آج ہمارا وطن عزیز فرقہ وارانہ فسادات کا ایک طویل سفر طے کرنے کے بعدفسادات کی تاریخ کی دوسری صدی کے دہانے پر کھڑا ہے، یہ فسادات ہمارے ملک و سماج کی جڑوں میں ایک ناسور کی طرح پیوست ہوچکے ہیں، یہ ایک تلخ حقیقت ہے، اور اس حقیقت کے پس پردہ حقائق کی ایک طویل فہرست ہے، جو ہر سنجیدہ و فکرمند شہری کے سامنے پوری طرح عیاں ہے، ان حقائق پر تحقیقات کی اپنی ایک علیحدہ فہرست بھی ہمارے کتب خانوں کی زینت بنی ہوئی ہے، تاہم و احد سب سے بنیادی حقیقت جس کو ہم ایک صدی سے زائد عرصہ گزرجانے کے بعد بھی نظرانداز کرتے رہے، وہ ایک چبھتاہوا سوال ہے کہ ہم نے ان فسادات سے کیا سیکھا؟ کیا ہم نے کوئی لائحہ عمل تیار کیا؟ کیا ہم نے کبھی سنجیدگی سے اپنے تئیں کچھ ذمہ داریاں قبول کرنے کی کوشش کی یا صرف یہی تمنائیں لیے پھرتے رہے کہ کاش یہ فسادات نہ ہوتے!!
فسادات ایک خطرناک قسم کا جرم ہیں، جرائم کی فہرست میں سنگین ترین جرم، جس جرم کے نتیجے میں سیکڑوں وہزاروں خاندان بری طرح متأثر ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جرائم کی روک تھام کے لئے ایک نظام عدلیہ قائم ہے۔ یہ نظام عدلیہ اس امر کا مکلف ہے کہ وہ ملکی سماج میں ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لئے مروجہ قوانین کی روشنی میں مجرم کے لیے اس سے سرزد ہونے والے جرائم کی سزا کو یقینی بنائے نیز متأثرین کے لیے انصاف کو یقینی بنائے۔ اس پوری جدوجہد کو ہم انصاف کی لڑائی یا تگ ودو کے نام سے جانتے ہیں، اس پورے نظام عدل کے بہت سے ستون ہیں جن کے اوپر یہ نظام مبنی ہے، مثال کے طور پر حکومت، پولیس، تفتیشی ایجنسیاں، جج ، سرکاری وکیل اور متأثر فردیا افراد جو اپنے وکیل کے ذریعے اپنے حق کی لڑائی لڑتے ہیں۔ انصاف کی لڑائی یا تگ ودو میں سب سے اہم مرحلہ نظام عدلیہ ہوتا ہے کیونکہ ہمارے دستور نے فیصلے کا حق اسی کو دیا ہے۔
حالیہ دنوں ملک کی ایک ذیلی عدالت نے ۲۲؍ مئی ۱۹۸۷ ء کو ہاشم پورہ میرٹھ میں ہونے والے فسادات کے دوران ملک کی تحفظاتی ایجنسیوں کے ذریعے تقریبا ۴۲؍ مسلم افراد کے قتل عام کے سلسلے میں اپنا فیصلہ سنایا، ہاشم پورہ اترپردیش کے ضلع میرٹھ میں واقع ہے، ۲۱؍ مئی ۱۹۸۷ ء کو ہاشم پورہ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں فرقہ وارانہ تصادم ہوئے تھے، جس کے بعد پولیس، پی اے سی اور فوج نے متحدہ طور پر مسلم علاقے کا محاصرہ کیا، گھروں کی تلاشی ہوئی، ایک بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں، تقریباََ ۴۸؍ افراد کو پی اے سی کے ایک ٹرک میں بھرکر ندی کے کنارے لے جایا گیا، جہاں انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، جس میں سے تقریباََ پانچ افراد گولیاں لگنے کے باوجود کسی صورت اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے، اور انہی کی شکایت پرغازی آباد پولیس نے کیس درج کیا، اور پھر تقریباََ ۲۷؍ برس کی طویل قانونی جدوجہد کے بعد ۱۶؍ پی اے سی کے جوان جو کہ اس جرم کے لئے ملزم بنائے گئے تھے، دہلی کی ایک ذیلی عدالت کے ذریعے بری کردیئے گئے، جس کے بعد پورے ملک میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ گئی، احتجاجات کا ایک نیا دور دیکھا گیا، اخبارات و میگزینس میں بہت سی تحریریں شائع ہوئیں، بڑے بڑے پروگرام ہوئے، غرض ایک غم وغصہ تھا جو ہم نے سماج میں دیکھا اور محسوس کیا، اور جو آج بھی موجود ہے۔
ہاشم پورہ کا فیصلہ یقیناًچونکادینے والا فیصلہ تھا، اس کے نتیجے میں ملک کا نظام عدلیہ ایک بار پھر سوالوں کے کٹگہرے میں کھڑا دکھائی دیا۔ پولیس نظام ہمارے ملک میں انگریزوں کا قائم کردہ ہے، اور ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی سیاست بھی اُنہی کی شروع کردہ ہے۔ انگریز تو چلے گئے مگر اس ملک میں ہونے والے ان فرقہ وارانہ فسادات نے اپنی متعدد روایتوں کے ساتھ نہ تو اپنا معمول تبدیل کیا اور نہ ہی نوعیت۔ اوران فسادات کی سرپرستی کرنے اوران کو تقویت پہنچانے والا پولیس نظام جو انسانی و اخلاقی اقدار سے پوری طرح نابلد ہے، اس کو ہمارا حکومتی طبقہ آج بھی متاع بیش بہا سمجھے گلے سے لگائے بیٹھا ہے، اس حکومتی طبقے نے نہ تو کبھی پولیس نظام کی اصلاح کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی اس کی ازسرنو تربیت کی۔ ہاشم پورہ فیصلے نے ایک بار پھر اس پولیس نظام پر بھی سوالات کی بوچھار کردی ہے۔ نظام عدلیہ کا ایک ستون وکیل طبقہ ہے، جس کو ہم نے شیطان کی اولاد کہہ کر اپنے جگر پاروں کو انصاف کے حصول کی جدوجہد سے بہت دور کردیا، اس فیصلے نے اس طبقہ کو بھی اپنے غم و غصہ کا شکار بنایا۔ ہاں اگر ہم نے اور ہمارے سماج نے کسی کو بخشا تو صرف اسی کو جس پر ایک صدی کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کوئی آنچ نہ آئی، کیونکہ وہ معصوم اور ہر سوال سے بری الذمہ طبقہ تھا ’ہم‘ یعنی مسلم سماج جو آئینہ سب کو دکھاتا رہا، خود کبھی نہیں دیکھ سکا، اور نہ اس نے کبھی رُک کر اپنا احتساب کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ میرے خیال سے یہ لڑائی سماج کے اسی طبقہ کی ہے اور جب تک یہ طبقہ اپنی لڑائی خود نہیں لڑے گا وہ صرف ایک آلۂ کار ہوگا ایک سیاست کا، مظلوموں کے نام پر سیاست۔
ہاشم پورہ فیصلہ ہمیں اپنا احتساب کرنے کے لئے آواز دے رہا ہے۔ اس فیصلے میں ایسے بہت سے حقائق ہیں جو ہماری سنجیدگی اور ایمانداری پر سوالات اٹھارہے ہیں۔ فیصلہ خود ہم سے شکایت کررہاہے کہ تم کو میں انصاف کیسے دیتا کیونکہ تم نے ۲۷؍ سال کچھ کیا ہی نہیں، تم آج شور تو مچارہے ہو لیکن تم نے اس لڑائی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ وہ ہمارے سامنے کچھ حقائق پیش کرکے اس سے آگے کے لئے سبق لینے کی امید کررہاہے، کیونکہ فیصلے عدالت میں ہوتے ہیں، اور ہم بھی اس نظام عدل کے ستون ہیں، اگر ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کوئی بھی کوتاہی کی ہے، توذمہ دار ہم بھی ہیں۔
ہاشم پورہ کا حادثہ ہوا، حادثے کی شکایت پولیس کو ملنے کے بعد غازی آباد ضلع کے ایس پی وبھوتی نارائن رائے نے فوراََ حادثہ کی تفتیش شروع کردی، پولیس کو فوراََ موقع واردات سے ثبوتوں کو یکجاکرنا تھا، وہ نہیں ہوا۔ ایس پی وبھوتی نارائن رائے ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی کے ساتھ پی اے سی کیمپ گئے، جہاں پانچ ہزار پی اے سی جوانوں کا قیام تھا، وہاں ان کو ایسے شواہد ملے کہ ایک ٹرک یو آر یو ۱۴۹۳ کی دھلائی ہوئی تھی اور کیچڑ میں خون جیسا لال رنگ موجود ہے، انہوں نے فوری طور پر اپنی قانونی ذمہ داری کے خلاف جاتے ہوئے نہ تو ٹرک اور نہ ہی کیچڑ کی فارنسک جانچ کے لئے نمونے لئے اور نہ ٹرک کو ضبط کیا گیا۔ پی اے سی کے ان افراد کی لاگ بک انٹری کو فوری طور پر تفتیش کے لئے اپنی تحویل میں لینا چاہئے تھا ،( عدالت میں ٹرک کی شناخت نہ ہوسکی اور ڈرائیور پرہی بحث ہوتی رہی) نہ ہی وہ رائفلیں ضبط ہوئیں، اور پھر سی آئی ڈی کو بعد میں تفتیش کی ذمہ داری سونپ دی گئی ۔ ہم نے بھی یہاں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی، کیونکہ ہم کو قانون نے یہ حق دیا ہے کہ ثبوتوں کو عدالت کے سامنے پیش کریں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی ہیں لیکن کوئی درخواست نہیں ہوئی،آخر جوثبوت تھے وہ چھیڑچھاڑ کرکے خراب کردیئے گئے۔تاہم وبھوتی نارائن ہاشم پورہ سے متعلق اپنے ’ناول‘ کے لئے بذات خود تقریبا دو دہائی تک اس سلسلے میں ’چھان بین‘ کرتے رہے۔
ہاشم پورہ حادثے سے ایک روز قبل۲۱؍ مئی کو پربھات کوشک کا قتل ہوا، حادثے کے ۱۴؍ گھنٹے کے اندر پربھات کا بڑا بھائی میجر ستیش چندرا کوشک نے فوج کے دو دیگر افسران کولونل پی پی سنگھ اور میجر بی ایس پٹھانیا کے ساتھ ہاشم پورہ محلہ میں گھر گھر تلاشی لی، نوجوانوں کو گرفتار کیا، پی اے سی کے حوالے کیا، جبکہ ان کے پاس نہ تو کوئی سرچ وارنٹ تھا اور نہ ہی گرفتاریوں کے احکام، اور نہ ہی تلاشی و گرفتاری کا کوئی ریکارڈ تیار کیا گیا، میجر پٹھانیا آرمی کی سرپرستی کررہے تھے، جو کبھی بھی عدالت میں بارہا احکامات جاری ہونے کے باوجود حاضر نہیں ہوئے۔ پی اے سی کے کمانڈنگ آفیسر یعنی سربراہ بی کے چترویدی تھے، جن کا نہ تو کوئی بیان ہوا نہ کبھی حاضری۔ سب سے اہم سوال کہ کسی بھی علاقے میں امن وامان قائم کرنے کی ذمہ داری علاقائی پولیس اسٹیشن (تھانے) کے سینئرآفیسر (ایس ایچ او ۔تھانیدار) کی ہوتی ہے، نیزمقامی پولیس کا سرپرست بھی وہی ہوتا ہے، تاہم ہم ان تمام درج بالا آفیسرس کے خلاف عدالت کی توجہ مبذول کرنے میں بھی ناکام ہوئے، ملزمین نامزد ہوئے، صرف سپاہی اور ایک نائب انسپکٹر، جن کی موجودگی ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں تھا۔فیصلہ کیا ہوگا اس پر ہم نے اس وقت بھی سنجیدگی سے غورنہیں کیا جب عدالت سے ملزمین کو اسی وقت ضمانت مل گئی تھی۔
ہاشم پورہ کا حادثہ ایک بڑی سازش کا نتیجہ تھا، اس حادثے کے پیچھے یقیناًکچھ مقاصد کار فرما تھے۔ اترپردیش کے وزیراعلی ویربہادر سنگھ میرٹھ میں موجود تھے، وزیرداخلہ پی چدمبرم اسی علاقے میں تھے، یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس میں صرف چند پولیس پیادوں کو رکھ کے جنگ نہیں لڑنی تھی، یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس کے لئے ضلع سے لے کر صوبہ تک کے متعلقہ افراد شک و شبہات کے گھیرے میں تھے، کرمنل پروسیجر کوڈ ہمیں یہ حق دیتا ہے کہ اگر متأثرین کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کی تفتیش جانبدارانہ ہے یا صحیح رُخ پر نہیں ہے تو وہ متعلقہ عدالت سے رجوع کرکے اپنے حقائق عدالت کے سامنے رکھے، اس پر عمل در آمد تو دُور ہم نے وہ کوشش بھی نہیں کی۔ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ ۱۷۳؍ کے تحت تفتیشی ایجنسی کو ۹۰؍ روز کے اندر مکمل رپورٹ پیش کرنی ہوتی ہے، سی آئی ڈی نے اس کیس کی رپورٹ ۹؍ سال میں پیش کی ۔
ہم یہ تو دیکھتے چلے آئے ہیں کہ فسادات کی آگ بھڑکتے ہی اقلیتی طبقہ کی آبادی کو اپنا شکار بنالیتی ہے، جان ومال اورعزت و آبرو ، غرض ہر طرح کا بے پناہ نقصان اٹھانے کے بعد حکومت متأثرہ افراد کو تسلی دینا شروع کرتی ہے یا سیاسی دباؤ کے پیش نظر متأثرین کی شکایتوں پر ایف آئی آر درج کرلیتی ہے، کچھ عرصے کے لئے کچھ افراد حراست میں لے لئے جاتے ہیں پھر کچھ عرصہ گزرنے کے ساتھ ہی وہی ہوتا ہے جس کی مثال کانپور کے فسادات ہیں، جہاں ۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ ء کو بابری مسجد کی شہادت کے دو دن بعد ہی فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے، ۲۵۴؍ افراد کا قتل عام نیزہزاروں کروڑ کا مالی نقصان ہوا، سیکڑوں خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں، چار ہزار سات سو ایف آئی آر درج ہوئیں، صرف اٹھارہ ایف آئی آر میں چارج شیٹ جمع ہوئی ،جس میں سے صرف ایک معاملہ میں ہی ضلع عدالت اپنے کسی فیصلے تک پہنچ سکی، وہ بھی ۲۱؍ سال گزرنے کے بعد، جو ہمارے ملک میں رائج نظام عدلیہ پر بڑاسوالیہ نشان ہے ، بقیہ تمام ہی کیس ۱۹۹۴ ء میں ملائم سنگھ حکومت نے واپس لے لئے ، یقیناًاس پورے سیاسی ڈرامے سے حکومت کو دوطرفہ سیاسی مفاد حاصل ہوا ، تاہم اقلیتی فرقہ خصوصاََ اس کی لیڈرشپ ان تلخ حقائق سے مکمل ناواقفیت کے ساتھ ساتھ ان سے متعلق غیرسنجیدہ بھی ہے۔
فسادات کے نقصانات سے غم زدہ اقلیتی طبقے کو مطمئن کرنے کا ایک سیاسی حربہ جو بظاہر قانونی چولہ اوڑھے رہتا ہے وہ ہے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت ایک انکوائری کمیشن کا قیام زیرعمل لانا۔ہر فساد کے بعد ہر حکومت کا پہلا ردعمل یہی قدم ہوتا ہے جس کا واحد مقصد متأثرہ طبقہ کا اپنی حکومت پر اعتماد کمزور نہ ہونے دینا ہی ہوتا ہے۔اصولی طور پر اس انکوائری کمیشن کا کام فساد کی مکمل جانچ، ہر زاویے سے اس کے اسباب نیز ذمہ دار افراد اور مؤثر اقدامات کی طرف نشاندہی ہوتی ہے، ایک آزادانہ و غیر جانبدارانہ طریقۂ کاراور انداز سے جس کے ذریعے عوام خصوصاََ متأثرین کا بھروسہ قائم ہوسکے کہ انصاف کا عمل مبنی بر انصاف ہی ہوگا، جس میں ہم اپنی نمائندگی مؤثرانداز سے کبھی نہ کرسکے کیونکہ ہم نے دستور و قوانین سے کوئی رشتہ نہیں رکھا۔
آزادی سے اب تک پچاسی ہزارسے زائد فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں، جبکہ صرف تقریباََ۴۰؍بدترین فسادات میں ہی حکومت کی جانب سے انکوائری کمیشن بنائے گئے ، جن میں سے صرف اگیارہ کمیشن پر ایکشن ٹیکن رپورٹ آسکی ہے۔یہ تمام ہی رپورٹیں حکومتی اداروں کی کوتاہیوں، اہم ثبوتوں کو نظرانداز کرنے کے سلسلے میں عوام و ماہرین قانون کی جانب سے سوالوں کے گھیرے میں رہی ہیں۔ لیکن ایک سوال شروع سے ہمارے سامنے ویسے کا ویسا ہی کھڑا دکھ رہا ہے کہ کیا ہم نے ان فسادات سے کوئی سبق لیا، کیا ہم اپنے لئے بھی کچھ ذمہ داریاں قبول کرنے کے لئے خود کو ایمانداری سے آگے لائیں گے یا یوں ہی صرف کچھ آہ و بکا اور پھر اگلے تھپیڑے کا انتظار۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پہلے ہم ڈر کے بند گھروں میں آہ وبکا کیا کرتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے ہمت کرکے سڑک پر ماتم کرنا شروع کردیا ہے، لیکن یہ حقیقت ہم جتنی جلدی تسلیم کرلیں اتنا ہی بہتر ہوگا کہ انصاف کی لڑائی صرف اور صرف عدالت میں لڑی جاتی ہے، اور انسان اپنی لڑائی تبھی جیت سکتا ہے جب وہ خود میدان میں اتر کراپنے بازوؤں کے ساتھ زورآزمائی کرے، احتساب کرے نیز اس میں جہاں کمی ہو اس کی آئندہ تلافی کی کوشش کرے،کیونکہ دوسروں کے کندھے آپ کے جنازے کو سہارا دے سکتے ہیں آپ کی کامیابی کو نہیں۔
ابوبکرسباق سبحانی،ایڈووکیٹ، دہلی ہائی کورٹ