دنیا کے مختلف ممالک ومذاہب اپنی سب سے بڑی طاقت کی بنیاد پر، جو دشمن کے لیے ناقابل تسخیر ہوتی ہے،سپر پاور باور کیے جاتے ہیں۔امریکہ کودنیا کا ملٹری سپرپاور اور جاپان کوانڈسٹریل سپر پاورتصور کیا جاتا ہے۔ مذاہب و نظریات کے محاذ پردین اسلام نظریاتی سپر پاور ہے۔ہمارے ملک ہندوستان کی سب سے بڑی اور ناقابل تسخیر طاقت اس کے طلبہ اور نوجوان ہیں۔کیا ہندوستان دنیا کا یوتھ سپر پاور بن سکتا ہے؟ یوتھ سپر پاور محض ان معنوں میں نہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں ہمارے نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہوبلکہ یوتھ سپر پاور ان معنوں میں کہ عالمی تہذیب و تمدن کے ارتقااورعدل وانصاف پر مبنی ایک پرامن دنیاکی تعمیرمیں ہمارے ملک ہندوستان کے طلبہ و نوجوان دنیاکی امامت کررہے ہوں اور فساد فی الارض کے لیے سرگرداں دنیا کی کوئی طاقت ہندوستان کی اس طاقت کو زیر نہ کرسکے۔
کس عمرکے افراد کونوجوان مانایا جائے، اس کا پیمانہ اقوام متحدہ اور مختلف ممالک میں مختلف ہے۔ہندوستان میں بالعوم 15سے 34سال عمر کے افراد کو نوجوان مانا گیا ہے۔2011کی قومی مردم شماری رپورٹ کے مطابق 2011 میں ہندوستان کی کل آبادی میں نوجوانوں کا تناسب 19.1فیصدتھا۔ یہ تناسب2020تک 34.33فیصد ہوجائے گا۔ 2015میں اقوام متحدہ کی جانب سے شائع شدہ ’ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹ‘کے مطابق ہندوستان سب سے زیادہ نوجوان رکھنے والے ممالک میں دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے پاس 242ملین نوجوان ہیں۔چائنا میں، جس کی مجموعی آبادی ہندوستان سے زیادہ ہے،نوجوانوں کی تعدادہندوستان سے بہت کم185ملین ہے۔ ایک طرف جہاں ہندوستان میں نو عمر آبادی کی تعدادمیں اضافہ ہورہاہے،دوسری جانب ٹھیک اسی وقت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خاص طور سے برطانیہ اور شمالی امریکہ میں خاندانی نظام برباد ہونے کے سبب نوجوانوں کی آبادی میں 1980کے بعد سے مسلسل گراوٹ آرہی ہے۔ہندوستان میں طلبہ وجوانوں کی اس غیرمعمولی تعداد، پھر ان کے اندر موجود زبردست اور متنوع اختراعی صلاحیتوں کو دیکھ کر بہ صد یقین کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان دنیا کایوتھ سپر پاور بن سکتا ہے۔
امریکہ ہو یا جاپان، محض بلند خواب دیکھ لینے یا اپنے دل میں اعلی خواہشیں پال لینے سے سپرپاور نہیں بن گئے۔ ان کا موجودہ مقام و مرتبہ (بہ حیثیت اسلام پسندان سے ہمارے نظریاتی اختلافات سے قطع نظر) ان کی غیر معمولی منصوبہ بندی اور دہائیوں پر محیط جاں گسل محنت و مشقت کا ثمرہ ہے۔ہندوستان کے یوتھ سپر پاور بننے کا خواب بھی محض دل بستگی کے کام آئے گا، اگر خواہش سے آگے بڑھ کراس کے لیے قومی سطح پرسنجیدہ اور منصوبہ بندپروجیکٹ نہ بنایا گیا۔ اس پروجیکٹ کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کئی محاذوں پر توجہ دینا ضروری ہوگا، جن میں سب سے اہم اورکلیدی محاذ تعلیم کا ہے۔بدقسمتی سے ہندوستان میں تعلیم اور نظام تعلیم پر جس انداز سے توجہ دینے کی ضرورت تھی، اس اندازسے اب تک توجہ نہیں دی گئی ہے۔ ملک برطانوی سامراج سے آزاد ہوا، حکومت بنی، حکومتیں بدلتی بھی رہیں، لیکن تمام سیاسی جماعتوں نے تعلیم کے ساتھ ایک ہی قسم کا مجرمانہ طرزسلوک اختیارکیا۔تعلیم اور نظام کو دانستہ اور نادانستہ ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔
