(فعال ممبر ایس آئی او طیب پاشا کے سانحۂ ارتحال پر ان کے عزیز دوست محمد مظفر کی تحریر)
۴؍ستمبر۰۱۴ ۲ ء کویہ خبر حیدرآباد کے تحریکی اور تنظیمی حلقوں میں انتہائی دکھ کے ساتھ سنی گئی کہ ایس آئی او کے نوجوان ممبر برادرِ عزیز طیب پاشا اچانک اس دارفانی سے کوچ کرگئے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح موبائل فونس، واٹس اپ اور دیگرسوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر پھیل گئی۔ یہ خبر جتنی تکلیف دہ تھی، اتنی ہی حیرت انگیز بھی تھی کہ ایک پچیس چھبیس سالہ تندرست نوجوان جو ہمیشہ سب سے خندہ پیشانی سے ملتا، سب کو ہنستا ہنساتا اور ہمیشہ تازہ دم رہتا، تنظیم کے ہر اجتماع اور ہر مہم میں پیش پیش رہتا،کس طرح اچانک چند ایک دن کی مختصر علالت کے بعد اللہ کو پیارا ہوگیا۔
دوسرے دن جب بعد جمعہ نماز جنازہ پڑھائی گئی اور جنازہ قبرستان لے جایا گیا، ا س وقت مانو سارا شہر سسکیاں لے رہا تھا، ہرکوئی اِس پیارے نوجوان کی تعریفوں کے گن گا رہا تھا اور اندر ہی اندر درد سے کراہ رہا تھا، یہ دردناک منظر جہاں اِس نوجوان کو خراجِ عقیدت پیش کر رہا تھا وہیں سب کو اِک حقیقت بھرا پیغام دے رہا تھا کہ .. ’’اے انسان ! تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف جا رہا ہے، پس تیری اُس سے ملاقات ہونے والی ہے‘‘۔
یوں تو ہم سبھی نے بے شمارلوگوں کی وفات دیکھیں لیکن کسی صالح نوجوان کی میت بے انتہا عبرت کی حامل ہوتی ہے، جانے والے تو بہت جاتے ہیں لیکن بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو اوروں کو راہ دکھا کر جاتے ہیں، ایسے نوجوانوں کے جنازے اکثر بے جان روحوں میں بھی ایمان، عملِ پیہم، اور عزم و حوصلہ کی شمعیں روشن کر جاتے ہیں۔ ناچیز برادر مرحوم کا ماموں زاد بھائی ہے اور یارِ غار بھی، اس اعتبار سے اس نوجوان سے بہت ہی قریبی تعلق رہا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اس صالح نوجوان کی زندگی کے متعلق کچھ اہم حقائق پیش کردئیے جائیں تاکہ ہمارے آج کے مسلم نوجوانوں کے لئے یہ باتیں مشعلِ راہ بن سکیں۔
مرحوم کا تعلق سنگور ، ضلع میدک سے ہے، ایک صوفی گھرانے میں بچپن گزارا، گھر کے اکلوتے فرزند تھے،تقریباََ چھ سات سال کی عمر میں اپنے خاندان سمیت حیدرآباد منتقل ہوگئے، ابھی کم سن تھے کہ والد صاحب کا سایہ سر سے اُٹھ گیا، والدہ نے انتہائی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا۔وہ انہیں ابتدا ہی سے ایس آئی او چلڈرن سرکل کے اجتماعات میں پابندی سے بھجوایا کرتیں، بچپن ہی سے ماں کا یہ وفادار بیٹا تنظیم کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا،اس طرح ایک دن یہ تنظیم کا فعال ممبر بن گیا، مقامی سطح پر تنظیم کی مختلف ذمہ داریاں سنبھالیں اور ڈویژن اور شہر کی سطح پر بھی مختلف پرگرامس اور مہمات بخوبی انجام دیں۔آپ آرکیٹکٹ تھے او اس فیلڈ میں آپ نے مختلف اہم پروجیکٹ پر کام کیا۔آج سے تقریباََ دو سال قبل شادی ہوئی اور اس وقت اُن کی گیارہ ماہ کی ایک پیاری بچی ہے۔
تنظیمی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ ہمیشہ اپنے ذاتی تزکیہ پر توجہ دیتے، ان کا ماننا تھا کہ اسلامی تحریک در اصل قرآنی تحریک ہے اور یہ تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس تحریک کے ماننے والوں کا تعلق کلام اللہ سے مضبوط نہ ہو جائے۔ یہ بھی ان کا ماننا تھا کہ محض ترجموں سے کوئی انقلاب نہیں آتا جب تک کہ کلام اللہ کو اس کی اپنی زبان میں نہ سمجھا جائے اور اس کے مزاج کو نہ اپنایا جائے۔ غالباََ یہی تڑپ تھی جس نے انہیں عربی زبان سیکھنے پر آمادہ کیا، اس طرح مرحوم نے عربی کے ایک ممتاز عالم سے زبان سیکھی اور انہیں سے عالمِ عرب کے ممتاز رسم الخط بھی سیکھے۔
بھائی کو سنت رسولؐ سے بے انتہا لگاؤ تھا، مالی مشکلات کے باوجود انہوں نے گھوڑسواری سیکھی، خوشبو لگانا اور ساتھیوں کو تحفہ میں خوشبو عنایت کرنا ان کی محبوب عادت تھی، ناچیز کے گھرمیں کتنی ہی عطر کی شیشیاں اب بھی موجود ہیں جو اسے ان سے تحفہ میں ملی تھیں۔ بھائی ہمیشہ باوضو رہا کرتے، انتقال کے وقت بھی وہ باوضوہی تھے اورحالت سکرات میں سورۃ الفاتحہ اور آیت الکرسی کی تلاوت کر رہے تھے۔
سخت جاڑوں میں اور حالت بخار میں بھی ٹھنڈے پانی سے وضو بناکر فجر کی پابندی کرتے، صبح وشام کے اذکار روزانہ کا معمول تھا ، ہمیشہ زبان پر اللہ کی حمد جاری رہتی۔معاشی معاملات میں بے انتہا غیرت مند تھے اور ہر حال میں اللہ کا شکر بجا لاتے تھے۔بھائی ہمیشہ اتحادِامت کے لئے فکر مند رہتے، یہی وجہ ہے کہ مختلف دوسری تنظیموں اور مکتب فکر کے لوگوں کے ساتھ بھی اٹھنا بیٹھنا رہتا، اور غالباََ اسی وجہ سے مرحوم کے جنازے میں تمام ہی مکتب فکر کے افراد موجود تھے۔
اس طرح اس نوجوان کی زندگی ایک حسین یادگار بن گئی اور موت بھی ہم جیسے نوجوانوں کو بے شمار اسباق دے گئی۔خوش نصیب ہے وہ جو موت سے پہلے اپنی آخرت کی تیاری کرلے۔
اللہ ہمارے قلوب کی اصلاح فرمائے، مرحوم بھائی کی مغفرت فرمائے او ر پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق مرحمت فرمائے، آمین