خاموشی سے ایک سمت بہتی ہوئی ندیاں اور کنارے سے ٹکرا کر شور مچاتا ہوا پانی ، جنگل میں چھایا ہوا سناٹا اور اس سناٹے کو توڑتے ہوئے ہوا کے جھونکے، اونچے اونچے پہاڑوں پر رینگتی اور سرنگوں میں شور مچاتی میری ٹرین،دور دور تک پھیلی ہوئی ریت اور اس پر چمکتی ہوئی دھوپ، لہلہاتے ہوئے کھیت اور ان پر بدمست جھومتی ہوئی ہری بھری فصلوں کا بسیرا۔ ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو یہ سب اس طرح پھیلے ہوئے تھے جیسے ایک دوسرے کا حصہ ہوں۔ میری نظریں جہاں دور دور کہیں خاموش کہیں شور مچاتے ہوئے پانی کو دیکھ رہی تھیں وہیں کنارے کنارے ریت نے دور دور تک پڑاؤڈال رکھا تھا۔ جس کے عقب میں گھنے جنگل تھے جن کے لمبے لمبے اور موٹے موٹے درختوں کا بوجھ پہاڑوں نے اپنی پیٹھ پر اٹھا رکھا تھا۔ وہ ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم لگ رہے تھے۔ ان میں کا ہر ایک اپنے برابر والے کے وجود کی حفاظت کر رہا تھاجبکہ وہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ ان کی ہیئت، ان کا بناؤ ، ان کی خوبصورتی، ان کے فوائد، ان کی ضرورتیں، ہر چیز میں وہ ایک دوسرے سے بالکل الگ تھے لیکن انہیں ا س کی پرواہ نہ تھی کہ وہ مجھ جیسا نہیں، وہ میرا نہیں،وہ مجھ سے الگ ہے۔وہ ان سب باتوں سے بے پرواہ ہوکر ایک دوسرے کی حفاظت کر رہے تھے اس لیے خود بھی محفوظ تھے، وہ ایک دوسرے کو سنوار رہے تھے اس لیے خود بھی خوبصورتی کی چادر تانے ہوئے تھے اور جہاں جہاں انھوں نے قدرت کی مخالفت کی، ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوئے، دوسرے کی سا لمیت کو ختم کرنا چاہا، دوسرے کا وجود ان کی نظر میں کھٹکا، وہاں وہ خود بھی اپنی رعنائی و شادمانی کھوچکے تھے۔
میں دیکھ رہا تھا جہاں جہاں کناروں نے بہتے ہوئے پانی کو روک کر اس کے وجود کو ختم کرنا چاہااور اسے بھی خود اپنے جیسا بنانا چاہاتھا وہاں کے کنارے اپنی رنگت کھو چکے تھے، وہاں بہتی ہوئی ندی خوش نظر نہ آتی تھی۔اس کا پانی گدلا ہو چکا تھا جس نے اپنے ساحل کو بھی گندا کر رکھا تھا۔ اگر کنارہ ندی کو اپنے جیسا بنانے کے لیے اس پر نہ گرتاتو ندی کے پانی سے سیراب ہوتا اور وہ ایک دوسرے سے استفادہ کرتے۔
قدرت کے ان مختلف مناظر کی یکجہتی، آپسی اتحاد، باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی قدر شناسی نے میرے وطن کواتنا حسین و دلکش بنا دیا کہ میرا پورا کا پورا ہندوستان گلستاں لگتا ہے۔یہ کوئی عام گلستاں نہیں، یہ وہ چمن ہے جس کی کیاریوں میں الگ الگ مذاہب کے پھول کھلے ہوئے ہیں، اور ان کے پودوں پر ہر رنگ و روپ کے پرندے نغمہ سرائی کرتے ہیں۔ نہ صیاّد کا خطرہ ہے، نہ ہی مالی کا پہرا ہے۔نہ اس کیاری کو اس سے شکوہ ہے نہ ہی پھول کو اس کے رنگ و روپ پر اعتراض ہے۔ جہاں اطمینانِ قلب نصیب ہوا، سکون نے صدا دی، آنکھوں کو بصیرت ملی، روح کو تازگی، عقیدہ کو پختگی، جذبات کو چنگاری، فکر کو ہم آہنگی، قدم کو نشانِ منزل، موڑ پر رہبر، ڈگمگاتے قدموں کو سہارا اور زندگی کو مقصد ملا اسی پودے کو اپنا مسکن بنا لیا۔ پھر موسمِ بہار کی خوشیاں ہوں یاموسمِ خزاں کے بگڑے تیور، وہ اپنے مسکن کو نہیں چھوڑتی۔ وہ اس کو کیسے چھوڑے جس نے اس کے لرزتے قدموں کو ثبات دیا، جس نے زندگی گزارنا سکھایا، جس نے اسے تہذیب سے آراستہ کیا، جس نے اسے آوارگی سے روکا، جس نے اسے معرفتِ الٰہی عطا کی، جس کا فیض ہر خاص و عام کے لیے ہے۔ جو اپنے پاس سے گزرتے ہوئے راہ گیر کو سایہ دیتا ہے تو تھکے ہارے مسافر کا پسینہ بڑی ہی شفقت سے پوچھتا ہے۔ اس کی خوشبو سے سارا باغ معطر ہوتا ہے۔اس خوشبو سے ذہن کو پختگی اور نظر کو بالیدگی ملتی ہے۔باغ کا ذرہ ذرہ، بوٹا بوٹا، غنچہ غنچہ، ہر ایک اس اٹھتی ہوئی پرکیف خوشبو سے محظوظ ہوتا ہے۔ باغ کی اس سحر انگیز فضا کو دیکھ کر باہر سے آنے والے پرندے بھی افق کی بلندیوں پر سبزہ بکھیرتی شاخوں پر لنگر انداز ہوتے ہیں۔ بے خوف و خطر چہکتے ، گنگناتے اور دانہ چگتے ہیں، پھر اپنے وطن جاکر اس جنت نشانِ ہند کے گن گاتے ہیں،جس کے دامن میں ہر ایک مذہب کاپودھ تروتازہ ہے، جس کے ماتھے کو مختلف افکاروملل نے سجا رکھا ہے، جس کی گود میں تہذیب و تمدن کے آبشارے ابلتے ہیں۔
یہی جنت نشاں ہند ہے اور یہی اس کی شناخت ہے جس پر اس کے مکینوں کو ناز ہے اور جس پر دوسرے رشک کرتے ہیں۔اخوت و محبت اس کے پہرے دار ہیں،باہمی تعاون اور حسن معاشرت اس کے محافظ ہیں، عزت غیر اور دوسروں کی قدر شناسی یہاں کے مکینوں کا شیوہ ہے، انہی سے چمن میں امن وامان قائم ہوتاہے اسی لئے اس چمن کی پر حیات وپر کیف فضا کو مکدرکرنے کی اجازت کسی کو نہیں، نہ اس جال ساز کوجو جبراً سارے پرندوں کو ایک شاخ پر بٹھانے کی بات کرتاہے، نہ اس صیاد کو جو پرندوں کو اپنے بچوں سے اور بچوں کو اپنے والدین کی الفت بھری باہوں سے دورکرنا چاہتاہے، نہ اس لکڑہارے کو جو اس چمن کے درختوں کو اپنی ذاتی مفاد کے لئے کاٹنا چاہتاہے، کیونکہ ان کا وجوداس چمن کی سا لمیت کے لئے ضروری ہے، انہی درختوں پر اس کے مکینوں نے اپنا گھر بنارکھا ہے جس میں وہ سکون کے ساتھ زندگی بسرکرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے بھی اپنا آشیانہ اس ثمر آور ہرے بھرے درخت پر بنا رکھاہے جس کی جڑیں زمیں میں پیوست ہیں تو شاخیں آسمان سے باتیں کرتیں ہیں، جس کا سایہ اس چمن کو چڑھتے سورج سے محفوظ رکھتاہے، تو گرجتے بادل کے لئے وہ ڈھال ہے اس چمن کی حفاظت کے لئے اس پر بسیرہ کرنے والے تن و من سے ہروقت حاضر ہیں۔ اس کی ہری بھری شاخیں ہر ایک کے لئے اپنی باہیں پھیلائے ہوئے ہیں۔ جو یہاں دم بھر رکنا چاہے اس کا بھی استقبال ہے اور جو اس شاخ پر گھونسلہ بنانا چاہے اسے بھی مرحبا۔
برہان بن غفران صدیقی، نئی دہلی