کیا ہر ہندوستانی ہندو ہے؟

ایڈمن

لغت میں ایک لفظ کے لئے کئی معانی ہوتے ہیں لیکن جب یہ لفظ کسی جملہ میں استعمال ہوتا ہے، تو اس کے خاص معنی ہوتے ہیں، اسی طرح جب کوئی لفظ اصطلاح (Terminology ) بن جاتا ہے تو اس…

لغت میں ایک لفظ کے لئے کئی معانی ہوتے ہیں لیکن جب یہ لفظ کسی جملہ میں استعمال ہوتا ہے، تو اس کے خاص معنی ہوتے ہیں، اسی طرح جب کوئی لفظ اصطلاح (Terminology ) بن جاتا ہے تو اس کے ایک خاص معنی و مفہوم ہوتے ہیں، اس سے عام معنی مراد نہیں لئے جاتے ہیں۔ اصطلاح کا استعمال کرتے ہی ایک قسم کا مفہوم اور پس منظر ذہن میںآجاتا ہے مثلاً حج کسی مقدس مقام کی زیارت کو کہتے ہیں، لیکن حج ایک اسلامی اصطلاح ہے، چنانچہ ہر مقدس مقام کی زیارت کو حج نہیں کہا جائے گا،بلکہ حج کا لفظ بولتے ہی ایک خاص عبادت کا نقشہ ذہن میں گھوم جائے گا جس میں لوگ طواف کرتے اور خدا کی کبریائی بیان کرتے نظر آتے ہیں، چنانچہ ہم ہر زیارت کو حج اور ہر طرح کے زائرین کو حاجی نہیں کہتے ۔ لیکن بعض اوقات الفاظ کے جادوگر ان ہی معروف الفاظ اور اصطلاحوں کا اس خوبی سے استعمال کرتے ہیں کہ صاحب فہم آدمی بھی خواہ تھوڑی دیر کے لئے، لیکن اس کے سحر میں آجاتا ہے۔ اب یہ قاری کے فہم پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح الفاظ کے پیچوں سے بچ کر اصل مفہوم تک پہنچتا ہے ؂
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
پچھلے دنوں ایسا ہی ایک بیان آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کی طرف سے آیا ہے، بھاگوت کہتے ہیں:
’’ اگر انگلینڈ میں رہنے والے انگریز ، جرمنی میں رہنے والے جرمن اور امریکہ میں رہنے والے امریکی ہیں تو ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگ ہندوکیوں نہ کہلائیں۔ ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگ ہندو ہیں، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں‘‘۔
اگر ایک عام ہندوستانی کی نظر سے اس بیان کو دیکھا جائے تو سادہ سا مطالبہ ہے جس میں منطق بھی ہے اور اپیل بھی، لیکن یہ بیان جتنا سادہ نظر آتا ہے اتنا ہے نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک خاص ذہنیت چھپی ہوئی ہے، اس لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ لفظ ہندو کے کیا معنی ہے ؟ ایک عام ہندوستانی اس سے کیا مراد لیتا ہے۔بھاگوت جب ہندو لفظ کا استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی کیا مراد ہوتی ہے، اور ان سب سے بڑھ کر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس میں کیا قباحت ہے، اوراسلام اس سلسلہ میں اپنا کیا موقف رکھتا ہے ۔
ہندو لفظ کا قدیم استعمال جغرافیائی اصطلاح کے طور پر تھا، اس علاقہ کو یہ نام قدیم زمانے میں ایرانیوں نے دیا تھا، یہ لفظ سندھ سے بنا ہے، فارسی میں س کو ’’ہ‘‘ سے بدلنے کا رواج ہے۔ اس لئے انھوں نے سندھ کو ہند کردیا۔ سندھو دریائے سندھ کو کہتے ہیں، جو تبت کی برف پوش چوٹیوں سے نکل کر ہندوستان و پاکستان سے ہوتے ہوئے بحر عرب سے جاملتا ہے، اسی لئے دریائے سندھ کے مغرب میں رہنے والے لوگ یعنی ایرانی اس کے مشرق میں بسنے والے لوگوں کو سندھو کے نام سے پکارتے تھے ۔ وہیں سے رواج پاکر یہ لفظ ہندو بن گیا ہے۔ ہندو کے معنی یہ ہوں گے کہ جو دریائے سندھ کے اس پار بستے ہیں ۔ ابتداء میں یہ جغرافیائی نام تھا اس کا کسی مذہب ، تہذیب ،کلچر اور روایت سے کسی درجہ کوئی تعلق نہ تھا۔
گیوین فلڈ (Gavin Flood)کے مطابق:
’’ ہندو لفظ ابتدا میں ایک فارسی اصطلاح کے طورپر استعمال ہوا تھا، ان لوگوں کے لئے جو دریائے سندھ کے اس جانب رہتے تھے ، ہندولفظ کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح ہندو لفظ کا استعمال سنسکرت میں بھی ہوا ہے، جو کتابیں پندرہویں اوراٹھارہویں صدی کے درمیان لکھی گئی ہیں اُن کتابوں میں غیر ہندو اقوام کے لئے ملیچھ اور یاوناس جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ یورپی طاقتوں کے آنے سے پہلے ہندوستانی معاشرہ ذات ، جماعت ، فرقہ اور جغرافیائی بنیاد پر بٹا ہوا تھا۔ مہاراشٹر کے برہمن کو بنگال کے برہمن سے کوئی تعلق نہ تھا، کیونکہ کہ دونوں کے رسم ورواج ، عبادات ،کتابیں اور مقد س شخصیات الگ الگ تھیں، کوئی قدر اِن میں مشترک نہ تھی جو ان کو متحدہ قومیت کا احساس دلاسکے ۔ ‘‘
پہلی مرتبہ جب انگریزوں نے یہاں مردم شماری کی تو ان کو یہ دقت پیش آئی کہ ہندو مذہب کی تعریف کس طرح کی جائے، کیونکہ نہ ان کا مشترک خدا ہے، نہ کتاب، اور نہ ہی مشترک رسم و رواج، چنانچہ ہندو کی تعریف اس طرح کی گئی:
’’ ہندو وہ ہے جو نہ مسلم ہے نہ عیسائی، نہ بدھ مت کا پیرو نہ جین، اور نہ سکھ ہے ‘‘۔
اسی طرح سوامی وویکانند نے اس کو یوں بیان کیاہے:
’ ’ ہندو وہ ہے جو اپنے آپ کو ہندو سمجھے ‘‘۔
اسی طرح ایک دوسرا مصنف لکھتا ہے:
’’جو گائے کی پوجا کرے وہ ہندو ہے ‘‘ ۔
انیسویں صدی میں جب ہندوؤں میں نشأۃ ثانیہ کی تحریک چلی جس نے ہندوستانی معاشرہ کو یکجا کرنا شروع کیا، تو ا س وقت ہندو مت کے بجائے سناتن دھرم کا نام دیا گیا ۔ اس مہم میں آریہ سماج، برہمو سماج ، سوامی ویویکانند وغیرہ نے اہم رول ادا کیا ہے ۔
یہ اس لفظ کی حقیقی تاریخ ہے لیکن ہندو مذہب کی تاریخ میں زبردست موڑ اس وقت آیا جب ساورکر نے ہندوتو کی نئی اصطلاح اور ہندو لفظ کی نئی تعریف پیش کی ۔ ساورکر چونکہ قوم پرست رہنما تھا اس لیے اس نے اپنی کتاب ’’ہندوتو ۔ہندو کون ہے؟‘ ‘ میں ہندو کی تعریف یوں کی ہے:
’’ ہندو وہ ہے جو اس بھارت ورش ، سندھ سے سمندر تک کو اپنا آبائی وطن (جنم بھومی) اور مقدس سرزمین (دھرم بھومی) جانتا ہو‘‘۔
ساورکر کی تعریف کے مطابق کسی بھی شخص کے ہندو ہونے کے لئے دو شرائط ہیں:
(۱) یہ زمین اس کی آبائی زمین ہو۔
(۲) اس کا مذہب بھی یہیں پیدا ہوا ہو ۔
ساورکر کی تعریف سے سامی مذاہب یا براہیمی مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت ہندو کی تعریف سے خود بخود باہر ہوگئے، اس کے بالمقابل دوسرے مذاہب مثلاً بدھ ازم ، سکھ ازم وغیرہ ہندو کی تعریف میں آگئے۔ ساورکر کے پاس ہندوتو کا کوئی واضح تصور نہیں تھا، اس لئے ساورکر نے ہندومت کی بنیاد وطنیت پر رکھی اور اسے ہندوتو کا نام دے دیا۔ اسی طرح آر ایس ایس کابانی پہلا سنگھ سرچالک ہیڈگیوار اسی کو واضح کرتے ہوئے اپنے کتابچہ میں لکھتا ہے:
