نو ڈیٹینشن پالیسی:
توصیف مڈیکیری
2016 میں سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن (CABE) نے ’نوڈیٹینشن پالیسی‘کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کئی ریاستی حکومتوں نے بھی یہی تجویز پیش کی۔ حق تعلیم قانون کے تحت نو ڈیٹینشن پالیسی کو متعارف کرانے کا مقصد ڈراپ آؤٹس کی تعداد میں کمی لانا تھا۔ سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن کا خیال تھا کہ جب غریب اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو امتحانات میں ناکام کرکے سال دہرانے پر مجبور کیا جاتا تھا تو ایسے طلبہ دوبارہ کبھی اسکول واپس نہیں آتے تھے۔اس صورت حال کا سدباب کرنے کے لیے انہوں نے خاص طور پر پسماندہ طبقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، نو ڈیٹینشن پالیسی متعارف کرائی۔
حق تعلیم قانون2009نے نو ڈیٹینشن پالیسی کو متعارف کرایا، جس کے تحت اول جماعت سے ہشتم جماعت تک طلبہ کو سال دہرانا نہیں پڑے گا۔اسی طرح اس پالیسی میں چند ضابطوں کو بھی رو بہ عمل لایا گیا۔ مثلا ہر 30 طالب علم پر ایک مدرس، کند ذہن رکھنے والے طلبہ کے لیے اضافی امدادی کلاسیں، مسلسل اور کثیر جہتی جانچ وغیرہ۔ جانچ کے اس نظام کا اصل مقصد طلبہ کی اسکول میں موجودگی کے دوران اُن کی نشوونما کے تمام پہلوؤں کی جانچ کرنا اور ہر بچے کی صلاحیت کی شناخت کرکے اس کی تربیت کرنا ہے۔ اس قانون سے بہت ہی معمولی اور ناقابل ذکر فائدہ حاصل ہوا۔ صرف نو ڈیٹینشن پالیسی کو صحیح معنوں میں متعارف کروایا گیا، جب کہ باقی ماندہ تمام منصوبے نا مکمل ہی رہے۔
اب حکومت کہتی ہے کہ نو ڈیٹینشن پالیسی کی وجہ سے تعلیم میں طلبہ کی دلچسپی کم ہوئی ہے، کیوں کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ سال کے آخر میں وہ کامیاب ہوہی جائیں گے، تعلیم کا معیار پست ہواہے،اکثر طلبہ پڑھنا، لکھنا یا شمار کرنا بھی نہیں جانتے۔ تعلیم کے پست ہوتے معیار اور بچوں کے غیر اطمینان بخش نشوونما کو دیکھتے ہوئے حکومت نے دوبارہ جماعت پنجم سے جماعت ہشتم تک کے لیے اس پالیسی کو متعارف کروانے کا منصوبہ بنایا۔
حق تعلیم قانون کے حوالے سے گزشتہ چند سالوں کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اس قانون میں زیادہ اہمیت صرف نشستوں میں اضافہ کرنے اور معاشی اعتبار سے پسماندہ طلبہ کے لیے پرائیویٹ اسکولوں میں 25 فیصد مفت نشستیں رکھنے کودی گئی تھی۔
سرکاری اسکولوں میں انفراسٹرکچر سے متعلق ترقی یا مدرسین کی تربیت اور دیگر بنیادی ضروریات پر سب سے کم توجہ دی گئی۔ نتیجہ کے طور پر قومی سطح پر لاکھوں اسکول بند ہوگئے۔ پرائیویٹ اسکول جو معاشی اعتبار سے پسماندہ طلبہ کو 25 فیصد مفت نشستیں فراہم کرتے ہیں، حکومت سے رقم وصول کرتے ہیں۔ یہ حکومت کے عطیات پر مبنی پرائیویٹائزیشن ہے۔ اب سرکاری اسکولوں کی تعداد گھٹ کر پرائمری اسکول 75 فیصد، ہائی اسکول 47 فیصد اور ہائر سیکنڈری اسکول 43 فیصد ہوچکی ہے۔ اگر سرکاری اسکول اسی سرعت سے بند ہوتے رہے تو خدشہ ہے کہ معاشی اعتبار سے پسماندہ طلبہ کے لیے تعلیم کا دروازہ بالکل بند ہو جائے گا۔یہ صورت حال براہ راست پسماندہ طبقات کو متاثر کرے گی کیوں کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کی اکثریت کا تعلق ان ہی طبقات سے ہوتا ہے۔ پرائیویٹائزیشن اب اپنی عروج پر پہنچ چکا ہے اور یہ یقینی طور پر تعلیم کے کمرشیلائزیشن کی راہ ہموار کرے گا۔
حق تعلیم قانون کو نافذ ہوئے اب تقریباً آٹھ سال ہوچکے ہیں، حق تعلیم قانون سے پہلے کی سروے رپورٹیں صاف طور پر بتاتی ہیں کہ تعلیم کی ویسی ہی تھی جیسی اب ہے۔ تعلیم کے معیار میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ اس صورت حال کے لیے صرف حق تعلیم قانون کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ تعلیم میں رکاوٹ کی اصل وجہ مدرسین کی عدم دستیابی ہے یا اسکول میں مدرسین کی غیر حاضری یا اسکول میں نیم لیاقت یافتہ اساتذہ ہے۔ گزشتہ برس لوک سبھا کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر برائے فروغ انسانی وسائل نے کہا کہ ”اس وقت مدرس کے منصب کے لیے تقریباً 4,97,000 آسامیاں خالی ہیں اور تقریباً 400000 اساتذہ جزوقتی اور گیسٹ ملازم کے طور پر کام کررہے ہیں۔“ مدرسین کی تربیت کے لیے ہمارا نظام تدریس فرسودہ ہوچکا ہے۔ اکثر مدرسین نے بی ایڈ کی ڈگری فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعے حاصل کی ہے۔بی ایڈ میں طلبہ کی نفسیات کی معرفت ضروری ہے؛ لیکن فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعے اساتذہ میں یہ لیاقت بھی پیدا نہیں ہورہی ہے۔جنوبی ہند میں پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے مدرسین کی تربیت کے تقریباً 12,17,784 ادارے چل رہے ہیں، جب کہ مدرسین کی تربیت کے سرکاری اداروں کی تعداد محض 78017 ہے۔ ان اعداد و شمار کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مدرسین کی تربیت کے اداروں تک کو پرائیویٹائز کیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ محض ڈگری کے حصول کے لیے ہے، طلبہ پیسہ ادا کرتے ہیں اور ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ تعلیم کے معیار میں گراوٹ کے لیے ’نو ڈیٹینشن پالیسی‘ کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے، حکومت، متعلقہ شعبہ جات اور تنظیموں کو ایک چھت تلے آنا چاہیے اور اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ممکنہ حل تلاش کرنا چاہیے۔