اس وقت تعلیم اور نظام تعلیم سے متعلق مسائل دو نوعیت کے ہیں۔ایک کا تعلق نظام تعلیم کی نظریاتی اور فلسفیانہ بحث سے ہے اور دوسرے کاتعلق نظام تعلیم کے نفاذ سے۔ برطانوی ماہر تعلیم لارڈ میکالے کے افکار وخیالات سے تحریک پایاہواجو نظام تعلیم ہندوستان میں رائج ہے،اس کے ناقص ہونے پر کئی پہلوؤں سے نظریاتی اور فلسفیانہ گفتگو کی جا سکتی ہے۔اس نظام تعلیم کا سب سے مہلک نقص یہ ہے،جو دراصل جدید سیکولر تہذیب کا سب سے بڑا نقص ہے، کہ یہ انسان کو خالص مادہ پرستانہ طرزفکر ونظر رکھنے والا حیوان نما انسان بناتا ہے۔ مادہ پرستانہ طرز فکر ونظر وہ بنیادی بگاڑ ہے جو محض ایک فرد تک محدود نہیں رہتا،بلکہ فرد سے خاندان،خاندان سے معاشرہ اوربالآخر تمام انسانی سماجی اقدارو روایات کو اپنی چپیٹ میں لے لیتا ہے۔اس وقت سماج میں انتشارذہنی،تشتت فکری، فساد عملی اوراباحیت جنسی کی جووبا پھیلی ہوئی ہے وہ دراصل مادہ پرستانہ ذہن کو نشوونما دینے والے اسی نظام تعلیم کا ’فیض‘ہے۔ اس نظام تعلیم کا ’طرہ امتیاز‘یہ ہے کہ یہ اعلی خواب دیکھنے اورزندگی کے بلند نصب العین اختیار کرنے کی انسانی فطرت کو کچل دیتا ہے۔اس نظام تعلیم کا حصہ بننے سے انسان کا پیٹ،سر پر سوار ہوجاتا ہے۔ انسانی زندگی کی ساری توانائیاں، اس کی دولت وصلاحیت محض دوروٹی اور دوبوٹی حاصل کرلینے کے لیے صرف ہوتی ہیں۔زندگی سے متعلق انتہائی اہم سولات مثلا اس کا اور اس کائنات کا کوئی خالق بھی ہے یا نہیں، اگر ہے تو وہ کون ہے اور اس نے یہ ہنگامہ شب وروز کیا یوں ہی برپا کردیا ہے یا اس کے پیچھے اس کی کوئی اسکیم بھی کارفرما ہے؟ وغیرہ کے جواب حاصل کرنے کی جستجو اس میں باقی نہیں رہ جاتی۔اسے اس امر سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا کہ اس کے ملک میں کتنے افراد بھوکے،ننگے اور بے گھر ہیں۔اس میں خیر وشر میں تمیز کی فطری صلاحیت باقی نہیں رہتی، لہذااسے اس بات کی بھی فکر نہیں ہوتی کہ اس کے ملک میں خیر کا دائرہ وسیع ہورہا ہے یا شر پنپ رہا ہے۔انسان اپنی فطرت میں تین قسم کے میلانات رکھتا ہے؛ روحانی میلان، مادی میلان اور جمالیاتی میلان۔ان تینوں کی اہمیت یکساں ہے۔ ایک بہتر نظام تعلیم کا کام یہ ہے کہ وہ انسان کے ان تینوں میلانات کی اچھی تربیت کرے۔ لیکن موجودہ نظام تعلیم کا المیہ یہ ہے کہ یہ انسان کے صرف ایک،مادی میلان کو خاطر میں لاتا ہے،جب کہ روحانی اور جمالیاتی میلان کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے۔کسی بھی نظام تعلیم و تدریس کا اصل کام یہ ہے کہ وہ طلبہ میں تنقیدی سوچ کی پرورش کرے، ان کی تجزیاتی صلاحیتوں کو جلا بخشے۔لیکن موجودہ نظام تعلیم کا ایک بڑا نقص یہ بھی ہے کہ یہ طلبہ میں تنقیدی سوچ پروان چڑھانے کی بجائے انہیں محض انفارمیشن باکس بنانے پر اکتفا کرتا ہے۔اس قسم کے اور بھی اہم نقائص ہمارے مروجہ نظام تعلیم میں موجود ہیں لیکن ان کا تذکرہ کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
ہندوستان میں تعلیم کے تعلق سے دوسرا اہم مسئلہ اس کے نفاذ کے حوالے سے رہاہے۔ نفاذ کے حوالے سے بھی مسائل متعدد ہیں لیکن یہاں صرف دو کے ذکر پر اکتفا کیا جائے گا۔ایک مسئلہ تعلیم کو تمام بچوں کے لیے قابل حصول بنانے کا ہے اور دوسرا معیاری تعلیم فراہم کرنے کا۔ ملک کوآزادہوئے بہتّرسال ہوچکے ہیں لیکن ملک کے تمام بچوں کے لیے تعلیم کو قابل حصول بنانا،ہنوز ایک خواب ہے۔حق تعلیم قانون2009- کے تحت چھ سال سے چودہ سال کی عمر کے طلبہ کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا قانون 2009سے متعارف ہے، اعلی تعلیم میں پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لئے رزرویشن موجود ہے، غریبی کسی طالب علم کے لیے حصول تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اس کے لیے نوع بہ نوع سرکاری اسکیموں اور وظیفوں کی سہولت بھی موجود ہے، لیکن ملک کی بیوروکریسی میں ہر سطح پر موجود گھناؤنی بدعنوانی کے گھنے جال نے بچوں اور طلبہ کو ان تمام سہولیات سے عملامحروم کررکھا ہے۔یہ اس بات کا صاف ثبوت ہے کہ ملک کے افراد میں صالح اقدار کو فروغ دیے بغیر محض قانون سازی سے ملک کے مسائل صحیح معنوں میں حل نہیں ہوسکتے۔معیاری تعلیم کی بھی یہی صورت حال ہے۔ بلند وبانگ نعروں کی بنیاد پر اقتدار میں آنے والی حکومتیں سرکاری اسکولوں میں اعلی سہولیات تو کجا، بنیادی سہولتیں بھی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ملک کی اکثر ریاستوں میں سرکاری اسکولوں کی مخدوش عمارتیں، اس کے علاوہ پینے کے لیے صاف پانی، صحت افزا آب و ہوا، پرتغذیہ مڈ ڈے مِیل، بیت الخلا، تختہ سیاہ، پختہ فرش والی کلاس روم،معیاری اساتذہ اور کھیل کود کے میدانوں کا فقدان ملک میں معیار تعلیم کی مکمل داستان بیان کرتا ہے۔ لوک سبھا انتخاب 2019کے موقع پر جب کہ ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتیں اپنا انتخابی منشور ترتیب دے رہی ہیں، ملک کی اسلامی طلبہ تحریک اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا نے ایک بیدار اور ڈائنامک طلبہ تحریک کا ثبوت دیتے ہوئے ایک طلبائی منشور شائع کیاہے۔رفیق منزل کا یہ شمارہ (اپریل 2019)اسی طلبائی منشور پر مبنی ایک خصوصی اشاعت ہے۔ اس طلبائی منشور میں ملک کے طلبہ اور نوجوانوں کے مسائل کو قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ مسائل کے حل کے لیے تجاویز و مطالبات بھی پیش کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرکے ان سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ طلبائی منشور کو بھی اپنے انتخابی منشور میں جگہ دیں۔ عوام،بالخصوص طلبہ اور نوجونوں سے بھی گزارش کی گئی ہے کہ وہ اپنا ووٹ ان ہی سیاسی جماعتوں کے حق میں دیں جو اپنے انتخابی منشور میں طلبہ اور نوجوانوں کے مسائل کو حل کرنے کا عزم کرتی ہیں۔اگر ایسا ہوتا ہے اور برسراقتدار آنے کے بعد سیاسی جماعتیں طلبائی منشور پر عمل بھی کرتی ہیں تو ہندوستان کے لیے دنیا کا یوتھ سپر پاور بننے کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