ڈاکٹر سلیم خان
ساکشی مہاراج نے کہا تھا ’’مودی راج بھوج ہیں اور راہل گنگو تیلی‘‘۔سیاست میں آکر ساکشی مہاراج ہندو دھرم کے ذات پات کا عقیدہ بھول گئے۔ منوسمرتی میں درج ورن آشرم کے مطابق تیلی سماج کا آدمی چائے بیچے یا وزیراعظم بن جائے وہ ذات تیلی ہی رہتا ہے۔ راہل گاندھی کے ہر بیان کوپپو کی بکواس کہہ کر مسترد کرنے والوں کے لیے اب نئی پریشانی یہ ہے کہ معیشت کی حالت زار پر ان میں اور بی جے پی کےرکن ِ پارلیمان و سابق وزیر قانون سبرامنیم سوامی میں اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ سوامی جی آکسفورڈ یونیورسٹی میں معیشت پڑھا چکے ہیں ۔ ایسے میں اگر راہل پپو ہے تو سوامی کون ہیں ؟ ملک میں ذرائع ابلاغ کی نیلامی کے بعد راہل کی اول تو خبر بنتی نہیں ہے اور اگر بن بھی جائے تو توڑ مروڈ کر کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے اس لیے راہل نے امریکہ کی اازاد فضاوں کا رخ کیا اور وہاں سے دور کے سہانے ڈھول بجانے لگے۔ پہلے برکلے یونیورسٹی میں تقریر کی جس سے بی جے پی والے خوب بوکھلائے اس کے بعد نیویارک کی پرنسٹن یونیورسٹی پہنچ گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو کچھ راہل نے نیویارک میں کہا وہی بات سبرامنیم سوامی نے دہلی میں کہہ دی۔ جس طرح قومی ذرائع ابلاغ پر راہل کی خبروں کا بلیک آوٹ کیا جاتا ہے اسی طرح ویر سنگھوی کو دیئے گئے سوامی کے انٹرویو کو بھی امبانی نے اپنے چینل اےبی این سی این این پر نشر ہونے سے روک دیا ۔ کیا یہ ایمرجنسی نہیں ہے؟
نیو یارک میں راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں کہا ہر روز ۳۰ہزارنوجوان روزگار کی تلاش میں نکلتے ہیں اورصرف ۴۵۰ ملازمت پاتے ہیں۔ زرعی اور گھریلو صنعت کے فروغ کو اس سنگین مسئلہ کاحل بتاتے ہوئے وہ بولے کانگریس کے پاس وہ وژن ہے جس سے لاکھوں لوگوں کو نوکری مل سکتی ہے ۔ موجودہ حکومت چند صنعت کاروں کا فائدہ کررہی ہے۔ سبرامنیم سوامی کے مطابق قومی معیشت ایک زبردست کساد بندی کی جانب رواں دواں ہے ۔ اسے سنبھالنے کی کوشش نہیں کی گئی تو یہ زبردست حادثے کا شکار ہوجائیگی۔ انہوں نے کہا میں نے ۱۶ ماہ قبل ایک ۱۶ صفحے کا مکتوب روانہ کرکے وزیراعظم کو معیشت کی تباہی سے خبردار کردیا تھا ۔ وزیراعظم بیچارے اگر وہ خط سمجھ پاتے تو ملک کی یہ حالت ہی کیوں ہوتی؟
سبرامنیم سوامی نے معیشت کی حالت زار کے لیے TAIL SPIN) ) کی اصطلاح استعمال کی یعنی ہوائی جہازکادم کے بل زمین پر اترنا یا ہوائی جہاز کی دم کا گھومنے لگنا ۔ ایسی صورت جہاز بے سمتی کےسبب حادثے کا شکار ہوجاتا ہے۔انہوں نے بہت ساری اصلاحات پر زور دیا اور کہا بصورت دیگر بنک ڈوب جائیں گے ، صنعتیں بند ہوجائیں گی اور زبردست مندی چھا جائیگی۔ سوامی کا دردمندانہ مشورہ اپنی جگہ لیکن یہ اقدامات کرے گا کون؟ وزیراعظم کی مرضی کے بغیر اس حکومت میں پتہ بھی نہیں ہلتا اورمودی جی کو انتخابی تماشوں سے فرصت نہیں ملتی۔ انہیں قومی معیشت سے زیادہ اپنے اقتدار کی فکر لگی رہتی ہے ۔ سوامی نے اپنے خط سرکاری اعدادو شمار کی مدد سے معاشی تلاطم کے پانچ اشارے دیئے تھے۔
