شمس الضحیٰ
وحشت سے مدنیت کی طرف انسان کا پہلا قدم اٹھتے ہی ضروری ہوجاتا ہے کہ کثرت میں وحدت کی ایک شان پیدا ہو اور مشترک اغراض و مصالح کے لیے متعدد افراد آپس میں مل کر تعاون اور اشتراک عمل پیدا کریں۔ تمدن کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس اجتماعی وحدت کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد اس میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس مجموعہ افراد کا نام قوم ہے۔ قوم اور قومیت جس ہیئت کا نام ہے وہ بابل، روم، مصر اور یونان میں ویسی ہی تھی جیسے آج مغرب یا دیگر ممالک میں ہیں۔
قومیت کا آغاز ایک معصوم جذبے سے ہوتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک خاص گروہ کے لوگ اپنے اشتراک مفاد اور مصالح کے لیے عمل کریں۔ اس اجتماعی ضرورت کے لیے ایک ’قوم‘ بن کر رہیں۔ لیکن جب ان میں قومیت پیدا ہوجاتی ہے تو لازمی طور پر ’عصبیت‘ اس پر غالب آجاتی ہے۔ اور یہ جذبہ روز بروز شدید سے شدید تر ہوتا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ ایک غیر مرئی حصار کے اندر محصور ہوجاتی ہے۔ یہ قومیت حصار کے اندر اور باہر والوں کے درمیان امتیازی سلوک شروع کردیتی ہے۔ خود کو وہ دوسروں پر ہر طرح سے ترجیح دینا شروع کردیتی ہے۔ حصار سے باہر والوں کے مقابلے میں وہ حصار کے اندر والوں کی بے جا حمایت بھی شروع کردیتی ہے۔ اس میں جارحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ دوسروں کے بنیادی حقوق کو بھی پامال کرکے اپنی برتری قائم کرنے کی سعی میں مشغول ہوجاتی ہے۔ انہی وجوہ سے ان میں صلح بھی ہوگی اور جنگ بھی لیکن رزم ہو یا بزم قومیت کا غیر مرئی حصار قائم رہے گا۔ اسی کانام عصبیت ہے اور قومیت کی یہ لازمی خصوصیت ہے جو اس کے ساتھ ہی پیدا ہوتی ہے۔
قومیت کی بنیادیں
1- اشتراک نسل
2- اشتراک مرزبوم
3-لسانی قومیت
4- اشتراک رنگ
5- ثقافتی قومیت
یہ ساری قومیتیں بنی نوع انسانی کے لیے شدید مصیبت بلکہ ہلاکت ہیں۔ انہوںنے عالم انسانی کو سینکڑوں حصوں میں منقسم کردیا ہے۔ آپسی عناد کی اس نے وہ بنیاد رکھی ہے جو آسانی سے ختم نہیں ہوسکتی۔ ایک نسل دوسری نسل میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ایک وطن دوسرا وطن نہیں بن سکتا۔ ایک زبان بولنے والے دوسری زبان بولنے والے نہیں ہوسکتے۔ ایک رنگ دوسرا رنگ نہیں بن سکتا۔ ایک قوم کی معاشی اغراض بعینہٖ دوسری قوم کے معاشی اغراض نہیں بن سکتیں۔ ایک ثقافت کبھی دوسری ثقافت کو نہیں اپنا سکتی۔ جو قومیتیں ان بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہیں، ان میں مصالحت کی راہیں مسدود ہوتی ہیں۔ ان میں عصبیت جنونی کیفیت طاری کردیتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف مسابقت، مزاحمت اور مناقشہ کی ایک دائمی کشمکش میں مبتلا رہتی ہیں۔ ان میں جارحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک دوسرے کو فنا کردینے کی سعی تیز سے تیز تر ہوتی جاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوجاتی ہیں۔ باہمی کشمکش ایک دوسرے کو فنا کرتی رہتی ہیں ہے۔ یہ اس زمین پر فساد، خلفشار، شرارت، جوروظلم اور بدامنی کا ایک مستقل سرچشمہ ہے۔
ان ساری جاہلانہ عصبیتوں کو بڑے ہی منظم طریقے سے مفاد پرست اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہوا دیتے ہیں۔ عوام تو غیر شعوری طور پر اس کا حصہ بن جاتی ہے۔ فتنہ پروَر اور شاطر قوتیں پس پردہ رہ کر ایسی ذہن سازی کرتی ہیں کہ عام انسانی ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے ذرائع ابلاغ کا خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ عوام سے خیروشر کی تمیز چھین لی جاتی ہے۔ ان کی عقل غیر محسوس طور پر سلب کرلی جاتی ہے۔ اسے حق و باطل، صداقت و دیانت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس پر حیوانیت اس قدر طاری کردی جاتی ہے کہ وہ اشرف المخلوقات کے دائرے سے باہر ہوجاتا ہے۔ وہ غیر محسوس طور پر خود کو نفرتوں کا سودا گر بنالیتا ہے۔ جبر، چیرہ دستی اور حق تلفیوں کو اپنا وطیرہ بنالیتا ہے۔ اسلام اور جاہلانہ قومیت کے فرق کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ حضرت بلال حبشی ایک سیاہ فام غلام تھے جن کو خلیفہ وقت حضرت عمرؓ یَا سَیِّدِی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ جبکہ تشکیری (جو بیجوانالینڈ کے بامنگ واٹو قبیلے کا سردار تھا)کو سلطنتِ برطانیہ نے اس وجہ سے اقتدار سے محروم کردیا کہ اس نے ایک یوروپین کو کسی جرم میں سزا دے دی۔
آئنسٹائن جیسے معروف سائنسداں کو جرمنی اس لیے چھوڑنا پڑا کہ وہ یہودی ہے۔ جبکہ صہیب رومی ؓ اور سلمان فارسیؓ عرب نہیں تھے مگر ان کا مسلمانوں میں اعلیٰ مقام تھا۔امریکہ میں آج بھی سیاہ فاموں سے صرف اس لیے سفید فام نفرت کرتے ہیں کہ وہ سیاہ فام ہیں۔ افغانیوں، عراقیوں، شامیوں، ویت نامیوں وغیرہ پر اس لیے بم برسائے جاتے ہیں کہ وہ یوروپین یا امریکی نہیں ہیں۔ اس پر انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں لب بہ مہر ہوجاتی ہیں۔ انجمن اقوام متحدہ تک بے حس ہوجاتی ہے۔ یہ عصبیت نہیں تو اور کیا ہے؟ارسطو جیسا بلند پایہ مفکر اپنی کتاب ’’سیاست‘‘ میں کہتا ہے کہ’’ فطرت نے وحشی قوموں کو ںصرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ غلام بن کر رہیں۔نوع انسانی کے ایسے طبقات کو غلام بنانے کے لیے جنگ کی جائے جنہیں فطرت نے اسی غرض سے پیدا کیا ہے۔‘‘ یونانیوں کے یہاں وحشی کے معنی غیر یونانیوں کے تھے۔ ان کا بنیادی تصور یہ تھا کہ یونانیوں کے حقوق غیر یونانیوں سے زیادہ ہیں۔ کیوںکہ وہ اعلیٰ و ارفع ہیں۔ جیسے حال میں مغرب نے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ کے نام پر فتنہ پھیلا رکھا ہے۔ اور خود کو دوسروں سے برتر تصور ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ بزور قوت دوسروں کو یہ ماننے پر مجبور کررہے ہیں۔ ہندوستان میں اسی ذہنیت نے ’’ورن آشرم‘‘ کو جنم دیا۔ اور پوری قوم چار طبقات میں منقسم کردی گئی۔ اعلیٰ اور ادنیٰ کی تفریق نے انسانیت سوز اخلاق کا مظاہرہ کیا جن کو شودر کہا گیا ان کو تمام حقوق سے محروم کردیا گیا، یہاں تک کہ وہ ویدوں کے منتر کو سن بھی نہیں سکتے تھے۔
ہندوستانی معاشرہ اور قوم پرستی
ہندو قوم پرستی آج بھی نہ صرف موجود ہے بلکہ شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اپنی ایک کتاب Revolution and Counter Revolution in Ancient India کے ایک باب ’’برہمن واد کی فتح‘‘ میں لکھا ہے کہ بھارت میں ’’بھارتیہ سنسکرتی‘‘ نام کی کوئی سنسکرتی نہ کبھی تھی اور نہ اب ہے۔ پہلے ویدک سنسکرتی تھی جو یوگیوں کی تہذیب تھی۔ جس میں برہمنوں کا بول بالا تھا۔ اس کے بعد بودھ تہذیب کا عروج ہوا پھر برہمن واد آیا، اس نے پھر سے ویدک تہذیب کو فروغ دیا اور بودھ تمدن کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اب ان باہم متصادم تہذیبوں میں سے کسی ایک کو بھارتیہ سنسکرتی کیسے کہا جاسکتا ہے؟‘‘
ایک بات ذہن نشین رہے کہ ہندو راشٹر واد یا ہندونیشنلزم کے موجودہ تصور کا بانی وی ڈی ساورکر ہے۔ جس نے سب سے پہلے 1923میں اپنی کتاب میں ’’ہندوتوا‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا، اس سلسلے میں یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ یہ لفظ سنسکرت ہی نہیں کسی بھی ہندوستانی زبان کا نہیں ہے۔ ساورکر کو خود اس بات کا یقین نہیں تھا کہ ان کی نو ایجاد اصطلاح مقبول ہوگی۔ اس لیے انھوں نے اپنی کتاب ’’ہندوتوا‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں کسی مراٹھا کا بحیثیت مصنف نام دیا۔ لیکن جب 27ستمبر 1925کو انگریزوں اور کانگریس کے آشیرواد سے آر ایس ایس وجود میں آگئی، اس کو ایک فلسفہ چاہیے تھا، جس کو ساورکر کی کتاب نے فراہم کیا۔ تب کہیں جاکر دوسرے ایڈیشن میں ساورکر کا نام بحیثیت مصنف منظر عام پر آیا۔ ایک اہم بات اس میں یہ بھی نظر آتی ہے کہ ساورکر نے ’’ہندوتوا‘‘ کی اصطلاح کی ایجاد کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی قدیم فکر و روایات کو نیا مفہوم دینے اور اس کے دائرے کو وسیع کرکے مذہب، عظیم شخصیات، تہذیب، نسل اور جغرافیائی حدود وغیرہ کو بھی لانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی یہ مہم کانگریس اور انگریزوں کی نوازشات سے اس قدر کامیاب ہوئی کہ اس نے اکثریتی فرقے کی اکثریت کے ذہن کو مسموم کردیا۔ حتیٰ کہ منفی راشٹرواد پر بحث، گفتگو، اس کی تردید یا سماج کو اس کی خامیاں اور نقصانات بتانے کے لیے بھی ہندوتوا کی اصطلاح کا ہی استعمال کرنا پڑا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس کے استعمال کے بغیر اس نوزائدہ نیشنلزم کا تعارف بھی نہیں کرایا جاسکتا۔ غضب تو یہ ہے کہ اس تحریک کو ہماری عدالت عظمیٰ نے ثقافتی تحریک بنادیا۔ اس نے اپنے ایک فیصلے میں کہہ دیا کہ ہندو ایک ثقافت کا نام ہے۔ اس عدالتی سرٹیفیکٹ نے ہندو راشٹرواد کو بہت بڑھاوا دیا۔ ملک کو ’’ہندوتوا‘‘ کے رنگ میں رنگا جانے لگا۔ اس فلسفے کو تہذیب کا نام دے دیا گیا۔ اس کے بعد اب اس کو ہندو راشٹر واد کہا جانے لگا۔
کلچرل راشٹرواد
اب یہ کلچرل راشٹرواد کیا ہے۔ گولوالکر کی زبان سے سنئے: ’’نسل جس کے ساتھ کلچر اور زبان اس قدر مربوط ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جب کہ مذہب سب کو اپنے اندرجذب کرنے والی وہ قوت نہیں ہے… اب یہ جیسا کہ ثابت ہوچکا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہندوستان ہندوؤں کا ہے۔اور یہ صرف ہندوتوا کے پھلنے پھولنے کی بہترین جگہ ہے۔ تو ان تمام لوگوں کا کیا ہوگا جو اس ملک میں رہ رہے ہیں۔ جب کہ ان کا ہندو مذہب، نسل اور ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہے؟
ہمیں شروع سے ہی یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ جہاں تک راشٹر کا تعلق ہے۔ جو لوگ بھی اس نظریہ کے پانچ مدوں سے باہر ہیں، ان سب کے لیے قومی زندگی میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ جب تک کہ وہ اختلافات کو ختم نہ کردیں اور راشٹر کے دھرم، تہذیب اور زبان کو اختیار نہ کرلیں اور خود کو پوری طرح راشٹریہ نسل میں ضم نہ کرلیں…اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو وہ راشٹریہ نسل کی مہربانی سے غیر ملکی کی حیثیت سے رہیں گے۔ وہ راشٹریہ نسل کے تمام ضابطوں اور قوانین کی پابندی کریں گے، اور کسی حق یا امتیاز کے مستحق نہ ہوںگے۔ بیرونی عناصر کے لیے صرف دو ہی راستے ہیں یا تو وہ خود کو راشٹریہ نسل میں ضم کرلیں یا اس کے کلچر کو اختیار کرلیں۔ یا اس کے رحم و کرم پر اس وقت تک رہیں جب تک راشٹریہ نسل اس حالت میں رہنے دے یا راشٹریہ نسل کی مرضی پر ملک کو چھوڑدیں۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’اس لحاظ سے پرانی ہوشیار قوموں کے تجربات کے پیش نظر ہندوستان میں بیرونی نسلوں کو یا تو ہندو تہذیب اور زبان کو اختیار کرنا چاہیے۔ ہندو دھرم کا احترام کرنا چاہیے۔ ہندو نسل اور تہذیب و ثقافت کی ستائش کے علاوہ کوئی نظریہ نہیں اختیار کرنا چاہیے۔ اور اپنی علیحدہ شناخت و تشخص کو ترک کرکے خود کو ہندو نسل میں ضم کردینا چاہیے۔ اگر یہ نہیں تو ملک میں پوری طرح ہندو راشٹر کے ماتحت بن کر رہنا چاہیے۔ اور کسی حق کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔ ترجیحی سلوک کی بات تو دور وہ کسی مراعت کے بھی حق دار نہ ہوں گے۔ اور حقوق شہریت کے بھی طالب نہ ہوں گے۔ ان کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا… صرف وہی لوگ نیشنلسٹ اور محب وطن ہیں جو ہندونسل سے ہیں اور راشٹر کی ستائش کا جذبہ دل میں رکھتے ہیں … باقی سب لوگ یا تو غدار ہیں، راشٹریہ مقاصد کے دشمن ہیں یا کم از کم احمق ہیں۔‘‘ (We or Our Nation defined pages 34,35,45,47)
یعنی یہ ہندو وادی، منووادی یا برہمنی وادی اپنے علاوہ کسی کی شناخت، تشخص، طرزِ زندگی حتیٰ کہ ان کے وجود کو برداشت نہیں کرتے۔ سابق صدر جمہوریہ رادھا کرشنن نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ نظریے میں کھلاپن، آزادی لیکن عمل میں شدت اور کٹرپن تاریخ کے ابتدائی عہدسے ہی ہندوؤں کی خصوصیت رہی ہے۔ (Indian Philosophy, Vol.1, P.597)
ہندو نیشنلزم کو کلچرل نیشنلزم کا نام دے کر ہندو مذہب سے انحراف ہی نہیں بلکہ ایسے Nationکی تشکیل ہے جس میں تمام تر بالادستی ہندواکثریت کے برہمن وادیوں کو حاصل ہو، تاکہ دیگر نسلی، ثقافتی یا مذہبی، اقلیتیں اپنی مذہبی، معاشرتی، تہذیبی شناخت کو ختم کرکے ان کے ہی طور طریقے اور مذہب کو اختیار کرلیں۔ اس پوری سازش کو سمجھنے کے لیے دین دیال اپادھیائے کے نظریات و افکار کو شائع کرنے والے اشاعتی ادارے، سروچی پرکاشن کی 7 جلدوں میں شائع پنڈت دین دیال اپادھیائے وچار درشن اور پربھات پرکاشن کی 15 جلدوں میں شائع کتاب ’’دین دیال اپادھیائے‘‘ کو دیکھا جاسکتا ہے۔اور پربھات جھا کی کتاب سنسکرت راشٹرواد کا بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ سارے نظریات کثرت میں وحدت یا وحدت میں کثرت کے بھی خلاف ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر ہندو راشٹر واد کے بالکل خلاف تھے، مگر اب RSSان کو بھی ہندوتوادی اور ہندوتو کا نمائندہ بتانے لگی ہے۔ چند سالوںپہلے ایک RSSسے وابستہ ’یشونت سنگھ بھاوے‘ نام کے ایک مصنف نے ایک کتاب ’’جدید ہندو تری مورتی‘‘ لکھی۔ جس میں آر ایس ایس کے بانی کیشو بلی ہیڈ گیوار کے ساتھ گاندھی اور ڈاکٹر امبیڈکر کو بھی ہندوتوا کے نمائندوں اور محافظوں میں شمار کیا ہے۔ جب کہ ان کے نظریات سے گاندھی جی کا کوئی واسطہ ہے نہ امبیڈکر کا ہی۔ امبیڈکر تو ہندوتوا اور ہندو دھرم کے سخت ناقد رہے ہیں۔ انھوں نے تو ہندو توا اور ہندو دھرم دونوں کو سماج کے لیے لعنت قرار دیا ہے۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے ہندوؤں نے ’’مہاویر جین اور گوتم بدھ‘‘ دونوں کو وشنو کا اوتار بنادیا، جب کہ ان دونوں نے ہندو دھرم سے بغاوت کی۔ گرونانک کو بھی ہندو بنادیا جو اس کے کٹر مخالف تھے۔ اور اب دستورِ ہند میں بھی جین دھرم، بودھ دھرم اور سکھ مذہب کو ہندو مذہب کا حصہ قرار دے دیا گیا ہے۔
ان ہندو نیشنلسٹوں کو کوئی بھی مشترک علامت تک منظور نہیں۔ 14اگست1947کو آرایس ایس کے انگریزی ترجمان “Organiser”نے لکھا تھا ’’جو لوگ قسمت سے اقتدار میں آگئے ہیں وہ ہمارے ہاتھوں میں ترنگا دے سکتے ہیں۔ لیکن ہندو اسے قبول نہیں کریں گے۔ اور نہ ہی اس کا احترام کریں گے۔ لفظ تین خود ہی اپنے آپ میں ایک برا تاثر ہے۔ اور جس جھنڈے میں تین رنگ ہوں گے وہ یقینی طور پر بہت برے اثرات ڈالے گا۔ اور ملک کے لیے بہت ہی مضر اور نقصان دہ ثابت ہوگا۔‘‘
ثقافتی نیشنلزم کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے گولوالکر کے خیالات کو پڑھئے۔ آئین ہند کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ہمارا آئین ایک ضخیم اور بھدا دستاویز ہے۔ جس میں مغربی ممالک کے مختلف دستوروں سے مختلف قسم کے مواد کو ایک دوسرے میں متضاد شکل میں گھسادیا گیا ہے۔ اس میں ایسا کچھ نہیں ہے جس کو اپنا کہا جاسکے۔ کیا اس کے رہنما اصولوں میں حوالے کے لیے بھی کوئی ایک حوالہ ہے کہ ہمارا قومی مشن کیا ہے۔ زندگی میں ہمارا اصل پیغام کیا ہے۔ بالکل نہیں۔‘‘(Bunch of Thoughts P 238)
26جنوری 1950کو آئین ہند کا نفاذ عمل میں آیا، اس کے چار دن بعد Organiserنے اس پر یوں تبصرہ کیا: ’’ہمارے دستور میں قدیم بھارت میں ہونے والی شاندار دستوری ترقی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ آج تک منو کے قوانین جیسا کہ منواسمرتی میں بتائے گئے ہیں دنیا سے داد تحسین وصول کررہے ہیں اور ان کو بے چوں و چرا مانا جاتا ہے۔ اور ان پر عمل ہوتا ہے۔ مگر ہمارے دستور کے ماہرین کے نزدیک یہ سب کچھ نہیں۔‘‘
یہ وہی ہندو توا وادی نیشنلزم ہے جس کو ملک پر مسلط کرنے کی کوششیںہورہی ہیں۔
قوم پرستی خواہ جیسی بھی ہو اس کے جلو میں منفی عنصر ہوتے ہی ہیں۔ آج جس طرح کلچرل نیشنلزم کی آڑ میں اپنی برتری کی کوشش ہورہی ہے اس نے بنی نوع انسانی کو تباہ کردیا ہے۔ کلچرل نیشنلزم اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ اکثریت اقلیت کی شناخت کو ہی نہیں اس کے وجود کو بھی ختم کردے۔ ہر قوم کی اپنی ثقافت اور اپنی زبان، اپنی بود و باش، اپنا لباس، اپنی روایات و رسوم ہوتے ہیں۔ اپنا عقیدہ اور اپنا مذہب ہوتا ہے۔ اس پر جبر حقوق انسانی کے خلاف ہے۔ انسانیت سوز ہے۔ پرآشوب ہے۔ کلچرل قومیت کو سب پر مسلط کرنا ایک جرم عظیم ہے۔
مسلمانوں کی حالت زار
مسلمانوں کی بھی اپنی تہذیب اوراپنی ثقافت ہے۔ جس کو ختم کرنے کے لیے آج باطل متحد ہے۔ ان کی کامیابی صرف اور صرف ہمارے نفاق میں مضمر ہے۔ ہمارا اتحاد ان کی ناکامی کی ضمانت ہے۔ اپنے تشخص کو محفوظ رکھنا ہم پر فرض ہے۔ اگر ہمارا تشخص ہی ختم ہوگیا تو بہت جلد ہمارا وجود بھی ختم ہوجائے گا۔ ایک بات ذہن نشین رکھیں بھارت ہمارا ملک ہے۔ ہمارے اجداد نے اپنے خون سے اس کو سینچا ہے۔ ہم یہاں پر پناہ گزیں نہیںبلکہ یہاں کے معززشہری اور محب وطن ہیں۔ ہم اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دے سکتے ہیں۔ ویسے اپنے حقوق و شناخت کے تحفظ کے لیے قربانیاں دینی پڑیں گی۔ ہم کو قانونی اور دستوری جنگ لڑنی پڑے گی۔ ہم وطنوں کے ساتھ مل کر ملک و قوم کا تحفظ کرنا ہوگا۔ مسلمانوں میں آج تعلیم سے زیادہ اتحاد کا فقدان ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ ان کااسلام سے نابلد ہونا ہے۔ حرص و ہوس ہے۔ قرآن و سنت سے دوری ہے۔ مایوسی اور شکست خوردہ ذہنیت ہے۔ خوف کو اپنے اوپر مسلط کرلینا ہے۔ آج مسلمانوںمیں فہم و فراست معدوم ہوتی جارہی ہے۔ ان کی شکست خوردہ ذہنیت نے ان سے شعور کو چھین لیا ہے۔ غیر اسلامی تصورات اپنے عروج پر ہیں۔ اکثریت مادہ پرست ہوچکی ہے۔ ذات ،برادری اور مسلکی تعصب نے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ ضمیر فروش سیاسی رہنماؤں نے بھی ہمارے اتحاد کو ختم کیا ہے۔ وہ اپنی پارٹی اور خود اپنے مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ملت کے نہیں اپنے مفادات اور اپنی پارٹی کے وفادار بنے ہوئے ہیں۔ علاقائیت، برادری، تعصب اور مسلکی تعصب کے علاوہ مرعوب ذہنیت نے ملت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ سمع و طاعت کا عنصر اس سے ناپید ہوچکا ہے۔ اخلاقی زوال اپنے عروج پر ہے۔ وہ ملت پر ہورہے چوطرفہ یلغار کا شعور نہیں رکھتے۔ اس لیے آج اپنے تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے مسلمانوںمیں ایک بیداری کی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ کلچرل نیشنلزم قومیت کی سب سے خطرناک شکل ہے۔ کیونکہ یہ غیر محسوس طور پر ہماری شناخت و تشخص کو ہی ختم نہیں کرے گا بلکہ مسلمان البانیہ اور سوویت یونین کے مسلمانوں کی طرح ہوجائیں گے۔ نام اور ولدیت تو ہوسکتا ہے کہ عربی ہو مگر ان میں اسلام باقی نہ رہے گا۔
SHAMSUZZUHA
Former Professor, Dptt of History
North Eastern Hill University
Shillong, Meghalaya