کمزور کمل اور مضبوط ہاتھ

ڈاکٹر سلیم خان

ڈاکٹر سلیم خان سنگھ پریوار فی الحال ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے کا نعرہ لگا کر بغلیں بجارہا ہےایسے میں کرناٹک کے وزیراعلیٰ کمارسوامی یہ سوال کرکے سب کو چونکا دیا کہ جب ان کے والد ایچ ڈی دیوے گوڑا…

ڈاکٹر سلیم خان


سنگھ پریوار فی الحال ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے کا نعرہ لگا کر بغلیں بجارہا ہےایسے میں کرناٹک کے وزیراعلیٰ کمارسوامی یہ سوال کرکے سب کو چونکا دیا کہ جب ان کے والد ایچ ڈی دیوے گوڑا وزیراعظم تھے تو ایک بھی دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوا تو وہ سب ابھی کیوں ہورہے ہیں ؟ میسور کے اندر ایک عوامی جلسہ سئ خطاب کرتے ہوئے کمار سوامی نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی جب بھی کشمیر جاتے ہیں انہیں بہت سخت حفاظتی انتظامات کی ضرورت پڑتی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کشمیر کے سرحدی علاقوں کے اندر بغیر سخت حفاظتی تام جھام کے کھلی جیپ میں جانے کا شرف صرف سابق وزیراعظم دیوے گوڑا کو حاصل ہوا ہے؟ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک اس وقت مضبوط ہاتھوں میں تھا یا اب ہے ؟ سنگھ پریوار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مودی جی نے ایک چھوڑ چھوڑ دو دو سرجیکل اسٹرائیک کردیئے ۔ اس میں مسعود اظہر کو ہلاک کردیا اور اپنے پائلٹ ابھینندن کو چھڑا لیا۔ یہ سارے اقدامات جوابی نوعیت کے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ملک اگر مضبوط ہاتھوں میں ہے تو ان جوابی کارروائیوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟


اڑی کی چھاونی پر جب حملہ ہوا اس وقت ملک کی زمام کار کس کے ہاتھ میں تھی ؟ اگر وہ ہاتھ مضبوط تھے تو حملہ کیوں ہوا؟ اس حملے کے جواب میں ۲۰۱۶؁ کے اندر پہلا سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا کہ اب پاکستان کبھی ہماری جانب نظر اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں کرے گا اس لیے کہ اسے پتہ چل گیا ہے ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ۲۰۱۹؁ کے اندر پلوامہ کا سانحہ ہوگیا ۔ یہ حملہ اڑی کے مقابلے زیادہ شدید تھا ۔ اس وقت نہ صرف مرکزی حکومت مودی کی تھی بلکہ جموں کشمیر میں بھی مرکز کے تحت صدر راج تھا ۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسا مضبوط ہاتھ ہے جس کے چلتے ایسے بھیانک حملے ہوتے ہیں اور کیا دوبارہ مودی جی منتخب ہوجائیں گے تب بھی ہر اہم انتخاب سے قبل اس طرح کے حملے ہوتے رہیں گے کہ جن کے بعد جوابی کارروائی کرکے یہ ثابت کیا جائے کہ ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے؟


ونگ کمانڈر ابھینندن کی رہائی یقیناً ایک خوشخبری ہے ۔ اس کا جشن منایا جانا چاہیے۔ اس لیے بھی کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تناو کم ہوگیا اور بی جے پی اس کو بہت زیادہ بھنا نہیں سکی۔ اسی کے ساتھ اس بات پر بھی غور ہونا چاہیے کہ اسے چھڑانے کی نوبت کیوں آئی ؟ ونگ کمانڈر ابھینندن اگر پاکستان کی حراست میں نہیں جاتا تو اسے چھڑانا نہیں پڑتا۔ یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے سے اوپر ہوتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کل کو اگر خدا نخواستہ مودی جی وزیراعظم کے طور پر دوبارہ حلف برداری ہوجاتی ہے تو اس تقریب میں مہمان خصوصی عمران خان صاحب ہوں گے۔ اس وقت سارا میڈیا یہ کہے گا چونکہ پاکستانی وزیراعظم نے ابھینندن کو رہا کرکے خیر سگالی کا مظاہرہ کیا تھا اس لیے ان کا اعزازو تکریم کیا جارہا ہے۔ انتخاب جیتنے سے قبل دوسرے ممالک یا غیر قوم کو برا بھلا کہنے کی جتنی ضرورت ہوتی ہے انتخاب جیتنے کے بعد وہ عارضی طور پر ختم ہوجاتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ پھر جب الیکشن قریب آتا ہے تو وہ ضرورت دوبارہ پیدا ہوجاتی ہے ۔


۲۰۱۴؁ میں پاکستان کے خلاف مودی جی کے تیور بہت سخت تھے لیکن انتخاب میں کامیابی کے ساتھ ہی اچانک نواز شریف کی ساری شرارت شرافت میں بدل گئی۔ اور آگے چل کر تو یہ بھی ہوا کہ مودی جی بن بلائے اسلام آباد جاکر نواز شریف کی والدہ کے پیر چھوآئے ۔ اس کے جواب میں پٹھانکوٹ کا حملہ ہوگیا۔ کیا جس وقت وہ حملہ ہوا مودی جی کے ہاتھ کمزور تھے اور اس کے جواب میں انہوں نے کیا کیا ؟ اب کچھ دنوں تک مسعود اظہر کی موت کو بھنایا جائے گا ۔ عقل عام یہ کہتی ہے کہ اگر کوئی بمباری کا شکار ہوتو اس کے ہاتھ پیر ٹوٹ جانے چاہییں ۔ اس کا جسم جھلس جانا چاہیے لیکن یہ بمباری کا کیسا زخم ہے کہ جس سے گردوں نے کام کرنا بند کردیا؟ فضائیہ کا حملہ تو سالے کے ذریعہ چلائے جانے والے

کیمپ پر ہوالیکن زخمی بہنوئی ہوگیا۔ بعید نہیں کہ جلد ہی یہ انکشاف ہوجائے کہ ہندوستانی خفیہ ایجنسی کو پہلے سے مسعود اظہر کی موجودگی کا علم ہوگیا تھا ۔ اس لیے اسی دن حملہ کیا گیا لیکن اگر ایسا تھا تو اعلان کرنے میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟
ان سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کمل کے اٹل نے مولانا مسعود اظہر کو رہا کیوں کیا؟ ان کو جس وقت رہا کیا گیا اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا دہلی میں کمل کے کھلتے وہ ازخود ڈر کے ہندوستان سے فرار ہوجاتا اور کبھی اِ دھر کا رخ نہیں کرتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اٹل کے ساتھ مسعود اظہر کے اچھے دن آگئے ۔ ۲۴ دسمبر ۱۹۹۹؁ کو اٹل جی اپنی سالگرہ منانے کی تیاری کررہے تھے ائیر انڈیا کے جہاز کا اغواء ہوگیا اور مسعود اظہر کو رہا ئی مل گئی۔ ۔ کارگل کے سبب اس کا حوصلہ اور بلند ہوگیا کیونکہ پاکستانی سپاہیوں نے پہاڑوں کی چوٹی پر چوکیاں بنالیں اور وزیراعظم اپنی کابینہ کے ساتھ چین کی نیند سوتے رہے۔ ۲۰۰۰؁ میں جیش نےسرینگر کے اندر ہندوستانی فوج کے صدر دفتر پر حملہ کردیا۔ ۲۰۰۱؁ میں جبکہ اٹل جی برسرِ اقتدار تھے جیش نے جموں کشمیر اسمبلی پر حملہ کردیا ۔ اسی سال دہلی کے اندر ایوان پارلیمان پر حملہ ہوا اس وقت بھی اٹل جی وزیراعظم اور بی جے پی کے مرد آہن لال کرشن اڈوانی وزیر داخلہ تھےمگر کوئی مضبوط ہاتھ اسے روک نہیں سکا؟ اس وقت ملک کس کے ہاتھوں میں تھا ؟
مودی جی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ۲۰۱۶؁ میں پٹھانکوٹ اور اڑی کے حملے ہوئے اور پلوامہ کا سانحہ بھی انہیں کے دور میں ہوگیا۔ ان ۱۸ سالوں میں جہاں اتنے سارے حملے بی جے پی کے دورِ اقتدار میں ہوئے وہیں صرف ممبئی کا حملہ کانگریس پارٹی کےزمانے میں ہوا ۔

اس کے باوجود یہ شور کہ ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے اور ہوائی حملے پوسٹر اور بینر جن پر کوئی فوجی نظر نہیں آتا ۔ مودی جی ، شاہ جی اور مقامی بی جے پی رہنماوں کی تصاویر اس طرح دکھائی جاتی ہیں جیسے یہی لوگ ہوائی جہاز اڑا کر لے گئے تھے ۔ اس پر بچکانہ نعرے ۵۶ انچ کا سینہ ہے سر اٹھا کر جینا ہے۔ تو کیا اٹل جی کے زمانے میں یہ لوگ سرجھکا کر جی رہے تھے؟ ویسے مودی جی نے یہ ضرور کہا ہے کہ رافیل موجود ہوتا تو بات اور ہوتی گویا وہ خود اس کو اڑا کر لے جاتے ۔ ایسے میں کمار سوامی کا اپنے والد دیوے گوڑا کا زمانہ یاد کرنا درست معلوم ہوتا ہے جب کوئی حملہ نہیں ہوا تھا اور ملک صحیح معنیٰ میں محفوظ تھا ۔ وہ سب سے نہ سہی تو کم ازکم مودی اور اٹل سے زیادہ طاقتور وزیراعظم تھے۔ اس تناظر میں ہندوستانی عوام کو سوچنا چاہیے کہ کمل کے ہاتھوں میں ملک کمزور ہوجاتا ہے یا مضبوط؟ نیز کمل مضبوط ہے یا ہاتھ ؟

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں