سوال: اخلاقیات کی تعریف کیا ہے؟ اگر اچھائی اور برائی کا شعور انسان کی فطرت کے اندر ودیعت کردیا گیا ہے تو پھر مذہب کی ضرورت کیا ہے؟ اسی طریقے سے کیا انسان کی فطرت موقع و محل کے اعتبار سے تبدیل ہوتی ہے؟ مثلاً جسم ڈھانپنا انسان کی فطرت میں ہے۔ لیکن ہندوستان کے شمالی علاقوں میں کچھ ایسے قبائل ہیں جہاں مرد و عورت ننگے رہتے ہیں۔ اور کچھ قبائل میں سگے بھائی بہن کے درمیان شادی کوئی عیب نہیں۔ کیا ان کا عمل فطرت کے عین مطابق ہے یا خلاف فطرت؟ (عدیل احمد، حیدر آباد)
جواب: آپ نے تصور اخلاق، تصور مذہب اور فطرت کے بارے میں ایک بڑا طویل بحث کا متقاضی سوال پوچھا ہے۔ اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے میں یہ کہوں گا کہ آپ کو اسلام کے تصور اخلاق پر اور انسانی فطرت سے متعلق کتابوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔ البتہ رفیق منزل کے ذریعے اس کا مختصر جواب اس طرح پیشِ خدمت ہے۔
اللہ رب العزت نے انسانوں میں ایک نفس ناطقہ کا وجود رکھا ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ انسانوں کو تمیز کرنا سکھائے۔ بہتر و کہتر، اچھا اور برا، صحیح و غلط وغیرہ۔ یہ نفس ناطقہ ہی ہے جو تمام انسانوں کو ایک جیسا بناتی ہے۔ عدل، امانت داری، محبت وغیرہ کو پسند کرنا اور ظلم، فساد، نفرت وغیرہ سے اِبا کرنا یہ اس نفس کے عمومی پہلو ہیں۔ لیکن انسان کے نفس کی تربیت بھی کی جاسکتی ہے۔ یعنی گوعدل پسندیدہ ہے، لیکن ظلم کا عادی بننا بھی انسانوں کے لئے ممکن ہے۔ نفس میں فرشتوں سی بھی صفات پیدا کی جاسکتی ہیں اور اس میں جانوروں کی بھی صفات در آسکتی ہیں۔ انسانوں سے مطلوب یہ ہے کہ وہ بہیمیت(جانوروں کی صفات) سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرے۔ جو اس کوشش میں جتنا کامیاب ہوگا، اتنا ہی انسانیت کی معراج پر پہنچے گا۔
جب انسان کا نفس بہیمیت کی طرف آمادہ ہو تو بہت سارے غیر معقول اور فساد پر مبنی امور درست اور فطری معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اس لئے کسی معیار کا ہونا ضروری ہے، جو کہ انسان کی فطرت کا دقیق اور معروضی مطالعہ کرنے کے بعد ترتیب دیا جا سکے۔ اس معیار کے ذریعے انسانوں کے لئے ممکن ہو سکے کہ وہ اپنی فطرت کو سمجھ سکیں۔ اگر اس معیار یا پیمانے میں وہ یہ پائیں کہ ان کا نفس بدی اور فساد کی طرف مائل ہے تو ان کو اپنے نفس کی تربیت کرنے کا موقع مل سکے۔ ’مذہب‘ یا شریعت یا خدائی ضابطۂ حیات انسان کی اس ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ وہ انسان کو ایسا ہی ایک معیار فراہم کرتے ہیں جسے انسانوں کی فطرت، انسانوں کے جسم اور انسانوں کے نفس کے خالق نے ترتیب دیا ہے۔ کیونکہ سوائے خالق انسان کے علاوہ کوئی ہستی نہیں جو انسان کی مطلوب کیفیت کادرست اندازہ کر سکے۔ اس لئے اللہ رب العزت کا بنایا ہوا وہ معیار اور ضابطۂ حیات مذہب کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
رہی بات مسخ شدہ فطرتوں کے لوگوں کی بات، جن کی حرکتوں کی مثال آپ نے دی ہے، تو انسان چاہے کیسی ہی تاویلات کر لے لیکن ان کا یہ رویہ فطرت انسانی، معقولیت اور خدائی معیارات کے جملہ تصورات کی نفی کرتا ہے۔
اس کالم کے تحت قارئین کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اپنے سوالات بذریعہ ای میل یا وہاٹس ایپ (اس نمبر 9673022736 پر) بھیج سکتے ہیں۔