ڈاکٹر امتیاز احمد
عصرحاضر میں جدید ٹیکنالوجی بالخصوص سوشل میڈیا اور اسمارٹ فون نے انسانی زندگی پر غیر معمولی اثرات مرتب کئے ہیں۔اس نے نہ صرف انسان کی نفسیات کو متاثر کیا ہے، بلکہ اس کی اجتماعی زندگی کے دائرے کو بہت محدود کر دیا ہے۔ خبروں اور معلومات سے بھرے اس دور میںانسان ہر لمحہ نئی معلومات اور انفارمیشن کا متلاشی ہے۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں برق رفتار ترقی اور روزانہ نئی ایجادات نے جہاں ایک طرف زندگی میں بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں دوسری جانب اس نے لوگوں سے اس کی خود مختاری کو چھین کر اسے اپنی مقناطیسی کشش کی بیڑیوں میں اسیر کر دیا ہے، اور اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان کو اپنی اس اسیری کا علم بھی نہیں ہے۔ الغرض یہ کہ آج کا انسان غیر محسوس طور پر ٹیکنالوجی کی غلامی اختیار کر چکا ہے۔ صبح و شام اس کی نگاہیں فون کی اسکرین پر جمی رہتی ہیں۔ واٹس ایپ، فیس بُک، یوٹیوب،انسٹاگرام،ٹیوٹر، اسنیپ چیٹ اور اس طرح کی بہت سی ایپلیکیشن ہیںجو اسے حقیقی دنیا سے غافل رکھتی ہیں، اور جس میں وہ زندگی کے خوبصورت ایام کو ضائع کرتا رہتا ہے۔
سوشل میڈیا کی لت (Addiction) انسان میں بہت سے منفی جذبات اور نفسیاتی مسائل کو جنم دیتی ہے۔اس کی وجہ سے انسان کے اندر بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اسے ہر وقت یہ پریشانی لاحق رہتی ہے کہ کیسے اس سے چھٹکاراحاصل کیا جائے۔اس سے بچنے کے لئے وہ بہت سے طریقہ ہائے کار اختیار کرتا ہے، اپنے اوپر بے شمار پابندیاں بھی لگاتا ہے، مگر اس (سوشل میڈیا کی لت) کے مقابلے میں اس کے عزم اور ارادے بہت جلد ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔اس طرح وہ بار بار اپنے عزم کو اپنی ہوائے نفس کے سامنے ٹوٹتا اور بکھرتا ہوا دیکھتا ہے۔ لہٰذا اسے کوئی سبیل نظر نہیںآتی جس سے وہ ڈیجیٹل دنیا کی تاریکی سے اپنے آپ کو بچا سکے، اور حقیقی سماجی زندگی کا لطف اٹھا سکے۔ اس طرح کے مسائل پر بہت سے مصنفین نے کتابیں لکھی ہیں، اور ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کے متعلق بہت اہم اور قیمتی اقدامات کا تذکرہ کیا ہے،لیکن ان تمام میں کال نیوپورٹ کی کتابDigital Minimalism کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے ۔ اس مضمون میں ہم کال نیوپورٹ کی اسی کتاب کے حوالے سے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ضرورت سے زیادہ ٹیکنالوجی کے استعمال نے انسان کے رویے میں کس قسم کی تبدیلی پیدا کی ہے، نیز ہم یہ بھی جانیں گے کہ نیوپورٹ نے ٹیکنالوجی کی آہنی بیڑیوں سے آزادی حاصل کرنے کے کیا راستے بتائے ہیں۔
اس کتاب پر تفصیلی گفتگو سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس میں پیش کئے گئے اہم نکات پر ایک اجمالی نظر ڈال لی جائے تاکہ کتاب کو باآسانی سمجھا جا سکے۔اس سلسلے میں نیو پورٹ نے پانچ اہم نکات بیان کیے ہیں ۔
ڈیجیٹل قناعت (Digital Minimalism): یہ دراصل ٹیکنالوجی سے متعلق ایک فلسفہ کا نام ہے جو انسان کو ٹیکنالوجی بالخصوص سوشل میڈیا کے کم سے کم استعمال کی ترغیب دیتا ہے۔اس کے مطابق انسان کو انٹرنیٹ پر کم سے کم اوقات صرف کرنا چاہئے، اور صرف ان چند منتخب سرگرمیوں پر جو اس کے لئے نہایت ضروری ہیں، اور جسے وہ اہمیت کے قابل سمجھتا ہے۔
ڈیجیٹل دنیا سے دوری(Digital Declutter): یہ ایک مشق ہے جس کے ذریعہ انسان ٹیکنالوجی کی عادت پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ٹیکنا لوجی کے استعمال کے تعلق سے وہ کچھ اصول اور قاعدے کی تعیین کرتا ہے، پھر تیس دن یا مہینے کے اعتبار سے پورے ایک ماہ تک اس سے دوری اختیار کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، اور اس عارضی علٰحیدگی کے بعد وہ کچھ مزید سخت پابندیوں کے ساتھ پھر سے ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا شروع کرتا ہے۔
خلوت سے محرومی(Solitude Deprivation): اس سے ایک ایسی کیفیت مراد ہے جس میں انسان اپنی ذات کو وقت نہیں دیتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ خلوت اور تنہائی کے لطف سے محروم رہتا ہے، لوگوں کے خیالات سے آزاد ہو کر اپنے خیالات و افکار کی دنیا میں گم رہنے کی لذت سے وہ یکسر نا آشنا رہتا ہے۔
سوشل میڈیا کا تضاد (The Social Media Paradox):سوشل میڈیا انسان میں ایک ہی ساتھ دو الگ طرح کے احساسات پیداکرتا ہے۔ اس کے استعمال سے انسان کے اندر خوشی کے ساتھ ساتھ مایوسی کی بھی کیفیت پیدا ہوتی ہے، وہ جہاں ایک طرف اپنے آپ کو لوگوں سے جڑا ہوا (Connected) محسوس کرتا ہے، تو وہیں دوسری طرف یہ اپنے آپ کو اکیلا اور تنہا محسوس کرتا ہے۔
بینٹ اصول(The Bennett Principle) : یہ ایک مشق ہے جو انسان کو جمود کے مقابلہ میں حرکت اور جسمانی محنت کی ترغیب دیتی ہے، اور مطالبہ کرتی ہے کہ انسان کوئی نیافن اور ہنر سیکھے اور ایسے کاموں میں اپنے اوقات کو لگائے جو حقیقی دنیا سے تعلق رکھتے ہوں، اور جو زیادہ سے زیادہ سماجی میل جول کے متقاضی ہوں۔
کتاب کا تعارف
اس کتاب کی اشاعت پہلی بار2019 میں ہوئی جسے پنگوِن رنڈم ہاوس، یو کے نے شائع کیا ہے، کتاب 372 صفحات پر مشتمل ہے جو دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں ڈیجیٹل قناعت(Digital Minimalism) کے متعلق فلسفیانہ مباحث پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں ان عوامل کا تذکرہ کیا گیا ہے جو لوگوں کی ڈیجیٹل زندگی کے لئے پریشانی کا باعث ہوتے ہیں، اور اس حصے کا اختتام مصنف ڈیجیٹل قناعت (Digital Minimalism) کے فلسفے پر عمل کرنے کے لئے طریقہ کارکی وضاحت پر کرتا ہے۔ کتاب کا دوسرا حصہ ان افکارپر مشتمل ہے جو فرد کی ڈیجیٹل زندگی کومتوازن بنا تے ہیں، اور جوفرصت کے ایام کو زیادہ سے زیادہ کار آمد اور مفید بنانے کی ترغیب دیتے ہیں، نیز یہ حصہ ان افکار پر عمل پیرا ہونے کے لئے مختلف مشق کا بھی تذکرہ کرتاہے۔
اس کتاب میں کل سات ابواب ہیں۔ پہلے حصے میں تین اور دوسرے حصے میں چار ابواب ہیں۔ذیل میں ہر باب پر مختصر روشنی ڈالی جائیگی:
غیر متناسب ہتھیاروں کی دوڑ ( A Lopsided Arms Race)
اس باب کے تحت مصنف نے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سوشل میڈیا کا عادی شخص کس طرح کی سماجی اور نفسیاتی پریشانیوں کا شکار رہتا ہے۔ مصنف نے مختلف دلائل کے ذریعہ اس بات کو ثابت کیا ہے کہ انسان کو ٹیکنالوجی کا عادی بنانے میں بڑی سطح پر منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ منصوبہ ساز اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ وقت ان کی سائٹس اور ایپس(Apps)کو استعمال کرنے میں صرف کریں تاکہ وہ خوب پیسہ کما سکیں۔مصنف کے مطابق لوگ اسکرین کے عادی اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے نہیں ہوتے ہیں، بلکہ ان کو اس کا عادی بنانے کے لئے بلین ڈالرس خرچ کیا جاتا ہے ’نیو پورٹ‘ کا کہنا ہے کہ لوگوں کا’Likes‘ چیک کرنا یہ ایک نئے قسم کا نشہ ہے جس سے انسان کی نفسیات پر منفی اثرات پڑتے ہیں، اور انسان کے باہمی تعلقات بھی اس سے خراب ہوتے ہیں۔
ڈیجیٹل قناعت (Digital Minimalism)
نیوپورٹ نے ڈیجیٹل قناعت کی تعریف کچھ اس طرح بیان کی ہے’’یہ ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا ایک فلسفہ ہے جس میں آپ بہت محتاط ہو کر اپنے آن لائن وقت کو چند منتخب اور مفید کاموں میں ہی صرف کرتے ہیں جو آپ کی زندگی کو بہتر بنانے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ ہرچیز کو آپ چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ ڈیجیٹل قناعت پسند وہ شخص ہوتا ہے جو درجہ ذیل تین قاعدوں کی پابندی کرتا ہے:
پہلا قاعدہ:ڈیجیٹل قناعت پسند شخص اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ تمام طرح کی ٹیکنالوجی کے آلات، مختلف ایپس ، اور ٹیکنالوجی کی دیگر سہولیات کے حصول میں انسان کا زیادہ وقت اور توجہ صرف کرنا اس کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
دوسرا قاعدہ: ڈیجیٹل قناعت پسند آدمی یہ مانتا ہے کہ کچھ خاص ایپس یا کچھ محدود ٹیکنالوجی کے آلات ہیں جو اس کے لئے اہم اور ضروری ہیں، جس کا محدود استعمال اس کی خوشحال زندگی کے لئے لازمی ہے،لہٰذا ان مخصوص ایپس یا ان محدود ٹیکنالوجی کے آلات سے فائدہ اٹھانے کے طریقہ کار کے سلسلے میں وہ غور و فکرکرتا رہتا ہے۔
تیسرا قاعدہ:اس غور و فکر کے نتیجے میں ڈیجیٹل قناعت پسند آدمی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے سلسلے میں بہت احتیاط کا مظاہرہ کرتا ہے، اور پھر ٹیکنالوجی کو وہ اپنی تفریح طبع کے لئے نہیں استعمال کرتا ہے، بلکہ وہ اس سے اپنا تعلق ایک مضبوط اور مستحکم ارادے پر قائم کرتا ہے۔ یعنی پہلے وہ اس بات پر غور کرتا ہے کہ آیا اس کے استعمال نہ کرنے سے اس کی زندگی میں کوئی بڑا فرق تو نہیں واقع ہونے والا ہے، اگر ایسا ہے تو وہ اس سے دوری اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ اور یہ احساس کہ وہ کیوں اسے استعمال کر رہا ہے؟ اس کی زندگی میں سوشل میڈیا کا کیا رول ہے؟اگر وہ ایک یا دو ایپس اپنے فون کی اسکرین سے خارج کر دیتا ہے، تو اس سے اس کی زندگی میں کیا فرق پڑے گا؟ان سولات کے جوابات اس شخص کے لئے سکون کا باعث ہوتے ہیں جو اس کو عملی طور ڈیجیٹل قناعت پسند بننے پر ابھارتے ہیں۔
ڈیجیٹل دنیا سے دوری (Digital Declutter)
Digital Declutter کے عنوان کے تحت کال نیوپورٹ ڈیجیٹل دنیا سے دوری اختیار کرنے طریقہ کار پر گفتگو کرتے ہیں، اور اس کے ضمن میں تین اہم اقدامات بتاتے ہیں جسے ہم ذیل میں مختصراً بیان کریں گے۔
ٹیکنالوجی کے تعلق سے اپنے لئے کچھ ضوابط متعین کیجئے، یعنی نئی ٹیکنا لوجی کے تعلق سے آپ اپنے روئیے میں تبدیلی پیدا کریں، آپ مختلف طرح کے ایپس کو اپنے موبائل فون سے نکال باہر کریں، وہ تمام ہی سائٹس جوبہت ہی زیادہ ضروری نہیں ہیں انہیں استعمال نہ کرنے کا عزم کر لیں۔ اور اگر کسی ایپ یاسائٹ کو ویزٹ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو موبائل فون کے بجائے کمپیوٹر کا استعمال کریں۔
ٹیکنالوجیز سے تیس دن یا مہینے کے اعتبار سے پورے ایک مہینے کا وقفہ (Break) لیں۔ اس دوران آپ وہ تمام ہی ٹیکنالوجیز جسے آپ اختیاری تصور کرتے ہیں، اس کے استعمال سے مکمل پرہیز کریں اور اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ اس سے آپ کی پروفیشنل یا ذاتی زندگی میں کوئی بڑا نقصان نہ ہو۔ اس عمل کے نتیجے میں آپ کے پاس غیر ضروری ٹیکنالوجیز کی ایک لسٹ تیار ہوجائے گی جس سے دور رہنا اب آپ کے لئے مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن اس پورے عمل میںجو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ آپ کے ذہن میں یہ بات بالکل واضح رہے کہ کون سی ایپس اور کن سائٹس کو آپ استعمال کرنے کی اجازت رکھتے ہیں، اور اس میں کتنا وقت صرف کریں گے، یہ چیز ٹیکنالوجی سے آپ کے تعلق کو از سر نومتعین کرے گی۔ اس وقفہ کے دوران اپنے آپ کو ان سرگرمیوں میں مصروف رکھیں جو جسمانی محنت اورسماجی تعلقات کی متقاضی ہوں۔ مثلاً، جسمانی ورزش کریں، کوئی ہنر، کوئی نئی زبان، کتابوں کا مطالعہ، کتابت، پینٹگ وغیرہ سیکھنے کی کوشش کریں۔ اس سے آپ کو اندرونی خوشی اور اطمینان حاصل ہوگا، اور ٹیکنالوجی سے آپ کو دورر کھنے میں یہ عمل بہت مفیدثابت ہوگا۔
اپنے آپ کو ٹیکنالوجی سے از سر نو متعارف کرائیں۔ تیس دن کے لمبے وقفے کے بعد آپ ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے سے پہلے اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا یہ ٹیکنالوجی ان اقدارکو حاصل کرنے میں آپ کی مدد کر رہی ہے جو آپ کو بہت عزیز ہیں؟ کیا وہ چیزیں جو آپ کی زندگی میں اہمیت رکھتی ہیں وہ ٹیکنالوجی سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں؟ آپ اس کا استعمال کیسے کریں گے تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکیں اور اس کے مضر اثرات سے بچ سکیں؟
خلوت میں وقت گزاریئے (Spend Time Alone)
تنہائی میں غور و فکر کرنے کی اہمیت ہمیشہ سے مسلم رہی ہے۔سوچنے اور غور و فکر کرنے کے لئے ارد گرد کے ماحول میں سکون اور خاموشی درکار ہوتی ہے،اور تنہائی پرسکون ماحول فراہم کرتی ہے۔مگر آج کے اس شور وغل اورٹیکنالوجی کی دنیا میں اس کی اہمیت گم ہوگئی ہے۔انسان ہر وقت موبائل فون اور لیپ ٹاپ سے چپکا ہوا نظر آتا ہے، اور خلوت میں وقت گزارنے کی لذت سے محروم ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں اس کی اہمیت کو اجاگرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ جو لوگ ڈیجیٹل قناعت پسندی اختیار کرنے کا عزم کر چکے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دن میں کچھ وقت موبائل فون سے کنارہ کش ہوکر تنہائی کا لطف لیں اور تنہائی کے ان لمحات میں زندگی کے مسائل پرغورو فکر کرنے، دیر تک چہل قدمی کرنے، اور خطوط لکھنے کو اپنا شیوہ بنائیں،اس عمل سے ان کو ناقابل بیان مسرت کا احساس ہوگا، اور وہ اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی محسوس کریں گے۔
لائک پر کِلک نہ کریں (Don’t Click Like)
سماجی زندگی کے بغیر انسان ہونے کاتصور نا ممکن ہے، چونکہ سماجی تعلقات انسان کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ اور سماجی تعلقات کا کمزور ہونا پورے سماج کے لئے تشویش کا باعث ہے۔لیکن سوشل میڈیا نے انسان کو سماجی زندگی سے بالکل کاٹ دیا ہے۔ ہم جتنا زیادہ سوشل میڈیا پر اپنا وقت صرف کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ ہم سماجی زندگی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ہمیں اپنی زندگی میں اکیلا پن اور مایوسی کا احساس ہونے لگتا ہے۔اسی طرح ہم اپنی روزانہ کی زندگی میں بارہا یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ انسان سوشل میڈیا کے ذریعہ دور دراز کے لوگوں سے تو جڑا رہتا ہے لیکن پاس میں بیٹھے دوستوں سے غافل رہ کر حقیقی دنیا میں زندگی جینے کے لطف سے محروم رہتا ہے۔ اسی لئے مصنف کا کہنا ہے کہ کسی دوست کی فیس بک پوسٹ پر کمنٹ کر کے، یا انسٹاگرام پر اس کی کوئی تصویر کو لائک کر کے آپ اس کا دل جیت نہیں سکتے ہیں جب تک کہ آپ حقیقی دنیا میں اس کے ساتھ وقت نہ گزاریں، اسی لئے لائک کرنے اور کمنٹ کرنے کی عادت سے پرہیز کریں، ممکن ہو تو دوستوں سے بالمشافہ گفتگو کریں یا فون پر بات کر یں۔
فرصت کے لمحات کو کارآمد بنائیے (Reclaim Leisure)
اگر آپ نے ٹیکنالوجی سے دوری اختیار کرنے کا عزم کر لیا ہے، اور اپنے موبائل فون سے آپ تمام طرح کے غیر ضروری اور اختیاری ایپس کو خارج کر چکے ہیں توفرصت کے ان ایام کو زیادہ سے زیادہ مفید اور کار آمد بنانے کی کوشش کریں۔اور ان ایام میں ان سرگرمیوں میں مشغول رہیں جس میںلوگوں سے زیادہ سے زیادہ ملنا جلنا ممکن ہو، اور اس دوران کچھ نئی چیز سیکھنے کی کوشش کریں۔
توجہ کھینچنے والے عوامل سے بہت دور رہئے(Join the Attention Resistance)
آج کے زمانے میں لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے بلین ڈالرس خرچ کئے جاتے ہیں ، اور اس کے لئے چیزوں کو حد سے زیادہ جاذب نظر بنا کر پیش کیا جاتا ہے، سوشل میڈیا پر آپ کی توجہ کی بنیاد پر بڑے بڑے بزنس کئے جاتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لئے نیو پورٹ نے چند طریقوں کی نشاندہی کی ہے جسے ہر ڈیجیٹل قناعت پسند شخص کو اپنانا چاہئے۔ مثلا اپنے موبائل سے سوشل میڈیا کے تمام ہی ایپس کو ڈیلیٹ کر دیجئے اورضرورت کے لئے کمپیوٹر کا استعمال کیجئے، نوٹیفیکیشن کی پریشانی سے بچنے کے لئے پہلے ان سائٹس کو بلاک کر دیجئے جو بار بار نوٹیفیکیشن بھیجتے ہیں اور کمپیوٹر سے کچھ وقت کے لئے انٹر نیٹ کا کنیشن ختم کر دیجئے تاکہ آپ آسانی سے اپنے مطلوبہ کام کر سکیں،سوشل میڈیا کو ایک پروفیشنل کی طرح استعمال کیجئے، سادہ موبائل کااستعمال کیجئے، یا پھر اپنے اسمارٹ فون کوکچھ وقت کے لئے اپنے سے دوررکھنے کی عادت ڈالئے۔
خلاصہ: آج کے زمانے میں ٹیکنالوجی کی غیر معمولی اہمیت ہے، ہماری روزانہ کی زندگی میں اس کا بہت بڑا کردار ہے،یہ ہماری زندگی میں جزء لاینفک کی حیثیت اختیار کر چکی ہے ہم چاہ کر بھی اس سے بچ نہیں سکتے۔لیکن کیا اس کے استعمال کے کچھ اصول و ضوابط ہم نے اپنے لئے بنائے ہیں یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ٹیکنالوجی کی عادت نے ہم سے ہماری خود اختیاری کی صلاحیت چھین لی ہے، اور ہمیں اپنا غلام بنا لیا ہے؟ ٹیکنالوجی کے غلام بننے کے بجائے ہم کس طرح اسے اپنے اختیار میں رکھیں تاکہ ہم اسے استعمال کریں، نہ کی یہ ہمیں؟ ہم کیوں محض تفریح طبع کی خاطر اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کر رہے ہیں؟ کیا حقیقی دنیا میں لوگوں سے میل جول میں، ان کی خوشی اور غم کے موقع پر ان کے ساتھ وقت گزارنے میں ہمیں وہ مسرت حاصل نہیں ہوتی جو ہمیں سوشل میڈیا کے استعمال سے ہوتی ہے؟ہماری زندگی میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رول کو جس کی وجہ سے ہمارے کردار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس سے بچ نکلنے کی کوئی سبیل ہے یا نہیں؟ ٹیکنالوجی کا کتنا استعمال ہمارے لئے کافی ہے؟ اور ٹیکنالوجی بالخصوص سوشل میڈیا کی لت سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے؟ یہ وہ سوالات ہیں جس کی مصنف کال نیو پورٹ نے اپنی کتا ب Digital Minimalism میں تفصیل سے وضاحت کی ہے، اور ان مسائل سے نجات پانے کے لئے قابل عمل طریقہ کار کی وضاحت کی ہے۔ راقم الحروف نے اسی کتا ب کے حوالے سے اس بات پر زور دینے کی کوشش کی ہے کہ انسان مصنوعی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں آئے، اور آپس میں ایک دوسرے سے میل جول کے ذریعہ سیکھنے اور سکھانے کے عمل پر توجہ دے۔ انسان اپنی ذات کے لئے کچھ مخصوص اوقات کو فارغ رکھے جن میں وہ موبائل فون اور دیگر ٹیکنالوجیز سے دور تنہائی میں بیٹھے اور آفاق و انفس اور انسانوں کے مسائل پر غور و فکر کرے۔ اس عمل سے اس کی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوگی، اور اس کی زندگی ایک خوشحال زندگی ہوگی۔
(مضمون نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں فیکلٹی ہیں )