’’ کسی مخصوص خطے میں رہنے والے لوگ ایک قوم ہوں ضروری نہیں ہے ،بلکہ راشٹر نام ہے ایک قوم ،ایک مذہب، ایک تعریف ، ایک نسل ، ایک ہی روایت اور ایک ہی ذہن و فکر کے لوگوں کے ایک مخصوص خطے میں رہنے کا ۔ اگر مختلف اقوام اور مختلف تاریخ و روایات کے حامل افراد ایک ساتھ رہتے ہوں تو وہ ایک ملک نہیں کہلائے گا ۔ ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے اور یہ ہندوؤں کی آبائی سرزمین ہے۔ ان کی تاریخ، مذہب، اور روایات ایک ہی ہیں اس لئے یہ ملک صرف ہندوؤں کا ہے، مسلمان ،عیسائی یا دیگر عناصر خارجی اثرات کا نتیجہ ہیں، ان کو اس ملک میں رہنے کا حق نہیں ہے، اس لئے ہندوؤں کا اولین فریضہ ہے کہ اپنے وطن کو اپنے لئے خالص کریں اور غیر ملکی عناصر کو ملک بدر کریں‘‘۔ ( Amrutvachan-published in 2004 by Pustakmala Prakashan, Nagpur, Maharashtra, English translation is available online only.not published yet )
ساورکر نے ہندوتو کی بنیاد وطن پرستی پر رکھی، لیکن گولوالکر جو آر ایس ایس کا دوسرا چیف تھا، اور سنگھ کی فکری و نظریاتی اساس کو جس نے مربوط طریقے سے واضح کیا ہے، اس نے اس کو ایک قدم آگے بڑھاکر مذہب سے جوڑ دیا ،گولوالکر کا دعوی تھا کہ دنیا میں صرف یہی وہ زمین کا خطہ ہے جہاں خدا بنفس نفیس تشریف لایا ہے، اس لئے یہ نہ صرف دھرم بھومی (مقدس سرزمین) ہے، بلکہ موکش بھومی (نجات کی سرزمین) بھی ہے۔ Bunch of Thoughts میں وہ لکھتا ہے:
’’ ایک ہندو کو اپنے ورثہ میں کیا ملتا ہے، سنسکرت ، ہندو تہذیب ، ہیروز ، لٹریچر ، آرٹ ، قانون ، مشترکہ روایات ، تہوار ، عبادات ، رسومات اور تقریبات، یہ تمام چیزیں صرف ہندوؤں میں مشترک ہیں نہ عرب یا انگریزوں میں ‘‘۔
اسی کتاب میں وہ آگے لکھتا ہے:
’’ آدمی اگر عیسائیت یا اسلام قبول کرتا ہے تو اس وقت وہ ہم وطن نہیں تسلیم کیا جائے گا حالانکہ وہ مشترک تہذیب رکھتا ہوگا۔ لیکن دوسرے ہندوؤں کی طرح ہندوستان اس کا آبائی وطن تو ہوسکتا ہے لیکن یہ اس کے لئے دھرم بھومی نہیں رہے گا۔ اس کی دھرم بھومی عرب یا فلسطین ہوگی۔ اسی طرح اس کا نام اور لباس اس کے بیرونی ہونے کی نمائندگی کرے گا۔ اس کی محبت تقسیم ہوگی، ہندومت میں اس کی واپسی ممکن ہے لیکن ان لوگوں کے لئے نہیں جو اپنی مقدس زمین یہاں کے علاوہ کہیں اور مانتے ہوں‘‘۔
گولوالکر ساورکر سے آگے جاکر مسلمانوں کو قبول کرنے کے لئے تیار دکھائی دیتا ہے اس شرط پر کہ وہ اپنی تہذیبی شناخت کو ختم کرکے ہندوستانی روایات میں ضم ہوجائیں ۔ یہ نرم ہندوتو کی جانب پہلا قدم تھا،We and our nationhood define میں وہ لکھتا ہے:
’’ہندوستان کے غیر ہندو لوگوں کو ہندو کلچر اور زبان اختیار کرنی چاہیے، ہندو مذہب کا احترام کرنا چاہیے، اسے مقدس سمجھنا چاہیے ، اس کے خلاف کبھی ان کے دل میں خیال بھی نہ آنا چاہیے ،انھیں اس سرزمین کی قدیم روایا ت کے لئے ناشکری اور عدم رواداری ترک کردینا چاہیے، اس سے محبت اور قلبی لگاؤ کا اظہار کرنا چاہیے، اس بات کو ایک لفظ میں یوں بیان کی جاسکتا ہے کہ انھیں غیر ملکی نہیں رہنا چاہیے مکمل طور پر ہندو ماتحتی قبول کرلینی چاہیے، کسی دعوے اور حق کے بنا یہاں رہنا چاہیے، ان کے ساتھ کوئی ترجیحی سلوک نہیں ہوگا، بلکہ ان کو شہریت کے حقوق بھی حاصل نہیں ہوں گے‘‘۔
اسی نرم ہندوتو کی تشریح اٹل بہاری واجپئی نے 1998 میں اس طرح کی تھی:
’’ مکہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے مقدس مقام اب بھی قائم رہے گا لیکن انھیں ہندوستان ، مکہ سے زیادہ عزیز ہونا چاہیے۔ آپ مسجد میں جاسکتے ہو، نماز ادا کرسکتے ہو، روزہ رکھ سکتے ہو، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر آپ کو مکہ و اسلام اور ہندوستان میں سے کسی ایک کو چننا ہو تو آپ کو ہندوستان ہی کو چننا پڑے گا ۔ تمام مسلمانوں میں جذبات ہونے چاہئیں کہ وہ اس ملک کے لئے جئیں اور اس ملک کے لئے مریں‘‘۔(The Nation 24 January 1998)
اوپر کی تمام تحریروں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موہن بھاگوت جب ہندو لفظ بولتے ہیں تو اس سے ان کی مراد جغرافیائی تعریف نہیں ہوتی ہے، بلکہ ساورکر اور گولوالکر والا ہندو مراد ہوتا ہے ۔ وہ ایسے مسلمان چاہتے ہیں جو نماز ، روزہ کی چاہے تو پابندی کریں لیکن ان کی زبان ، تہذیب ، اخلاق اور آداب ہر چیز پر ہندوانہ تہذیب کا غلبہ ہو۔ دھرتی جن کی ماں اور وطن جن کا الٰہ ہو،ان کے بچے دیو مالائی اور افسانوی کرداروں کو اپنا ہیرو تسلیم کریں، وہ اپنا تعلق ایک آفاقی مذہب سے توڑکر خود ساختہ ہندو کلچر میں ضم ہوجائیں، جو وضع قطع میں بھلے مسلمان نظر آئیں لیکن ان کا وجود، اور ان کی تہذیب وطن پرستی کے بت کے آگے سجدہ ریز ہو ۔
بلا شبہہ وطن کی محبت ایک فطری جذبہ ہے، اور اسلام دین فطرت ہے۔ انسان جہاں پیدا ہوتا ہے اور جس ماحول میں پلا بڑھا ہوتا ہے اس علاقہ سے محبت ہونا فطری امر ہے، خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مکہ سے نکالے گئے تھے لیکن اس کی یاد اِن کو ستاتی تھی، وہ ان کا قدیم اور محبوب وطن تھا، حضرت بلالؓ مکہ میں اس قدر ستائے گئے تھے لیکن جب ان کو مکہ یاد آتا تو روتے تھے، اور یہ اشعار پکار اٹھتے: ’’ آہ کیا پھر کبھی وہ دن آسکتا ہے کہ میں مکہ کی وادی میں ایک رات بسرکروں اور میرے پاس اذخیر اور جلیل ہو ‘‘۔ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کررہے تھے تو آپ ؐ کی آنکھیں نم تھیں، اور آپ نے فرمایا: ’’ مکہ تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے لیکن تیرے فرزند مجھ کو رہنے نہیں دیتے ‘‘۔ (سیرت النبی، علامہ شبلی)
اسلام وطن کی محبت، اس کی تعمیرو ترقی اور حفاظت، ان تمام چیزوں سے نہیں روکتا، بلکہ اس کا اعتراض وطن کی پرستش کرنے اور اس کو الٰہ بنانے پر ہے۔ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور وہ آفاقیت ہی میں یقین رکھتا ہے۔ اسی بات کو مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ یوں بیان کرتے ہیں:
’’ فطرت انسانی کے دائمی عالمگیر اور بے لاگ قانون کا نام اسلام ہے، اس کو انسان پر منکشف کرنے والا وہی فاطر کائنات ہے جس نے انسان اور سارے جہان کی فطرت بنائی ہے، یہ کسی قوم پرست کا تخیل نہیں جو ساری دنیا کو اپنی قوم کے مفاد و مصالح کی نظر سے دیکھتا ہے، یہ کسی طبقاتی لیڈر کی فکر نہیں جو سارے معاملات پر ایک طبقہ کے نقطہ نظر سے نگاہ ڈالتا ہو۔ یہ تو رب العالمین کی ہدایت سے ماخوذ ہے اور رب العالمین وہ ہے جس کی نگاہ میں سب انسان یکساں ہیں، وہ انسان کو انسان کی حیثیت سے دیکھتا ہے نہ ہندی ، جرمن اور اٹالین کی حیثیت سے یا مزدور ، کسان اور سرمایہ دار کی حیثیت سے، اس کو اشخاص اور قوموں سے دلچسپی نہیں ہے بلکہ اس کو انسان سے دلچسپی ہے ۔ ‘‘(اسلامی سیاست، حصہ سوم، صفحہ ۱؍)
علامہ اقبال کے بقول:
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فروانی
بتانِ رنگ و خوں کو توڑکر ملت میں گم ہوجا
نہ تو رانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
اسلام میں وطن پرستی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے، یہاں انسان کی فضیلت اس کے وطن اور قوم کے بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان اور تقویٰ کے بنیاد پر ہے۔ ابوجہل اور ابو لہب ہم وطن اور ہم قوم ہونے کے باوجود ملعون قرار پائے جبکہ فارس کے سلمانؓ ، روم کے صہیبؓ اورحبش کے بلالؓ مختلف وطن اور قوم کے ہونے کے باوجود کامیاب قراردیئے گئے۔ جو چیز تمام انسانوں کوایک رشتے میں پروتی ہے وہ ایمان ہے، زبان ، رنگ ، نسل ، وطن، ان تمام چیزوں کی اس کے پاس کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ دریا ،پہاڑ ، ریگستان ، سمندر اس طرح کی جغرافیائی حدبندیاں اس کے یہاں کوئی معانی نہیں رکھتیں بلکہ اس کے نزدیک تو یہ سب بت ہیں جن کا توڑنا ضروری ہے۔
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑ ا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
(کلیات اقبال، بانگ درا، نظم بعنوان: وطنیت)
رہا سوال ہندوستان کے متعلق تو اس بارے میں ہمارا وہی نظریہ ہے جو ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابولاکلام آزادنے گانگریس کی صدارت سنبھالنے کے بعد کہا تھا:
’’ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں مسلمان ہوں، اسلام کی1300 سال کی شاندار روایتیں میرے حصہ میں آئی ہیں، میں اس بات کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع کروں۔ مجھے ایک ہندوستانی ہونے پر فخر ہے، میں اس ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہوں، میرے بنا اس کا نقشہ نامکمل ہے، میرے بنا اس کی تعمیر ناممکن ہے، یہ میرا دعوی ہے کہ اسلام کا اس سرزمین پر ویسا ہی حق ہے جیسا ہندوازم کا ہے، اگر ہندو ازم ہزاروں سال سے یہاں کا مذہب ہے تو اسلام بھی ایک ہزار سال سے یہاں کا مذہب ہے، جس طرح ایک ہندو فخر کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہے کہ وہ ہندوستانی ہے اور ہندوازم کی پیروی کرتا ہے، اسی طرح ہم بھی فخر کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں ہم ہندوستانی ہیں اور اسلام کی پیروی کرتے ہیں ۔ ‘‘(Congress Presidential Addresses, Volume Five: 1940-1985, ed. by A. M. Zaidi (New Delhi: Indian Institute of Applied Political Research, 1985), pp. 17-38.)

شبیع الزماں، پونہ۔ مہاراشٹر

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں