خوشیاں، آزادی اور بے فکری کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو اس کو ہم بچپن سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ ہر فرد اپنے بچپن کو ایک یادگار دور کے طور پر یاد رکھتا ہے۔ یہ دور وہی ہوتا ہے جہاں انسان کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کا جذباتی اورسماجی نشوونما بھی ہوتا ہے۔ اسی دور میں اس کی ذہنی وفکری آبیاری ہوتی ہے اور اس کی شخصیت میں نکھار آتا ہے۔ غرض ایک کامیاب اور خوشحال انسان کی بنیاد اسی دور میں رکھی جاتی ہے۔
موجودہ صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تعلیمی نمبرات کی دوڑ اور نئی ٹکنالوجی کے ظہور نے بچوں سے ان کے بچپن کو چھین لیا ہے۔ آج وہ جنہیں پورے الفاظ بھی ادا کرنا نہیں آتا، جو اپنی ماں کی گود کے محتاج اور دادی نانی کی کہانیوں کے ضرورتمند ہوتے ہیں ان کو شفقتوں سے محروم کرکے انہیں تعلیمی اداروں میں داخل کرانے کی دوڑ میں شامل کیا جاتا ہے۔ نرسری میں داخلے کسی آئی آئی ٹی کے داخلے سے کم نہیں ہوتے۔ وہ بھاگ دوڑ، مختلف کارروائیاں، اور ایک بڑی رقم کا انتظام۔ اس قیامت خیز منظر کے دوران ان معصوم بچوں پر جو گزرتی ہے اس کو محسوس کرنا مشکل ہے۔ کارپوریٹ نظام نے ایسا ماحول بنادیا ہے کہ خطیر رقم دے کر بچوں کو اسکول میں داخلہ دلوانا ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔
اچھی خاصی فیس لینے کو جائزقرار دینے کی خاطر اسکول کے نصاب میں وسعت پیدا کی جاتی ہے۔ کتابوں کی تعداد میں اور اسکول کے اوقات میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ والدین کو مطمئن رکھنے کے لیے بچوں کو مشقی سرگرمیوں میں اور ہوم ورک میں اتنا مصروف کردیتے ہیں کہ بچے اپنی فطرت کے تقاضے تک پورے نہیں کرپارہے ہیں، جبکہ ان تقاضوں کا پورا کرنا ان کی متناسب نشوونما کے لیے ضروری ہے۔
بچوں کے فطری تقاضوں میں ایک تقاضا یہ ہے کہ اپنے ابتدائی دور میں وہ اپنے والدین اور بزرگوں کے قریب رہیں، تاکہ ان میں والدین اور بزرگوں سے قربت ہو، ان کی نفسیات میں بالیدگی آسکے، اور وہ ان سے کچھ سیکھیں اور تربیت حاصل کریں، اور اپنی مذہبی اور تہذیبی روایات کو آگے لے جاسکیں۔ لیکن ڈھائی تین سال کے عرصے سے ہی اسکول کی شروعات نے بچوں کے اندر والدین سے دوری کا احساس پیدا کردیا ہے، اُن میں ڈر، خوف کے ساتھ ساتھ خوداعتمادی کی کمی اور تنہائی کا احساس فروغ پارہا ہے۔
بچوں کے فطری تقاضوں میں دوسرا تقاضا آزادی ہے، جو اسکول کے اصول وضوابط کے نتیجے میں سلب کرلی جاتی ہے۔ تین سے پانچ سال کی عمر کے بچے ان اصول وضوابط کی اہمیت کو نہیں جانتے، وہ خود کو بادشاہ تصور کرتے ہیں، اور تمام افراد کی توجہ کا مرکز بننا چاہتے ہیں۔ رو رو کر اور ضد کرکے اپنے احکامات کو نافذ کراتے ہیں، اگر ابتدا ہی میں ان کی مرضی اور خواہشات پر پابندی لگادی جائے تو وہ بڑے ہوکر ایک اچھے اور فرمانبردار غلام بن سکتے ہیں، اور ایک ربورٹ کی طرح کارپوریٹ کمپنیوں کی خدمت انجام دے سکتے ہیں، لیکن وہ ایک آزاد انسان نہیں بن سکتے۔
تیسرا تقاضا کھیل کود ہے، کچھ سال پہلے بچوں میں میدانی کھیل بہت عام تھے۔ اگر ان کھیلوں کے نام اور تفصیلات جمع کی جائیں تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے، لیکن اب وہ تمام کھیل معدوم ہورہے ہیں، جس کے لیے والدین ، اسکولس اور نئی ٹکنالوجی ذمہ دار ہے۔
اسکول کے منتظمین اکثر تاجر حضرات ہوتے ہیں جو کھیل کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں، بچوں میں پڑھنے، لکھنے کی صلاحیت اور اچھے نمبرات کا حصول ہی ان کا مقصدہوتا ہے تاکہ اُن کے ادارے کانام روشن ہوسکے۔ اس لیے ہوم ورک ، اسائنمنٹ، امتحان وٹسٹ، نمائش اور اسکول ڈے ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کھیل کے ذریعہ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ بچوں کو کھیل کے ذریعے جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ آج گُم ہوتی نظر آرہی ہے۔ ان کا جوش وجذبہ اسکول کے بیگ تلے دب گیا ہے۔ اور والدین بھی بچوں کا مستقبل بنانے کے لیے بچوں کو ان کے حقوق سے محروم کررہے ہیں۔
صرف پیسہ ہی مستقبل نہیں ہوتا، بلکہ صحت، اخلاق، اعتماد، سماجی روابط، خوشیاں اور آزادئ فکرونظر کامیاب انسان کے لیے ضروری ہیں۔
بقیہ صفحہ ۳۲؍پر
الکٹرانک ٹکنالوجی کے ارتقاء نے بھی بچوں میں کھیل کود کے رجحانات میں تبدیلی لائی ہے۔ وہ ٹی وی اور کارٹون دیکھنے میں اپنا فارغ وقت لگادیتے ہیں۔ کمپیوٹر، ویڈیو گیمس اور موبائیل کی عادت نے تو کھیل کے میدانوں کو خالی کردیا ہے۔
آج طلبہ حقیقی دنیا سے زیادہ مجازی دنیا میں رہنا پسند کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اُن کی صحت، ذہنی بالیدگی اور سماجی کردار بڑی حد تک متأثر ہورہے ہیں۔
یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، تعلیمی ماہرین اس پر غور کریں کہ بچے اپنے فطری تقاضوں کی طرف کیسے لوٹ سکتے ہیں۔ اسکول اپنے اوقات میں کھیل کود کو ایک لازمی جزو قرار دیں، کیونکہ کھیل سے بھی طلبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ سب سے اہم ان کی دلچسپیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ ٹیم ورک کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ اُن میں کھیل کے ذریعہ قیادت کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ مقابلہ کرنے کی قابلیت اور آگے بڑھنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں پر ہر وقت سوار نہ ہوں۔ ورنہ محبت کے نام پر بھی وہ اپنے بچوں کو برباد کرنے کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔ ان کی نفسیات کو سمجھ کر کھیلنے کودنے کے مواقع فراہم کریں تاکہ بچے آپ کو اپنا ہمدرد اور ساتھی سمجھیں۔ آپ ان کے سرپرست بننے کے ساتھ ساتھ ان کے دوست بھی بنیں۔ یادرکھیں صرف مال ودولت ہی سے خوشحال خاندان نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے پیار پیارومحبت، آزادیاں اور خوشیاں بھی درکار ہیں۔ امید کہ ہم اپنے بچوں کی خوشیاں لوٹانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
خالد پرواز، گلبرگہ