کتاب خواں سے صاحب کتاب کی طرف

ایڈمن

محمد عبدالمومنڈیجیٹل میڈیا کے توسط سے معلوم دنیا کی کثیر فیصد آبادی تک تمام گزرتے لمحات میں علم اورمعلومات کابہم پہونچایا جاسکنا انسانی تاریخ کے اہم واقعات میں سے ایک ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا میںمواد کی بنیادی شکلیں متن سے لے…

محمد عبدالمومن


ڈیجیٹل میڈیا کے توسط سے معلوم دنیا کی کثیر فیصد آبادی تک تمام گزرتے لمحات میں علم اورمعلومات کابہم پہونچایا جاسکنا انسانی تاریخ کے اہم واقعات میں سے ایک ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا میںمواد کی بنیادی شکلیں متن سے لے کر تصویر،گرافِکس، بصری اور صوتی فارمیٹ پر مبنی ہوتی ہیں۔ متن ، بصری اور صوتی مواد، کسی بھی زبان کے بنیادی الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا کے اس انقلاب نے نہ صرف دنیا کے تہذیب و تمدن والے علاقوں میں تیار کیے جانے والے علمی و معلوماتی مواد کو اپنے قالب میں ڈھال لیاہے بلکہ ماضی میں ہوئے علمی مواد کو جو مسودات کی شکل میں کاغذ پر ثبت تھا اسے بھی رفتہ رفتہ مخصوص ٹکنالوجی کی مدد سے ڈیجیٹل شکل میں لانے میں بھی ایک حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے۔
اب علم وعلمی مواد پر نہ کسی کی مکمل اجارہ داری ہوسکتی ہے اور نہ کوئی قوت و دبدبے کے ذریعے اُس پر مُطلق تسلط ہی حاصل کرسکتا ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی میں چاہے وہ تعلیمی ہو یا سائنسی، سماجی ہو یا سیاسی، معاشی ہو یا تفریحی، خبریں ہو یا کھیل کود ،ڈیجیٹل شکل کی زد میں سب آگئے ہیں۔ اور یہ منظر نامہ معلوم انسانی تاریخ میں پہلی بار وجود میں آیا ہے، ا ِس پر ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم خود کو اِس قابل بنائیں کہ اس نعمت کا مناسب استعمال کر پائیں۔
ورلڈ وائڈ ویب اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کی شکل میں دنیا کی اکثر قومی زبانوں میں مواد کی اشاعت ہر لمحے ہوتی جارہی ہے۔ ہم اگلی سطور میں ڈیجیٹل میڈیا کے اس پورے منظر نامے کی چند خصوصیات کا ذِکر کریں گے۔
مواد کی تیاری میں آسانی
غیر الیکٹرانک فارمیٹ میں لکھی گئی قدیم کتابوں کو ڈیجیٹل شکل میں لانا ہو یا الیکٹرانک مواد کی ازسرِنو تیاری، دونوں معاملے میں مواد کی تیاری میں بلا کی سُرعت، دِقّت نظری اور آسانی ہوچکی ہے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اوراو۔سی۔ آر۔(Optical Character Recognition)جیسی ٹیکنالوجیز نے اس میدان میں انقلاب برپا کردیا۔
تیار شدہ مواد میں وُسعت، نُدرت اور گہرائی
جہاں ایک طرف مواد کی تیاری میںشارحانہ اضافہ ہورہا ہے وہیںمواد میں نُدرت اور گہرائی پیدا کرنا بھی مشکل نہیں رہا۔تاریخ کے ایک طالب علم کو اگر کسی تاریخی عنوان پر کچھ کام کرنا ہو تو اُس کے لئے مذکورہ عنوان پر اب تک کیے گئے عِلمی کام تک رسائی (انٹرنیٹ اور سرچ پلیٹ فارمس کی مرہون منت)عام ہوگئی ہے جو ورلڈ وائڈ ویب پر موجود مضامین اور کتابوں کی شکل میں گھر بیٹھے دستیاب ہوگا۔ عِلم الحدیث کے محقق کو اگر کسی حدیث کی دِرایت اور روایت کی چھانٹ پٹخ کرنی ہو تو وہ ’’مکتبہ شاملہ‘‘نامی سافٹ ویر کے ذریعے ہزاروں کتابوں میں سے متعلقہ حدیث کے ذکر کو چند سکنڈوں میں سامنے رکھ دے گا جس سے عین ممکن ہے کہ ایک سنجیدہ محقق نہ صرف بات کی گہرائی و گیرائی میں جائے گا بلکہ اپنی تحقیق میں نُدرت بھی لائے گا۔
وسائل اور مواد پر حقوق
جہاں تک مواد کی تیاری کے لیے درکار وسائل کا معاملہ ہے آج نہ کاغذ کی شرط لازم ہے اور نہ مہنگی پرنٹنگ مشینوںہی کی قید۔ بلکہ ڈیجیٹل مواد کا امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ مجازی وجود(virtual)رکھتا ہے۔ عِلم و معلومات کا وہ سمندر جو کبھی تاتاریوں کے حملے کے بعد دجلہ و فرات میں بہہ جانے کے بعد محض انسانی یادداشت میں محفوظ رہ جاتا ، ضخیم کتابوں کی شکل میں عظیم الشان کتب خانوں کی زینت بنا رہتا ، اب الیکٹرانک ہارڈ ڈِسک کی شکل میں محفوظ اورانٹرنیٹ و دیگر ٹکنالوجیزکے ذریعے ایک عالَم تک رسائی کے قابل ہوا جارہا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ آپ ڈیجیٹل ذرائع کے چند آلات سے واقف اور ان کے استعمال کے قابل ہوں۔
مواد تک حیرت انگیز حد تک آسان اور سستی رسائی
پچھلے دس سالوں میں انٹرنیٹ ، موبائیل اور سوشل میڈیا کے انقلاب نے موبائیل ایپس، ویب سائٹس اور سافٹ ویئرس کے ذریعے کسی بھی قسم کے مواد کوآسان فہم اور کم خرچ میں انسانیت کے ایک جم غفیر تک پہونچانے کو ممکن بنادیا ہے۔ویڈیو کی اشاعت کے پلیٹ فارم یوٹیوب پرکچھ ویڈیوز ایسی بھی ہیں جنہیں لگ بھگ آدھی دنیا دیکھ چکی ہے! جس سے ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ کی رسائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
مواد کسی بھی قسم(متن، صوتی، گرافکس، بصری) اور شکل(کتاب، مضمون، سافٹ ویئروغیرہ) میں ہو، چیز جو اس کا مقام اور اثر متعین کرتی ہے وہ اس میں موجود اصلیت اور جاذبیت ہے ۔ڈیجیٹل میڈیم میں شائع شدہ مشہور و معروف پلیٹ فارمس پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مواد کو جب آپ پرکھیں گے تو اکثر احساس ہوگا کہ دقیق علمی ،سائنسی ، فلسفیانہ اور تاریخی وغیرہ موضوعات پر مبنی مواد جو قارئین و ناظرین کی توجہ اور مخصوص میلان کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہو، منٹوں میں سمجھ میں آجاتا ہے۔ صرف تعلیمی مواد کی بات کی جائے توخان اکیڈیمی کے علاوہPhET،CLIx اور اس قسم کے دیگر کئی (Open Educational Resources) وافر مقدار میں موجود ہیں جنہیں گوگل یا ڈک ڈک گو(www.duckduckgo.com) جیسے سرچ انجنوں کی مدد سے کوئی طالب علم متعلقہ شائع شدہ عنوان تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
پروڈیوسر(تیار کنندہ) اور کنزیومر(صارف) کی تقسیم
جس طرح کسی بھی صنعت میں تیار کنندہ اور صارف کی الگ الگ شناخت ہوتی ہے اُسی طرح ڈیجیٹل شکل میں مواد کو تیار کرنے والے اور مواد کے نِرے صارفین کی بہ آسانی تقسیم کی جاسکتی ہے۔ ایک طرف اجتماعی طور پر دنیا بھرکی جامعات سماجی و تفریحی ادارے مختلف شعبہ ہائے علوم و فنون میں بہیترے مواد کی تیاری میں لگے ہیں، وہیں متعدد افراد انفرادی سطح پر بھی ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ میں علم و معلومات کے کارپَس (corpus)کو وجود میں لارہے ہیں۔تیار کنندوں کی تعدادغیر ڈیجیٹل دنیا کی بہ نسبت اب بہت زیادہ ہوچکی ہے لیکن صارفین کا حلقہ تہذیب و تمدن سے آراستہ دنیا کے تقریباََحصے پر مبنی ہے۔
ٍ اس موقع پرسوچنے کی بات ہے کہ ہم ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ میں کس مقام کھڑے ہوئے ہیں۔ کیا ہم روزانہ کسی مخصوص تفریحی چینل و پلیٹ فارم سے اپنی جمالیاتی و نفسیاتی بھوک کا مداوا کرتے ہیںیا سماجی رابطے کی ویب سائٹس و دیگر ایپس(apps)و سافٹ ویئرس پر خبروںکی شکل میں اکثر غیر ضروری پروپگنڈے کا شکار ہو تے رہتے ہیں؟کیا ہم اس نہ تھمنے والے ڈیجیٹل مواد کے سیلاب میں بہے جارہے ہیں جو مختلف شکلوں میں کئی جہتوں سے ہماری بصارتوں، سماعتوں اور قلوب و ذہن پر اثر اندازہورہا ہے؟ اور چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی مجموعی طور پرمحض کسی کے تیار شدہ مواد کے بے ہنگم صارف بنے ہوئے ہیں ؟
اس مسئلہ کو آسانی سے سمجھنے کے لئے روزآنہ کی سطح پر مؤثر سمجھے جانے والے اخباروں ، ٹیلی ویژن چینلس، انٹرنیٹ پلیٹ فارمس، سماجی رابطے کے پلیٹ فارمس پرخبروں اور تعلیمی ، سائنسی، تفریحی، سماجی ، معاشی وغیرہ سے متعلق مواد کے تیار کنندوں کو دیکھ لیجئے۔ واضح طور پر محسوس ہوگا کہ ہمارا کردارمجموعی طور پر مواد کے صارف بنے رہنے تک ہی محدود ہے جس کی طرف علامہ اقبال ؒنے کچھ یوں اشارہ کیا تھا کہ ؎
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب ِکتاب نہیں
ہمیں ڈیجیٹل دنیا میں محض کتاب خوانی سے نکل کر صاحبِ کتاب بننے کی خاطر سنجیدہ ہونے اور پھر اس تخصص میں ضروری صلاحیتوں اور آلات سے لیس ہونے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں چند نکات پیش کیے گئے ہیں،جن کو بنیاد بنا کر نہ صرف ڈیجیٹل موادکا مؤثر و قناعت پسندانہ استعمال ممکن ہوگا بلکہ علمی دنیا میں خود کے مذہبی و تہذیبی مطمحِ نظر کو بھی پوری قوت کے ساتھ رکھا جاسکے گا:
زبان کی اہمیت
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ڈیجیٹل میڈیم میں موجودگی ، پہونچ اور ڈیجیٹل آلات سے لیس چند ہی زبانیں ہیں جنہیں ’’ڈیجیٹل لحاظ سے مالا مال‘‘کہا جا سکتا ہے۔اس پیمانے کی بنیاد پرجو زبانیں حاشیے پر ہیں البتہ کسی نہ کسی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں ،اُن میں ہماری زبان ـاردوـ بھی ہے۔ جہاں اردو ہماری مادری زبان ہے جس سے مافی الضمیرکے اظہار میں اور اصلی علمی کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے وہیں برصغیر میں اب بھی دیگر زبانوں کی بہ نسبت مسلمانوں کا تہذیبی و مذہبی ورثہ اسی زبان میں موجود ہے۔ البتہ یہ محمول نہ کرلیا جائے کہ برصغیر کے تمام مسلمانوں کی مادری زبان اردو ہی ہے ۔دیگر کئی زبانیں بھی یہاں کے مسلمانوں کی تہذیبی و مذہبی روایات کی وارث ہیں اور ان میں بھی ہمیں کام کرنے کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ بات اگر اردو کو ڈیجیٹل لحاظ سے مالا مال کرنے کی ہو تو مشکل سے مشکل کام بھی ہیں جیسے اُردو میں او۔سی۔آر کی تخلیق ۔جس سے غیر الیکٹرانک شکل میں شائع شدہ سارے موادکو ڈیجیٹل انداز دیا جاسکتا ہے۔ اور آسان سے آسان کام بھی ہیں جیسے مختلف شعبہ ہائے علوم و فنون میں موجود اردو کی کتابوں کی پی ڈی ایف بناکر آن لائن ویب سائٹس جیسے archive.org اور خود سے بنائی گئی دیگر ویب سائٹس ، موبائل ایپس وغیرہ پر شائع کیا جاسکتا ہے۔ اردو ادب پر ڈیجیٹل میڈیم میں اچھا خاصہ مواد مل جائے گا لیکن دیگر شعبہ ہائے جات زندگی میں اُردو اب بھی جاں بلب نظر آتی ہے اور یہ میدان نسبتاََ خالی پڑا ہے۔
آئیے ایک نظر اُس کام پر ڈالتے ہیںجو ہم کرسکتے ہیں۔ میری دانست میں ہر شعبہ ہائے علم و فن میں شائع شدہ جدید و قدیم مؤقر اور معتبر علمی مواد کو جو اردو میں اب تک نہیں کیا گیا ہے، دیگر زبانوں سے ترجمہ کرتے ہوئے اُردو کے قالب میں ڈھال کر ڈیجیٹل انداز میں اشاعت کرنی چاہیے جس میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ مواد کی مناسب تقسیم ہو تاکہ انٹرنیٹ کے ذریعے تلاش کرنے میں آسانی ہو۔اس کام کے لیے روایتی ترجمے کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل آلات و ٹکیکنالوجیز سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ اور یہ کام اِدارہ جاتی سطح پر کوششوں کا محتاج ہے۔مخصوص شعبہ ہائے زندگی میں مواد کو ڈیجیٹل قالب سے آراستہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا جائے ۔ عین ممکن ہے کہ ’تہذیبوں کا تصادم‘ جیسی لاطائل بحثوں سے نکل کر ہم زبانوں کے اس علمی اشتراک کے ذریعے اپنی گم شدہ میراث کی بازیافت ہی کرپائیں۔ایک نسبتاََ چھوٹی لیکن پُر امید مثال https://www.teachinurdu.org/ کی ہے جہاںجدید تعلیمی مواد کو نہ صرف اردو کے قالب میں ڈھالا جارہا ہے بلکہ آڈیو، ویڈیو اور سیمولیشن کی شکل میں شائع کیا جارہا ہے جو کسی بھی طالب علم کے لئے اردو میں سیکھنے کے لئے معاون ہوسکتے ہیں ۔
ایک اور اہم کام یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیم کے ہر بڑے پلیٹ فارم پر اردو میں مواد کا اضافہ کیا جائے۔ جیسے وکی پیڈیا اُردو(https://en.wikipedia.org/wiki/Urdu_Wikipedia) پر مختلف عناوین پر اُردو میں مضامین کو تیار کیا جائے، اسی طرح گوگل کے ترجمہ والی ویب سائٹ گوگل ٹرانسلیٹ(https://translate.google.com/) پر انگریزی سے اردو میں ترجمہ اور اردو سے انگریزی ترجمہ میں مزید اضافہ کیا جائے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے archive.org پر جتنی ممکن ہو اتنی کتابیں اور دیگر ڈیجیٹل مواد کو اَپ لوڈ کردیا جائے۔ اسی طرح یونیورسٹی آف کولوراڈو کی (University of Colorado)جانب سےPhET نامی ایک قابل قدر کوشش بھی ہے جہاںطبیعات،کیمیاء،ریاضی وغیرہ مضامین میں کئی سیمولیشنس موجودہیں جنہیں اُسی ویب سائٹ (https://phet.colorado.edu/) کی مدد سے اُردو میں ترجمہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
تعلیمی، سائنسی، معاشیاتی، سماجی، سیاسی اور آرٹ وغیرہ جتنے بھی شعبہ ہائے زندگی میں اردو میں جو بھی اصلی کام ہورہا ہے اُس کو ڈیجیٹل قالب میں ڈھالنے پر اداروں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس ضمن میں انفرادی طور پرکی جانے والی چھوٹی چھوٹی کوششیں بھی رائیگاں نہ جائیں گی۔
کسی مخصوص زبان پر اس کی زمانی و مکانی افادیت کی بناء پر ہمیشہ ہمیش کے لئے تکیہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کی مذہبی روایات کو جن کا اثر ہر شعبہ ہائے زندگی پر پڑتا ہے، اگر باقی رکھنا ہے اور ترقی و ترویج دینا ہے تویہ کام خود اپنی زبان کومحض بول چال، ادب و صحافت اور مخصوص مذہبی دائرے کے اندر محدودرہ کربالکل نہیں کیا جاسکتا۔ زبان تہذیبوں اور نظریات کی ترویج اور پختگی کا باعث بھی بنتی ہے اُن کے زوال کی بھی۔لہٰذا ضروری ہے کہ متذکرہ بالا منتخب کاموں کے ذریعے اور اس کے علاوہ ہر ممکن طریقے سے نہ صرف اپنی ڈیجیٹل موجودگی کو کارآمد بنایا جائے بلکہ حال و مستقبل کے لئے مذہبی و علمی کام کی بنیادیں بھی مضبوط کردی جائیں۔مزید یہ بھی کہ مواد کے نِرے صارف بنے رہنے کو تج کراپنی نظریاتی و علمی اور مذہبی روایات کو ترقی و ترویج دینے کی کوشش کی جائے جو عین ممکن ہے کہ ہمیں مجموعی طور پر کتاب خواں سے بدل کر صاحب کتاب میں تبدیل کرے۔

([email protected])

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں