مبصر:عبید الرحمان نوفل
امریکہ کے تناظر میں لکھی گئی How fascism works ایک اہم کتاب ہے ۔مصنف Jason Stanley نے اس میں فسطائیت کے کچھ اصول و طریقہ کار بتائے ہیں جن کی روشنی میں، مختلف ممالک میں برسراقتدار آنے والی فسطائی حکومتوں کی پالیسی و منشا کو سمجھا جا سکتا ہے۔
بنیادی طور پر فسطائی طاقتیں لوگوں کو us (اپنے) اور them (غیر) میں تقسیم کرتی ہیں’’Us‘‘ سے مراد ان کا اپنا گروپ ہوتا ہے جو مذہب یا نسل کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے اسی گروپ کی برتری و خوشحالی فسطائیت کا اہم نعرہ و مقصد ہوتا ہے ۔جب کہ’’غیر‘‘ جو’’اپنوں‘‘ سے نسلی یا مذہبی اعتبار سے الگ ہوتے ہیں، ان کو غیر اور بسا اوقات دشمن تصور کیا جاتا ہے’’اپنوں‘‘ کی محرومیوں اور پریشانیوں کا ذمہ دار بھی’’غیروں‘‘کو سمجھا جاتا ہے اور اس بنیاد پہ ان سے نفرت بھی کی جاتی ہے۔
فسطائیت میں لوگوں کی تقسیم بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔اسی تقسیم کی بنیاد پہ نظریہ و پالیسی فریم کی جاتی ہے اور فسطائی طاقتیں عمل سے اس تقسیم کو اور زیادہ مضبوط کرتی رہتی ہیں۔ فسطائیوں کا ایک خیالی ماضی(Mythic Past) ہوتا ہے۔جو تاریخ کے کسی دور میں وجود تو رکھتا ہے لیکن اس ماضی کو بہت بڑھا چڑھا کر اور golden age کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق’’خیالی ماضی‘‘ نسلی اورثقافتیpure تھا۔جس میں ایک نسل، ایک ثقافت و مذہب کے لوگ مل جل کر رہتے تھےPatriarchy اور hierarchy بھی اُس دور کی بنیادی خصوصیات تھیں۔لیکن’’غیروں‘‘نے اس ماضی کو تباہ کردیا اور اب پھر سے اس کا احیاء ہی فسطائی قوتوں کا بنیادی مقصد ہے۔
اس خیالی ماضی کی تشہیر کے لئے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے ۔بے بنیاد باتیں عام کی جاتی ہیں۔تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ایسے میں سماج کے اہل علم و دانش جب ان کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، ان کو چیلنج کرتے ہیں اور ان کے جھوٹ کا پردہ فاش کرتے ہیں تو فسطائی طاقتیں ان کی دشمن بن جاتی ہیں۔فسطائیوں کی اکیڈمی اور یونیورسٹیز سے دشمنی بہت عام بات ہے جس کا مشاہدہ کئی فسطائی ممالک میں کیا جاسکتا ہے۔
نتیجتاً ایک ایسا ماحول وجود میں آتا ہے جسے مصنف state of unreality سے تعبیر کرتا ہے ۔جس میں فیک نیوز اورconspiracy theories عام ہوجاتی ہیں۔فسطائی طاقتیں رنگ و نسل اور جنس و مذہب کی بنیاد پہ انسانوں کے درمیان تفریق و تقسیم کی قائل ہیں۔اور پھر یہ تفریق و تقسیم اس قدر گہری ہوجاتی ہے کہ’’غیروں‘‘کی ترقی و خوشحالی کو ’’اپنوں‘‘کی محرومی سمجھا جاتا ہے ۔اور اکثریت میں ہونے کے باوجود’’اپنوں‘‘ کے اندر مظلوم ہونے کا احساس پیدا ہوجاتا ہے یا کیا جاتا ہے ۔فسطائیوں کہ نظر میں’’اپنے‘‘ مظلوم اور ’’غیر‘‘ ظالم ہوتے ہیںیہ اُن کو ستاتے ہیں ان کے حقوق سلب کرلیتے ہیں ۔مزید یہ کہ’’غیروں‘‘ کے بارے میں یہ خیال عام ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ عموماً غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوتے ہیںملک و قانون کے تئیں وفادار نہیں ہوتے ہیں۔ان کو پہلے سے ہی مجرم خیال کیا جاتا ہے جب کہ’’اپنے‘‘ قانون و ملک کے وفادار اور قربانی دینے والے ہوتے ہیں۔
فسطائیت میں racial purity کی کافی اہمیت ہوتی ہے۔خصوصاً جن فسطائی ممالک میں ’’اپنے‘‘ گروپ کی تشکیل نسل کی بنیاد پہ ہوتی ہے وہاں sexual annixety زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔فسطائی طاقتیں patriarchy کی حامی ہوتی ہیں اور ہر اس نظریے و خیال کی مخالفت کرتی ہیں جو مردوں کے روایتی رول کو کم کرتا ہے۔جب کہ عورتوں کا مطلوبہ کام مضبوط بچے پیدا کرنا اور قوم کے لیے سپاہی اور ورکر تیار کرنا ہوتا ہے ایسے میں عورتوں کے بہت سے حقوق چھن جاتے ہیں ان کی آزادی کم ہوجاتی ہے۔
فسطائی طاقتیں گاؤں اور گاؤں کے لوگوں کا زیادہ سپورٹ کرتی ہیں۔کیونکہ ان کے خیال میں گاؤں کے لوگ فسطائی تصورات و خیالات کے زیادہ محافظ ہوتے ہیں اور روایتی طریقوں و ثقافت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔جب کہ یہ لوگ شہروں سے چڑھتے ہیں کیونکہ شہروں میں، جہاں مختلف ثقافت و مذہب کے لوگ ساتھ رہتے ہیں، روایتی طرز زندگی و ثقافت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں فسطائی قوتوں کو گاؤں سے زیادہ سپورٹ اور ووٹ ملتا ہے۔
اسی طرح فسطائی طاقتیں ’’اپنوں‘‘ کو محنتی و بھروسہ مند تصور کرتی ہیں۔جب کہ’’غیر‘‘کو کاہل، غیر بھروسہ مند اور کام چور۔لہذا’’غیروں‘‘کے بارے میں ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ لوگ’’اپنے‘‘ گروپ کے حقوق چھینتے ہیں اور ویلفیئر / فلاحی اسکیموں پہ پلتے ہیں۔فسطائیت، فسطائی طاقتوں کے طریقہ کار، اصول اور مقاصد کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ مفید ہوگا۔