پھیلاتے ہیں، جیسے کہ مسلم، ہندوؤں کی مذہبی ریلیوں پر پتھراؤ کرتے ہیں کیونکہ وہ بنیاد پرست (radicals) اور فساد برپا کرنے والے ہیں۔ یہ بیانیہ اگرچہ حقیقت سے کوسوں دور ہے مگر ہندو آبادی کے اندر انتہا پسند عناصر کو مزید بنیاد پرست بنانے اور متحرک کرنے کا کام کرتا ہے۔ یہ بیانیہ مسلم محلوں میں تشدد کرنے اور ایذا پسند ذہنیت کو پروان چڑھاتا ہے۔
ناانصافی کو فروغ دینا قانونی اداروں کی ملی بھگت ہے، جن کا مقصد خطرناک حد تک صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔ انصاف کو برقرار رکھنے کے بجائے وہ مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے ہیں، خوف اور عدم اعتماد کی فضا کو فروغ دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے شکایات اور ایف آئی آر درج کرنے کی کوششوں کو حراستی تشدد، غیر قانونی حراست اور دھمکیوں کو نظر کردیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کے پاس اپنے مصائب کو دستاویز کرنے اور انصاف کے حصول کے لیے کم سے کم اور پیچیدہ ترین متبادل رہ جاتے ہیں۔
اس متزلزل بیانیہ میں، انصاف کا تصور مسخ ہو جاتا ہے، جس کی جگہ بول چال میں اسے “میڈیا ٹرائل” کہا جاتا ہے۔ پرائم ٹائم مباحثے، جو اکثر متعصبانہ اور سنسنی خیز ہوتے ہیں، بڑی آسانی سے چھوٹے ٹرائلز کے طور پر کام کرتے ہیں جہاں مسلمانوں کو مجرم اور ہندوؤں کومظلوم بناکر پیش کیاجاتا ہے۔ حکومت مبینہ مسلم فسادیوں یا پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف عوامی غصے اور نفرت کو بھڑکانے کے لیے اس بیانیے کا استعمال کرتی ہے۔ بعض وقت بلڈوزر سےانہدام جیسی تیز، تعزیری کارروائیوں کے لیے سوشل میڈیا کے دباؤ بنانے پر گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔
یہ اجتماعی سزا، غیر عدالتی اقدامات میں منتقل ہوجاتی ہے اور فساد برپا کرنے والوں کے لیے زیرو ٹالرنس کی ریاستی پالیسی کی آڑ میں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو مسمار کیا جاتا ہے۔ تاہم، اس طرح کے اقدامات قانونی بنیادوں سے متضاد ہیں اور آئینی حقوق کی صریح خلاف ورزی کرتے ہیں۔ پورا خاندان، مسلم محلے اور نشانہ بنائی گئی کمیونٹی کی منفی شبیہ بنتی ہے، وہ دہشت کا نشانہ بنتے ہیں، سزا کے مستحق سمجھے جاتے ہیں اور نتائج جھیلتے ہیں۔
فوری انصاف یا انتقام کے لیے جلدی کرنا فطری انصاف اور جمہوریت کے اصولوں کو مجروح کرتا ہے۔ اس طرح کے بلڈوزر سے کیے جانے والے اقدامات کے عوض عوام میں عدالتی عمل پر اعتماد کمزور پڑجاتا ہے۔ تاہم یہ ذہن نشین کرنا انتہائی ضروری ہے کہ عجلت کا انصاف شیطانی انصاف ہے۔
اسلامو فوبیا کی علامت بلڈوزر سیاست، ہندوستان میں خطرناک حد تک پھیل چکی ہے۔ سیاسی ریلیوں میں بلڈوزر کو طاقت اور مسلم محکومیت و مظلومیت کی علامت کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور یہ تمام رہنما مسلم مخالف بیان بازی کرتے ہیں۔ ریاستی چیف منسٹروں کو بلڈوزر ماما اور بلڈوزر بابا جیسے عوامی نام ملنے پر وہ ہیرو بن جاتے ہیں اور ان کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ جے سی بی کو ‘جہاد کنٹرول بورڈ’ کا نام دے دیا گیا ہے۔
ہجوم اور بلڈوزر راج کا یہ کلچر نہ صرف آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ جمہوریت کے لیے بھی زہر آلود ماحول ہے۔ کارروائی جیسے صحیح عمل کو نظرانداز کرکے اور غیر عدالتی اقدامات کا سہارا لے کر، ریاست اپنی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچاتی ہے اور ناانصافی کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔
عدالتوں اور عوامی ضمیر کی ناکامی
