صفوا ایم. اے.کے.
میں اندازہ نہیں کر سکتی ہوں کہ اتنی رات گئے آپ لوگ بس اسٹیشن پر کس تکلیف سے گزر رہے ہیں؟ وہ شہر جسے آپنے اپنے خون پسینے سے سینچا اس شہر سے اچانک نکال دئے جانے کے درد سے بھی میں نا آشنا ہوں۔ میں کبھی بھی گھر جانے کے لئے بس کے انتظار میں لمبی قطار میں کھڑے رہنے کے تجربے سے نہیں گذری۔ صاف پانی ، نفیس غذا اور بہترین طبی سہولیات کی کبھی کمی نہیں دیکھی۔
فی الحال مزدور طبقہ جن حالات سے گزر رہا ہے دراصل یہ غریبوں کےساتھ ظلم وزیادتی ہےجو کہ خراب معیشت کا نتیجہ ہے۔ زندگی کے ہاتھوں مجبور ہونے کا احساس میں نہیں سمجھ سکتی ،سماجی دوری (Social Distancing ( جب سب کےلئے آپشن ہو اور آپ چاہتے ہوئے بھی اسے اختیار نہیں کر سکتے یہ جانتے ہوئے بھی کہ تیزی سے پھیلتی ہوئی یہ عالمگیر وبا آپکی جان لے سکتی ہے اور دوسری طرف ہماری حکومت کے پاس سماجی دوری (Social Distancingکے علاوہ کوئی دوسرا حل بھی نہیں ہے۔
میں ہندوستانی سماج کے ایسے طبقے سے تعلق رکھتی ہوں جو تعیشات زندگی سے بھرپور ہیں ، ملک بھر میں لاک ڈاؤن اور کرفیو سے ایک دن پہلےمیں نے اتنی زخیرہ اندوزی کر لی تھی کہ لاک ڈاؤن کے اس عرصے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ اسکے علاوہ دوسرے ضروری سامان میرے گھر کے بہت ہی قریب کی دکانوں پر دستیاب ہیں۔ میں اپنے ہاتھوں کو ہر گھنٹے دھوتی اور سینیٹائز (Sanitize) کرتی ہوں ساتھ ہی مجھے صحت بخش غذا بھی دستیاب ہے جو میری قوت مدافعت کو بڑھائیگا جس سے میں وائرس سے محفوظ رہ سکوں گی۔
اگر مسئلہ صرف کھانے اور پانی کا ہوتا تو میں آپ کو اناج اور کھانے پینے کی دوسری اشیاء فراہم کر کے آپکے غم کو ہلکا کر سکتی تھی مگر جب بات پناہ دینے،نقل مکانی اور جھوپڑیوں میں رہنے والوں کو محفوظ رہائش فراہم کرنے کی ہو تو میں خود کو بے بس پاتی ہوں۔
میرے ذہن میں سوالوں کا ایک ہجوم بپا ہے جسکی وجہ سے میں ڈھنگ سے سو نہیں پا رہی ہوں؛ کیا ہم اپنی ذاتی گاڑیوں سے لوگوں کو انکے گھر پہنچا دیں ؟ کیا ہم سرکار سے اجازت لے کر تمام پرائویٹ ٹراویل ایجنسی کے ساتھ مل کر مزدوروں کو جلد از جلد ان کو گھر پہونچانے کا کام شروع کر دیں؟ (ویسے بھی موجودہ سرکار اپنی توانائی صرف چھوٹی چھوٹی چیزوں میں صَرف کر رہی ہےجیسے ‘اجازت’ دینا اور نا دینا، اور زیادہ تر اچھے کاموں کے لئے اجازت بھی نہیں دیتی ، اور جب بات کام کرنے کی آتی ہے تو ایسے میں سرکار کی کارکردگی صفرہے یاپھر لیٹ لطیف ثابت ہوتی ہے) کیا ہمیں احتیاطاً پرائویٹ سکول، کالیج، خالی دکانیں اور اس طرح کی دوسری جگہوں کو جھوپڑیوں میں رہ رہے اور ضرورتمندوں کے لئے کھول دینا چاہیے؟
ہم سرکار سے گزارش کر رہے ہیں کہ وہ آپکے بقایا جات اور ساتھ ہی ان حالات میں آپکے تئیں سرکار پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے ادا کرے۔ ہم ہرگز آپکو مرنے کے لئے بے سہارا نہیں چھوڑنا چاہتے جبکہ دوسری طرف ہم اپنے گھروں میں سماجی دوری (Social Distancing) بنائے رکھنے میں مشغول ہوں۔ لیکن افسوس! ہماری سرکار ہماری ہی باتوں پر کان نہیں دھرتی۔ سرکار سے میری گزارش ہے کہ کم از کم جب تک ہم اس عالمگیر وبا سے چھٹکارا نہ پالیں تب تک آپکے کے لئے وہ تمام سہولتیں فراہم کرے جس سے کہ آپ محفوظ رہ سکیں ۔
ہماری سرکار کا یہ ماننا ہے کہ عوام کا حکومتی معاملات اور پالیسی بنانے میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، عوام کا کام بس اتنا ہے کہ ووٹ دیں تاکہ جمہوریت باقی رہے اسکے بعد عوام تماشائی بن کر لوگوں کی مصیبتوں اور حکومت کی خراب پالیسی دیکھتی رہے۔ کرونا وائرس سے لڑنے کے لئے حکومت اپنی پالیسی میں لوگوں کی بنیادی ضروریات پر توجہ مرکوز کرے۔ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر شخص کے پاس شیلٹر ہو یا پھرلوگ گھر پر ہوں جہاں وہ مامون و محفوظ ہوں۔ ہم کرونا وائرس سے نہیں لڑ سکتے جب تک ہمارے پاس محفوظ ماحول اور صاف کھانا پانی نہ ہو۔
حکومت کو سکولوں اور کالیجز کو حالیہ دہلی فساد میں بے گھر ہوئے لوگوں اور اچانک کرفیو لاگو کر دینے کی وجہ سے جو مہاجر مزدور اپنے گھر نہیں پہنچ سکے اور بیچ راستے میں پھنس گئے ہیں انکے لئے اور ان تمام کے لئے جو دوسری مصیبتوں کے مارے ہوئے ہیں جن کے پاس سر چھپانے کے لئے چھت میسّر نہیں ہے بطور شیلٹر کھول دینا چاہیے ۔
تیزی سے پھیلتا ہوا وائرس اب ممبئی کے سلَم علاقوں میں پہنچ چکا ہے، حکومت فوری طور پر انکے لئے بہتر رہائشی انتظام کرے۔ جنکے پاس اچھا کھانا اورصاف پانی خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہیں یا پھر پیسے ہیں لیکن ایسی جگہ پھنسے ہیں جہاں دکانیں نہیں ہیں ایسے میں سرکار انہیں مہیا کرائے۔ فی الحال بھارت کو اسرائیل سے کسی لائٹ مشین گَن کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرے، لوگوں کو صحت بخش غذا، صاف پانی ،صاف ستھری رہنے کی جگہ اور ٹرانسپوٹیشن فراہم کرے۔ اس عالمگیر وبا میں مزدوروں کی دردناک صورتحال سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور انکی سرکار کی ترقّیاتی جملے بازی اور کرونا وائرس سے لڑنے کی تدبیریں ناکام ہیں ۔
ہندوستان میں ان حالات میں باشعور لوگوں، سماجی تنظیموں اور این جی اوز نے سرکار سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ ہندوستان کو منظم، خیر خواہ اور حوصلہ مند قیادت کی ضرورت ہے جو مسائل کو حل کرنے میں اور ایمرجنسی احوال میں لوگوں کی محافظ و معاون ثابت ہوں۔
گھر پہنچنے کے لئے آپکا ہر بس کی طرف لپک پڑنے کا منظر مجھے رلائے جاتا ہے ۔آپکی اشک بار آنکھوں میں آپکا درد اور اس ‘انقلابی فیصلے’ کی مار کس پر پڑی صاف ظاہر ہے۔ یہ وبا ٹل جائے اور پھر اگر زندگی رہی تو میں آپ سب کی روز مرہ کی انقلابی زندگی کی داستان سننے کے لئے منتظر رہوں گی۔ پھر ہم سب ساتھ مل کر ایک ایسا سماجی ڈھانچہ تیار کرینگے جو اس طرح کےتباہ کن حالات کو بہتر طریقے سے حل کر سکے۔
میں سچے دل سے آپ لوگوں سے معافی کی طلب گار ہوں اور ساتھ ہی آپکو سلام کرتی ہوں کہ آپنے سب سے مشکل وقت میں بھی امن قائم رکھا۔ اللہ ہم سب کی اس وبا سے حفاظت فرمائے اور جلد از جلد اس مصیبت کو ہم سے ٹال دے۔ آج نہیں تو کل یہ مصیبت ٹل جائیگی لیکن وہ شہر کیسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا اگر پیشہ ور طبقہ (جو شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گیا) دوبارہ شہر کی طرف لوٹے ہی نا ؟ جبکہ شہر کا سنہرا مستقبل مزدور طبقے کی موجودگی پر ہی منحصر ہے۔
(صفوا، جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں)