محمد صبغۃ اللہ ندوی
دہشت گردی کی طرح نیشنلزم یا قوم پرستی دنیا میں رائج ان اصطلاحات میں سے ایک ہے جن کی آج تک کوئی ایسی تعریف نہیں کی جاسکی جس کی پابند دنیا ہو بلکہ اقوام عالم کو اپنے حساب سے ان کے استعمال کی چھوٹ دے دی گئی۔ اسی لئے غلط نظریات اورمقاصد کو بروئے کار لانے کیلئے ان کا غلط استعمال ہوتا ہے۔اس کی گنجائش اتنی ہوتی ہے کہ کوئی کچھ بول نہیں سکتا اورقانون کچھ نہیں کرپاتا۔ نیشنلزم دوالفاظ کا مرکب ہے ایک نیشن جو واضح ہے، دوسراآئیڈیالوجی سے منسوب ازم ہے،جو مبہم ہے۔ لسانی، نسلی، مذہبی اورکلچرل نیشنلزم کی باتیں آئیڈیالوجی سے نکل کر آتی ہیں جن سے انکار مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ دیش بھکتی اورغداری کو اس خوبصورتی سے جوڑا جاتا ہے کہ معمولی معمولی بات پر اس کا شور مچنے لگتاہے۔ لوگ دیش بھکتی کو اپنی جاگیر سمجھ کر دوسروں سے سرٹیفکیٹ مانگنے لگتے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں الگ الگ تصور کے ساتھ نیشنلزم کو پیش کیا جاتا ہے۔ حکومت اسی کے مطابق کام کرتی اورشہریوں سے ویساکرنے کوکہتی ہے۔ کہیں اس کا استعمال دوسری اقوام اورمذاہب پر بالادستی اور افتخار کیلئے کیا جاتاہے تو کہیں ایک خاص رنگ میں ملک کو رنگنے کے لیے۔ تب ہی تو قوم پرستی کی متعدد اقسام ہوگئیں۔ ویکی پیڈیاکی تعریف دیکھیں خودسمجھ جائیں گے کہ غلط استعمال کی کتنی گنجائش ہے۔ ’نیشنلزم یا قوم پرستی سے مراد اپنے خاندان، قبیلے، نسل یا ملک کو خود پر افضل اور برتر سمجھنا، ہرحال میں اپنی قوم کی حمایت وطرفداری کرنا اوراپنی قوم کا پاس رکھنا ہے۔‘
قوم پرستی کا تصور
کسی بھی ملک میں قوم پرستی کا تصور ازروئے قانون متعین نہیں ہوتابلکہ حکومت کے نظریہ کو تصور بناکر پیش کیاجاتا اور پروپیگنڈہ کیا جاتاہے۔نیشنلزم کسی خاص رنگ میں رنگ گئی تو جمہوریت اورسیکولرزم کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے جن میں سب کو ساتھ لے کرچلنے، سب کے حقوق کا یکساں خیال رکھنے اوریکساں مراعات اورمواقع دینے کا تصور ہوتا ہے۔ اسی لئے لسانی، نسلی، مذہبی، لادینی اور ثقافتی نیشنلزم کا پہلا حملہ جمہوریت اورسیکولرزم کی بنیاد پر ہوتا ہے جسے ہلاکر کمزور کیا جاتا ہے تاکہ نیشنلزم کے ماتحت ہوجائیں۔قوم پرستی کی بنیاد کسی خاص تصور یا نظریہ پر نہیں عقل اورجذبات پر ہوتی ہے۔ اس کو فروغ دینے کے لیے لوگوں کے جذبات کو ابھاراجاتا اوران کا سیاسی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اتنی مبہم ہوتی ہے کہ جو چاہیں تاویل کردیں۔ہر ملک میں مختلف مذاہب، ذاتوں اورعلاقوں کی الگ الگ تہذیبیں ہوتی ہیں جن میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ ان کو یکجا نہیں کیا جاسکتا۔پوری آبادی کو ایک قوم نہیں کہا جاسکتا اس لئے جہاں اکثریتی فرقے کی حکومت ہو وہاں اقلیتوں کے حقوق واضح کردیئے جاتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ حق تلفی نہ ہو۔ ہر شہری کے حقوق کی ضمانت دینے کے لیے اقوام متحدہ کاچارٹریہی کہتاہے۔ موجودہ دور میں نیشنلزم کی جس قسم کا سب سے زیادہ شور یافروغ حاصل ہے وہ کلچرل، ثقافتی یا تہذیبی قوم پرستی ہے جو جمہوریت،سیکولرزم اورثقافتی کثرتیت یا تکثیری سماج کی ضد ہی نہیں بلکہ اس کی نفی ہے۔اس کی بات وہ کرتے ہیں جو ملک پر ایک خاص کلچر اورمذہب تھوپنا، اقلیتوں کو محکوم بناکر دوسرے درجے کا شہری بنانا چاہتے اوراکثریتی فرقے کی بالادستی اورہرچیز پران کا پہلا حق سمجھتے ہیں۔یہ قوم پرستی جہاں ہوتی ہے وہاں تعصب اور ذات پات کوفروغ حاصل ہوتاہے۔یہ دوسروں سے سیکھنے کے بجائے اپنی بات اس پر تھوپنے کے لیے کہتی اورانسانیت کا گلاگھونٹتی ہے۔
ہرقسم کی قوم پرستی طویل المدتی پروگرام کے تحت ایک خاموش تحریک کی شکل میں چلتی اورملک کے ہر شعبے میں ایک خاص سوچ کو بڑھاوا دیتی ہے۔نہایت ہوشیاری سے اپنا کام کرتی ہے تاکہ دوسرے جب سمجھیں توکافی دیر ہوجائے۔پھر چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کرسکیں کیونکہ اس وقت تک ملک کی کثیر آبادی کی سوچ بن جاتی ہے۔قومی سوچ بناناباقی رہتاہے۔پھر وہ اقتدار میں آکر من مانی کرنے لگتے ہیں۔ہمارے ملک کے حالات اس وقت کچھ ایسے ہی ہیں۔ایسی قوم پرستی میں مذہب، آستھا، رسوم ورواج اورمذہبی تہواروں کے ساتھ میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے جو لوگوں کو ورغلانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔راشٹرواد، دیش بھکتی اورترقی کے نعرے دیئے جاتے ہیں جیسے صرف وہی ملک کے خیرخواہ اورمسائل حل کرسکتے ہیں۔ان نعروں کا استعمال ہتھیاراورڈھال کے طور پر کیا جاتا ہے۔وہ اقتدار میں آکر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یا بزور قوت اپنے ایجنڈوں کو نافذ کرتے اورتعلیم، قانون، الیکشن، معیشت اورعدلیہ کے نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں۔قوم پرستی کو ایک خاص قسم کا لبادہ پہنانے کا مقصد یہی ہوتا ہے۔اس لئے جب بات تہذیبی، مذہبی، لسانی اورنسلی قوم پرستی کی ہو تو سمجھ جائیے کہ کوئی خاص ایجنڈا ہے۔
ثقافتی قوم پرستی کافروغ
ملک میں ثقافتی قوم پرستی کی بات آزادی سے پہلے انگریزوں کے دور حکومت میں ہونے لگی تھی۔ پہلے خاموشی سے کام ہورہا تھا، ذہن سازی کی جارہی تھی۔ آرایس ایس کی شاکھاؤں میں ٹریننگ دی جارہی تھی اورلوگوں کو ابھاراجارہاتھا۔ اب جب کہ کثیر آبادی کے ذہنوں کو مسموم کیا جاچکا اوراس کا علمبردار طبقہ مرکز ہی نہیں بیشترریاستوں میں اقتدار میں آچکا تو کھل کر بات ہورہی ہے۔یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ثقافتی قوم پرستی کی تحریک کیلئے سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ بوسٹر بن کر سامنے آیا جس میں ہندتَوکو ہری جھنڈی دکھائی گئی۔غورطلب امرہے کہ اس کی بات کرنے والے ہندازم کے بجائے ہندتَو کی بات کرتے ہیں۔ ہندوازم اورہندتَو میں وہی فرق ہے جو قومیت اورثقافتی قوم پرستی میں۔ ثقافتی قوم پرستی کی تحریک کیلئے اجودھیا کے ایشونے ایندھن کا کام کیا۔ بابری مسجد پر قبضہ اوراس کا انہدام اس کی پہلی جیت تھی جس نے پورے ملک میں فرقہ وارانہ جذبات اورتعصب کو فروغ دیا۔اسی کی بدولت یہ طبقہ مسلمانوں کو کمزور کرنے اورمرکزی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس طبقے کی حکمت عملی دیکھئے کہ اس نے پانچ ایشوز یعنی اجودھیا، متھرا، کاشی، دفعہ 370 اوریونیفارم سول کوڈ کو بنیاد بناکر تحریک شروع کی، لیکن فوکس صرف اجودھیا پر کیا تاکہ ساری توانائی ایک جگہ مرکوز رہے۔منتشر ہوکر ضائع نہ ہوجائے۔پھرطلاق کے نام پر یونیفارم سول کوڈ کے ایشو کو زندہ کیا۔ کاشی کو سڑک اوردیگر پروجیکٹوں کے نام پر خبروں میں رکھااوراس وقت جموں وکشمیر کیلئے مخصوص دفعہ 370اور35 اے کے خاتمے پر کام کررہاہے۔ان ایشوز کو وسیع پس منظر میں دیکھا جائے تو تمام ایجنڈوں کو سمجھا جاسکتا ہے۔کس کوابھارنایا دبانا، کس سے کیا چھیننااور کس کو کس سے محروم کرنا سب ان میں مضمر ہیں۔یہ دوسروں سے اقرار کروالیتے ہیں لیکن اپنا موقف واضح نہیں کرتے تاکہ ضرورت پڑی تو اس کے خلاف بول یا کرسکیں۔ جیساکہ اجودھیا کے معاملے میں مسلمانوں سے برابر کہلوایا کہ عدالتی فیصلہ مانیں گے۔خواہ ان کے حق میں آئے یا خلاف۔تاکہ فیصلہ ماننے کے علاوہ گنجائش نہیں رہے۔ لیکن مندر کے حامیوں نے کبھی نہیں کہا کہ عدالتی فیصلہ مانیں گے، انکارکی گنجائش رکھی۔
کلچرل نیشنلزم اورہندوراشٹر
کسی سے مخفی نہیں کہ ہندوبالادستی اورملک کو ہندوراشٹربنانا ہندتو کا بنیادی تصور اورنصب العین ہے۔ ثقافتی قوم پرستی کی آڑ میں اسی پر کام ہورہا ہے۔آرایس ایس اوراس کی ذیلی تنظیمیں اسی تصوراورنصب العین پر کام کرتی ہیں۔ان میں کاموں کی تقسیم اتنی منظم ہوتی ہے کہ ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ ان میں اختلافات یا ٹکراؤ صرف دکھاوا اورفریب ہوتا ہے جس کامقصدایک کوانتہاپسند اوردوسرے کواعتدال پسند ظاہر کرناہوتاہے۔مکھوٹا پہننا ان کی چال ہے۔آج اس طبقے کے لوگ حکومت سے لے کر ہر شعبے میں حتی کہ ان پارٹیوں میں ہیں جو خودکو سیکولر کہتی ہیں۔تب ہی تو ہر جگہ آسانی سے اپنا مقصد حاصل کررہے ہیں۔خود تو کرتے ہیں دباؤ ڈال کر یا بہانے سے، دوسری پارٹیوں سے بھی اپنا کام کرالیتے ہیں۔اس کاثبوت بابری مسجد میں مورتیاں رکھ کرنماز کے لیے بند کرانا،پھرپوجا پاٹ کے لیے کھلوانا، مندر کے لیے شیلانیاس اوربابری مسجد کا انہدام،بیشتر فرقہ وارانہ فسادات کانگریس اوردیگر پارٹیوں کی حکومتوں میں ہوئے۔دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کی گرفتاریاں کانگریس کی حکومتوں میں ہوئیں۔ ظاہر ہے کہ ان پارٹیوں میں ان کے لوگ ہیں تب ہی تو یہ سب بدنما سانحات رونماہوئے۔
سوچئے کہ اس طبقے نے کتنی جدوجہد کرکے ریاستی ومرکزی اقتدار حاصل کیا۔آزادی کے بعد 70کی دہائی میں پہلی بار اس کے دوممبران منتخب ہوکر پارلیمنٹ پہنچے۔پھر دوسری پارٹیوں کی بیساکھی کے سہارے سیاسی سفر آگے بڑھایا۔ جس کاپھل باجپئی سرکار کی صورت میں مخلوط حکومت میں ملا۔گزشتہ پانچ برسوں سے مودی سرکاراپنے بل بوتے پر قائم ہے۔پورے ملک میں کانگریس سمیت دیگر قومی جماعتوں کا صفایا ہوگیا۔حکومت اپنی حد میں رہتے ہوئے مبہم بات کرتی ہے سیکولرزم کو غیرضروری بتاتی اوراس پر حملہ آور ہوتی ہے۔ ابھی جمہوریت کے تعلق سے خاموش ہے۔ دیش بھکتی اورراشٹرواد کی بات کرتی ہے تووضاحت نہیں کرتی۔جبکہ آرایس ایس اوراس کی ذیلی تنظیمیں کھل کر اپنے ایجنڈوں کو بیان کرتی،ہندوراشٹر اوربھارت کے پرانے کلچر میں سب کو رنگنے کی بات کرتی ہیں، وہ ثقافتی قوم پرستی کی آڑ میں شہریوں کو پاٹھ پڑھاتی ہیں کہ کسی مذہب یا تہذیب کو جداگانہ حیثیت حاصل نہیں۔سب ایک دھارے سے جڑے اوربھارتی ہیں۔سب کا کلچربھارتیہ ہے۔یعنی مذہب کوئی بھی ہوسب ہندوہیں۔ اس لئے کسی کے ساتھ تفریق نہیں کی جاسکتی۔یعنی تہذیبی انفرادیت سے انکار کرتی ہیں۔نشانے پر دیگرمذاہب کی آبادی ہوتی ہے جواس ایجنڈے کو قبول نہیں کرتی۔لیکن چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتی۔کیونکہ اقتدار اوروسائل سے محروم ہے۔ بلکہ ایک پالیسی کے تحت محروم رکھاجاتا ہے۔اسی ہندتَونے ہندوازم میں اصلاح اورتبدیلی کے کاموں کو روک دیا۔جس مذہب کے ماننے والے مختلف برادریوں اور ذاتوں میں منقسم تھے حتی کہ الگ الگ بھگوان بنالئے تھے اورایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے، ان کی ذہن سازی کی گئی کہ آپ پہلے ہندوہیں پھر آپ کا کسی ذات سے تعلق ہے اورہمارا مشترکہ دشمن اسلام، مسلمان اورپاکستان ہیں۔ان کو مسلم حکمرانوں کی غلط تاریخ بتاکر اکسایا جاتاہے۔تمام ہندوؤں کو جوڑنے کے لیے مذہبی رسوم ورواج اورتہواروں کو زور وشور سے منایا جاتا ہے جیساکہ کنبھ میلے کی تشہیر کی گئی۔ اندھ وشواش اور اوہام پرستی کو بڑھاوا دیا جاتا ہے اورہر علاقے کے الگ الگ کلچر کو ہندوازم میں جگہ دے کر متحدکرنے کا کام کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر یہی بی جے پی ہندی بیلٹ کی ریاستوں میں گؤ کشی کے خلاف مہم چلاتی اورقانون سازی کرتی ہے لیکن گوا اورشمال مشرق کی ریاستوں میں اس کی چھوٹ دیتی ہے۔ لوگوں کو روزگار اورتعلیم سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ غلط مقاصد کے لیے ان کا استعمال کیا جاسکے۔کتنی جہالت ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ لوگوں سے کہا جارہاہے کہ ملک کے ہندوخطرے میں ہیں اوربھولے بھالے یا جذباتی قسم کے لوگ یقین کررہے ہیں۔ وہ نہیں سوچتے کہ صدر ونائب صدر جمہوریہ، وزیراعظم، تمام وزراء اعلی وگورنر حتیٰ کہ تمام اعلی عہدوں پر فائزہ لوگ ہندوہیں اورہندوؤں کی آبادی 80 فیصد ہے، پھرہندو خطرے میں کیسے ہیں؟
مسلمانوں کی حالت
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان ہوا۔اس نے ہر میدان میں مسلمانوں کی اصلیت سامنے رکھ دی۔جس کا فائدہ ہندتَوکے علمبرداروں نے اٹھایا۔اس کی وجہ سے پہلی بار دنیا کو پتہ چلا کہ مسلمانوں کی حالت بعض میدانوں میں دلتوں سے بھی بدترہے۔رپورٹ کے بعد مسلمان دلتوں کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنے مسائل کے حل کی بات بھی کرنے لگے۔اس سے پہلے مسلمانوں کی سیاسی اہمیت تھی۔ خود کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس جاتیں، خوش کرنے کے لیے وعدے یا کوئی کام کرتی تھیں۔ رپورٹ کے بعد ان کے ووٹ کی اہمیت ختم کرنے یا بے اثر کرنے کے منصوبے پرکام ہوا اورایسے حالات پیدا کئے گئے کہ دیگر پارٹیاں وہی کرنے لگیں جو بی جے پی کرتی ہے۔اب ہر پارٹی مسلمانوں کو کم ٹکٹ دیتی ہے تاکہ پارلیمنٹ واسمبلیوں میں نمائندگی کم ہو۔انتخابی مہم میں مسلم علاقوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے حتی کہ مہم مندر درشن سے شروع ہوتی اوراسی پر ختم ہوتی ہے۔ الیکشن میں مسلمانوں اوران کے ووٹوں کی حیثیت کوئی قابل ذکر نہیں ہوتی۔ایسے میں مسلمان کریں توکیاکریں؟ ان کو ہرلحاظ سے بے اثر کیا جاچکا ہے۔کوئی پارٹی اہمیت نہیں دے رہی ہے اوران کے خلاف کام ہورہاہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کے مذہبی تشخص پر حملہ ہورہا ہے تاکہ پہچان ختم ہوجائے اوروہ مذہب سے دورہوجائیں۔ ہندتَوکی علمبردار قوتیں کھل کر نہیں کہتیں لیکن ان کے عمل سے پتہ چلتاہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ مسلمان اپنے پرسنل لا چھوڑ دیں، عقیدہ اورتہذیب چھوڑ کر اکثریت کے کلچر میں رنگ جائیں۔ جس کو قومی دھاراکہا جاتا وہ اصلاًکلچر ل نیشنلزم ہے جس میں ملت کے طورپر مسلمان نہ رہیں۔ گھر کے باہرانفرادی حیثیت رہے، مساجد کے علاوہ کہیں اجتماعی حیثیت نہ رہے۔ اس کے لیے وہ کسی حد تک بھی جانے والے افراد تیار کررہے ہیں جو کبھی مسلمانوں کو مساجد کے باہر نماز پڑھنے سے روکتے توکبھی داڑھی کاٹتے اورجے شری رام کے نعرے لگواتے ہیں۔کسی نہ کسی نام پر ماب لنچنگ کرکے ان کوخوف دہشت میں مبتلارکھتے ہیں۔پہلے فسادات اورگرفتاری کے ذریعہ مسلمانوں کو کمزور وپسماندہ بنایا گیااوراب زورزبردستی اورجبرواکراہ کے ذریعہ ان کی اجتماعیت ختم کرنے کا کام ہورہا ہے یعنی کلچرل نیشنلزم جارحانہ ہوگیاہے۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کے لیے کرنے کو زیادہ کچھ نہیں ہے۔وہ جو کہتے یا کرتے ہیں الٹامطلب پیش کرکے اکثریتی آبادی کوورغلایا اوران میں مزید نفرت ودشمنی پیدا کی جاتی ہے۔ حکومت خاموش رہتی، بولتی یا کارروائی کرتی ہے تو ان ہی کے حق میں جیساکہ ماب لنچنگ کے معاملوں میں جو لوگ مارے جاتے ان ہی کے خلاف مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ تاہم مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ابھی بھی حالات اتنے خراب نہیں ہوئے کہ عدلیہ سے انصاف نہیں مل سکتا۔ملک میں سیکولر،سنجیدہ، انصاف پسند اورانسان دوست لوگوں کی اکثریت ہے جن کو پکارا جاتاہے تولبیک کہتے ہیں،مدد مانگی جاتی ہے تو مدد کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی فورم بناکر جارحانہ قوم پرستی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ بھی اس بے راہ روی کے خلاف ہیں۔لیکن اپنے لیے مخالفت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو خاموش ہیں۔
ایمان سب سے بڑی طاقت
مسلمانوں کے پاس سب بڑی طاقت ان کا ایمان اورکھویا ہوا ورثہ ہے۔ ایمان کمزور تو مسلمان کمزور اورایمان مضبوط تو مسلمان بھی مضبوط اورطاقت ورنہ بنیں گے۔ہردور میں اورہر مسئلے کے حل کے لیے ان کی رہنمائی کا سارا سامان قرآن وحدیث میں موجود ہے۔جب تک مسلمان قرآن وحدیث سے وابستہ رہے اوران میں مسائل کا حل تلاش کرکے کام کرتے رہے دنیا میں ان کی طوطی بولتی رہی اورجب ان سے دور ہوئے مظلوم بنے۔
اسلام کی کشش اوردعوت وتبلیغ کا فریضہ
مسلمانوں کے پاس کامیابی کی شاہِ کلید اور تمام مسائل کا حل— اسلام— موجود ہے۔ جس میں اتنی کشش ہے کہ اس کا پیغام لوگوں کے پاس پہنچایا جائے تو لاکھوں افرادکھنچے چلے آتے ہیں۔ آج بھی دنیا اس پیغام کا انتظار کررہی ہے۔ کمی ہمارے اندر ہے کہ ہم دعوت وتبلیغ کے فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی برت رہے ہیں۔جب کہ قرآن مجید میں جابجا اورحجتہ الوداع کے خطبے میں واضح ہدایت دی گئی ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل صرف اسلام میں ہے اورہم اپنے مسائل کا حل دنیا کے پاس تلاش کررہے ہیں اوراپنے عمل سے اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمارا توکل علی اللہ بھی ویسا نہیں جس نے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑادیئے تھے۔ آج بھی ہمارے اندر براہیمی ایمان پیدا ہوجائے تودنیا کے یہ فتنے، تشدد، نفرت وتشدد اورظلم ہمارے لئے نیک فال ثابت ہوسکتے ہیں۔ مسلمانوں کی آزمائش
مسلمانوں کی آزمائش ہر دور میں ہوئی۔حالات سے گھبرانے یا ڈرکر بھاگنے سے مصیبتیں کم نہیں ہوتیں بلکہ مقابلہ کرنے کے لئے ویساہی خود کو تیار کرنا ہوگا۔ ہمارے اندر نہ جذبات وبہادری اورصبر وتحمل کی کمی ہے اورنہ دولت کم ہے، کمی ہے تو اتحاد وبھائی چارے، تعلیم، سیاسی شعور، ہنر اورزندگی کے ہرشعبے میں آگے بڑھنے کی۔ہمارے پاس نہ کوئی وژن ہے اورنہ منصوبہ۔ اپنے محدود وسائل کا بھی استعمال نہیں کرپاتے۔میڈیا کے اس دور میں ہمارے پاس مؤثر میڈیا اورافراد نہیں۔افسوس کی بات ہے کہ نہ ہم عصری علوم میں کسی کے مقابل کھڑے ہیں اورنہ دینی علوم میں۔ہر میدان میں پسماندگی ہماری پہچان بن رہی ہے۔ہماری بڑی تعداد قرآن وحدیث ٹھیک سے پڑھ نہیں سکتی اورجو پڑھنا جانتی ہے وہ سمجھ نہیں سکتی۔ہم خود کوشریعت کا پابند اورمسلمان کہتے ہیں لیکن مسلم بستیوں میں کتنے لوگ ہوتے ہیں جو نماز کی امامت کرسکیں، نکاح ونماز جنازہ پڑھاسکیں،اپنے ہاتھوں سے جانوروں کی قربانی کرسکیں اوردیگر مذہبی امور کو انجام دے سکیں اوران کے پاس شریعت کی جانکاری ہو؟
ہمارے اتحاد کا حال یہ ہے کہ الگ الگ جماعتوں، تنظیموں، مسلکوں، علاقوں اورپارٹیوں میں ہم منقسم ہیں۔ بے حسی اس قدر کہ کسی علاقے کے مسلمان پریشانی میں ہیں تو مدد نہیں کرتے۔ سیاسی شعور میں کمی کا عالم یہ ہے کہ پہلے ہم کو ووٹ بینک بنایاگیا اوراب ہمارے ووٹوں کا وزن نہیں۔ہمارے ووٹ اس قدر تقسیم ہوتے ہیں کہ جس امیدوار کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوتا۔ پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میں نمائندگی کم ہورہی ہے۔ کہیں صفرتوکہیں ایک ہندسہ بھی پار نہیں کرتی۔ سیاست میں ہم صرف استعمال ہوئے۔جس سیکولرزم کو اپنے کندھوں پر اٹھاکر چلتے رہے وہ بھی کمزور ہوگیا اورہم بھی کمزور ہوگئے۔ یہ سوچ کر نئی نئی سیاسی پارٹیوں کو آزماتے رہے کہ اقتدار میں آکر مسائل حل کردے گی۔ لیکن ہر پارٹی نے استحصال کیا۔سیاسی لیڈر وں نے بھیس بدل بدل کر ہمارا ووٹ حاصل کیا۔ہمارے ووٹ اورحمایت سے چھوٹی چھوٹی برادریاں اقتدار میں آگئیں۔وہ اپنی بات سیاسی پارٹیوں اورحکومتوں سے منوالیتی اوراپنا حق حاصل کرلیتی ہیں لیکن بیس کروڑآبادی اورملک کی دوسری اکثریت ہونے کے باوجود ہم سماج اورسیاست میں کچھ نہیں کرسکے۔جہاں تھے اس سے بھی پیچھے چلے گئے۔اب ہمیں سب سے پسماندہ دلتوں کیساتھ کھڑا کیا جاتاہے۔بلکہ ہم خود کھڑے ہوکر پسماندگی اورمظلومیت دنیا کو دکھارہے ہیں۔ ووٹ بینک تو ہم بنے لیکن پریشرگروپ بناکر کسی پارٹی پر دباؤ نہیں ڈال سکے۔ہم سے جوغلطیاں ہوئیں ان پرمایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اب بھی حالات بدل سکتے ہیں۔البتہ اس سے پہلے خودکو بدلنا ہوگا۔کیونکہ مسائل اپنے معاشرے میں خرابی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔جن سے دوسروں کو اسلام،مسلمانوں اورشریعت کے خلاف بولنے اورکام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس لئے پہلے اپنی اصلاح پھر مؤثر حکمت عملی اپنانی ہوگی جوہم کرسکتے ہیں۔
MD SIBGATULLAH NADVI
Senior Sub-Editor
Seh Roza Dawat (Urdu)
New Delhi