سوامی نے کہا ترقی کی شرح حکومت کے دعویٰ سے بہت کم ہے ۔ معیشت کو سنبھالنے کے لیے انہوں نے عوام کو شمولیت کا مشورہ دیا اور کہا فوری تبدیلی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے مثلاً انکم ٹیکس کا خاتمہ۔ سبرامنیم سوامی کے خیال میں اس سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا ۔ ارون جیٹلی جیسے وزیر خزانہ سے جن کی نظر ہمیشہ ہی عوام کی جیب پر ہوتی ہے انکم ٹیکس کے خاتمہ کا مطالبہ بے سود ہے۔ حال میں نئے وزیر الفانسو نے کہا پٹرول خریدنے والے بھوکے نہیں مرتے چونکہ وہ مہنگا ایندھن خرید سکتے ہیں اس لیے دام کم نہیں ہوں گے۔ صوبائی حکومتوں نے جیٹلی سے شکایت کی تو انہوں نے پلٹ کر پوچھا کیا صوبائی سرکار اپنا حصہ کم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جس حکومت نے بیت الخلاء کے استعمال پر بھی جی ایس ٹی لگا دیاہو اس سے ٹیکس معافی کی توقع احمقوں کی جنت میں رہنے جیسی خوش فہمی ہے۔
سبرامنیم سوامی نے سود کی شرح کم کرکے۹ فیصد پر لانے کا مشورہ دیا ہے ۔ بڑے صنعتکار امریکہ جیسے ممالک سے ۲ فیصد سود پر سرمایہ لے آتے ہیں جبکہ ہمارے اپنے ملک میں ۱۲ تا ۱۸ فیصد کی ظالمانہ شرح پر متوسط اور چھوٹے صنعتکاروں کو قرض دیا جاتاہے سبرامنیم سوامی نے بھی راہل گاندھی والا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ چھوٹی صنعتوں سے ہی بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع نکل سکتے ہیں۔ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے پھر ایک بار جی ایس ٹی کے معاملے میں جلد بازی اور نوٹ بندی کے سبب شرح نمو میں مزید کمی کی پیشنگوئی کردی ہے۔ گزشتہ سال اپریل سے جون کے درمیان جی ڈی پی ۹ء۷ پر تھی اور اس سال ۷ء۵ پر آگیا ہےیعنی ۲۸ فیصد کی کمی ۔ منموہن سنگھ کے اندازوں کو سیاسی جملہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ وہ جملہ بازی کی سیاست نہیں کرتے ۔ نوٹ بندی کے بعد انہوں نےایوان پارلیمان میں جو کہا تھا وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوا۔
وزیراعظم نریندر مودی ہر سال ۲ اکتوبر کو گاندھی جی کے ساتھ ایک نیا مذاق کرتے ہیں ۔ پچھلے سال انہوں نے پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا یعنی نوجوانوں کے اندر ہنر مندی و مہارت میں اضافہ کی مہم کا عملاً افتتاح کیا۔ اس منصوبے کے تحت ۴ سال میں ایک کروڈ لوگوں کو ہنر مند بنانا تھا ۔۔ وزارت مہارت و تجارت کا قیام ۲۰۱۴ کے اندر عمل میں آیا۔ اس کو کامیاب کرنے کی ذمہ داری بہار سے راجیہ سبھا کے رکن راجیو پرتاپ روڈی کو خودمختارریاستی وزارت دے کر سونپی گئی ۔ ۲۰۱۵ کے بجٹ اس کام کے لیے ۱۵۰۰ کروڈ مختص کیے گئے ۔ اس کے بعد ۲۰۱۶ سے لے کر ۲۰۲۰ تک کے ۱۲ ہزار کروڈ کا اہتمام کیا گیا اور مارچ ۲۰۱۷ تک ۲۸۸۵ کروڈ روپئے فراہم کیے گئے۔ پہلے سال میں ۶۷ء۳۰ لاکھ نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کا بیڑہ اٹھایا گیا ۔ نوجوانوں کو صرف ہنر مند بنا دینا بے معنیٰ ہے اگر ان کو روزگار نہ دیا جائے لیکن وزیر موصوف کا کہنا تھا کہ ہمارا کام لوگوں کو برسرِ روزگار کرنا نہیں بلکہ قابلِ ملازمت بنادینا ہے۔ اس لیے ہم بازار کی ضرورت کے لحاظ سے نوجوانوں کے اندر مہارت پیدا کریں گے ۔
ارباب اقتدار کی اس کج فہمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہنر سیکھنے والوں میں سے صرف دس فیصد بھی اپنے مقصد حقیقی سے ہمکنار نہ ہوسکے ۔ کل ۹ء۲ لاکھ لوگوں کو ملازمت ملی یعنی سرکار نے اس کے ذریعہ پڑھے لکھے بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ مودی جی نے روڈی جی کی اس ناکامی کے سبب چھٹی کردی اور دھرمیندر پردھان کو اس وزارت کی اضافی ذمہ داری تھما دی۔ ہمہ وقتی روڈیس کام کو نہیں کرسکے تو جزوقتی پردھان کون سا تیر مارلیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ویسےمعدنی تیل اور گیس کے وزیر د پردھان کے سامنے فی الحال ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں آسیب بن کر کھڑی ہوئی ہیں۔ یہ لوگ اس قدر کنفیوژہیں کہ انہیں نہ تو پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا کے اغراض و مقاصد کا علم ہے اورنہ یہ پتہ ہے اہداف کا حصول کیسے ہوگا؟یہ دگرگوں صورتحال سوامی اور راہل کے اندیشوں کی تصدیق کرتی ہے۔
ماہرین کے خیال میں سرکار اس سے نمٹنے کے لیے ضلعی سطح پر توجہ دینا چاہیے مگر مرکزی حکومت کریڈٹ کے چکر میں اس کے لیے تیار نہیں ہے ۔ اس محکمہ کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ یہ یوجنا سرے سے ہمارےمسئلہ کا حل ہی نہیں ہے۔ بہت کم وقت میں معیار اور مقام کے بدلنےسے کوئی فرق نہیں پڑے گا الاّ یہ کہ صوبائی حکومت اپنے اضلاع میں بامقصد معلومات جمع کرکے اس کا خاطر خواہ استعمال اور نگرانی کرے ۔ مثلاً اگر پلمبر کی مانگ ہے تو یہ دیکھنا پڑے گا اس کام دلچسپی لینے والوں کی کہاں تربیت کی جائے؟ ان کے اپنےمقام پر یا جہاں ان کو کام کرنا ہے؟ اس کے لیے اجرت کا تعین بھی ضروری ہے ۵ہزار جیسی معمولی تنخواہ پر کوئی نقل مکانی نہیں کرے گا۔ اس کے لیے کم ازکم ۱۵ہزار کی تنخواہ کا بندوبست کرنا ہوگا۔
راہل گاندھی کے اس مفروضے کو بھی جیٹلی جی غلط ثابت کردیا کہ یہ حکومت امیرکبیر لوگوں کا بھلا کرتی ہے ۔ وزیر خزانہ کو فی الحال برآمد کرنے والوں کے ٹیکس کی جمع شدہ رقم لوٹانے کا مسئلہ درپیش ہے جو ممکن ہے وزراء کی عیش و عشرت پر خرچ ہوچکی ہو؟ اکتوبر کے خاتمہ تک اس کا تخمینہ ۶۵ہزار کروڈ ہوجائے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ ہر سال ۲لاکھ کروڈ کی رقم کہاں سے آئیگی؟ اس سے قبل ڈیوٹی کے ۳ تا ۵ فیصد لوٹائے جاتے تھے لیکن ٹیکس کے نئے قوانین کےروُ سے یہ ۱۸ فیصد اور کچھ معاملات میں ۱۲ تا ۲۸ فیصد ہے۔ حکومت کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ملک سے باہر مال برآمد کرنے والوں کا اتنا سرمایہ سرکاری خزانے میں جاکر پھنس جائیگا اس سےبازار میں سرمایہ کی آمدورفت رک جائیگی۔ یہی وجہ ہے کہ تاجر جلد ازجلد ادائیگی کی دہائی دے رہے ہیں ۔ اس حماقت کا اثر نظر آنے لگا ہے۔ کرسمس کا موسم ہونے کے باوجود برآمدات کے آرڈر میں ۱۵ تا ۲۰ فیصد کی کمی نظر آ رہی ہے۔ غیرملکی کاروبار چونکہ جی ڈی پی کا ۴۰ فیصد ہے اس لیے اس میں کٹوتی ایک کروڈ لوگوں کو بیروزگار کرسکتی ہے۔ ویسے ہی ہر سال ایک کروڈ نئے روزگار مہیا کرنے والوں کی گاڑی ایک لاکھ ۶۵ ہزار پر آکررک گئی ہے۔
حکومت اپنا سالانہ بجٹ کا ۹۲ فیصد بجٹ ستمبر تک خرچ کرچکی ہے۔ اگر برآمد کرنے والوں کی رقم لوٹانے میں حکومت ناکام ہوگئی تواس کے ساتھ ملک کا دیوالیہ پٹ جائیگا۔ یہی وجہ ہے کہ جیٹلی نے وزیراعظم سے ملاقات کو ملتوی کرکے اپنے افسران کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس سنگین صورتحال سے نکلنے کا کوئی راستہ نکالا جاسکے۔ ایک زمانہ میں عوام اچھے دنوں کےخواب دیکھ رہے تھے لیکن کون جانتا تھا کہ آئندہ انتخاب سے ڈیڑھ سال قبل خود سرکار کی نیند اڑ جائیگی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسے میں کس کو بلی کا بکرہ بنایا جاتا ہے۔ روڈی کی مانند اگر جیٹلی کی بھی چھٹی کردی جائے تو سبرامنیم سوامی کی قسمت کا ستارہ چمک سکتا ہے ۔ اس راہ کا سب سے بڑا روڑا یہ ہے کہ مودی جی کو شاہ یا جیٹلی کے علاوہ کسی پر اعتماد ہی نہیں ہے۔ اس لیے وہ ان دونوں کو ساری نا اہلی کے باوجود برداشت کررہے ہیں۔
معیشت کے موسمِ خزاں میں لوگ آسمان کو چھوتے ہوئے حصص بازار کے گراف کو دیکھ دیکھ کر دل بہلا رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کاغذ پر سہی ان شیئر دن دونے ترقی کررہی ہے لیکن کوٹک مہندرا کے ماہرہنس راج اس غبارے کے بھی جلدہی پھٹ پڑنے کا امکان ظاہر کررہے ہیں۔ کوٹک مہندرا اپنے وفادار گاہکوں کی سالانہ ایک لاکھ کروڈسے زیادہ کی سرمایہ کاری کا انتظام و نصرام کرتی ہے ۔ کوٹک کی قیاس آرائی کو آسانی سے مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ہنس راج کے مطابق جب زمین جائیداد میں سرمایہ کاری پرسرکاری روک لگی تو لوگوں نے شئیر بازار میں روپیہ لگانا شروع کیا اور اس کے اندر غیر معمولی اٹھان نظر آئی ۔فی زمانہ ملک کے سات بڑے شہروں میں گھروں کی فروخت پچھلے تین سال میں سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اناروک پراپرٹی کنسلٹنٹ نے تصدیق کی ہے کہ سرمایہ کاری کا رخ زمین جائیداد سے نکل کر شیئر بازار کی جانب مڑا ہے۔ مورگن اسٹینلی جیسے غیر ملکی ماہرین ہندوستان میں اپنی دوکان بند کررہے ہیں اس لیے کہ ان سے مشورے کے لیے گاہک نہیں آتے۔ ماہِ اگست میں ۴ لاکھ کروڈ سے زیادہ سرمایہ حصص بازار میں لگا ہے۔ اس غیر فطری توسیع پر جرمنی کی ڈیوش بنک نے سرمایہ کاروں کو خبردار کیا ہے۔ اور ریزرو بنک کے افسران بھی فکرمند ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اس کی نگرانی کے لیے ایک پینل تشکیل دیا ہے۔
معاشی کوتاہیوں کے سبب گھٹتی ہوئی مقبولیت کےپیش نظر اب تو آرایس ایس نے بھی اپنی خفیہ رپورٹ میں مودی جی آگاہ کردیا ہے کہ آئندہ سال انتخاب میں کامیابی مشکل ہے۔ دی ٹیلیگراف کے مطابق سنگھ نے اپنی مختلف ذیلی تنظیموں کے جائزوں کی روشنی میں کہا ہے کہ مندی، بیروزگاری، نوٹ بندی، کسانوں کی بدحالی کی وجہ سے عام لوگوں میں مودی سرکار کے تئیں مایوسی جنم لے رہی ہے۔سنگھ کے مطابق مودی جی کی ذاتی مقبولیت انتخابی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ تنظیمیں مودی سرکار کی معاشی پالیسی سے خفا ہیں اوراپنے آپ کو فریب خوردہ محسوس کررہی ہیں ۔ آرایس ایس کے مزدور سنگھ کو ۲۰۱۵ میں مودی سرکار کے خلاف مظاہرہ کرنے سے روک دیا گیا تھا لیکن اس سال ۱۷ نومبر کو اس نے اپنا احتجاج طے کردیا ہے۔ یہ رپورٹ متھرا میں ہونے والی سنگھ کے رابطہ اجلاس میں پیش کی گئی جس میں امیت شاہ اور یوگی بھی موجود تھے۔ ان کو بتایا گیا کہ اسی طرح کی خوش گمانی کا شکار اٹل سرکار ۲۰۰۴ میں انتخاب ہار گئی تھی۔
ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ ساری دنیا میں مندی چھائی ہوئی تھی لیکن ہمارے ملک میں ایک سمجھدار وزیراعظم ہوا کرتا تھا جس نے اپنی دانشمندی سے ملک کومندی کی لپیٹ سے بچا لیا اور ہندوستان کے اندر اس کے اثرات بہت کم محسوس ہوئے۔ فی الحال عالمی سطح پر خوشحالی لیکن ہمارے اوپر ایک ایسی سرکار مسلط ہے جو اپنی حماقتوں سے ہمیں کساد بازاری کے اندھے کنویں میں جھونکنے پر تلی ہوئی ہے۔ اب تو عام لوگوں کے ساتھ ساتھ خاص لوگ بھی پریشان ہونے لگے ہیں اس لیے کبھی ٹاٹا کی تصویر کے ساتھ یہ خبر شائع ہوتی ہے کہ وہ مودی جی کو ووٹ دیتے ہیں تو کبھی مہندرا اینڈ مہندرا کے مالک کابیان چھپوایا جاتا ہے کہ وہ مودی جی سے بہت خوش ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹاٹا ومہندرا اور امبانی و اڈانی مل کر مودی وشاہ کو اگلےانتخاب میں پھر ایک بار کامیاب کرواسکتے ہیں یا نہیں؟ ہندوستان کی اکثریت لکشمی کی پجاری ہے اس لیےجب کوئی کسانوں سےکہتا ہےتمہارے قرض معاف کر دیئےجائیں گے یا نوجوانوں سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ روزگار مل جائیگا تو وہ جھانسے میں آجاتے ہیں لیکن جب پیٹ پر لات پڑتی ہے تو عقل ٹھکانے آجاتی ہے ۔ مودی بھکتوں کا معاملہ مختلف ہے ان کے تو سر پر جب تک جوتے نہیں برسیں گے لگتا ہے دماغ درست نہیں ہوگا۔ ملک کی کسمساتی معیشت پر نواز دیوبندی کے یہ اشعار صادق آتے ہیں؎
وہ رلا کے ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کے مسکرایا دیر تک
بھوکے بچوں کی تسلی کے لئے
ماں نے پھر پانی پکای دیر تک