ڈیجیٹل آلات کی یلغار، انسانی صحت وتعلقات

ایڈمن

شہمینہ سبحاندور حاضر کی یہ دنیا جدید آلات و افکار کی دنیا ہے ۔ایک ماڈرن دنیا، جہاں ڈیجیٹل آلات کا ایک طوفان ہے بلکہ ایک طوفان بدتمیزی بھی کہا جائے تو نامناسب نہ ہوگا ۔اسمارٹ فونس، لیپ ٹاپس، کمپیوٹرس، آئی…


شہمینہ سبحان


دور حاضر کی یہ دنیا جدید آلات و افکار کی دنیا ہے ۔ایک ماڈرن دنیا، جہاں ڈیجیٹل آلات کا ایک طوفان ہے بلکہ ایک طوفان بدتمیزی بھی کہا جائے تو نامناسب نہ ہوگا ۔اسمارٹ فونس، لیپ ٹاپس، کمپیوٹرس، آئی پوڈ، دیگر الیکٹرانک ڈیوائسیس،یہ سب ہی انسان کی ضرورت بن چکے ہیں۔ ان کے بغیر اٹھنا بیٹھنا بلکہ جینا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے ۔ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ ان آلات نے علم کے نئے ذرائع کھولے ہیں اس ذریعے سے نت نئے علوم سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور صلاحیتوں کا فروغ بھی ہوتا ہے لیکن جہاںاس سے انسان کی کئی ضرورتیں پوری ہوجاتی ہیں ۔ضرورتیں اگر’’ضرورت‘‘ہی کے دائرے میں محدود رہیں تو پھر یہ اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اگر وہ دائرے سے باہر نکل جائیں تو پھر سرکشیاں جنم لینے لگتی ہیں اور سرکشیاں کوئی اچھے انجام سے دوچار نہیں کرتی ہیں۔
بالفرض اگر کسی انسان کے پاس پیسہ ہے اور وہ اس کی ضرورتیں پوری ہونے کے بعد بھی رہ جاتا ہے تو پھر اس سے وہ سہل پسندیاں، عیش کوشیاں اور آرام خریدنے لگتا ہے اور اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ یہ بظاہر نظر آنے والا آرام اس کو کچھ عرصے میں ہی بہت ’’بے آرام‘‘ کرجاتا ہے ۔ یہی معاملہ ڈیجیٹل آلات کا ہے ان آلات نے انسانی زندگی کے تمام ہی گوشوں کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ آغاز ٹی وی سے ہوا پھر انٹرنیٹ کی آمد ہوئی، ٹیلیفون جو گھر کے کسی حصے میں لگا ہوتا تھاچھوٹے سے چھوٹا ہوتے ہوئے اتنا چھوٹا ہوگیا کہ اب ایک مٹھی میں آسانی سے سماجاتاہے جس میں ایک پوری دنیا ہے جو ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
اب انسانوں کے ساتھ ساتھ آلات کی ایک دنیا بھی اس ’’دنیا‘‘میں بستی ہے۔ ٹیلی ویژن کے آنے کے بعد مختلف دیگر آلات کی ایجادنے آج کے انسان کو اتنا مصروف کردیا ہے کہ وہ اپنے اطراف بسنے والے،اپنے اردگرد رہنے والوں سے مکمل بے خبر رہتا ہے ان آلات نے انسانوں کے درمیان رشتوں کی اہمیت باقی نہ رکھی۔ گھر کے بالکل ساتھ رہنے والے پڑوسی سے لاتعلق کردیا، زندگی و موت بیماری سارے ہی معاملات سے بے گانہ، اپنے موبائل میں لگے ہوئے شخص کو اس بات کی فکر ہی نہیں کہ اس کے اطراف کی دنیا کس راہ پر جارہی ہے اور وہ خود کدھر جارہاہے ۔ بھرے مجمع میں خاموش دبی مسکراہٹ، آنکھیں اسکرین پر جمی ہوئیں، بے نیاز اور لاپرواہ سا یہ شخص ایک مہذب دنیا کا باشندہ تو نہیں کہلایا جاسکتا۔ پھر ان آلات کی اسیری نے انسانی نسل کے سب سے اہم جز’’بچوں‘‘ پر جو اثر ڈالا ہے وہ ایک الگ داستاں ہے ۔
دورجدید کے یہ بچے رم جھم سی بارش میںکاغذ ی کشتیوں کو پانی میں بہانے، کھلونوں سے دِل بہلانے، تتلیوں کے پیچھے دوڑنے یامٹی کے گھروندے بنانے والے یا شام کے اوقات میں گھر کے قریبی میدانوں میں جاکر کے کھیلنے والے نہیں ہیں اور نہ انہیں جنوں، پریوں سے متعلق گھڑی گئی داستانوں کے سننے میں کوئی دلچسپی ہے۔ یہ شاید انسانی تاریخ کے ذہین ترین بچّے ہیں۔ یہ حقیقی دُنیا میں اتنا وقت نہیں گزارتے، جتنا ڈیجیٹل آلات کے ساتھ اپنے دن و رات کا بیشتر حصہ گزارتے ہیں۔ ان کی کائنات اسمارٹ فون، ٹیبلٹ اور کمپیوٹر جیسے ڈیوائسیس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ویڈیو گیمز، کارٹونز اور دوسرے آن لائن مواد کی دنیا میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں ۔اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر اپنے والدین سے زیادہ دسترس رکھتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق، آج ترقی یافتہ ممالک میں ہر تین میں سے ایک بچہ بات چیت کے قابل ہونے سے قبل ہی اسمارٹ فون کے استعمال سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے ۔بچوں کی یہ عادت ان کے رویوں، رشتوں، سماجی و ثقافتی تعلقات اور تعلیم پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس صورت حال میں بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کو بھی یہ سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے کہ ڈیجیٹل دنیا کے علاوہ بھی ایک دنیا ہے۔ انسانی احساسات و جذبات کی دنیا۔ انسانوں سے روابط بے جان آلات میں مگن رہنے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں ڈیجیٹل ڈیوائسیس کے استعمال کی عادت وبا کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ اس کے منفی نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں،جن میں بچوں کی تعمیری و تخلیقی صلاحیتوں کی تباہی و پامالی قابل ذکر ہے۔ اس تشویش ناک صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے بعض ممالک نے بچوں کے اسکرین ٹائم کو محدود کرنے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں، لیکن عدم آگہی یا غفلت کی وجہ سے ہمارے ملک میں اس رحجان کو کم کرنے کے لیے کوئی قابل قدر کام نہیں ہورہا ہے۔
ہمارے لیے سب سے پہلے تو یہ ماننا ضروری ہوگیا ہے کہ نئی نسل کا دماغ گزشتہ نسلوں سے قطعاً مختلف ہے۔ ٹی وی دیکھنے والی نسل صرف دیکھنے اورسننے کی عادی تھی، جب کہ آج بچے ایک ہی وقت میں اپنے حواس خمسہ کو یکسوئی سے استعمال کرتے ہیں۔ یہ گزشتہ دور کے بچوں کی نسبت اپنی تعلیمی سرگرمیوں پر کم توجہ دے پا رہے ہیں۔ یہ اسکول سے آتے ہی اسمارٹ فونز میں محو ہو جاتے ہیں۔ کبھی ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں، کبھی کارٹونز دیکھتے ہیں اور ان سے دل اکتا جائے، تو موسیقی سنتے ہیں اور دوستوں سے گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے والدین اور بہن بھائیوں سے لا تعلق، انہیں کھانے پینے کی نہ کوئی فکر ہوتی ہے، نہ پڑھائی کی اور جب جب گھر سے باہر نکلیں، تو بھی ارد گرد کے مناظر کو اشتیاق سے دیکھنے کے بجائے اسکرین ہی پر نظریں جمائے رکھتے ہیں۔
ڈیجیٹل دنیامیں فحش پر مبنی مواد بھی پایاجاتا ہے۔ جس کو دیکھنا عام بات ہوچکی ہے ۔بچے، بڑے سب اس میں شامل ہیں۔ اخلاقی نشوونما اورانسانی صحت کی بہتری کے لیے ان سے بچے رہنا اور ایسی سرگرمیوں میں مشغول ہونے سے بچائے رکھنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے بلکہ یہ ایک معاشرتی ذمہ داری ہے۔ گھر کے ذمہ دارافراد کے لیے بالخصوص بچوں کی خبر گیری کرنا لازم ہے۔رپورٹس کے مطابق برطانیہ میں 57 فیصد بچے فحش مواد دیکھتے ہیں۔ یونیسف کی ایک سالانہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں انٹرنیٹ کا ہر تیسرا صارف بچہ ہے اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے ان کو محفوظ آن لائن مواد فراہم کرنا اداروں کی ذمہ داری ہے ،حکومتی سطح پہ اس کے اقدامات کیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ نیند اور بینائی کم ہونے کا خدشہ بھی اس ڈیجیٹل دنیااور ان آلات کے استعمال کرنے کا ایک منفی اثر ہے۔ اسکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنی سے نیند کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے ، دماغ میلاٹونین نامی وہ ہارمون بنانا ترک کر دیتا ہے، جو نیند کا سبب بنتا ہے۔ نیز، میلا ٹونین کی مقدار متاثر ہونے سے ڈیپریشن یا پژمردگی اور موٹاپے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ نیند کی کمی سے مثانے کے کینسر کے خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یادداشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اسکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنی پردئہ چشم کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے بینائی کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔
یوکرین میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ،وائرلیس آلات سے خارج ہونے والی تاب کار شعائیں کینسر سے لے کر الزائمر اور رعشہ جیسے امراض تک کا سبب بنتی ہیں۔ موبائل فون کا استعمال سب سے پہلے ناروے اور سوئیڈن میں شروع ہوا تھا۔ ان ممالک میں ہونے والی ایک ریسرچ بتاتی ہے کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی شعائوں کا انسانی صحت سے گہرا ربط ہے۔ سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے کانوں کے آس پاس کینسر کے پھوڑے بننے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، جب کہ اسرائیلی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موبائل فونز سے خارج ہونے والی برقی مقناطیسی لہریں مردوں کی قوت باہ کو متاثر کر سکتی ہیں۔
ماہرین کے خیال میں موبائل فون کا ضرورت سے زیادہ استعمال آنکھوں، گردن، پٹھوں اور جوڑوں کے درد سمیت دماغی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔ ہانگ کانگ کی ایک یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق موبائل فون یا ٹیبلٹ کا مسلسل استعمال ہاتھوں، کلائیوں اور انگلیوں میں درد کا باعث بنتا ہے، جب کہ ایک ہاتھ سے موبائل فون استعمال کرنے والوں میں یہ شکایت عام ہے۔ نیز، گردن اور ریڑھ کی ہڈی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ 2002ء سے 2014ء تک 42ممالک کے 2لاکھ بچوں پر کیے گئے عالمی ادارے کے سروے میں کہا گیا ہے کہ اوسطاً بچے دوگھنٹے سے زائد وقت ان ڈیوائسیس کے ساتھ گزارتے ہیں۔جب کہ کمپیوٹر استعمال کرنے والے بچوں کی تعداد کے اعتبار سے اسکاٹ لینڈ سرفہرست ہے۔ دنیا بَھر کی طرح ایشیا میں بھی اسمارٹ فون کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو ا ہے، جس کی وجہ سے شہری موبائل فون تک عدم رسائی کی صورت میں ہونے والی شدید پریشانی، ’’نوموفوبیا‘‘ کا شکار ہو رہے ہیں۔ سیلفی اِسٹک اور انواع و اقسام کی ایموجیز کی ایجاد سے ایشیائی ممالک میں اسمارٹ فون کی لت تیزی پھیل چکی ہے اور اس میں زیادہ تر نوجوان مبتلا ہیں۔
ایک برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق، جو بچے موبائل فون کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں یا اسکرین کو اپنی آنکھوں کے بہت قریب رکھتے ہیں، ان میں بھینگے پن کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کیے گئے ایک تجربے میں ماہرین نے چند بچوں کو روزانہ 4سے 8گھنٹے تک اسمارٹ فون استعمال کرنے اور اسکرین کو اپنی آنکھوں سے 8سے 12انچ دُور رکھنے کی ہدایت کی،تو دو ماہ بعد ان میں سے اکثر بچوں میں بھینگے پن کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں۔ بعدازاں، جب ان بچوں کی موبائل فون استعمال کرنے کی عادت ختم کروا دی گئی، تو بھینگے پن کی علامات بھی ختم ہو گئیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ صارفین کو 30منٹ سے زیادہ دیر تک موبائل فون کی اسکرین کو مسلسل نہیں دیکھنا چاہیے۔
سائنسی جریدے’’انٹرنیشنل کارڈیالوجی‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 02سے10برس کی عمر کے وہ بچے، جو دن میں دو گھنٹے سے زائدوقت اسکرین کے سامنے یعنی ٹی وی، اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں، ان کے خون کے دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ان میں ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشارِ خون کا خطرہ دیگر بچوں کے مقابلے میں30فی صد زیادہ ہوتا ہے، جب کہ دو گھنٹے سے زائد اسکرین ٹائم کے ساتھ غیر متحرک طرزِ زندگی رکھنے والے بچوں میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ 50فی صد زیادہ ہوتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق، غیر متحرک طرزِ زندگی یا بیٹھے بٹھائے انجام دی جانے والی سرگرمیوں نے، جن میں ٹی وی دیکھنا، کمپیوٹر استعمال کرنا اور ویڈیو گیمز کھیلنا شامل ہیں، کئی افراد کو مختلف قسم کی جسمانی و نفسیاتی مسائل کا شکار کر دیا ہے۔
ڈیجیٹل آلات کے متعلق سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ اس کے استعمال کرنے کے وقت کا ایک تعین کریں ۔اپنے روزمرہ کے کاموں میں خلل نہ پیدا ہو ا۔انسان کی ذاتی زندگی متاثر نہ ہوتی ہو۔استعمال جب بھی کیا جائے تو کچھ تعمیری اور تخلیقی مقاصد کے تحت کیا جائے۔ لغواور لایعنی چیزوں سے اجتناب کیا جائے اور جب کوئی گفتگو ہورہی ہوتو لوگوں کے درمیان ہوں اور اگر کوئی ضروری بات پیغام کے ذریعہ سے بتانی بھی ہو تو اجازت لے کر دوسری طرف ہوجائیں۔یہ ہدایات گھر کے بڑے لوگوں کے لیے ہیں ۔جب گھر کے بڑے افراد ان ہدایات پر عملاً عمل پیرا ہو کر دکھا ئیں گے تب ہی بچوں پر بھی بات اثر انداز ہوسکتی ہے ۔
18 ماہ سے کم عمر کے بچوں کو آلات کی اسکرین سے دور رکھیں، دو سے پانچ سال کے بچوں کا اسکرین ٹائم والدین کی موجودگی میں ایک دن میں ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا نے نفسیات پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال کے باعث 27فی صد کم عمر بچے ڈپریشن کا شکار ہیں اور الیکٹرانک ڈیوائسیس پر زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے ان میں خود کُشی کا خطرہ 35فی صد زیادہ پایا جاتا ہے،جب کہ دن میں 3گھنٹے اسمارٹ فون استعمال کرنے والے بچوں میں خود کُشی کا رجحان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ سرچ انجنز پر انحصار صارفین کے حافظے کی کمزوری کا باعث بھی بنتا ہے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، اسپین، بیلجیم، نیدرلینڈز اور لکسمبرگ سے تعلق رکھنے والے افراد پر کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے ایک تہائی افراد کو معلومات حاصل کرنے کے لیے کمپیوٹر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مذکورہ ریسرچ میں برطانیہ میں ایسے افراد کی سب سے زیادہ تعداد سامنے آئی اور تقریباً نصف سے زائد افراد کا معلومات تک رسائی کے لیے پہلا انتخاب انٹرنیٹ تھا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی پر انحصار طویل المدتی حافظے کی نشوونما میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ ’’ڈیجیٹل ایمنیسیا‘‘ (بھولنے کی بیماری) کے شکار افراد اہم ترین معلومات بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بہ وقت ضرورت یہ ڈیجیٹل آلات کے ذریعے فوراً حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اہم ترین معلومات کے علاوہ یادگار لمحات کی اہم تصاویر وغیرہ بھی ڈیجیٹل ڈیوائسیس میں محفوظ رکھنے کا رجحان پایا جاتا ہے ۔
مغربی ممالک کے متعدد تعلیمی اداروں کا ماننا ہے کہ دور حاضر کے بچوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ کس کی بات توجہ سے کیسے سنی جاتی ہے اور دوسرے بچوں کے ساتھ کیسے کھیلا جاتا ہے، کیوں کہ یہ بچے اپنا زیادہ تر وقت حقیقی دنیا سے دور ڈیجیٹل دنیا میں گزارتے ہیں۔ حقیقی دنیا سے دور رہنے کی وجہ سے کئی طلبہ تعلیم میں بالکل دلچسپی نہیں لیتے اور یہ آلات ان کے سمجھنے کی صلاحیت کو بری طرح تباہ کر رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق، آئی پیڈ جیسے آلات کتاب کا نعم البدل نہیں ہو سکتے ۔تاہم، ڈیجیٹل ڈیوائسیس سماجی مہارتوں جیسا کہ دوست بنانے، کسی کام کی ذمہ داری لینے، سلیقہ مند بننے، شائستہ گفتگو کرنے اور جذبات اور غصے پر قابو پانے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور ایسے طلبہ تنہائی کا شکار رہتے ہیں۔ نیز، ان کی قوت گویائی اور سماعت دونوں نارمل نہیں رہتیں۔ سماجی اونچ نیچ کو نہیں سمجھ پاتے اور ان کی دماغی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ فیس بُک کا مسلسل استعمال کرنے والے خوشی و غم کے احساس سے عاری ہو کر حسد اور رشک جیسے جذبات کا شکار ہو جاتے ہیں اور پُرتشدد اور غیر سماجی رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح ویڈیو گیمز کھیلنے والوں میں اکثر مایوسی اور ڈپریشن کی شکایات عام ہیں۔
ڈیجیٹل ورلڈ کے موجدین، امیر ترین افراد، ہائی ٹیک اداروں کے سربراہان اور دنیا کی دیگر اہم ترین شخصیات اپنے بچوں کو ٹیکنیکل یا اسکرین ڈیوائسیس سے پاک ماحول فراہم کرتی ہیں یا ان کے محدود استعمال کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر ہم ڈیجیٹل ورلڈ کے مرکز، سِلی کان ویلی (Silicon Valley)سے وابستہ دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے والی قد آور شخصیات اور دنیا کے اہم افراد کی ذاتی زندگی اور ان کے بچوں کے معمولات پر نظر ڈالیں، تو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ انہوں نے کس طرح اپنے بچوں کو ڈیجیٹل ڈیوائسیس سے دور رکھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان مصنوعات کے تخلیق کار ان کے نقصانات کوصارفین سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں جانتے ہیں۔ سابق امریکی صدر، باراک اوباما کہتے ہیں کہ جب تک ان کی بیٹیاںاسکول میں زیر تعلیم تھیں، تب تک انہیں ٹی وی دیکھنے تک کی اجازت نہیں تھی اور نہ انہوں نے اپنی صاحب زادیوں کو تفریح کی خاطر کمپیوٹرہی استعمال کرنے کی اجازت دی۔مائیکرو سافٹ کے بانی اور طویل عرصے تک دنیا کے امیر ترین فرد کا اعزاز رکھنے والے بِل گیٹس بھی ٹیکنالوجی کے استعمال کے معاملے میں اپنے بچوں پر سختی کرتے ہیںاور ان پر 14سال کی عمر تک موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد رہی، وہ آج بھی کھانے کی میز پر موبائل فون نہیں لا سکتے اور سونے سے قبل ایک متعین وقت تک اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ بِل گیٹس کا کہنا ہے کہ آپ کو ہمیشہ یہ بات مدِ نظر رکھنی پڑتی ہے کہ ٹیکنالوجی کو بہتر انداز میں کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں بچے اس کازائد یا غلط استعمال تو نہیں کر رہے ہیں۔
آج دنیا بھر کے ممالک ڈیجیٹل ڈیوائسیس سے لاحق خطرات بھانپ چکے ہیں اور اس رجحان پر قابو پانے کے لیے ضابطے، قوانین بھی وضع کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر تائیوان نے 2015ء میں دو سال کی عمر تک کے بچوں کے ڈیجیٹل ڈیوائسیس استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی اور 18برس سے کم عمر بچوں کو ان آلات کے بہ وقتِ ضرورت اور ایک مخصوص وقت میں استعمال کی اجازت دی گئی تھی۔ اس قانون پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں والدین پر دو ہزار ڈالرز سے زائد جرمانہ عاید کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ چین میں ڈیجیٹل آلات کے استعمال کو وبا ئی صورت اختیار کرتے دیکھ کر تائیوان نے بچوں کو اس لت سے بچانے کے لیے یہ قانون بنایا ہے۔ ہمیں اجتماعی سطح پر بھی قانون سازی کرناچاہیے لیکن انفرادی کوششیں بھی ضروری ہیں۔ڈیجیٹل ڈیوائسیس پر وقت گزارنے کے لئے اپنی زندگی کی ترجیحات کو متعین کریں اور بچوں پر بھی نظر رکھی جائے ۔ البتہ سختی نہ کی جائے ۔ان کی بہتر تربیت ہی انہیں اس ڈیجیٹل یلغار سے بچا سکتی ہے اور وہ اسمارٹ فون یا انٹرنیٹ کو بہتر طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔
بچوں کے حوالے سے یہ کہ والدین، بچوں کو اسمارٹ فون دینے سے قبل ان کے پختہ ذہن ہونے کا انتظار کریں، تاکہ وہ اسے ذمہ داری کے ساتھ استعمال کر سکیں۔ اپنے بچوں کو اسمارٹ فون دیتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی راز داری کی سیٹنگز سخت ہوں۔ بچوں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں۔ بچوں کی غیر موجودگی میں یا پھر ان کو اعتماد میں لے کر ان کے موبائل فونز یا کمپیوٹرز وغیرہ چیک کریں۔ بچوں کو قبل از وقت اور بِلا ضرورت ذاتی موبائل فونز یا کمپیوٹرز لے کر نہ دیں۔ ان کی انٹرنیٹ سرفنگ کا وقت مقرر کریں۔ بچوں کو زیادہ دیر تک موبائل فون نہ استعمال کرنے دیں اور رات کو فون بند کر دیں۔ بچوں کو انٹرنیٹ کے مختلف پہلوؤںسے متعلق تفصیل سے بتائیں۔ انہیں اس کے فوائد اور نقصانات دونوں سے آگاہ کریں۔ بچوں کو خود ڈیجیٹل ڈیوائسیس کا استعمال سکھائیں۔ ان آلات کے ذریعے اپنے تعلیمی مسائل حل کرنے اور معلومات حاصل کرنے کا طریقہ بتائیں۔ بچوں کو انٹرنیٹ پر منعقد ہونے والے تعلیمی مقابلوں میں شریک ہونے کی ترغیب دیں اور اس سلسلے میں ان کی مدد کریں۔ بچوں کو ڈیجیٹل ڈیوائسیس کے استعمال سے متعلق صاف صاف بتانا نہایت ضروری ہے اور اس سلسلے میں غیر ضروری شرم و حیا اور تکلف و آداب کو بالائے طاق رکھیں۔ بچوں کو ان آلات کے غلط استعمال اور برے اثرات سے آگاہ کریں۔ ان میں ڈیجیٹل ڈیوائسیس کے صحیح اور غلط استعمال کی تمیز پیدا کریں۔ جب بچے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہوںتو ان کے پاس موجود رہیں تاکہ ان کی بہتر انداز میں رہنمائی کر سکیں۔اسکرین صرف تفریح یا وقت گزاری کا سامان نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک انجانا خوف اور غیر مرئی طاقت بھی موجود ہے۔ ایک ذمہ دار شہری بننے اور بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آن لائن کے ساتھ ساتھ آف لائن سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لی جائے اپنی خود اعتمادی میں اضافہ کریں۔ نتائج سے زیادہ کاوش کی تعریف کرنے کا مزاج عام کیا جائے اور مثبت سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ سوشل میڈیا پر کی گئی تعریف و تحسین میں گم رہنے کی بجائے حقیقی احساسات کو اہمیت دیں۔ دیگر سرگرمیوں اور دلچسپی کے عوامل میں بھی ایک دوسرے کی معاونت کریںتاکہ مختلف قسم کی تعمیری سرگرمیوں سے مثبت تقویت حاصل ہو۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے ہم نے ہمیشہ غلط امیدیں وابستہ کیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ پوری دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں، جہاں اسکولوں میں انٹرنیٹ کا عمومی استعمال طلبہ کی تعلیمی استعدادمیں بہتری لانے کا سبب بنا ہو۔ جرمن ماہرین کا ماننا ہے کہ کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سمیت اس نوع کے دیگر اسکرین ڈیوائسیس کا استعمال پانچ مراحل سے گزرنے کے بعد نشہ بنتا ہے۔ پہلے مرحلے میں کوئی بچہ یا فرد صرف آزمائش کے لیے ان پر ویڈیو گیم کھیلتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اسے اس کھیل میں لطف آنے لگتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں گیم کھیلنا اس کی عادت بن جاتی ہے، جب کہ چوتھے اور پانچویں مرحلے میں یہ عادت خطرناک حدوں کو چھونے لگتی ہے اور تب اسے ’’لَت پڑنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، جب کوئی شے باقاعدہ نشہ بن جائے تو تب دماغ پر اس کے اثرات منشیات ہی کے مانند مرتب ہوتے ہیں اور انسان بے خودی کے عالم میں خود کو کسی اور ہی دنیا کا باسی محسوس کرتا ہے۔ یہ رجحان اس وقت زیادہ خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے کہ جب کوئی انٹرنیٹ صارف ہر چند لمحوں کے بعد فیس بُک پر اپنے دوستوں کی نئی پوسٹس اور اپنی پوسٹس کو ملنے والی پزیرائی کا جائزہ لینے لگے اور اپنی ہر سرگرمی، تصویرکی شکل میں فیس بُک پر شیئر کرنا ضروری سمجھے۔ منشیات کے عادی افراد کی طرح اسمارٹ فون کی لَت میں مبتلا صارفین میں بھی مندرجہ ذیل علامات پائی جاتی ہیں:
بِلاوجہ اسمارٹ فون کی اسکرین تکتے رہنا۔
ڈیوائس سے جُدائی کا سوچ کر ہی پریشانی، بے چینی محسوس کرنا۔
اسمارٹ فون پر وقت گزاری کو سماجی تعلقات پر فوقیت دینا۔
اسمارٹ فون چیک کرنے کے لیے بار بار جاگنا۔
تعلیم یا کام کی کارکردگی میں کمی آنا۔
نِت نئی ایپس سے متاثر ہو نا۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں