ذیشان امجدحاتمؔ، ڈی یو
پچھلےڈیڑھ دوسال سے مختلف یونیورسٹیز میں خصوصاًCentral Universitiesمیں افراتفری کا ماحول ہے۔ آئے دن یونیورسٹیز میں طلباء کے غائب ہونے کے واقعات، طلباء سے مارپیٹ، طلباء و طالبات پر لاٹھی چارج، طالبات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، طلباء پر بنا کسی وجہ اور ٹھوس ثبوت کے ملک مخالف ہونے کا الزام لگانا اور ان کی گرفتاریاں عام ہوچکی ہیں۔ یوں تو کیمپس میں اس طرح کے واقعات پہلے بھی رونما ہوتے رہے ہیں مگر پچھلے چند سالوں کے اندر ان واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی کئی بڑی یونیورسٹیز جیسے حیدرآباد یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی و دیگر مظالم کے زد میں آئی ہیں۔
چند معروف واقعات:
ہمیں معلوم ہے حیدرآباد یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم اور ایک کتاب Cast is not rumour کے مصنف روہت ویمولا نے ۱۷؍جنوری ۲۰۱۶ء کو خود کشی کرلی۔ جولائی ۲۰۱۵ء میں یونیورسٹی نے اسے ماہانہ ۲۵۰۰۰ روپئے فیلو شپ دینے سے ہاتھ کھینچ لیے تھے۔ اس کے بعد روہت ویمولا نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کیا جس کے نتیجے میں اسے اے بی وی پی جیسی بھگوا تنظیم کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کار خود کشی کرنی پڑی۔ حالانکہ یہ بھی اب تک ایک معمہ ہے کہ اس نے خود کشی کی یا اسے مار دیا گیا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ بی ایچ یو کی طالبات کے ساتھ ۲۱ ستمبر کو بھارت کلا بھون کے پاس چھیڑ چھاڑ کی گئی جس کی وجہ سے طالبات میں غصہ پھوٹ پڑا اور وہ تریوینی ہاسٹل سے سڑک پر آگئیں۔ ان تمام واقعات پر غور کیا جائے تو ایک بات تو صاف ہے کہ یونیورسٹیز کے ماحول کو منصوبہ بند طریقے سے متاثر کیا جارہا ہے اور تعلیمی نظم و نسق بھی ان واقعات سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ کیا یونیورسٹیز غنڈہ گردی کے اڈوں میں تبدیل ہورہی ہیں؟ آخر کیا وجوہات ہیں کہ کیمپس میں مظالم کے مظاہر آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس وقت ملک کا نظام فسطائی طاقتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ فسطائی طاقتیں ہر شعبہ کا بھگوا کرن کرنا چاہتی ہیں اور انھیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ سب سے پہلے تعلیم و تربیت میں بھگوا رنگ داخل کرنا ہے کیونکہ اسی کے ذریعے ان کے آگے کے تمام منصوبے کامیاب ہوں گے اور اس کام کے خلاف جو کوئی بھی کھڑا ہو، سیاسی طاقت کے زور پر اسے کچل ڈیا جائے۔ وجہ صاف ہے کہ یہ فسطائی طاقتیں یہ نہیں چاہتی ہیں کہ دلت لڑکے لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کریں اور آگے بڑھیں کیونکہ ایسی صورت میں دلت بھی اپنے حقوق اور بہتر طریقے سے سمجھ سکیں گے اور حکومتوں سے اپنے حقوق طلب کریں گے۔ ایسی صورت میں فسطائی طاقتیں کمزور پڑجائیں گی۔
ان فسطائی طاقتوں کو مسلمانوں کے آگے بڑھنے سے سب سے زیادہ خطرہ ہے کہ کہیں آگے چل کر یہ مسلمان شرعِ پیغمبرؐ آشکار نہ کردیں۔اسی طرح جے این یو میں بھی جو کچھ ہوا ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ نجیب کا غائب ہونا، طلباء کا اس کے لیے احتجاج کرنا اور پھر اس کے عوض جیل جانا۔ یہ سب کچھ ہم لوگوں نے دیکھا اور سنا اور یہاں بھی بھگوا دہشت گردی کا ننگا ناچ صاف طور پر دیکھنے کو ملا۔
پھر چند دن بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بوائز ہاسٹل میں چند انجان لوگوں کا داخل ہونا اور ویڈیو گرافی کرنا اور پوچھے جانے پر خود کو انٹلی جینس آفیسرز بتانا۔ پچھلے دو سال کے اندر ملک بھر میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں۔ ڈی یو میں بھی احتجاج کررہے اے آئی ایس ایف کے طلباء سے اے بی وی پی کے طلباء نے زبردست مارپیٹ کی جس میں طالبات کو بھی نہیں بخشا گیا اور کنول پریت کور کو ریپ کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں بی ایچ یو کا معاملہ سامنے آیا۔ بعض خبروںکے مطابق بی ایچ یو کی طالبات چھیڑچھاڑ کی مخالف میں دھرنا دے رہی تھیں اور صرف اس وجہ سے ان پر زبردست لاٹھی چارج ہوا۔ جس دن یہ واقعہ پیش آیا، بجائے اس کے کہ ضلع انتظامیہ اس پر کچھ کارروائی کرنے کے اگلے دن تک ضلع کے تمام بڑے تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا تغلقی فرمان جاری کردیا، اگلے ہی دن پولیس فورس یونیورسٹی کیمپس میں گشت کرتی رہی تاکہ ڈر کا ماحول بنایا جاسکے۔ اس کے باوجود بی ایچ یو کے طلباء و طالبات نے وی سی ہاؤس کے ارد گرد احتجاج کیا مگر وی سی کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔
ان تمام وجوہات کو سامنے رکھ کر موجودہ وقت میں ان پریشانیوں کا حل ہر کوئی سوچ رہا ہے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ دقتیں کہاں آرہی ہیں اور کیا چیلنجز اس وقت ہمارے سامنے ہیں؟
ہماری ذمہ داری:
اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ میڈیا جو لوگوں کے ذہنوں میں جھوٹ اور فریب کے بیج بو رہا ہے اور عوام کو غلط فہمیوں میں مبتلا کررہا ہے، اس پر کس طرح قابو پایا جائے یا اس کام کو کیسے روکا جائے؟ یہ غوروفکر کا مقام ہے۔
یونیورسٹی کیمپس کا ماحول اگر کوئی خراب کررہا ہے تو کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہئیں کہ ماحول کو بگڑنے سے روکیں اور کیمپس میں اچھائی کو عام کریں اور مسلمان طلباء پر تو یہ فرض بنتا ہے کہ کیمپس میں اس کا کردار بالکل صاف و شفاف ہو اور جداگانہ ہو۔ اس نقطہ پر بھی غوروفکر کی ضرورت ہے۔ دلت طلباء و طالبات کے ساتھ ہورہے بھید بھاؤ اور ظلم و زیادتی کے لیے ہر یونیورسٹی میں ایک اسپیشل سیل کی ضرورت ہے جو خصوصاً دلت طلبا و طالبات کے مسئلے کو سنے سمجھے اور اس کا حل پیش کرے۔ اسی طرح سے اقلیتی طلباء و طالبات کے لیے بھی ایک اسی طرح کے ’’اسپیشل سیل‘‘ کی ضرورت آج کے اس ماحول میں ہے۔