صد افسوس کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت آئینی عدالتیں آئینی اصولوں اور قانون کے تحفظ میں ناکام رہی ہیں۔ کھلے عام ہونے والی خلاف ورزیوں پر بنیادی حقوق کو فوقیت دینے کے بجائے، عدالتیں اکثر ان واقعات کو الگ اور ہاشیہ کے واقعات بناکر پیش کرتی ہیں، جو متعلقہ کمیونٹی پر بڑے پیمانے پر ہونے والی منصوبہ بند اور منظم ناانصافیوں کا ثبوت ہے۔
ریاست کی جانب سے منظور شدہ پالیسیوں کو تسلیم کرنے میں تردد، کسی کمیونٹی کو نشانہ بنانے پر عدالتی خاموشی اور ان خلاف ورزیوں کی بنیادی وجوہات کے بارے میں لاعلمی، بڑے مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرتی ہے۔ ریاست کو اس کی غلطیوں کے لیے جوابدہ بنانے کے لیے عدلیہ کا کردار ناگزیر ہے، اس کے بغیر وہ ان اہم خدشات کو دور کرنے میں ناکام ہے۔
تاہم، یہ نوٹ کرنا بہت ضروری ہے کہ بلڈوزر سیاست کے متاثرین مسلمانوں کے علاوہ بھی ہیں۔ اگرچہ مسلمانوں نے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے لچک اور ایڈجسٹمنٹ کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ قانونی نظام، جمہوریت اور آئینی اقدار کی بنیادیں ختم ہو رہی ہیں۔ قانون کی بالادستی، مناسب ردعمل اور انصاف کے اصولوں کو روندا جا رہا ہے، جو ایک منصفانہ اور مساوات پر مبنی معاشرے کی تعمیر نو کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔
مسلمان، اپنے ایمان اور عقیدے کو قسمت کی تحریر بناکر آگے بڑھ سکتے ہیں اور بالآخر وسعت قلبی اور مضبوط عزم مصمم کے ذریعے ان چیلنجوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ تاہم قانون اور جمہوری اداروں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ نفرت، تشدد اور عدم استحکام کے ایک خطرناک چکر کو جاری رکھتا ہے، جو نہ صرف خطے کے مفادات بلکہ عالمی امن و امان کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
انصاف کی نگہبان، عدلیہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ہمارے آئینی اقدار کو برقرار رکھنے اور احساسِ جوابدہی کو یقینی بنانے کے فرض کو بخوبی انجام دے۔ احساسِ جوابدہی کے بغیر یہ جمہوریت اور معاشرہ تباہی کے دہانے پر ہے، جس کے سنگین نتائج کا سامنا آنے والی نسلیں کریں گی۔ یہی وقت ہے کہ عدالتیں قدم بڑھائیں اور کسی کے پس منظر سے قطع نظر تمام کے لیے انصاف کو یقینی بنائیں۔ معاشرہ کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں سے نفرت و انتقام کی غیر عقلی اور غیر منصفانہ روش سے بعض آجائے اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو خلوص اور ایمانداری کے ساتھ طویل المدتی کوششوں کے ذریعے مل کر اس نظام سے متعلق مسائل کو حل کرنے کا عہد کرنا چاہیے۔ یہ ریسرچ آرکائیونگ، عوامی وکالت، منصوبہ بند قانونی چارہ جوئی اور سماجی تنظیموں اور تحریکوں کی تشکیل، غلط بیانیوں کا خاتمہ کرنے اور ناانصافی کو رفع کرنے کے لیے ضروری ہے۔
پچھلی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے، ان کی دستاویز تیار کرنا، قانونی کارروائی کرنا، بیداری پیدا کرنا، متاثرین کو بااختیار بنانا، تحریکوں کو فروغ دینا اور تبدیلیوں اور چیلنجوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا، نئے ہندوستان کی بقا کی شاہ کلید ہے۔ تاہم حقیقی معنوں میں ایک مثبت معاشرہ کا خواب سجانے کے لیے، ہمیں تشدد پسندی اور جبر و ظلم کو ختم کرنا ہوگا اور ہمارے اداروں کی عادل اور انصاف پسند لوگوں اور اصولوں پر مبنی تنظیم نو کرنا ہوگا۔

(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قانون کے طالب علم ہیں اورAPCRکے کورڈینیٹرہیں۔)
[email protected]

اپریل 2024

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں