ہمارے سب کے خالق و رب نے ایک منصوبے کے تحت پوری کائنات کی تخلیق کی ہے۔ اس کی تخلیق میں کوئی خامی تلاش کرنے پر بھی ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ کائنات میں سورج، چاند اور ستارے سب اپنے اپنے مدارپر بخوبی گردش کر رہے ہیں ۔ انسانوں، جانور وں اور نباتات کے پیدا ہونے اور فنا ہونے کا سلسلہ لگاتار جاری ہے۔ موسم اپنی تبدیلی کے ساتھ مناسب و متواتر جاری ہے۔
کائنات میں جتنے جاندار ہیں ان کی خوراک کا بہترین نظم قدرت نے کیا ہے، پالنہار نے اربوں کھربوں جاندار مخلوقات کے لیے، خواہ وہ زمین پر رہتے ہوں یا فضا میں تیرتے ہوں، خواہ زیر زمین رہتے ہوں یا پانی میں تیرتے ہوں، ہر ایک کے لئے اور ہر جگہ خوراک کا انتظام کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھوکا اٹھاتا ہے پر بھوکا سلاتا نہیں۔
زمین سے اناج، پھل اور مختلف انواع و اقسام کے نباتات کا پیدا ہونا اللہ کا ایک بیش بہا انعام وا کرام ہے۔ ایک ہی زمین وپانی کے ذریعہ انسانی زندگی کی تمام اشیاء اناج ، پھل ، سبزی، ادویات ، اور بہت سی قسم کی چیزیں انسانوں کے لئے مہیا کیں، جو اللہ کی قدرت کا کمال ہے۔ گیہوں کے ایک دانے سے سات سو دانے پیدا کرنا ۔ ناریل میں چھلو چھل پانی کا بھر جانا، انار کے دانوں کی تنظیم ،کیلوں اور مختلف اقسام کے پھلوں کا مزا اور ان کی غذائیت اور اس کے علاوہ اتمام اشیاء کا اتنی وافر مقدار میں حاصل ہونا کہ دنیا کے سات ارب انسانوں کی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا کرے۔ یہ اللہ کی بے حد عنایت و مہربانی ہے۔ یہ عنایات ایسی ہیں جو انسان کو اپنے مالک کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتی ہیں۔
اگر صرف اناج ہی کی بات کی جائے تو وہ اتنی وافر مقدار میں دستیاب ہے کہ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کی ضرورتیں اچھی طرح پوری ہوں۔ لیکن انسان جہاں غیر عادلانہ مداخلت کرتاہے وہیں سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا مسئلہ اناج کی مقدار کا نہیں بلکہ مناسب و عادلانہ تقسیم کا ہے۔ اس کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو بھوکے مرنا پڑتا ہے۔ لاکھوں ٹن اناج گوداموں میں بگڑ رہا ہے اور دوسری جانب اشرف المخلوقات انسان کوڑے کرکٹ میں سے کھانا لے کر پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں۔ گویا جانور سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔
اللہ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان کو خدائی قانون کے مطابق فطری طریقہ و طرز پر نظام زندگی کو استوار کرنا اور گزارنا چاہئے، تاکہ یہ دنیا و کائنات قدرتی طریقہ پر گامزن و ترقی پذیر ہو۔ اگر خدائی نظام کے مطابق نہ چلا گیا اور غیر فطری طریقہ کو اختیار کیا گیااور اس میں بے جا مداخلت کی گئی تو خدائی نظام بگڑ جائے گا، جس کے نتیجہ میں خود انسان کو گونا گوں مشکلات و پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اور پھر انسان قدرت کے خلاف لڑ نہ سکے گا۔ آج کائنات میں جو مسائل ابھر رہے ہیں ان کی وجہ انسان کی فطرت کے امورمیں بے جا، غیرمعقول اور غیر منصفانہ مداخلت ہی ہے۔
اس موقع پر گجرات میں واقع گیر کے جنگل کی ایک مثال صادق آتی ہے، حکومت کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق گیر کے جنگل کی زمین کے اندر پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ شیر ببر کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ شیر ببر کی تعداد کو پانی کی سطح سے کیا تعلق؟ شیر ببر کی تعداد کی کمی کے باعث ہرنوں اور دیگر جانوروں کی تعدادمیں اضافہ ہوا ہے۔ اور ان جانوروں نے جنگل کے سبزہ زار کو بہت زیادہ مقدار میں کھا کر ختم کر دیا۔اسی وجہ سے جنگل کا رقبہ کم ہو گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بارش میں کمی ہو گئی، اور اسی وجہ سے زمین میں پانی کی سطح نیچے اتر گئی۔
گیرکے جنگل میں شیرببر کی تعداد بڑھانے کے لئے خاص مہم چھیڑی گئی ہے۔ اس جنگل میں شیر ۳۰؍ فیصد ہرنوں اور دیگر جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ ۷۰؍ فیصد گائے اور بھینس کا شکار کرتے ہیں۔ ہرن اور دیگر جانوروں کا شکار کرنے میں بہت زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔ اس کے باوجودشیر کے کنبے کا پیٹ نہیں بھرتا۔ جبکہ گائے یا بھینس کا شکار کرنے میں زیادہ زحمت بھی نہیں کرنی پڑتی اور کنبہ کا پیٹ بھی بھر جاتا ہے۔گائے بھینس کا شکار ہونے پر ریاستی حکومت کی جانب سے فوراً رقم ادا کر دی جاتی ہے۔ ریاستی حکومت نے اس بارے میں کروڑوں روپے کا بجٹ مختص کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاستی حکومت شیروں کے لئے گا ئے اور بھینس کا کروڑہا روپیوں کا گوشت فراہم کرتی ہے۔ وہاں گائے اور بھینس کو بچانے کے لئے شیر کو مارا نہیں جاتا۔ کیونکہ یہ قدرتی قانون ہے ۔ گائے کے کنبے کو بچانے کے لئے اگر شیر کا شکار کیا جائے تو جو صورت حال پیدا ہوگی اس کا تصور بھی کرنا مشکل ہے۔ مہاراشٹر میں گائے اور اس کی نسل کے ذبیحہ پر پابندی عائد کی گئی ہے جو غیر فطری اور خلاف عدل ہے۔ دنیا کے ۲۰۰؍ ملکوں میں سے ایک بھی ملک ایسا نہیں جہاں گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کی گئی ہو۔ نیپال جیسے ہندو ملک میں بھی گائے کے ذبیحہ پر پابندی نہیں ہے۔ حال ہی میں نیپال کے گڈہیمائی تہوار کے موقعہ پر ۵؍لاکھ جانوروں کوقتل کیا گیا۔ بھارت کے کئی صوبے ایسے ہیں کہ جہاں گائے کے ذبیحہ پر پابندی ممکن نہیں ہے۔ تاہم مان لیا جائے کہ پابندی عائد کی جاتی ہے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ یہ مسئلہ تحقیق اور تدبر کا طالب ہے۔
گائے کے ذبیحہ پر پابندی کے اثرات
۱)کاشتکاری میں ترقی کی وجہ سے بہت تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ بھارت میں بھی جدید طرز پر کھیتی کی جاتی ہے۔ کھیتی میں ہل جوتنے میں بیل کی جگہ اب ٹریکٹر کا استعمال ہو رہا ہے۔ اس لئے بچھڑے اور بیل نیز دودھ نہ دینے والی گائیں ایک سردردبنتی جارہی ہیں۔
۲) گائے کے ذبیحہ پر منحصر بڑے بڑے کارخانے منہدم ہو جائیں گے۔مثلاََلیدھر انڈسٹریز۔ بون انڈسٹریز ، فیٹ پر منحصر کارخانے وغیرہ۔
۳) گائے کی نسل کے ذبیحہ پر منحصر بہت سے ورکرس اور ان خاندانوں کی روزی روٹی کا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔
۴) سبزی کے دام آج بھی رُلا رہے ہیں ۔ لاکھوں ٹن گائے کے گوشت کے بند ہو جانے سے سبزی، ترکاری کے لئے مارے مارے پھرنا پڑے گا۔ اسی کے ساتھ دالیں اور مٹر بھی مہنگی ہو جائیں گی۔ غریبوں کا جینا دوبھر ہو جائے گا۔ نیز ان تمام چیزوں کی قلت ہو جائے گی، اور پھر باہر کے ملکوں سے درآمد کرنا پڑے گا۔
۵) ملک میں گائے کی نسل کے ذبیحہ پر پابندی کے قانون سے دودھ کی قلت پیدا ہوگی۔ دودھ کا ملنا مشگل ہو جائے گا۔ نیز دودھ کے دام اونچے ہو جائیں گے۔ یہ بات لگتی تو تعجب خیز ہے ،لیکن یہ حق ہے ۔ وقت آنے پر واضح ہو جائے گا۔ دودھ دینے والے جانوروں،اور اچھی نسل کے جانوروں کا چارہ بغیر کام کے جانور کھا جائیں گے۔ ان کے رہنے کی جگہ اور دیکھ بھال میں بے کار کے جانور حصہ بٹائیں گے۔ ان وجوہ سے دودھ دینے والے جانوروں پر الٹا اثر ہوگا،اس طرح دودھ میں کمی واقع ہوگی۔ اس کمی کی وجہ سے دام بڑھ جائیں گے۔ جانوروں کی نگہداشت اور ان کی تجارت کے سلسلے میں دنیا کے ملکوں میں پہلے نمبر پر آنے والے دیش ’بھارت ‘کو کہ جہاں گائے کو ’ماتا‘ کہہ کر پوجا جاتاہے، وہاں دودھ کی درآمد کرنی پڑے گی، اور یہ ان دیشوں سے ہوگی جہاں گائے کی نسل کے ذبیحہ پر پابندی نہیں ہے۔کیوں کہ وہاں دیگر کام میں نہ آنے والے جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے، اور جہاں دودھ دینے والے جانوروں کو چارہ، جگہ اور دیکھ بھال وغیرہ بھرپور حاصل ہوتا ہے۔
۶)گائے کی نسل کے ذبیحہ پر پابندی نہ تھی تب بھی گوسالائیں بد حال تھیں ۔ وہاں جانوروں کی حالت قابل رحم تھی۔ نیز وہاں جانوروں کو غیر قانونی طور پر فروخت کیا جاتا تھا، اور غیرقدرتی طورپر مار ڈالا جاتا تھا۔ ایسی کئی وارداتیں اخبارات میں اور ٹی وی سیریلس میں آتی رہیں ۔ ابھی حال ہی میں ایک پانجرہ پول گوسالا میں ۱۲۰؍ گائیوں کے مرنے کی خبر تھی۔ جس کی تحقیق جاری ہے۔ گائے کی نسل کے ذبیحہ پر پابندی لگا دی جائے گی تو پانجرہ پول گوسالاؤں کا حال اور ابتر ہو جائے گا۔ پانجرہ پول گوسالائیں تو دور کی بات ہے، گایوں کی صورت حال بھی جانوروں سے بھر کر خراب سے خراب تر ہو جائے گی، اور ان بے کار جانوروں کو کھلانا پلانا مسئلہ بن جائے گا۔ جسے حل کرنا کسانوں کے لیے تو دور کی بات حکومت کے لئے بھی مشکل ہو جائے گا ۔ جس بھارت میں لاکھوں کروڑوں انسان بھوکے مر جاتے ہوں وہاں بے کار گائے کی نسل کو نبھانا ایک بڑا بھاری مسئلہ بن جائے گا۔
۷) بھارت کے قابل رحم صورتحال کے شکار کسانوں کے حالات جبکہ یہ ہوں کہ ابھی کھیتی کی پیداوار کا ٹھیک ٹھاک دام تک نہ ملتا ہو، تو وہ خود کشی کرلیتے ہوں، ایسی صورت حال میں ان کے بیکار جانوروں کو کون خریدے گا۔ جہاں خود اپنی اولاد اگر ٹھیک سے نہ پل پاتی ہو تو گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔ وہاں بے کار جانوروں کو قدرتی موت نہ آئے تب تک پالنا ایک مشکل کام اور درد سر بن جائے گا۔ لوگ ان کے جانوروں کو سڑک پر بے یارو مدد گار چھوڑ دیں گے۔
۸) بھارت میں ایک اندازے کے مطابق ۸۰؍ سے ۹۰؍ فیصد لوگ گوشت خور ہیں۔ جس میں گائے کی نسل کا گوشت کھانے والے ۵۰؍ فیصد ہیں۔ ایسے میں گائے کی نسل کے ذبیحہ پر پابندی لگنے سے لاکھو ں ٹن گوشت بند ہو جائے گا، اور اس سے غریب اور فاقہ کشی کے شکار بھارت میں فاقے کی حالت اور خراب ہو جائے گی۔ بھارت میں تعجب خیز بات یہ ہے کہ جو لوگ جانوروں کو پالتے ہیں وہ گائے کی پوجا نہیں کرتے بلکہ اس کا استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ جو لوگ گائے کی پوجا کرتے ہیں وہ اس کو پالتے نہیں ۔ اس صورت حال میں اگر گائے کی نسل کے ذبیحہ پر پابندی لگا دی جائے تو بہت خراب صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ گائے کی پوجا کا معاملہ خطرے میں پڑجائے گا، اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں گے۔ اس مسئلے کو مسلم ملت اور دیگر لوگ قدرتی طورپر حل کرتے آئے ہیں ۔ بھارتی سماج کو ان لوگوں کا احسان مند ہونا چاہیے۔ اور ان کے اس عمل پر شکر ادا کرتے ہوئے ان کی ستائش کرنی چاہیے۔ ان کا یہ کا م ملک کی ایک بڑی خدمت ہے۔ جس کی بھر پور قدر کرتے ہوئے اس کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے، اور معقول معاوضہ دیا جانا چاہیے، اور قانون بنا کر اسے تحفظ بہم پہنچانا چاہیے، بے جا جو پریشان کیا جا رہا ہے اس قسم کی حرکتوں پر روک لگاناچاہیے۔ گائے کی نسل کے ذبیحہ پر پابندی کا عمل بے جا اور غیر فطری ہے اسی وجہ سے اس پر کلیتہً کوئی عمل ممکن نہیں ۔ اس کے ردعمل اور اثرات کو دیکھتے ہوئے مہاراشٹر حکومت کو بھی گائے کی نسل کے ذبیحہ پر پابندی کے قانون کو واپس لے لینا چاہئے۔
اقبال احمد مرزا،گجرات
گائے کی نسل کے ذبیحہ پر بابندی غیر فطری
ہمارے سب کے خالق و رب نے ایک منصوبے کے تحت پوری کائنات کی تخلیق کی ہے۔ اس کی تخلیق میں کوئی خامی تلاش کرنے پر بھی ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ کائنات میں سورج، چاند اور…